دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق

پچھلے دنوں “آؤ سنواریں پاکستان” پر ایک تحریر پڑھی جس کی سطور سے لکھنے والے کے درد کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ درد صرف اُن کا ہی نہیں قومی معاملات پر نظر رکھنے والے ہر پاکستانی کا ہے ۔ اس کے بعد آوازِ دوست پر ایک نظریہ پڑھا جو کسی حد تک درست ہے ۔ ایک انجنیئر ہونے کے ناطے میں اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ ہمیں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے مناسب غیر آباد جگہوں پر چھوٹے کئی ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ سیلابی پانی کو روک کر سارا سال تھوڑا پانی چھوڑا جائے ۔ ان جگہوں پر چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں دریاؤں اور نہروں پر مناسب فاصلہ پر صرف بجلی گھر بنائے جائیں یعنی پانی پیچھے سے آئے اور ٹربائن میں سے گذرتا ہوا آگے نکل جائے ۔ اس کے علاوہ ہمارے رہنما اب ہیرا پھیری چھوڑ دیں اور جو کوئی پانی چوری کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے

عرصہ سے ہم سیاسی نعرے سنتے آ رہے ہیں جن کے زیرِ اثر عوام گمراہ ہوتے رہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے والے ہی عوام کے ہردل عزیز رہنما ہیں ۔ سیاسی نعرہ بازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں موجودہ صورتِ حال کے اصل اسباب مختصر طور پر بیان کروں گا لیکن ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جس نے مجھے دریاؤں اور نہروں میں پانی کے معاملہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر مجبور کیا

مجھے پہلی بار جھٹکا اس وقت لگا تھا جب پورے پاکستان سے دو درجن سے زائد سنیئر افسران کی ایک جماعت نظامت کے مطالعہ کیلئے پاکستان کے دورے پر تھی اور جنوری 1975ء میں روہڑی بیراج پہنچی ۔ ہمارے ساتھ کمشنر کی سطح کے افسر بھی تھے ۔ دورے کی باقاعدہ اطلاع ایک ماہ پہلے دی جا چکی تھی مگر متعلقہ کوئی افسر موقع پر یا دفتر میں موجود نہ تھا۔ روہڑی بیراج کے ایکسین کے دفتر سے اس کے کسی کلرک نے ٹیلیفون کیا تو کچھ دیر بعد ایک نوجوان انجنیئر صاحب آئے ۔ وہ ہی ایکسین تھے ۔ نظامت کا حال تو واضح ہو گیا تھا ۔ ایک ساتھی نے ٹیکنیکل سوال پوچھ لیا “What is the maximum flood level here?” ايکسین نے جواب دیا “Flood تو آتا ہی نہیں ۔ سب پانی پنجاب پی جاتا ہے”۔ Maximum flood level کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ سارے سال کے دوران پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہوتی ہے ؟ اس کا تعلق طغیانی [flood] سے نہیں ہوتا ۔ سوال پوچھنے والا ڈپٹی کمشنر اس علاقے میں رہ چکا تھا اسلئے ٹیکنیکل معلومات اس بیراج کی رکھتا تھا ۔ وہ کچھ طیش میں آ گیا ۔ کمشنر صاحب بانپ گئے اور اشارے سے اسے روک دیا ۔ بہرحال ایکسین کے جواب سے دو باتیں واضح ہو گئی تھیں

ایک ۔ ايکسین صاحب جو کہ سینیئر انجنیئر ہوتے ہیں تعلیمی لحاظ سے پیدل ہی تھے
دو ۔ سندھ میں بسنے والوں کے ذہنوں میں وقت کے سیاستدانوں نے زہر بھر دیا تھا

یہ مسئلہ گھمبیر ہے اور بہت اُلجھا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ایک سال یا ایک سیاسی دور میں پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ اس کے ذمہ داران تین چار طاقتور ملکی رہنما ہیں

