Monthly Archives: January 2010

ذمہ دار کون ؟ خاموشی کیوں ؟

اتوار 10 جنوری بعد دوپہر 3 بجے

کراچی میں آج فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مزید 6 افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد 24 گھنٹوں میں ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 13 ہو گئی ہے ۔ پولیس کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں چار روز کے دوران فائرنگ کے واقعات میں 41 افراد ہلاک ہوچکے ہیں

ہماری حیثیت

کل 9/11نے پہلے امریکہ کو ہلایا جس کے جواب میں امریکہ پوری دنیا کو ہلا رہا ہے خصوصاً مسلمان ممالک سے ۔ پہلے ویزوں پر بہت سخت قوانین لاگو کئے گئے ۔ امریکہ آنے والی تمام پروازوں کو خصوصی انتظام کے تحت امریکہ میں آنے کی اجازت دی گئی جس میں ہوائی جہازوں سے اسٹیل کے تمام چمچے کانٹے ہٹا دیئے گئے ان کی جگہ تمام سامان پلاسٹک کا کر دیا گیا ۔ امریکہ آنے والی تمام پروازوں کے مسافروں کا نام 48گھنٹے پیشتر فراہم کرنے کا پابندکردیا گیا
پھر افغانستان اور عراق جنگ کے بعد وہ اپنے شہریوں اور ملک کیلئے کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے اس نے طرح طرح کے حفاظتی اقدامات کئے
امریکہ میں پھر ڈیلاس ائیر پورٹ پر جہاز میں افریقہ سے تعلق رکھنے والے باشندے نے جہاز کو اُڑانے کی کوشش کی جو ناکام تھی پھر مسلمانوں کی شامت آ گئی
امریکہ نے پھر 13ممالک جس میں تمام مسلمان رہتے ہیں ان کیلئے جامہ تلاشی کرنے کا حکم نامہ صادر کر دیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے یہی نہیں پورے یورپ برطانیہ ،امریکہ میں ایک نئے الیکٹرانک نظام کو بھی متعارف کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس میں ہر مسافر جسمانی برہنہ نظر آئے گا اس میں خواتین بھی شامل ہیں
ایک طرف 9/11سے لے کر ہم آج تک امریکہ کی ہر اچھی اور بری پالیسیوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ 9/11میں ایک بھی پاکستانی کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا ۔اس موجودہ ڈیلاس حادثے میں بھی پاکستانی ملوث نہیں ہے پھر ہمارا نام اس میں کیوں شامل کیا گیا ؟
2009ء میں ڈرون حملوں سے شمالی علاقہ جات میں 600سے زائد بے گناہ مسلمان بچے ،عورتیں اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں
امریکہ ہمارا دوست ہے ۔ ہم امریکہ کے پورے حلیف ہیں مگر پاکستانیوں کیلئے قانونی گوشہ عافیت نہیں ہیں

یہ اقتباس ہے خلیل احمد نینی تال والا کی تحریر سے

کراچی تُجھے ڈھونڈوں کہاں

اے کراچی کہ کبھی تو سدا بہار تھا ۔ تیری بہاروں کو کس نے بھسم کیا ؟
تیری 24 گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے قائم رہنے والی رونقیں کہاں چلی گئیں ؟ تُجھے کس کی نظر کھا گئی یا دُشمن کو تیری رونقیں نہ بھائیں ؟
اے کراچی کہ جہاں ہر دم زندگی جوش مارتی تھی ۔ کون خونخوار ہے کہ تیری دھرتی پر ہر روز انسانی لاشے گرتے ہیں ؟
اے کراچی کہ جہاں ملک کے کونے کونے سے انسان آ کر روزگار پاتے تھے ۔ کِن ظالموں نے یہ حشر کیا کہ وہاں سے لوگ روز گار سمیٹنے کی سوچتے ہیں ؟
اے کراچی کہ میں جس کے ہر محلے میں اپنے گھر کی مانند گھومتا تھا ۔ تُجھے کیا ہوا کہ اب مجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں فلاں فلاں ں ں ں ں جگہ نہ جانا ۔ جان کا خطرہ ہے ؟
اے میرے پیارے کراچی ۔ یہ ظُلم کے بادل کب تیرا پیچھا چھوڑیں گے اور پھر تیری روشنیاں بحال ہوں گی اور بہاریں آئیں گی ؟ ؟ ؟
کب میں پھر چاندنی راتوں میں تیرے کلفٹن کے ساحل پر بے دھڑک چہل قدمی کروں گا ؟
کب کیماڑی سے منوڑا یا ہاکس بے یا سینڈز پِٹ بادبانی کشتی پر جاؤں گا ؟
کب ہاکس بے اور سینڈز پِٹ پر بے خطر پِکنِک مناؤں گا ؟

کراچی میں بسنے والے اور کراچی سے باہر رہنے والے میرے بھائیو بہنو اور دوستو ۔ آیئے مل کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور پھر مالکِ کائنات سے التجا کریں کہ ہم سب کو مل جُل کر ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ بانٹنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے اور ان شیطانی قوتوں کو جو کراچی کی رونقیں اُجاڑنے پر تُلی ہوئی ہیں اور جو باقی ملک میں عوام کے خلاف برسرِ پیکار ہیں انہیں فنا کر دے

امتحان ؟ ؟ ؟

” سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہ ہم سب کا امتحان ہے ”

یہ نچوڑ ہے ایک مضمون کا ۔ اسے پڑھیئے پھر اپنی ذاتی ۔ شہری اور صوبائی خود غرضیاں چھوڑ کر صرف اس مُلک کا سوچیئے جو رہے گا تو سب رہیں گے ورنہ کچھ بھی نہ ہو گا

