Yearly Archives: 2009

قائداعظم کے خلاف پروپیگنڈہ اور حقیقت

قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا “جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں”
میں [جنرل اکبر] نے عرض کیا کہ “آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے”۔
قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ “کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا؟”
” سٹینو کو بلایا گیا ۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں [جنرل اکبر] نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ چند برسوں سے دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست1947ء والی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں قائداعظم کی دیگر ہزاروں تقاریر میں کوئی ایسا مواد نہیں ملتا جسے وہ اپنی پراپیگنڈہ مہم کا ہر اول دستہ بنا سکیں۔ قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں

اللہ جانتا ہے کہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں، میری سوچ کا محور و مرکز صرف پاکستان ہے اور میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظام کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اس لئے اگر مجھے قائداعظم کی تقریروں سے کہیں بھی سیکولرازم (لادینیت) کی بو آتی تو میں اسے نہ ہی صرف تسلیم کرتا بلکہ کھُلے ذہن سے اس کا اظہار کرتا کیونکہ میرے نزدیک قائداعظم سے عقیدت اور فکری دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ بابائے قوم کے فرمودات کو کھُلے ذہن اور تعصب سے پاک دل کے ساتھ پڑھا جائے

11اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد قائداعظم کی تقریر فی البدیہہ تھی اور اس میں انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں سے کیا تھا اور انہیں برابر کے شہری حقوق دیئے تھے۔ جو حضرات پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) کو وزارتیں دینے پر اعتراض کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ میثاق مدینہ کا مطالعہ کریں جس کا ترجمہ رفیق ڈوگر کی کتاب ”الامین“ جلد دوم میں موجود ہے

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیو کریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے ۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین،قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جس ملک کی بہت بڑی اکثریت مسلمان ہو وہاں غیر اسلامی قوانین بن ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی عین روح کے مطابق قائداعظم مذہبی فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کے خلاف تھے اور وہ تحمل، برداشت [Tolerance] اور سماجی یگانگت پر زور دیتے تھے چنانچہ موجودہ مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور مذہبی تشدد [Militancy] اس تصور پاکستان کی نفی کرتا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا اور جس کی حمایت مسلمانان ہندو پاکستان نے کی تھی۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی حکومتوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور حکمرانوں کی فکری گمراہی کا نتیجہ ہے جس کے ڈانڈے تحریک پاکستان سے ملانا بہت بڑی بے انصافی ہے۔ جمہوری نظام کے علاوہ قائداعظم پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصورِ پاکستان کا قصور ہے؟ تصورِ پاکستان تو ایک آئیڈیل ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے اسی لئے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ منزل کا شعور زندہ رہنا چاہئے، یہ آرزو باقی رہے تو کبھی نہ کبھی منزل بھی مل جاتی ہے۔ قائداعظم قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے ۔ وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان جاگیرداروں، رؤسا اور جرنیلوں کی جاگیر بن چکا ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل ا ور انسانی مساوات کے تصور کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی سردمہری کا یہ حال ہے کہ وہ بار بار انہی سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے شیش محل میں بٹھا دیتے ہیں جنہوں نے قومی خزانے لوٹے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے اور عوام کی جمہوریت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر بار فوجی حکومت کو خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور جرنیلوں کو نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا دیئے ہیں اور نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس فضا میں قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسلوں کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائداعظم مخالف لابی کے پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں

سیکولر حضرات مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا پرچار کرتے ہیں اور یہ بھو ل جاتے ہیں کہ ریاست اور چرچ کی علیحدگی کاتصور بنیادی طور پر عیسائیت کا تصور ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بقول اقبال

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ان کا یہ الزام کہ موجودہ فرقہ واریت اور دہشت گردی سیاست کو مذہب سے ملانے کا نتیجہ ہے سراسر بے بنیاد اور سطحیت کا شاہکار ہے کیونکہ اسلام بذات خود فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا۔ دراصل یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور عالمی قوتوں کی چالوں کا کیا دھرا ہے جس میں پاکستانی عوام پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ایک ریسرچ سکالر کے بقول قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ نئی مملکت کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں گی

