Yearly Archives: 2009

خود کُش حملہ میں ہلاک ہونے والی اسرائیلی لڑکی کی ماں کی پُکار

یوروپین پارلیمنٹ نے 8 مارچ 2005ء کو سٹراس بورگ [Strasbourg] میں ہونے والے اپنے اجلاس میں ایک خودکُش حملہ میں ہلاک ہونے والی 13 سالہ اسرائیلی لڑکی کی ماں کو تقریر کرنے کی دعوت دی ۔ اس ہلاک ہونے والی اسرائیلی لڑکی کی ماں ڈاکٹر نُورِٹ پَیلڈ الحنّان [Dr. Nurit Peled-Elhanan] ہے جو معروف امن پرچارک [peace activist] ہے اور یورپین پارلیمنٹ سے امن کا انعام حاصل کر چکی تھی

فلسطینیوں کے خود کُش حملہ میں ہلاک ہونے والی 13 سالہ لڑکی کی ماں نے کیا کہا یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

سچائی ۔ تلخ ہوتی ہے اور خوفناک بھی

پرویز مشرف دور میں پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے انکشاف کیا ہے کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد کئی اہم فیصلے کورکمانڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے۔ پرویز مشرف نے پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کو دینے اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی خود ہی کرلیا تھا ۔ شاہد عزیز کہتے ہیں کہ بطور چیف آف اسٹاف جیکب آباد اور پسنی ایئر بیس امریکیوں کے حوالے کرنے کے بارے میں وہ بالکل بے خبر تھے

یہ دونوں اڈے بدستور امریکہ کے پاس ہیں

ذرا سوچئے کہ ان دونوں اڈوں پر اترنے والے ہوائی جہازوں کے مسافروں کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں
وہ ایئرپورٹ سے کالے شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھ کر کہیں بھی جاسکتے ہیں اور ہماری فوج یا پولیس ان کی کسی گاڑی کو روک کر ان سے ویزا طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی
پرویز مشرف دور کے یہی وہ فیصلے ہیں جن کے باعث آج پاکستان دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے

تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

خبر ہو یا افواہ ؟

آجکل ذرائع ابلاغ کی چاندی ہے ۔ ایک خبر اِدھر سے اُٹھائی دو افواہیں اُدھر سے مل گئیں اور چھاپ دیا مضمون ۔ عوام تو سنسنی خیز خبروں کے شوقین بن ہی چکے ہیں ۔ دھڑا دھڑ کمائی ہو رہی ہے ۔ قوم و ملک تباہ ہوتے ہیں اس کا کسی کو ہوش نہیں ۔ خبر ہو یا افواہ پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہو گا ؟ اگر فائدہ نہیں ہو گا تو پھر آگے پہنچانے میں نقصان کا خدشہ بہرحال ہوتا ہی ہے

دُشمن کی مربوط سازشوں کی وجہ سے اس وقت ہمارا ملک ایک بھیانک دور سے گذر رہا ہے ۔ نہ صرف ہمارے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں بلکہ ہم من حیث القوم بھی ذمہ دار ہیں ۔ ہماری قوم کی اکثریت جلد سے جلد مالدار بننے کی لالچ میں آ کر باہمی اخوت کھو بیٹھی اور بالآخر بالواسطہ یا بلاواسطہ دُشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ۔ سچ کو جھوٹ سے ملا کر ہم اپنی قوم یا ملک کی کوئی خدمت نہيں کرتے بلکہ جان بوجھ کر نہیں تو انجانے میں دُشمن کا کام آسان اور ملکی اداروں کا کام مشکل بناتے ہیں اور عوام جو دہشتگردی کا پہلے ہی سے شکار ہیں اُن کی بے کلی میں اضافہ کرتے ہیں

یہ افواہیں پھیلا کر دشمن کا کام آسان کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ محنت اور جانفشانی سے حقائق کی تلاش کرنا ہر محبِ وطن پاکستانی پر فرض ہے ۔ بالخصوص ذرائع ابلاغ کا یہ فرض ہے کہ کوئی خبر اچھی طرح چھان بین کئے بغیر نہ چھاپیں اور غلط اطلاعات لانے والے نامہ نگاروں کا محاسبہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہر محبِ وطن اپنے کردار کا محاسبہ کرے اور کوئی خبر [افواہ] سن کر آگے نہ بڑھائے جب تک اُسے سو فیصد یقین نہ ہو جائے کہ یہ حقیقت ہے اور اسے دوسرے تک نہ پہنچانے سے اجتماعی نقصان کا خدشہ ہے

میری تمام خواتین اور حضرات سے گذراش ہے کہ میرے لئے نہیں ۔ قوم کیلئے نہیں ۔ دین کیلئے بھی نہیں ۔ صرف اور صرف اپنے اور اپنے بچوں کی خاطر ذاتیات ۔ جعلی دل لگیاں اور احساسِ برتری کی کوششیں چھوڑ کر خِرد کو کام میں لائیں اور بغیر سو فیصد ثبوت کے کوئی بات سُن کر آگے نہ بڑھائیں بلکہ بات سچی بھی ہو تو پہلے سوچیں کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو فقط یہ جتانے کی خاطر کہ میں یہ جانتا یا جانتی ہوں بات آگے نہ بڑھائیں ۔ اپنے لکھنے کا شوق تاریخ بیان کر کے یا کسی اور علم کی افزائش سے پورا کریں یا پھر صاف نظر آنے والے سچے واقعات رقم کریں

ایک اور عادت جو عام ہو چکی ہے کہ جب تک اپنے آپ پر نہ بن جائے ہر بات سے لاپرواہی برتی جاتی ہے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے بغیر گرد و پیش پر نظر رکھیں اور اگر کوئی چیز غیر معمولی نظر آئے تو فوری طور پر اپنے شہر کے ریسکیو 15 یا 115 یا جو بھی متعلقہ ادارہ ہو اُسے تحمل کے ساتھ مطلع کر دیں

وما علینا الالبلاغ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کڑوی کسَیلی

سُنا ہے کہ صدر کا لباس پاکستان کے خزانے سے خریدا جاتا ہے
سُنا ہے کہ اسی لئے صدر نے 106 سوٹ اپنے لئے غیرممالک سے درآمد کئے ہیں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ خزانے میں دولت پاکستان کے عوام سے ٹیکس وصول کر کے جمع کی جاتی ہے
سُنا ہے کہ صدر کے غیرملکی حسابات میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ دولت ہے اور غیرمنقولہ جائیداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے
مگر پھر بھی قوم کا ہمدرد صدر ایک سال میں 106 سوٹ درآمد کرتا ہے جبکہ آدھی قوم کو سال میں ایک نیا مقامی سوٹ بھی میسّر نہیں

سُنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے کئی اڈے ہیں جن میں سے دو ہوائی اڈے جیکب آباد اور پسنی میں ہیں
سُنا ہے کہ ان اڈوں میں کوئی پاکستانی داخل نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنے ہی اعلٰی عہدے پر فائز ہو
وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ امریکا کا اس سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور یہ اڈے پچھلی حکومت نے دیئے تھے
یہ حقیقت تو منظرِ عام پر آ ہی چکی ہے کہ امریکیوں کی گاڑیوں کے پاکستان کے قانون کے خلاف شیشے کالے ہوتے ہیں اور ان کی چیکنگ کی کسی کو اجازت نہیں
یہ بھی اطلاعِ عام ہے کہ امريکی سفارتخانہ کی مقرر کردہ ایک سکیورٹی کمپنی کے قبضہ سے چوکھا ناجائز اسلحہ بھی براآمد ہوا

سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت یہ اڈے ختم کیوں نہیں کرتی ؟
اور بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کیا حکومتِ پاکستان کی دسترس سے باہر انہی خُفیہ اڈوں میں ہو رہی ہے ؟

مسیحا کے بھیس میں شقی القلب سوداگر

Imanae
لاہور کے ایک بڑے نام والے ہسپتال [Doctor’s Hospital] میں ایک ننھے فرشتے 3 سالہ بچی کو جسے ہاتھ پر گرم پانی پڑ جانے کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تھا کس طرح ڈاکٹروں نے موت کی نیند سُلا دیا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے پورا واقعہ ۔ پنجاب حکومت اخبار میں خبر پڑھنے کے بعد قانونی کاروائی شروع کر چکی ہے ۔ ہسپتال کے ذمہ دار ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور انہیں گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں

اگر کاریں کمپیوٹر ہوتیں ۔ ۔ ۔

چند سال قبل ایک کمپیوٹر ایکسپو “کامڈیکس” میں بِل گیٹس نے کمپیوٹر کی صنعت کا کاروں کی صنعت سے مقابلہ کرتے ہوئے کہا “اگر جی ایم موٹرز ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کی صنعت کی طرح آگے بڑھتی رہتی تو آج ہم 25 ڈالر کی کار چلا رہے ہوتے جو 1000 میل فی گیلن چلتی”

بِل گیٹس کے اس جملے کا جی ایم موٹرز نے کیا جواب دیا یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

حقوقِ نسواں کے عَلَمبردار

آج جو مُلک ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتا ہے اور غاصب قرار دیتا ہے یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری قوم کو کتابیں پڑھنے کا شوق و ذوق نہیں ہے کُجا کہ تاریخ کی کُتب پڑھیں ۔ اگر پڑھتے ہیں تو افسانے اور دوسری من گھڑت کہانیاں ۔ بایں ہمہ اکثر کا حافظہ بھی اتنا کمزور ہے کہ کل کی بات بھول جاتے ہیں تجربہ کے بعد معطون کئے شخص کو ہی دوبارہ منتخب کر کے پھر سے ظُلم کی گردان کرنا شیوا بن چکا ہے

آج سے صرف 9 دہائیاں قبل امریکا میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا ۔ عورتوں کو مقامی کونسل میں ووٹ ڈالنے کا حق 26 اگست 1920ء کو دیا گیا ۔ اس سے قبل عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور احتجاج کی صورت میں اُنہیں قید و بند اور تشدد برداشت کرنا پڑتا تھا ۔ پلے کارڈ اُٹھا کر خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو بھی گرفتار کر کے اُن پر تشدد کیا جاتا تھا اور رات گذرنے کے بعد وہ برائے نام ہی زندہ ہوتی تھیں
ایک بار عورتوں نے سڑک کے کنارے پیدل چلنے والے راستہ پر کھڑے ہو کر خاموش احتجاج کیا 33 عورتوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پيدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔ پھر جیل کے سربراہ کی اشیرباد سے 40 گارڈز آہنی مُکوں کے ساتھ ان معصوم عورتوں پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں ادھ مُوا کر دیا
لُوسی برنز نامی ایک عورت کی پٹائی کے بعد لہو لہان لُوسی برنز کے ہاتھوں کو زنجیر سے باندھ کر اُسے قیدخانے کی سلاخوں کے ساتھ لٹکا دیا گیا جہاں وہ ساری رات لٹکی مُشکل سے سانس لیتی رہی
ڈورا لِیوس نامی عورت کو اندھیری کوٹھری میں لیجا کر اس طرح پھینکا گیا کہ اسکا سر لوہے کی چارپائی سے زور سے ٹکرایا اور وہ بے سُدھ ہو کر گِر پڑی ۔ اسی کال کوٹھری میں موجود ایلائس کوسو سمجھی کہ ڈورا لِیوس مر گئی ہے اور اُسے دل کا دورہ پڑ گیا
اپنے جائز حقوق کیلئے خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو گرفتار کر کے جو کچھ حوالات میں اُن سے کیا جاتا تھا اُس میں کھینچنا ۔ گھسیٹنا ۔ پِیٹنا ۔ گلا دبانا ۔ بھِینچنا ۔ چُٹکیاں لینا ۔ مروڑنا اور ٹھُڈے مارنا شامل ہے
ایک گھناؤنا واقعہ 15 نومبر 1917ء کو وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے کے نتیجہ میں ہوا تھا جس میں احتجاج کرنے والی عورتوں کو قید کے دوران کئی ہفتے پینے کو گندھا پانی اور کیڑے پڑا ہوا کھانا دیا جاتا رہا ۔ اور جب ان میں سے ایک ایلائس پال نے ایسا کھانے پینے سے انکار کر دیا تو اُسے کرسی کے ساتھ باندھ کر ایک نالی اس کے حلق سے نیچے اُتاری گئی اور اس میں مائع خوراک ڈالی جاتی حتٰی کہ وہ قے کر دیتی ۔ ایسا اس کے ساتھ ہفتوں کیا جاتا رہا

جائیداد کے معاملہ میں اب تک زیادہ تر فرنگی ممالک میں رائج ہے کہ اگر والدین بغیر اولاد کے حق میں وصیت کئے مر جائیں تو اس جائیداد میں سے اولاد کو کچھ نہیں ملتا ۔ جہاں تک وصیت کا تعلق ہے اس میں جائیداد کا مالک جسے چاہے جتنا دے اور جسے چاہے نہ دے

ہم لوگ جو فرنگی کے ذہنی غلام بن چکے ہیں نہیں جانتے کہ اس اسلام نے ، جسے ہم 14 صدیاں پرانا ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں سمجھتے ، عورت کو مکمل حقوقِ زندگی دیئے ۔ اس کی پرورش ہر لحاظ سے مرد کی ذمہ داری ٹھہرائی اور اُسے باپ کی جائیداد میں اور خاوند کی جائیداد میں بھی حصہ کا حق دیا ۔ بیوی کی کمائی پر خاوند کو کوئی حق نہ دیا مگر خاوند پر بیوی کا نان و نفقہ واجب قرار دیا ۔ اولاد پر ماں کی خدمت اور بھائی پر بہن کی پرورش لازم قرار دی

اسلام سے پہلے چھُٹی کا کوئی تصوّر ہی نہ تھا ۔ امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کفار سے جنگیں زور پر تھیں تو ان تک ایک عورت کی طرف سے اطلاع پہنچی کہ کئی ماہ سے اُس نے اپنے خاوند کی شکل نہیں دیکھی ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورتوں کی مجلس [meeting] کی جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ وہ مردوں کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہیں ۔ اس کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ چاہے کوئی مرد جہاد پر ہو 3 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے باہر نہیں رہے گا

میں جانتا ہوں کہ میرے دو تین محترم قارئین بغیر حوالہ کے میری تحریر کو ماننے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس کی مخالفت شدّ و مد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور میں اُن کی اس حرکت پر صرف مسکرا دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جن کے حوالے دیئے جاتے ہیں وہ بھی میری طرح ہی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں ۔ پھر عصرِ حاضر میں تو سند صرف فرنگی کی مانی جاتی ہے اور اُس کے بعد ٹی وی یا اخبار کی ۔ چاہے وہ کالے کو سفید کہیں یا سفید کو کالا اسے مان لیا جاتا ہے ۔ بہر کیف اس مضمون کے اول حصہ کی کچھ تائید “امریکی یادیں” میں اور یہاں کلِک کر کے مل سکتی ہے اور آخری حصہ کیلئے قرآن شریف سے رجوع کرنا ضروری ہے