ایک ۔ 10 فیصد کا ایوب خان ذمہ دار ہے جس نے سندھ تاس معاہدہ کیا جس کے نتیجہ میں آبپاشی نظام قائم کرنے کیلئے پیسہ ملا مگر غلطی یہ کی کہ اس میں مستقبل کیلئے بھارت کو پوری طرح نہ باندھا

دو ۔ 20 فیصد حصے کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے بھارت کی مُخبری کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھارت کے اندر کام کرنے والی بھارتی قوتوں کی اطلاع بھارت کو دی جس کے نتیجہ میں ان کا صفایا کرنے کے بعد بھارت کو فراغت ملی اور اس نے پاکستان کا گلا دبانا شروع کیا یعنی بھارت نے دریائے راوی اور پھر دریائے جہلم پر ڈیم بنایا

تین ۔ 10 فیصد کے ذمہ دار بارسوخ زمیندار ہیں جو پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور بارسوخ پيروں کی ہے

چار ۔ 60 فیصد کا پرویز مشرف ذمہ دار ہے جس نے اپنی گدی قائم رکھنے کی کوشش میں امریکا کی خوشنودی کیلئے بھارت کے ساتھ یک طرفہ دوستانہ اقدامات کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد کرنے والوں میں نفاق کا بیج بو کر ان کا اتحاد توڑ دیا چنانچہ اس تمام صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان جانے والے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم پر چھ ڈیم تعمیر کر لئے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سندھ تاس معاہدہ کے بعد دریائے سند ھ کے بڑے معاون تین دریا راوی چناب اور جہلم ہیں جب ہمارے اپنے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بھارت نے ان تینوں دریاؤں پر بند باندھ کر ان کا زیادہ تر پانی روک لیا تو دریائے سندھ بے یار و مددگار ہو کر لاغر ہو گیا ہے

حکمرانوں کی ان ملک دشمن کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بے راہ روی کے نتیجہ میں شاید اللہ بھی ہم سے ناراض ہے کہ سالہا سال سے ملک میں بارشیں بہت کم ہو رہی ہیں اور پہاڑوں پر سالانہ برف باری کی مقدار بھی بہت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں دریائے سندھ میں اپنے پانی کا بہاؤ کم ہو چکا ہے

اگر بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر بلک بلک کر مرنا نہیں چاہتے تو اب ایک ہی حل ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو کامیاب کرایا جائے جس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مرکز میں حکومتی پارٹیاں پی پی پی اور ایم کیو ایم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پیدائشی انسانی حق آزادی کیلئے لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں اور جو تھوڑا سا حصہ وہیں کے باشندوں نے 1947ء میں آزاد کرایا تھا اُس پر قبضہ جمانے اور لوٹ مار کرنے میں پیش پیش نطر آتی ہیں ۔ اللہ ہی ہے کہ ہم پر کسی وجہ سے رحم کھائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے

سمندر پاس دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ جدیدیت کی ایک سوغات global warming بھی ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے برفانی پہاڑ اور گلیشیئر پچھلی ایک دہائی سے بن کم رہے ہیں اور پگھلتے زیادہ ہیں ۔ چنانچہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اس طرح بھی سمندر کا نمکین پانی ڈیلتا کے اندر گھس رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس سال میں کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے

This entry was posted in تاریخ, تجزیہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

15 thoughts on “دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق

  1. خرم

    جزاک اللہ انکل۔ آپ نے بہت اچھا تکنیکی تجزیہ کیا ہے ماشاء اللہ۔ آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کی بقاء‌کا دارومدار جموں اور بالخصوص کشمیر کی بھارت سے آزادی پر ہے۔ بھارت ہمارے کوتاہ اندیش حکمرانوں کی مدد سے اس مقصد میں کامیاب رہا ہے کہ پاکستان میں‌پانی کی کمی کا ذمہ دار ہم ایکدوسرے کو ہی ٹھہراتے رہیں اور اس کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے۔ یہ امر بہت ضروری ہے کہ جہاں پاکستان میں پانی کی چوری اور ہیرا پھیری کرنے والے کو نشان عبرت بنایا جائے وہیں عوام کو بالخصوص سندھی عوام کو پانی کی کمی کی اصل وجوہات سے آگاہ کیا جائے۔

  2. عنیقہ ناز

    اجمل صاھب آپ تو اپنی پوسٹوں کو انڈین کمرشل فلم سے بھرپور بنا رہے ہیں۔ یعنی ہر طرح کا مصالحہ۔ ہمارے ایک عزیز کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر روائتی طریقوں سے بدکتے ہیں ۔ اسکا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ سیخ کباب کا مصالحہ ہر ترکیب میں استعمال کرتے ہیں۔ حیران کن طور پہ کچھ لوگ انکے کھانوں سے بے ھد متاثر رہتے ہیں۔ اب اگر میں آپکو چیلینج کروں کہ ایم کیو ایم اور مشرف کے تذکرے کے بغیر کچح لکھ کر دکھا دیں۔ میں آپکو کریلہ گوشت بنا کر کھلائوونگی۔ اپنے ہاتھوں سے، یہ آپکی پسندیدہ ڈش ہے ناں۔ تو آپ کیا کریں گے۔
    اگرچہ اس مضمون میں کافی ساری باتیں حقیقت حال سے تعلق نہیں رکھتیں۔ لیکن ایک چیز کے بارے میں باقی لوگوں کو میں بتادوں کہ اگلے پندرہ بیس سالوں میں کراچی سمیت اس فہرست میں دئیے گئے ممالک سمندر کی سطح بلند ہونے سے نہیں ڈوبنے والے۔ ہم سے پہلے بہت سارے ممالک اس قطار میں ہیں جسے جزائر مالدیپ۔ اگر سونامی نہ ایا تو اگلے دس پندرہ سال تو وہ بھی نکال ہی لیں گے۔
    ویسے بھی کراچی میں ڈی ایچ اے والے تندہی سے سمندر کو پیچھے دھکا دیکر سمندر کی چھوڑی ہوئ زمین پہ تازہ بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ وہ آپکے خلاف مقدمہ کر سکتے ہیں۔ فی الحال تو میں نے اپنے بچپن میں جہاں سمندر دیکھا تھا۔ سمندر اس سے کہیں دور جا چکا ہے۔ آپ بہت دنوں سے کراچی نہیں آئے ہیں۔ ضرور آئیے گا۔
    یہ کہنا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ڈیلٹا کو نقصان پہنچا ہے صحیح نہیں ہے۔ اس پہ کچھ لکھنے سے پہلے آپکو سندھ کا ڈیلٹا ضرور دیکھنا چاہئیے۔ سمندر سے ملنے سے پہلےیعنی ڈیلٹا بننے سے پہلے ہی یہ کافی دور تک خشک پڑا ہوا ہے۔ مجھے بہ قائمی ء ہوش وحواس اسے پہلی دفعہ دیکھنا کا موقع سن دو ہزار ایک میں ملا تھا اس وقت مشرف حکومت کو دو سال ہوئے تھے اور یہ اس وقت بھی ایک نحیف و نزار نالہ ہی تھا دریا نہ تھا۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ ناز صاحبہ
    جو آپ کی تعریف ہے اُس کا لیبل آپ مجھ پر چسپاں کرنے کی کوشس کر رہی ہیں ۔ آپ یا تو بغير تحریر پڑھے جو آپ کے خيالات ہیں وہ لکھ دیتی ہیں یا پھر آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں گھستا کیونکہ وہاں پہلے سے ہی بہت کچھ بھرا ہوا ہے

  4. womanpk

    Mohtaram Uncle, Buhut afsos hua yeh arh ker k aap ne Sindh k Siasat Danon aur waderon ki ghalati to batai magar Punjab kka zikr nahi kiya. Siasatdanon aur waderon ki bilashuba ghalati hai magar Kehte hain na jahan aag hoti hai wahin se Dhuwan uthta hai. Kuch to ghalati Punjab ki bhi hai jis per Sindhi itne nalan hain. Maazi qareeb mein hi dekh lein Thal Canal per Sindhi siwaey afsos k kuch na ker sake. Kabhi aap ko Sindh se Punjab by road safar kerne ka ittefaq ho to Nehron ki halat dekhiye ga. Shayad aam insan ko yeh farq itna nazar na aata ho lekin woh log jo pani ki aik aik boondh ko taraste hein yahan sindh k tail k ilaqe mein unko yeh farq rulane ki halat per le aata hai. Sindh mein nehrein mushkil se hi kabhi 3/4th tak bharti hain magar Punjab mein chalakne wali halat hoti hai. Woh kehte hein na jis tan lage so tan jane.

  5. نعمان

    کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے

    آپ شاید لکھنے میں غلطی کر گئے کراچی جزیرہ نہیں ہے اور کراچی کو سطح سمندر بلند ہونے سے لاحق ہونے والے خطرے سے زیادہ شدید خطرہ مون سون کے پیٹرن میں تبدیلی سے ہے۔ باقی پاکستان کو بھی مون سون کے پیٹرن کی تبدیلی سے شدید خطرہ لاحق ہوگا کیونکہ ہمارے میدانی علاقے مون سون سے سیراب ہوتے ہیں۔ ہندوستانی ماہرین کے مطابق اس کا رخ آہستہ آہستہ جنوب یعنی بحیرہ عرب کی طرف ہوتا جائیگا۔ یوں تھر کے صحرا سمیت سندھ کا زیریں علاقہ بھارتی گجرات، آندھراپردیش اور راجھستان زیادہ بارش کے نیچے آئیں گے جس سے وہاں سیلاب آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے تیزی سے ڈیم تعمیر کرکے مغربی پنجاب کو سیراب رکھنے کا انتظام کرا ہے۔

    آپ کی پوسٹ کے اس حصے سے اتفاق ہے کہ چھوٹے ڈیم بنانا چاہئے۔ مگر اس حصے اتفاق نہیں جہاں آپ تمام الزام اپنی ناپسندیدہ سیاسی شخصیات پر ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ ملک پر گیارہ سال تک جنرل ضیاالحق کی حکومت بھی رہی ہے۔ اور چار ایک سال نواز شریف صاحب نے بھی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔ ذرا بتائیں ان ادوار حکومت میں کتنے چھوٹے یا بڑے ڈیم تعمیر ہوئے ہیں؟

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    وومن پک صاحبہ یا صاحب
    میں نے تاریخی حقائق لکھے ہیں جنہيں جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ میں نہ مانوں والا معاملہ الگ ہے ۔ آپ پر موجودہ نیشنل فنانس کمشن ایوارڈ نے بھی کوئی اثر نہیں ڈالا تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ دریاؤں میں پانی کم ہو گا تو نہروں میں کہاں سے آئے گا ۔ جب تک لوگ تعصب کو چھوڑ کر حقائق معلوم کر کے بہتری کی کوشش نہیں کریں گے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے ۔ ابھی گذشتہ رات جو عدالتِ عظمٰی نے فیصلہ دیا ہے اس معاملہ میں بھی آپ کہیں گے کہ پنجاب نے سندھ کے ساتھ زیادتی کی ہے ؟

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ میری تحریر پر تبصرہ یا تنقید کرتے تو بات بنتی ۔ آپ نے اپنے مفروضوں پر تبصرہ شروع کر دیا اور میری تحریر کو تعصب کا رنگ دینے کی کوشش کی جس سے واضح ہوا کہ آپ تعصب برت رہے ہیں ۔ میں نے کہاں لکھا ہے کہ کراچی جزیرہ ہے ؟ مستند جغرافیہ کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آدھی صدی قبل بھی کراچی کا کافی ساحلی علاقہ عمومی سطح سمندر سے نیچے تھا ۔ اب اُس سے زیادہ علاقہ سطح سمندر سے نیچے ہے
    مون سون ایک الگ مسئلہ ہے البتہ اس نے بھی دریاؤں کے پانی پر بُرا اثر ڈالا ہے
    میں نے صرف سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کے تاریخی اور جغرافیائی اسباب بیان کئے ہیں۔ ظاہر ہے کے اسباب صرف قدرتی نہیں ہیں اس میں ہمارے حکمرانوں کے اعمال بھی شامل ہیں ۔ نہ ضیاء الحق میرا دوست یا رشتہ دار تھا اور نہ نواز شریف ہے ۔ اُن کا ذکر آپ نے کیا ہے تو ساتھ یہ بھی بتا دیتے کہ دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کا ان دونوں کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟

  8. عنیقہ ناز

    آپ کےتوجہ دلانے پہ میں نے آج دیکھا کہ میری چھیانوے پوسٹس ہو گئ ہیں۔ اس میں سے میں نے حساب لگایا کہ میری تین یا چار پوسٹس میں ایم کیو ایم کا تذکرہ ہے اور دو میں مشرف کا نام لیا گیا ہے اور شاید ایک میں میاں نواز شریف کو یاد کیا گیا۔ اب آپ مجھے کس تعریف پہ پورا اتارنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے یہ سمجھنے کے لئے کافی سارا دماغ خالی کیا ہے۔

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ صاحبہ
    بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری توجہ اعداد و شمار کی طرف دلائی اور میں نے دیکھا کہ میں 1687 پوسٹس اور 30 تحقیقی مقالے اپنے بلاگ پر لکھ چکا ہوں اور ان پر 7750 تبصرے ہو چکے ہیں ۔

    لو جی نواز شریف ۔ پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کے معاملہ میں بھی آپ ہار گئیں ۔ آپ نے 96 پوسٹس میں ان کا ذکر بالترتیب 1 ۔ 4 اور 2 بار کیا اور میں نے ان کا ذکر 1 ۔ 4 اور 4 بار کیا ہو گا
    اب تناسب نکالنے کیلئے میں آپ کو ایک ہفتے کا وقت دیتا ہوں اگر نہ نکالا تو آپ اس میں بھی ہار گئیں ۔
    ارے یہ کیا کہا “دماغ خالی ہو گیا”۔ میں نے تو سن رکھا تھا کہ استعمال کرنے سے دماغ بڑھتا ہے
    43 سال قبل میرے ایک سنیئر افسر نے جو پوٹھوہار کا رہنے والا ہے بتایا تھا “میرے علاقے کے لوگ کسی کیلئے دماغ استعمال اسلئے نہیں کرتے کہ کہیں ختم نہ ہو جائے”
    آپ نے اپنی تعریف بھی مجھ سے پوچھی ہے ۔ میں شریف لوگوں سے شرافت سے پیش آتا ہوں اسلئے بتا دیتا ہوں کہ آپ کی تعریف کیا ہے “آپ ایک بچی کی ماں ہیں”۔ درُست ؟
    :smile: :smile: :smile:
    جاتے جاتے یہ بھی بتاتی جايئے کہ آپ نے یہ تبصرہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی پر کیا ہے یا دریائے سندھ میں پانی کی کمی پر ؟

  10. عنیقہ ناز

    اجمل صاحب، میرے خیال میں اب سب کو پانی کے مسئلے سے زیادہ یہ جگت بازی اچھی لگ رہی ہوگی۔ میں نے آپ سے آپکی ساری عمر کی کاردگی نہ پوچھی اور نہ اپنی اب تک کی بتانی چاہی۔ یہ ایک تقابل ہے پچھلے سات مہینوں کا جب سے میں نے بلاگنگ شروع کی۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ کوئ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ شاید اس دوران زیادہ تر پڑھنے والون نے محسوس کیا ہے کہ آپ موضوع سخن کچھ بھی ہو ان دو موضوعات کو لے آتے ہیں۔
    میں بلاگنگ کو کسی قسم کا کھیل نہیں سمجھتی کہ ہار یا جیت کی بات کروں۔ یہ ایک ڈایئلاگ کا ذریعہ ہے اور بس۔ اسی بہانے ہمیں بھی ایسی چیزوں کی چھان پھٹک کے مواقع ملتے ہیں جو پہلے اتنی تفصیل سے نہیں دیکھیں یا مدتوں پہلے دیکھی تھیں اور اب ذہن سے محو ہو گئیں۔ جیسی کہ میں نے ابھی ایک فاش غلطی کی ابو شامل کے بلاگ پہ اور خرم صاحب نے میری توجہ اس طرف کرائ۔ ہاں ایک بات اور آپ اپنے موقف پہ اپنے پڑھنے والوں کو رکھنا چاہیں گے اور میں یہ چاہونگی کہ مدتوں سے چلتی ہوئ باتوں میں جو نئ تبدیلیاں آرہی ہیں انہیں لائووں۔
    جی آپ نے میری درست تعریف فرمائ کہ میں ہوں ایک بچی کی ماں، باپ نہیں۔ ورنہ باپ تو آپ بھی کئ بچوں کے ہیں اور ماشاءاللہ سے ایک پوتی کے دادا بھی۔ کیا اپکو کئ بچوں کے باپ ہونے پہ کوئ شرمندگی ہے یا آپ اسے اپنے لئے حقیر جانتے ہیں یا آپ کسی بحث میں اپنے لئے سننا پسند کرتے ہیں۔ ایک بچی کی ماں تو وہ اسرائیلی عورت بھی تھی جس کا آپ نے اپنی ایک پوسٹ میں حوالہ دیا۔
    میرے عزیز بزرگ، آپ جھنجھلاہٹ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ذاتی اور غیر ذاتی کی حد کہاں ختم ہوتی ہے۔ جیساکہ میں نے کسی اور جگہ بھی یہ بات کہی کہ مجھے اپنے عورت ہونے پہ کوئ شرمندگی نہیں۔ یہ میرے لئے فخر کا باعث تو ہو سکتا ہے کہ میں انسان کے متعلق وہ جانتی ہوں جو آپ مرد ہو کر نہیں جانتے۔ اور اس حوالے سے زندگی کے حقیقی اور بہترین تجربے میرے پاس ہیں آپکے پاس نہیں، چاہے آپ یا کوئ بھی مرد جتنے تحقیقی مقالات لکھ لے۔تو یہ کوئ شرمندگی نہیں ہے۔ حتی کہ اگر خدا بھی اپنی مخلوقات میں اپنی کسی تخلیق کو فخر سے دیکھتا ہوگا تو وہ کوئ ماں ہی ہوگی۔
    اس آخری سوال پہ میں کیا کہوں کہ آپ نے یہ واقعی دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی پہ لکھا تھا یا پانی کی کمی پہ یا سندھیوں کی عصبیت پہ یا ایم کیو ایم اور مشرف کی نالائقی پہ۔ یا پنجاب کو ہر چیز سے بری الذمہ قرار دینے پہ لکھا تھا۔ یہاں بلاگنگ کی دنیا میں بہت سارے بلاگرز پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اتنا زیادہ دفاع کرتے ہیں کہ انکے کہنے کو کچھ باقی ہی نہیں رہ جاتا۔ ان کو بھی تو آواز نکالنے کا موقع دیں۔ ورنہ وہ بیچارے فارم ویلا پہ گیمز ہی کھیلتے رہیں گے۔ مجھے معلوم ہے تبدیلی کی چابی انہی کے پاس ہے۔

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ ناز صاحبہ
    مختلف جگہوں پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے میری ذات کے متعلق سخت باتیں لکھیں مگر ان کا مجھ پر کوئی بُرا اثر نہ ہوا لیکن آج کی تحریر پڑھ کر دُکھ ہوا ہے کہ آپ اتنا پڑھ لکھ کر بھی احساسِ محرومی کا شکار ہیں ۔ ایک بچی کا باپ ہونا بھی میرے لئے اچھی بات ہے اگر یقین نہ ہو تو اسی بلاگ پر مندرجہ ذیل ربط پر میری ساڑھے چار سال پرانی تحریر پڑھ لیجئے
    https://theajmals.com/blog/2005/06/08
    لیکن ایک بچی کی ماں ہونا قابلِ احترام ہے
    ذاتی اور غیر ذاتی کا آپ نے ذکر کیا ۔ جو کچھ میری طرف سے آج تک تجاوز ہوا اُس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں آئیندہ اِن شاء اللہ اس کا پورا خیال رکھوں گا ۔
    رہی پنجاب کے دفاع کی بات تو میں پنجاب کا دفاع نہیں کر رہا اور نہ سندھ یا کسی اور صوبے کی مخالفت کر رہا ہوں ۔ میں صرف حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جو لوگ معاندانہ پروپیگنڈہ کا شکار ہیں اُنہیں یہ پنجاب کا دفاع محسوس ہوتا ہے ۔
    دریاؤں کے پانی کے مسئلہ پر میں نے جون 2005ء میں اُس وقت لکھا تھا جب پرویز مشرف کے سی بی ایمز نے رنگ لانا شروع کیا تھا جو آپ اُوپر “تحریک آزادی جموں کشمیر” پر کلِک کر کے پڑھ سکتی ہیں ۔ اُنہی دنوں اس کے متعلق میرا خط دی نیوز اور ڈان میں بھی چھپا تھا ۔ سوموجودہ تحریر کوئی نئی بات نہیں تھی

  12. احمد

    عتیقہ ناز صاحبہ

    تفصیلی بات تو پھر کبھی مگر ایک بات کی نشاندہی ترنا تھی کہ دیکھ لیں خلق خدا کہتی ہے آپکو غائبانہ کیا
    آپ نے سنجیدہ اور حقائق بر سوالات کی جگہ آئیں بائیں کرکے برا بھلا کہا اور سمجھیں آپ نے بہتریں تقیہ کردیا اور پھر آپ کے ڈیڈی صاحب تو حد سے گری جبان درازی پر اتر آئے اب کیا کریں جب روزانہ تبراء بازی ان کی عبادت ہو تو اور کیا منہ سے جھڑے گا؟۔
    آپ کے بارے میں اجمل صاحب کی رائے بلکل ٹھیک ہے کہ دماغ میں کچھھ بھرا ہوا ہے ، اسکو خالی کرکے دل کو ایمان سے بھر لیں
    اور یہ کہ آپ شدید کمتری کا شکار ہیں ، بس یا رکھ لیں، ظالم، ظالم کا ساتھی اور منافقیں کے ہمدرد اس کیفیت کے شکار پائے جاتے ہیں اسی لیئے انجام بھی برا ہوتا ہے اور زندگی بھر کی مصیبت الگ

    اسلام قبول کرلیں اسلام وہی ہے جو اللہ کا نبی لایا اور اسکے صحابہ نے عمل کرکے دکھایا
    اسی میں بھلائی ہے

    مخلص

  13. نعمان

    میں عنیقہ کے تبصرے سے اتفاق کرونگا کہ آپ کی تحاریر آجکل ہر موضوع میں ایک ہی موضوع گھسیٹ لاتی ہیں۔ اور جب کوئی آپ کی توجہ آپ کے تعصبات کا حقائق سے گڈ مڈ کرنے کے روئے کی طرف دلاتا ہے تو آپ جھنجھلا جاتے ہیں۔

    جنرل ضیاء اور نوازشریف کے دور میں پاکستان میں ذخیرہ آب کے کتنے منصوبے شروع ہوئے؟‌

  14. گم نام

    پی ایچ ڈی کرکے لوگ پتا نہیں‌خود کو عقل کل کیوں سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے عطاالرحمن صاحب سے زبردست ہمدردی محسوس ہورہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.