آدھی صدی سے زائد عرصہ میں پہلی بار عدلیہ آزاد ہوئی ہے اسے تحفظ انہوں نے ہی دینا ہے جنہوں نے اسے آزاد کرانے میں قربانیاں دی ہیں ۔ شب مل کر حُب الوطنی اور انصاف کے بول بالا کیلئے جد و جہد کریں تو سُرخرُو ہوں گے ورنہ تاریخ میں خود غرض یا غدارانِ وطن کہلائیں گے

اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
پھر تجھے کیوں حیرانی ہے

پہلا ستون ۔ ایمان

یہ تحریر ” رُکن اور ستون ” کی دوسری قسط ہے
کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی ۔ کئی مضامین یاد کئے ۔ اَن گنت امتحان دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے اور دس سال کا عرصہ اس طرح گذارنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کی سند دی گئی ۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی خاطر خواہ ملازمت نہ مل سکتی تھی چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ محنت کرتے اور اللہ سے دعائیں کرتے رہے آخر بی ایس سی انجنئرنگ کی سند مل گئی ۔ نوکری کے لئے امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ

یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے پہننے اور پڑھائی کا خرچ والدین نے دیا ۔ ملازمت میں سارا سارا دن محنت کی پھر بھی باس [Boss] کم ہی خوش ہوۓ ۔ جو سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا ملازمت کے دوران محنت نہ کی وہ پیچھے رہتے گئے اور نالائق اور ناکام کہلائے

یہ سب کچھ جانتے ہوۓ نماز روزہ اور اللہ کے باقی احکام کی پابندی کئے بغیر صرف والدین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ۔ کیا یہ دانشمندی ہے ؟ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تب بنتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ایمان کے پانچ رُکن ہیں ۔ یہاں میں نماز ۔ روزہ ۔ زکٰوت اور حج کے حوالہ جات نہیں دے رہا کہ مسلمان جانتے ہی ہیں

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 135 تا 137 ۔ اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے ہوئے ہیں) جو ایک اللہ کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ (مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں ۔ تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 177 ۔ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰت دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیات 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 60 ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 23 ۔ اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 71 ۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰت دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں

سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 36 ۔ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا

سورت ۔ 63 ۔ المنافقون ۔ آیت 9 ۔ مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں

احمد بلال ناصر سے عبدالرحمٰن

میں نے پانچ چھ سال قبل سنا تھا کہ بلال ناصر اپنے لوگوں کو چھوڑ کر ہم لوگوں میں شامل ہو گیا ہے ۔ میں نے توجہ نہ دی کہ جب تک مستند بات نہ ہو خبریں افواہ ہوتی ہیں ۔ پھر پچھلے سال ایک ہفت روزہ اخبار میں یہی خبر پڑھی تو مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا کہ لوگ اس اخبار کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے ۔ آج دی نیوز میں پھر خبر پڑھی جو نیچے نقل کر رہا ہوں

یہ بات ہو رہی ہے احمد بلال [ولد ناصر ولد طاہر ولد بشیر الدین محمود ولد مرزا غلام احمد قادیانی] کی جو مرزا ناصر کا بڑا بیٹا ہے

Abdur Rahman, elder son of Mirza Nasir Ahmed, embraced Islam in the year 1999 after going through Allama Ihsan Elahi’s book “Qadiniat, Mirzayat and Islam.” He has command of seven languages and is working as a translator at Bhasha Dam. His Qadiani name was Mirza Ahmed Bilal.

He said that a fortnight back, a group of Qadianis abducted him and subjected him to severe torture at Aiwan-e-Mahmud near Sir Ganga Ram Hospital and his nose was fractured. He fell unconscious after which they abandoned him near Anarkali Bazaar. Allama Ibtisam Elahi provided him with protection and arranged his medical treatment.

He said that if the people in Rabwah were given basic human rights, their majority would revert to Islam. At present, he said, Rabwah people were under great pressure.

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ آدمی

پچھلے دنوں کراچی کے میئر مصطفٰے کمال صاحب نے لوگوں کو “اُلو کے پٹھے” کہا اور سیاسی جماعتوں کے سر براہوں پر لعنت بھیج دی ۔ ان کے مداحوں نے یہ جواز نکالا کہ جو آدمی اتنا زیادہ کام کرے اور جس کو اتنا تنگ کیا جائے وہ اور کیا کرے ۔ گویا تریاق دینے والا طبیب اگر کبھی زہر کھلا دے تو کوئی مضائقہ نہیں

يہی کچھ کم نہ تھا کہ 5 جنوری کو حقوقِ انسانی کی بلند پایہ علَم بردار عاصمہ جہانگیر نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے ارکان کو idiot اور “اُلو کے پٹھے” کہہ دیا گویا یہ گالیاں پوری قوم کو دیں جنہوں نے اُنہیں منتخب کيا

پرانی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب ملک کے سربراہ تھے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے بھارت کی اُس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو اس طرح مخاطب کیا ” وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [گندھی گالی] مائی ”
بعد میں کہہ دیا ” کاٹ دو کاٹ دو ۔ میں عوامی آدمی ہوں اسلئے منہ سے نکل گیا ”
گویا عوام کا کام گالیاں دینا ہوتا ہے

بہادر شاہ ظفر کا شعر ہم نے سکول کے زمانہ میں پڑھا تھا

ظفر آدمی اس کو نہ جانیئے گا ۔ ہو وہ کتنا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا