Monthly Archives: December 2009

آ گیا میدان میں ۔ ہے جمالو

سوئی ناردرن کمپنی نے وفاقی وزیر میاں منظور وٹوکے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن منقطع کردیا ہے ۔ جی ایم لاہور ریجن، سوئی ناردرن کمپنی کے مطابق گیس منقطع کرنے کا فیصلہ گیس کی لوڈشیڈنگ پر عمل درآمدنہ کرنے پر کیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق خلاف ورزی کی شکایت پر عملہ جب کنکشن منقطع کرنے گیا تو وفاقی وزیر کے گن مینوں نے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ سوئی ناردرن لاہور ریجن کے جی ایم کو عملے پر تشدد کی اطلاع ملی تو انہوں نے حکام بالا کو آگاہ کرتے ہو ئے اسٹیشن کا کنکشن منقطع کرادیا۔ جی ایم کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران گیس کی فروخت پر پابندی کی خلاف ورزی پر سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی اور 10دن تک کنکشن بحال نہیں کیا جائے گا اور جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

جمہوریت ۔ کتابی اورعملی

جدھر جائیں جمہوریت کی صدا لگائی جا رہی ہوتی ہے ۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سب خوابی دنیا میں بس رہے ہیں ۔ ایک محفل میں پڑھے لکھے لوگ بیٹھے تھے اور بحث ہو رہی تھی کہ نظامِ حکومت کونسا اچھا ہے ؟ ایک صاحب بولے اسلامی ۔ اس پر دوسرے صاحب بولے “اسلامی خلافت چار خُلفاء سے آگے نہ جا سکی”۔ آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافت کا نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نافذ کیا ۔ اُن کے وصال کے بعد ابو بکر صدیق ۔ عمر ابن الخطاب ۔ عثمان ابن عفان اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم نے بھی مکمل طور پر اسلامی ۔ انسانی اور فلاحی مملکت قائم رکھی ۔ یہ دور آدھی صدی پر محیط تھا ۔ اس کے بعد پانچویں خلیفہ راشد ہیں عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ

جب اعتراض کرنے والے صاحب سے پوچھا گیا کہ “کونسا ایسا نظام ہے جو خُلفائے راشدین کے دور سے زیادہ چلا اور اچھا بھی ہے ؟” جواب ملا “جمہوریت”

اول تو جمہوریت کی بھی ابھی تک کوئی انسان دوست عملی مثال سامنے نہیں آئی پھر بھی دیکھتے ہیں کہ جمہوریت عملی طور پر کس مُلک میں ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے لازم ہے کہ معلوم ہو جمہوریت ہوتی کیا ہے ؟

جمہوریت ہوتی ہے عوام کی حکومت عوام کے نمائندوں کے ذریعے عوام کے لئے

بہت دیانت داری سے بھی ایسی حکومت بنائی جائے تو جو لوگ انتخابی عمل سے گذر کر حکومت کا حصہ بنتے ہیں وہ تمام عوام کے نمائندہ تو کسی صورت میں نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے نمائندہ ہو ۔ اگر ہر حلقہ میں دو سے زیادہ اُمیدوار انتخاب میں حصہ لیں تو جو شخص انتخاب جیتے گا وہ عام طور پر اس حلقے کے عوام کی اقلیت کا نمائندہ ہو گا چنانچہ جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ مُلک میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہوں ۔ جن ممالک میں ایسا ہے وہاں جمہوریت چل رہی ہے لیکن پھر بھی غریب اور کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور عام طور پر شریف آدمی کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی

جب حکومت بن جاتی ہے تو اسے عوام کے تمام فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتا ہے ۔ پھر عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کی گئی دولت دوسرے ممالک پر حملوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اپنے اللے تللوں پر بھی جس کا عوام نے اُنہیں حق نہیں دیا ہوتا ۔ یہی جمہوریت کی عملی شکل ہے

انتخابات جیتنے کیلئے دولت کا بے دھڑک استعمال کیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ کیا یہ دولت منافع کے ساتھ واپس وصول نہیں کی جاتی ؟ درست کہ چند جمہوری ممالک میں اپنے اُمیدوار کو جتانے کیلئے چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں کیا وہ تجارت نہیں کر رہے ہوتے کہ اگر ان کا اُمیدوار جیت گيا تو ان کے کچھ خصوصی کام کروا دے گا ؟ اس طرح غریب اور شریف آدمی کا حق مارا جاتا ہے

امریکہ جو اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر ناقابلِ واپسی امداد دیتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہونے دیتا ۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ امریکا کا ہر صدر یہودیوں کی دولت کے بل بوتے پر منتخب ہوتا ہے ؟ ایک جان ایف کینڈی تھا جو اُن کے چُنگل میں نہیں آيا تھا تو اُس کا انجام کیا ہوا ؟

حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت جس کا نام ہے وہ دولتمند اور طاقتور کے ہاتھ کا کھلونا ہے جس سے جس طرح چاہے وہ کھیلے

دو چَوں کے

میں نے چَوکے کو غلط نہیں لکھا ۔ یہ چَوں کے ہی ہیں یعنی چونکا دینے والے واقعات

پاکستان
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی مخدوم جاویدہاشمی کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی کو ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ حکام نے اعتراف کیا ہے کہ
ڈرون حملوں میں پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل ہے
امریکی لیزر گائیڈڈ میزائل پاکستان کے دو ہوائی اڈوں سے آپریٹ ہو رہے ہیں

قائمہ کمیٹی نے چکلالہ ایئر بیس راولپنڈی پر امریکی اور دیگر چارٹرڈ طیارے اترنے اور بغیر ویزے کے پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کو بغیر نمبر پلیٹ کے امریکی سفارت خانے میں پہنچانے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی کو تحقیقات کاٹاسک دیدیا ہے

بھارت
ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب نے کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں بیان دیا کہ
میں شدت پسند نہیں ہوں
مجھے پولیس نے ممبئی حملوں سے 20 دن قبل جوبو چوپاٹی سے گرفتار کیا اور تشدد کرکے اعترافی بیان لیا تھا

ممبئی حملوں کی خصوصی عدالت میں اجمل قصاب نے اپنے اقبالیہ بیانات سے انحراف کرتے ہوئے کہا کہ
مجسٹریٹ کے سامنے انہیں مار پیٹ کر بیان لیا گیا تھا

جج ایم ایل تہیلیانی نے ملزم قصاب سے گواہان کے ریکارڈ کئے گئے بیانات کی بنیاد پر ان سے سوالات شروع کئے لیکن قصاب نے کہا کہ
وہ ان حملوں میں شامل نہیں
وہ سی ایس ٹی اسٹیشن پر کبھی نہیں گیا
اور نہ ہی کسی ابو اسماعیل کو جانتاہے

سفید کرتے پاجامے میں ملبوس اجمل قصاب نے عدالت کو اس وقت چونکا دیا جب اس نے کہا کہ
پولیس حراست میں ان سے ملاقات کیلئے 4 غیر ملکی افراد آئے تھے جو اس سے تفتیش کر رہے تھے
اور ان میں ڈیوڈ ہیڈلی بھی شامل تھا
جج نے اس پر قصاب کی سرزنش کی کہ ان سے جتنا پوچھا جائے اتنا ہی جواب دے

دریائے سندھ ۔ تعصب اور حقیقت

میری تحریر “دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق” پر ایک دو تبصرہ نگاروں نے تحریر کے مندرجات سے قطع نظر کرتے ہوئے مجھ پر تعصب کا سرنامہ [label] چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے اس غلط کوشش کا رنج نہیں مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ ہماری جوان نسل جس نے مستبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہے وہ اپنی تاریخ کے علم اور حقائق کے ادراک سے محروم ہے ۔ میں وہیں جواب لکھ چکا تھا مگر خیال آیا کہ بات تاریخ اور حقائق کی ہے اسلئے سرِ ورق لکھی جائے تاکہ ایک طرف جو قارئين کسی وجہ سے اس بارے میں علم نہیں رکھتے اُن تک بات پہنچے اور دوسری طرف باعِلم لوگوں کی نظر سے یہ تحریر گذرے تو وہ میرے عِلم میں اضافہ کا باعث بنیں

بات پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کی ہو رہی تھی لیکن سوال پانی کے ذخیروں کا بنا دیا گیا ۔ جب دریاؤں میں پانی ہی نہیں ہو گا تو ذخیرہ کرنے کیلئے جھیل بنا کر کیا کریں گے ؟ جہاں تک پانی کے ذخیروں کی بات ہے پہلا پانی کا ذخیرہ واسک میں ایوب خان کے دور سے قبل بنا دوسرا منگلا میں ایوب خان کے دور میں اور تیسرا تربیلہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ۔ پہلے ذخیرہ کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور سے قبل ہوئی تھی دوسرے اور تیسرے ذخیروں کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان انجنیئرنگ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ذخیرہ کالا باغ کی بجائے تربیلہ میں بنایا جس کے نتیجہ میں دس ارب روپيہ زیادہ بعد کی مرمتوں پر خرچ ہوا ۔ تربیلا کے بعد آج تک کوئی ذخیرہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی

دس بارہ سال قبل تک پاکستان میں موجود پانی کے ذخیرہ کیلئے بنائی گئی یہ تین جھیلیں نہ صرف بھری رہتی تھیں بلکہ فالتو پانی دریاؤں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ حال ہے کہ سال میں دو بار منگلا اور تربیلہ کی جھیلیں تقریباً خالی ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں بجلی کا بحران ملک کو گھیرے ہوئے ہے

کراچی کا کچھ حصہ پاکستان بننے سے قبل بھی سطح سمندر سے نیچا تھا ۔ عبداللہ غازی کے مزار اور بارہ دری سے سمندر کی طرف ایک ڈیڑھ کلو میٹر اندر پتھر کا بند نمعلوم کس زمانہ سے بنا ہوا تھا پھر بھی مد ہوتا تو سمندر کا پانی کسی جگہ سے میٹروپول ہوٹل سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ جاتا تھا ۔ جب جزر ہوتا تو پانی واپس چلا جاتا جس کی وجہ سے میٹروپول ہوٹل اور کلفٹن کے درمیان کچھ حصہ میں ایک دلدل ہوا کرتی تھی جس میں سے مردہ مچھلیوں کی بدبُو آیا کرتی تھی ۔ بعد میں ایک کافی اُونچا اور پہلے بند سے آگے سمندر کے اندر بند بنا کر زمین کی طرف بھرائی کی گئی ۔ جس جگہ آجکل فن لینڈ ہے یہ سمندر تھا ۔ بند باندھ کر اسے فن لینڈ بنایا گیا

میں سُنی سنائی باتیں نہیں لکھ رہا یہ سب کچھ میں نے خود دیکھا ہوا ہے ۔ نہ کراچی میرے لئے اجنبی ہے اور نہ میں کراچی کیلئے

میری تحریر میں سمندر کی سطح بلند ہونے کا حوالہ بھی تھا جس کا مذاق اُڑانے اور اسے بھی میرے تعصب کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ ایک منٹ بعد کیا ہونے والا ہے صرف اللہ ہی جانتا ہے تو میں کیسے بتا سکتا ہوں ؟ ایسے اندیشے اور پیشگوئیاں سائنسدان کرتے رہتے ہیں اور آج دورِ حاضر کے لوگ من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن میں نے نقل کیا تو تعصب بن گیا

سمندر کا پانی سندھ ڈیلٹا المعروف کیٹی بندر میں داخل ہونے کی بڑی وجہ سطح سمندر کی بلندی ہے اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ درست کہ پچھلے پانچ دس سالوں سے سندھ میں بہت کم پانی بہہ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں نے متذکرہ بالا تحریر میں لکھی ہیں

تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو کراچی کے علاوہ ہالینڈ کا ساحلی شہر راٹرڈیم بھی سطح سمندر سے نیچے ہے ۔ آج ہالینڈ کے ساحل سمندر پر بنے بند کو ٹوڑ دیا جائے تو راٹرڈیم سمندری پانی میں ڈوب جائے گا ۔ کراچی کے ساحلِ سمندر کے کنارے جو ڈیم بنایا گیا ہے اُسے گرا دیا جائے تو سمندر کا پانی میٹرو پول ہوٹل اور سینٹرل ہوٹل تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف آدھا ڈی ایچ اے سمندری پانی میں ڈوب جائے گا

میں مسلمان ہوں

میں دفتر کے اوقات میں ذاتی کام کرتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں رشوت لیتا یا دیتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں کم تولتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں جھوٹ بولتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دوسروں کا حق مارتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دھوکہ دیتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دوسرے کو ذلیل کر کے خوش ہوتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں چوری کرتا یا ڈاکہ ڈالتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں عورت کی عزت سے کھیلتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں روزے نہیں رکھتا ۔ میں مسلمان ہوں
میں نماز نہیں پڑھتا ۔ میں مسلمان ہوں
میں نے قرآن شریف کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ میں مسلمان ہوں
میں قرآن شریف میں دیئے گئے مسلمان کے اوصاف نہیں اپنانا چاہتا ۔ میں مسلمان ہوں
وغیرہ وغیرہ
میں مسلمان ہوں ۔ میں سب جانتا ہوں ۔ کسی اور کو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان کیا ہوتا ہے

اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے لیکن اللہ کے احکامات سے لاپرواہی کر کے وہ اپنے مسلمان ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ مسلمان صرف زبان سے کہنے کا نہیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے کا نام ہے ۔ علامہ اقبال صاحب نے کہا تھا

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق

پچھلے دنوں “آؤ سنواریں پاکستان” پر ایک تحریر پڑھی جس کی سطور سے لکھنے والے کے درد کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ درد صرف اُن کا ہی نہیں قومی معاملات پر نظر رکھنے والے ہر پاکستانی کا ہے ۔ اس کے بعد آوازِ دوست پر ایک نظریہ پڑھا جو کسی حد تک درست ہے ۔ ایک انجنیئر ہونے کے ناطے میں اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ ہمیں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے مناسب غیر آباد جگہوں پر چھوٹے کئی ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ سیلابی پانی کو روک کر سارا سال تھوڑا پانی چھوڑا جائے ۔ ان جگہوں پر چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں دریاؤں اور نہروں پر مناسب فاصلہ پر صرف بجلی گھر بنائے جائیں یعنی پانی پیچھے سے آئے اور ٹربائن میں سے گذرتا ہوا آگے نکل جائے ۔ اس کے علاوہ ہمارے رہنما اب ہیرا پھیری چھوڑ دیں اور جو کوئی پانی چوری کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے

عرصہ سے ہم سیاسی نعرے سنتے آ رہے ہیں جن کے زیرِ اثر عوام گمراہ ہوتے رہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے والے ہی عوام کے ہردل عزیز رہنما ہیں ۔ سیاسی نعرہ بازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں موجودہ صورتِ حال کے اصل اسباب مختصر طور پر بیان کروں گا لیکن ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جس نے مجھے دریاؤں اور نہروں میں پانی کے معاملہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر مجبور کیا

مجھے پہلی بار جھٹکا اس وقت لگا تھا جب پورے پاکستان سے دو درجن سے زائد سنیئر افسران کی ایک جماعت نظامت کے مطالعہ کیلئے پاکستان کے دورے پر تھی اور جنوری 1975ء میں روہڑی بیراج پہنچی ۔ ہمارے ساتھ کمشنر کی سطح کے افسر بھی تھے ۔ دورے کی باقاعدہ اطلاع ایک ماہ پہلے دی جا چکی تھی مگر متعلقہ کوئی افسر موقع پر یا دفتر میں موجود نہ تھا۔ روہڑی بیراج کے ایکسین کے دفتر سے اس کے کسی کلرک نے ٹیلیفون کیا تو کچھ دیر بعد ایک نوجوان انجنیئر صاحب آئے ۔ وہ ہی ایکسین تھے ۔ نظامت کا حال تو واضح ہو گیا تھا ۔ ایک ساتھی نے ٹیکنیکل سوال پوچھ لیا “What is the maximum flood level here?” ايکسین نے جواب دیا “Flood تو آتا ہی نہیں ۔ سب پانی پنجاب پی جاتا ہے”۔ Maximum flood level کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ سارے سال کے دوران پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہوتی ہے ؟ اس کا تعلق طغیانی [flood] سے نہیں ہوتا ۔ سوال پوچھنے والا ڈپٹی کمشنر اس علاقے میں رہ چکا تھا اسلئے ٹیکنیکل معلومات اس بیراج کی رکھتا تھا ۔ وہ کچھ طیش میں آ گیا ۔ کمشنر صاحب بانپ گئے اور اشارے سے اسے روک دیا ۔ بہرحال ایکسین کے جواب سے دو باتیں واضح ہو گئی تھیں

ایک ۔ ايکسین صاحب جو کہ سینیئر انجنیئر ہوتے ہیں تعلیمی لحاظ سے پیدل ہی تھے
دو ۔ سندھ میں بسنے والوں کے ذہنوں میں وقت کے سیاستدانوں نے زہر بھر دیا تھا

یہ مسئلہ گھمبیر ہے اور بہت اُلجھا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ایک سال یا ایک سیاسی دور میں پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ اس کے ذمہ داران تین چار طاقتور ملکی رہنما ہیں

ایک ۔ 10 فیصد کا ایوب خان ذمہ دار ہے جس نے سندھ تاس معاہدہ کیا جس کے نتیجہ میں آبپاشی نظام قائم کرنے کیلئے پیسہ ملا مگر غلطی یہ کی کہ اس میں مستقبل کیلئے بھارت کو پوری طرح نہ باندھا

دو ۔ 20 فیصد حصے کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے بھارت کی مُخبری کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھارت کے اندر کام کرنے والی بھارتی قوتوں کی اطلاع بھارت کو دی جس کے نتیجہ میں ان کا صفایا کرنے کے بعد بھارت کو فراغت ملی اور اس نے پاکستان کا گلا دبانا شروع کیا یعنی بھارت نے دریائے راوی اور پھر دریائے جہلم پر ڈیم بنایا

تین ۔ 10 فیصد کے ذمہ دار بارسوخ زمیندار ہیں جو پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور بارسوخ پيروں کی ہے

چار ۔ 60 فیصد کا پرویز مشرف ذمہ دار ہے جس نے اپنی گدی قائم رکھنے کی کوشش میں امریکا کی خوشنودی کیلئے بھارت کے ساتھ یک طرفہ دوستانہ اقدامات کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد کرنے والوں میں نفاق کا بیج بو کر ان کا اتحاد توڑ دیا چنانچہ اس تمام صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان جانے والے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم پر چھ ڈیم تعمیر کر لئے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سندھ تاس معاہدہ کے بعد دریائے سند ھ کے بڑے معاون تین دریا راوی چناب اور جہلم ہیں جب ہمارے اپنے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بھارت نے ان تینوں دریاؤں پر بند باندھ کر ان کا زیادہ تر پانی روک لیا تو دریائے سندھ بے یار و مددگار ہو کر لاغر ہو گیا ہے

حکمرانوں کی ان ملک دشمن کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بے راہ روی کے نتیجہ میں شاید اللہ بھی ہم سے ناراض ہے کہ سالہا سال سے ملک میں بارشیں بہت کم ہو رہی ہیں اور پہاڑوں پر سالانہ برف باری کی مقدار بھی بہت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں دریائے سندھ میں اپنے پانی کا بہاؤ کم ہو چکا ہے

اگر بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر بلک بلک کر مرنا نہیں چاہتے تو اب ایک ہی حل ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو کامیاب کرایا جائے جس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مرکز میں حکومتی پارٹیاں پی پی پی اور ایم کیو ایم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پیدائشی انسانی حق آزادی کیلئے لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں اور جو تھوڑا سا حصہ وہیں کے باشندوں نے 1947ء میں آزاد کرایا تھا اُس پر قبضہ جمانے اور لوٹ مار کرنے میں پیش پیش نطر آتی ہیں ۔ اللہ ہی ہے کہ ہم پر کسی وجہ سے رحم کھائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے

سمندر پاس دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ جدیدیت کی ایک سوغات global warming بھی ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے برفانی پہاڑ اور گلیشیئر پچھلی ایک دہائی سے بن کم رہے ہیں اور پگھلتے زیادہ ہیں ۔ چنانچہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اس طرح بھی سمندر کا نمکین پانی ڈیلتا کے اندر گھس رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس سال میں کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے

صیغہ واحد غائب

ہمیں سکول کے زمانے میں سارے صیغے پڑھائے جاتے تھے ۔ دورٍ حاضر ترقی کر گیا ہے شائد اسلئے صیغوں کی ضرورت نہیں رہی ۔ خیر بات یہ ہے کہ لاہور سے ڈھائی دن کیلئے صغہ واحد غائب ہوا اور آج ابھی ابھی واحد حاضر ہوا ہے ۔ اسلئے کسی کا تبصرہ نہ دیکھا جا سکا تو پھر جواب کیسے دیا جاتا