یوں تو ان [قائداعظم] کی سینکڑوں تقریریں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں لیکن آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھانے کے لئے میں قائداعظم کے خط بنام پیر مانکی شریف آف صوبہ سرحد سے چند سطریں پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس خط کا ذکر قائداعظم کی تقاریر اور اکثر کتابوں میں نہیں ملتا اور نہ ہی لوگ عام طور پراس سے آگاہ ہیں۔ یاد ر ہے کہ صوبہ سرحد میں خان عبد الغفار خان [اسفند یار ولی کے دادااور عبدالولی خان کے والد] بے پناہ سیاسی اثر رکھتے تھے اور انہیں کانگرس کے ایک ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا صحیح معنوں میں توڑ پیر آف مانکی شریف تھے جن کی مسلم لیگ کے لئے حمایت سیاسی پانسہ پلٹ سکتی تھی۔ 1945ء میں پیر صاحب نے مسلم لیگ کو جوائن کرنے سے قبل قائداعظم سے تصور پاکستان کے حوالے سے وضاحت چاہی تو قائداعظم نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کبھی شریعت کے منافی قوانین نہیں بنائے گی اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان غیر اسلامی قوانین کی اجازت دیں گے۔ [بحوالہ دستور ساز اسمبلی کارروائی 9مارچ 1949ء جلد: V نمبر3صفحہ نمبر46]

آج یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد نوزائیدہ مملکت کو مسائل کے کوہ ہمالیہ کاسامنا تھا جن میں خاص طور پر لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، خالی خزانہ، وسائل کا فُقدان اور نئی مملکت کے لئے انتظامی ڈھانچے اور مرکزی حکومت کا قیام قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف خود قائداعظم کی صحت دن بدن گر رہی تھی اور کئی دہائیوں کی مسلسل محنت نے انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے ایک برس بعد وہ ستمبر 1948ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائداعظم زندہ رہتے تو کس طرح اپنے وعدے شرمندہ تعبیر کرتے اور کس طرح نئی مملکت کی تعمیر کرتے اس کا اندازہ ان کے دستور ساز اسمبلی 14اگست 1947ء کے خطاب سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور جنوری 1948ء کے امریکی عوام کے نام پیغام سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس ارادے کی ایک معمولی سی جھلک پاکستان کے پہلے سپہ سالار جنرل محمد اکبر خان [انگروٹ] کی کتاب ”میری آخری منزل“ کے صفحہ نمبر 281 میں ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہوگی۔ جنرل محمد اکبر [آرمی پی 71نمبر1] کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 25جون 1948ء سے تین دن کے لئے علیل قائداعظم کے زیارت میں مہمان رہے۔ قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ ”قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی، انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ لہٰذا میں نے عرض کیا کہ آپ ایک حکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا… سٹینو کو بلایا گیا۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“۔

قائداعظم کانفیڈریشن باکس ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اور اس باکس میں قرآن مجید کا نسخہ بھی شامل تھا۔ جنرل اکبر کی عینی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم قرآن مجید پڑھتے اور ضروری مقامات پر نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح 15اگست 1947ء کوپاکستان کا جھنڈا لہرانے کے لئے قائداعظم کا مولانا شبیر عثمانی کو کہنا بھی ایک واضح اشارہ ہے۔ اس لئے اگر انہیں موقعہ ملتا تو وہ یقینا اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لئے اقدامات کرتے اور تصور پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہناتے لیکن بدقسمتی سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے قائد کو ہم سے چھین لیا اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد ادھوری رہ گئی اور پھر ملک پر جاگیردار اور جرنیل چھا گئے جنہوں نے پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا اب ہمیں مِل جُل کر پاکستان کو پاکستان بنانا ہے اور قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔

تحریر : ڈاکٹر صفدر محمود

”ایمان، اتحاد اور نظم“ کی حقیقت کے متعلق یہاں کلک کر کے پڑھیئے

قائداعظم کا احسان ؟ ؟ ؟

آج برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کا يومِ ولادت ہے
قائداعظم کو اللہ تعالٰی نے شعور ۔ منطق اور استقلال سے نوازا تھا جِن کے بھرپور استعمال سے انہوں نے ہميں ايک اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ملک لے کر ديا مگر ہماری قوم نے اُس عظيم رہنما کے عمل اور قول کو بھُلا ديا جس کے باعث ہماری قوم اقوامِ عالَم ميں بہت پيچھے رہ گئی ہے
قائداعظم کا ايک پيغام ہے ” کام ۔ کام ۔ کام اورکام ” مگر قوم نے کام سے دل چرانے کی عادت اپنا لی
قوم میں وہ لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قائداعظم کا دیا ہوا نعرہ ” ایمان ۔ اتحاد ۔ تنظیم ” ہی بدل کر ” اتحاد ۔ یقین ۔ نظم ” بنا دیا
اپنے آپ کو کشادہ ذہن قرار دینے والے کم ظرف کہنے لگے کہ پاکستان اسلام کے نام پر تو بنا ہی نہ تھا بلکہ قائداعظم کو سیکولر قرار دے کر پاکستان کو بھی سیکولر بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے
کچھ بدبخت اس سے بھی آگے بڑھے اور قائداعظم کے مسلمان ہونے کو ہی مشکوک بنانے کی ناپاک کوشش کی

آئيے آج سے اپنی بد اعمالیوں کی توبہ کریں اور اپنے اللہ پر یقین کرتے ہوئے قرآن کی رہنمائی میں قائدِاعظم کے بنائے ہوئے راستہ پر چلیں اور اس ملک پاکستان کو تنزل کی گہرائیوں سے نکالنے کی جد و جہد کریں

کرِسمِس کا پیغام

اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا
مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں
انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں
(فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور (میں اسے اسی طریق پر پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور (ذریعہٴ) رحمت اور (مہربانی) بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے
تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی
تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں
بچے نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے
یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں (اور یہ) سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں
اللہ کو سزاوار نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو یہی کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
اور بےشک اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا رستہ ہے

سورت 19 ۔ مریم ۔ آیات 16 تا 36

ہم اتنے گئے گذرے نہیں

اقوام متحدہ کے ادارے اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی کی ایجنسی [یو این ایف پی اے] کی ایک رپورٹ کے مطابق تعلیم اور بچوں کی اموات کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کا موازنہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موضوع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ بھارت

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32.3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 23.1

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60.4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 45.5

لڑکوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 101 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔114

لڑکیوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 83 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 109

اِن میں جو لڑکے پانچویں جماعت تک پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59

اِن میں جو لڑکیاں پانچویں جماعت تک پہنچیں ۔ ۔ ۔۔ 72 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 49

شیرخوار بچوں کی اموات فی 1000 زندہ پیدائش ۔ ۔ ۔ ۔ 53 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 62

زچہ کی اموات فی 100000 زچگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 320 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 450

غَلَط العام

غَلَطُ العام غَلَط ہی ہوتا اور کبھی درُست نہیں ہو سکتا ۔ اسے درست تسلیم کرنا انسان کی کم عِلمی کا نتیجہ ہوتا ہے یا ضد کا ۔ اگر غور کیا جائے تو غلط العام الفاظ یا محاورے مذموم مقاصد کی پیداوار ہوتے ہیں یا معاشرے کی سوچ میں انحطاط آنے سے پھیلتے ہیں

پچھلے دنوں ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے ایک غلط العام کی طرف توجہ دلائی اور پھر شگفتہ صاحبہ نے بھی اس پر لکھا ۔ ہمیں ساتویں یا آٹھویں جماعت [1950ء] میں استاذ نے بتایا تھا جسے لوگوں نے “لکھے موسٰی پڑھے خدا ” بنا لیا ہے دراصل “لکھے مُو سا پڑھے خُود آ ” ہے ۔ کبھی کسی مسلمان نے نہ سوچا کہ اس محاورے کو غلط ادا کرنے کی وجہ سے وہ گُستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں

مُغل حُکمرانوں کے زمانہ میں برِّ صغیر ہند میں صوبیدار ہوا کرتا تھا جیسے آجکل کور کمانڈر ہوتا ہے ۔ صوبیدار کے ماتحت حوالدار ہوتے تھے جیسے آجکل بریگیڈ کمانڈر ہوتے ہیں ۔ انگریزوں نے برِّ صغیر ہند پر قبضہ کے بعد مقامیوں کی تحقیر کی خاطر اپنی فوج کے سب سے نچلے افسر سیکنڈ لیفٹننٹ کے ماتحت صوبیدار کو کر دیا اور اس کے ماتحت حوالداروں کو ۔ یہی نام عہدوں کے اب تک جاری ہیں اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی

سلطان ٹیپو بہادر اور غیرتمند محبِ وطن تھے اور اپنے وطن کے دفاع میں لڑتے جان دے دی ۔ اُن کی تحقیر کیلئے انگریزوں نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا ۔ اُن کی دیکھا دیکھی برِّ صغیر ہند کے لوگوں نے بھی اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد بھی لوگ اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھتے رہے ۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ وہ اپنے ایک غیرتمند رہنما کی تحقیر کر رہا ہے

انگریز حکمرانوں نے اور بھی بہت کچھ غلط عام کیا جسے برِ صغیر ہند کے بہت سے باشندوں نے اپنا لیا ۔ یہی نہیں برِّ صغیر ہند کے مسلمانوں نے شادی پر جہیز ۔ مہندی ۔ ناچ گانا اور بارات کے باجے ۔ ڈولی یا پالکی کی رسمیں ہندوؤں سے اپنا لیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان میں مُبتلا ہے ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ رسوم اسلام کا حصہ بن گئیں ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا

کچھ روز قبل عنیقہ ناز صاحبہ کی ایک تحریر جو ابو شامل صاحب کے بلاگ پر نقل شاہنواز فاروقی کی ایک تحریر کے نتیجہ میں عمل میں آئی اور شاہنواز فاروقی کے استدلال کو غلط ثابت کرنے کیلئے جانفشانی کی گئی ۔ میں نے بھی بچپن [1947ء تا 1953ء] میں کچھ لوگوں کو اپنے بیٹے یا کسی پڑھے لکھے آدمی کیلئے “بابو” کا لفظ استعمال کرتے سُنا تھا ۔ لیکن ہمارے بزرگوں اور اساتذہ نے ہمیں بتایا تھا کہ انگریزوں نے “بابو” کا لفظ برِّ صغیر ہند کے باشندوں کیلئے تحقیر کے طور پر استعمال کیا اور چونکہ حاکم [انگریز] کی نقل کا عام رواج ہو چکا تھا برِّ صغیر ہند کے لوگوں میں بھی مستعمل ہو گیا مگر یہ اچھا لفظ نہیں ہے ۔ البتہ یہ تو سب جانتے ہوں گے کہ سرکاری ملازمین کو بُرے الفاظ میں یاد کرنے کیلئے لوگ اور ذرائع ابلاغ عام طور پر اب بھی بابو کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ بابو کو اچھے معنی کا لفظ قرار دینا غلط العام تو ہو سکتا ہے لیکن درست نہیں ہے

آخر میں ایک ايسا جُملہ جو آج سے پانچ دہائیاں قبل معیوب سمجھا جاتا تھا اور شریف مرد یا لڑکے اسے اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے تھے ۔ لاپرواہ لڑکے بھی اسے بڑوں کے سامنے بولنے سے ڈرتے تھے اور لڑکیوں یا خواتین کے سامنے کوئی بولتا نہ تھا ۔ عصرِ حاضر میں زبان زدِ عام ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد عورتیں لڑکے اور لڑکیاں اسے بے دھڑک سب کے سامنے بولتے ہیں ۔ شاید دو سال قبل ایک بلاگر نے یہ محاورہ لکھا تو میں نے اُسے سمجھایا کہ آئيندہ نہ لکھے ۔ اُس کی نوازش اور نیک دلی کہ وہ مان گیا کچھ اور نے بھی آئیندہ نہ بولنے کا اقرار کیا ۔ کسی نے اُس وقت مجھ سے اس کا مطلب پوچھا تھا لیکن میں نے بتانے سے گریز کیا تھا ۔ یہ محاورہ ہے “پنگا لینا ۔ دینا یا کرنا”۔ اب اتنا بتا دیتا ہوں کہ اگر ہاتھ کی چاروں انگلیاں اکٹھی جوڑی جائیں تو اسے پنگا کہتے ہیں ۔ چنانچہ اس محاورے کا مطلب فحش ہے اور کسی شریف آدمی بالخصوص عورت کو اسے دہرانا زیب نہیں دیتا ۔ غلط بات غلط ہی ہوتی ہے چاہے سب اُس کے مرتکب ہوں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سیاسی اقدار

اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے حُکم پر جنرل محمد ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 604 افراد کو برطرف کر دیا گیا

جنرل آغا محمد یحیٰ خاں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 303 افراد کو برطرف کر دیا گیا

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی تو وہ صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بغیر کوئی قانون بنائے 1600 افراد کو برطرف کر دیا گیا

مندرجہ بالا جو افراد برطرف کئے گئے ان کے خلاف کوئی مقدمہ کسی بھی عدالت میں دائر نہیں کیا گیا تھا

اب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے دور میں 8014 افراد کے خلاف بد دیانتی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں قائم ہیں جن میں سے 7793 کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے ۔ ان 8014 افراد میں سے 34 سیاستدان ہیں جن کی اکثریت حکومت میں شامل ہے ۔ آصف علی زرداری نے پُرزور الفاظ میں کہا ہے کہ “ان الزامات کی وجہ سے کوئی مستعفی نہیں ہو گا”

دنیا تیرے رنگ نیا رے
سچ کہا تھا سقراط نے “اگر جاہلوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے تو حکمران بدمعاش ہی بنیں گے”
میرے خیال کے مطابق جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے