Monthly Archives: November 2009

سمجھ کی باتیں

ایک بڑے لیڈر کی پیمائش یہ نہیں کہ وہ کتنے لوگوں کا سربراہ ہے بلکہ یہ ہے کہ کتنے لوگ اپنی مرضی سے اُس کی تقلید کرتے ہیں
نِکول الرکان ۔ Nicole Alarcon
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
بڑے مسائل کی نسبت چھوٹی چھوٹی باتیں زیادہ تکلیف دیتی ہیں
بہت بڑے پہاڑ کی چوٹی پر آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے
لیکن سوئی کی نوک پر نہیں

بہترین دوست وہ ہے جو لطیفہ سُن کر تین بار ہنسے
ایک ۔ جب لطیفہ سُنایا جائے
دو ۔ جب اس لطیفے کی تشریح کی جائے
تین ۔ پانچ منٹ بعد جب لطیفہ اسے سمجھ آئے

ايمان اتحاد نظم ۔ ۔ یا ۔ ۔ اتحاد ایمان تنظیم ؟ ؟ ؟

میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور ناگپور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس 26دسمبر1941ء کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ ہماری قوم کے ناطق یا آواز دار طبقہ کا مقولہ [Motto] ہے “جانُوں یا نہ جانُوں ۔ پر میں نہ مانُوں”۔ عام طور پر اصرار ہوتا ہے کہ کسی پڑھے لکھے معروف شخص کا حوالہ دیا جائے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا مجھ پر ہمیشہ بڑا کرم رہا ہے ۔ جس چیز کی مجھے جُستجُو ہوتی ہے زود یا بدیر خود بخود سامنے آ جاتی ہے ۔ آثارِ قدیمہ پر مُختار [authority] ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب [جو اس سال جنوری میں 88 سال کی عمر پا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے] کے بعد ایک معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود ابھی زندہ ہیں ۔ قائد اعظم کے مقولہ کے متعلق ڈاکٹر صفدر محمود یہ کہتے ہیں

کچھ عرصہ قبل قائداعظم کے ماٹو [Motto] ”ایمان، اتحاد اور نظم“ کے بارے میں بحث چلی تھی تو بہت سے طلباء نے مجھے اس کی وضاحت کرنے کو کہا کیونکہ کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ قائداعظم کے الفاظ اتحاد، ایمان اور تنظیم تھے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی استعداد کے مطابق اس پر روشنی ڈالوں گا لیکن بعدازاں میں ملکی سیاست کے اخبار تلے دب کر یہ بات بھول ہی گیا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں سیاستدان نہیں جو اپنے وعدوں کو بھول جاؤں، نہ میں حکمران ہوں کہ لوگ مجھے میرے وعدے یاد دلانے کی جرأت نہ کرسکیں، اس لئے فراغت سے فائدہ اٹھا کر اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کر رہا ہوں جسے آپ محض طالب علمانہ جواب سمجھیں، حکیمانہ اور حتمی جواب بہرحال سکالرز یعنی عالم و فاضل حضرات دیں گے۔

اس سوال کے حوالے سے میرے سامنے دو تین مثالیں ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق قائداعظم نے یہ الفاظ پہلی بار آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب ناگپور میں 26دسمبر1941ء کو کہے۔ ان کی یہ تقریر فی البدیہہ تھی اور طویل ہونے کے باوجود نہایت دلپذیر اور ایمان افروز تھی۔ شاید انہیں احساس تھا کہ وہ مستقبل کے معماروں اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے سے خطاب کر رہے ہیں جنہیں مسلمانوں کے مسائل، کانگرس کے عزائم، کانگرسی قیادت کی سوچ اور منافقت اور حصول پاکستان کے ناگزیر ہونے کی منطق اور وجوہ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور ان کے جذبوں کو گرمانے اور صحیح راہ پر ڈالنے کے لئے سیاسی تناظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔ اس تقریر میں جہاں انہوں نے طلباء کو اپنی تمام توجہ پڑھائی اور تعلیم پر مرکوز رکھنے کی نصیحت کی اور وقت اور صلاحیتوں کے زیاں سے منع کیا، وہاں انہیں یہ بھی کہا کہ ”ملکی و قومی حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رہنا بھی تمہارا فرض ہے“۔ اس تقریر میں قائداعظم نے طلباء کو اتحاد کی تلقین کی اور اپنی تنظیم کو مستحکم بنانے کا بھی مشورہ دیا۔ قائداعظم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلم لیگ جو چند برس قبل ایک مردہ جماعت تھی اب ایک فعال، متحرک اور مقبول جماعت بن چکی ہے ۔ نوجوانو! مایوسی کے اندھیروں سے نکل آؤ خوش ہو جاؤ ہم انشاء اللہ پاکستان حاصل کرکے رہیں گے”۔

کانگرس اور ہندو مہاسبھا پاکستان کی کیوں مخالفت کرتی ہے اور گاندھی، ابوالکلام اور نہرو کیا کہتے ہیں، کیا چاہتے اور کیا کیا جال بچھاتے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قائداعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد اور مستحکم رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ “اپنے مسائل یا بے انصافی کے لئے ہرگز انفرادی سطح پر قدم نہ اٹھائیں کیونکہ اس سے ہمارا قومی مقصد مجروح ہوگا۔ کوئی فرد یا تنظیم انفرادی طور پر قانون شکنی یا مزاحمت کی راہ پر نہ چلے جب اس کا وقت آئے گا تو میں آپ کے ساتھ شامل ہوں گا اور جب ضرورت ہوگی تو اس کا فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کرے گی۔ اس وقت تک متحد رہیئے اور انتظار کیجئے ہم خطرناک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں اور اس سے قبل کبھی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی آج ہے کہ ہم [Faith, Unity, Discipline] کو اپنا جماعتی نعرہ [Watchword] بنائیں اور عہد کریں کہ ہم اس پر قائم رہیں گے“۔ [بحوالہ ڈان 4 جنوری 1942ء]۔

اس تقریر کے دو دن بعد 28 دسمبر 1941ء کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اختتامی اجلاس ناگپور میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ”قرارداد پاکستان [23 مارچ 1940ء] کی منظوری کے بعد میں بذریعہ ریل بمبئی جا رہا تھا جب ٹرین بمبئی پہنچی تو پلیٹ فارم پر استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا اور ان کا جوش و خروش دیدنی اور متاثر کن تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس ہجوم میں دو بچے نہایت جوش سے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان میں ایک کی عمر سات سال کے لگ بھگ اور دوسرے کی عمر دس سال تھی۔ میں ان کی طرف بڑھا اور پوچھا کہ تمہاری پاکستان سے کیا مراد ہے؟… وہ ذرا گھبرائے اور جھینپے اور پھر یک زبان ہو کر فوراً جواب دیا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ حکمران ہوں“۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ”وہ بچوں سے یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے

میں یہ تقریر پڑھ کر سوچنے لگا کہ نہ جانے یہ بچے آج حیات بھی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ قائداعظم کے نوجوانوں اور اقبال کے شاہین بچوں میں آج کل وہ جوش و خروش مفقود ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے بمبئی اجلاس مورخہ 27جولائی 1946ء کو کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمارا ماٹو ہے [Motto] ڈسپلن، یونٹی اور ٹرسٹ یعنی نظم و ضبط، اتحاد اور اعتماد ہونا چاہئے۔ یہاں ان کی مراد تھی کہ ہمیں اپنی قوم کی قوت [Power of Nation ] پر اعتماد ہونا چاہئے اگر ہم میں وہ قوت نہیں ہے تو ہمیں وہ قوت پیدا کرنی چاہئے“

کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تحریک پاکستان اور جدوجہد کے دور میں قائداعظم حالات کے تقاضوں کے مطابق قوم کو ماٹو اور راہنما اصول دیتے رہے اور اتحاد کی تلقین کرتے رہے لیکن مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ناگپور کے افتتاحی اجلاس بتاریخ 26 دسمبر 1941ء میں کہے گئے الفاظ ہمیشہ ان کے ذہن پر کندہ رہے چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب حکومت پاکستان کا مونو گرام [Insignia] بنایا گیا تو اس پر جو سنہرے الفاظ کندہ کئے گئے وہ بالترتیب ”ایمان، اتحاد اور نظم“ تھے جنہیں آج تک استعمال کیا جا رہا ہے جو قائداعظم کے منظور شدہ اور ان کے دل کی آواز تھے۔ ان الفاظ پر غور کریں تو راز کھلتا ہے کہ قائداعظم کی ترجیحات میں پہلی ترجیح ایمان تھی کیونکہ ان کے نزدیک ایمان ہی سے اتحاد اور نظم و ضبط کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

غور کیجئے کہ ہم نے قائداعظم کے دیئے گئے ماٹو کو بھلا دیا اور نتیجے کے طور پر آج ایمان کی کمزوری نے اتحاد اور نظم و ضبط کو بھی کمزور کر دیا ہے چنانچہ قوم فرقوں، برادریوں، علاقوں اور صوبوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس اندرونی اور باطنی تقسیم کو مٹانے کے لئے ایک عادلانہ، منصفانہ، جمہوری اور تعلیم سے آراستہ معاشرے کی ضرورت ہے اور یہی قائداعظم کا خواب تھا۔ اے کاش کوئی اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے…؟؟

پنجابی قوم نہیں

یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ”پنجابی کوئی زبان نہیں“

مسلمان ایک قوم ہیں اسلئے اس میں قومیں نہیں ہو سکتیں ۔ مسلمان قوم کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہیں اور شناخت کیلئے قبیلے ہوتے ہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل نہیں سوائے اس کے کہ وہ تقوٰی میں بہتر ہو ۔ جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کی آبادی کی بھاری اکثریت مسلمان ہونے کی دعویدار ہے لیکن ان میں اکثر لوگوں نے ابھی تک ہندوؤں سے سیکھی ہوئی ذات پات اور علاقائیت کو سینوں سے چمٹا رکھا ہے ۔ کچھ جدیديت کا شکار لوگ تو اپنی قبیح عادات کو چھوڑنے کی بجائے ملک کے نام سے لفظ “اسلامی” ہی کو خارج کرنے کی تجویز دیتے ہیں ۔ کچھ مہربان ایسے ہیں جنہوں نے لفظ “پنجابی” کو گالی بنا کے رکھ دیا ہے ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ پنجابی کسی قوم یا گروہ کا نام نہیں ہے

وہ علاقہ جس کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا دہلی ۔ دہرہ دون اور اس کا شمالی علاقہ اس میں شامل تھےاور اس کی سرحدیں مشرق میں سہارنپور ۔ مراد آباد اور علیگڑھ تک تھیں ۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی اور اس کے شمال و مشرق کا علاقہ اس میں سے نکال دیا اور مغرب میں میانوالی اس میں شامل کر دیا تھا ۔ بہر حال جس علاقے کو پنجاب کا نام دیا گیا اس میں نہ اس دور میں پنجابی نام کی کوئی قوم رہتی تھی اور نہ اب رہتی ہے بلکہ دوسرے صوبوں کی طرح اس میں بھی بہت سے قبیلے رہتے تھے اور اب اُس دور کی نسبت زیادہ قبیلے رہتے ہیں ۔ اگر پنجاب میں رہنے والا پنجابی ہے تو دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پختون ۔ کشمیری ۔ بوہری ۔ میمن ۔ بلوچ اور اپنے آپ کو اُردو اِسپِیکِنگ کہنے والے بھی مستقل بنيادوں پر رہائش پذیر ہیں ۔ وہ بھی پنجابی ہوئے لیکن وہ ایسا نہیں سمجھتے ۔ ساتھ ہی اگر صوبہ سندھ کے باسیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بھی وہ تمام گروہ موجود ہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں
ماضی میں سندھ اور پنجاب میں بہت سی قدرِ مشترک تھیں اور اب بھی ہیں لیکن “میں نہ مانوں” والی بات کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں ۔ میں نوجوانی کے زمانہ سے کہا کرتا ہوں “سوئے کو جگایا جا سکتا ہے جاگتے کو نہیں”

سب سے معروف بات کہ جس علاقہ کو پنجاب کہا گیا اس میں ایک قبیلہ بھُٹہ نام کا تھا اور ہے ۔ اس قبیلے کا ایک فرد پنجاب سے سندھ منتقل ہو گیا اور اس علاقے کی زبان کے لہجہ پر بھُٹو کہلایا ۔ اس کی آل اولاد میں سے ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے جو دسمبر 1971ء میں پاکستان کا صدر اور پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے ۔ اسی طرح پنجاب کا کھوسہ سندھ میں کھوسو بنا ۔ علٰی ھٰذالقیاس ۔ پھر جب پاکستان بنا تو پہلے چند سال کے اندر ہی حکومت نے سندھ کے صحراؤں کو کارآمد بنانے کا سوچا اور بہت سستے داموں پٹے [lease] پر غیرآباد زمینیں دینے کا اعلان کیا ۔ اس میں فیصل آباد جو اُن دنوں لائیلپور کہلاتا تھا کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر سندھ کی زمینوں کو آباد کیا ۔ ان کے علاوہ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ راولپنڈی اور دوسرے شہروں کے لوگوں نے جان ماری اور سندھ کے صحراؤں کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کیا ۔ اُسی زمانہ میں میرے والد صاحب نے بھی ایک اور شخص کے ساتھ مل کر سندھ میں زمین لی اور وہ دونوں اس کی آبادکاری کیلئے روانہ ہوئے ۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد والد صاحب آئے تو پہچانے نہیں جاتے تھے رنگ سیاہ ہو گیا تھا اور بیمار لگ رہے تھے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ٹریکٹر کرایہ پر لے لیا تھا اور ایک ایک فٹ ریت زمین پر سے اُٹھانے کا کام شروع کر دیا تھا ۔ سارا سارا دن دھوپ میں کھڑے رہتے تھے ۔ دھول نے اُنہیں دمہ کی سی بیماری میں مبتلا کر دیا اور وہ اپنی زمین ساتھی کے نام کر کے واپس آ گئے ۔ ان کا ساتھی ڈٹا رہا اور چار پانچ سال کی محنت سے زمین کو پیداواری بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ یہ واقعہ میں نے ان لوگوں کی جانفشانی کے ایک ادنٰی نمونے کے طور پر لکھا ہے جنہوں نے پنجاب سے جا کر سندھ کے بے آب و گیاہ صحرا آباد کئے اور وہیں کے ہو گئے ۔ ان میں بھٹی اور کھوکھر نمایاں ہیں

انگریز حکمران بہت شاطر تھے ۔ اُنہوں نے ہندوستانی قوم کو لڑانے کیلئے پہلے تو زمین کی متنازعہ تقسیم کر کے صوبے بنائے پھر لوگوں میں نفاق کا بیج بویا انگریز کے جانے کے بعد ابھی ڈھائی دہائیاں گذری تھیں کہ نفاق کا پودا نمودار ہوا اور سندھ کے صحراؤں کو آباد کرنے والوں کو پنجابی کہہ کر دھمکیاں دی جانے لگیں کہ “فلاں تاریخ تک علاقہ خالی کر دو ورنہ ۔ ۔ ۔ ” مزید ڈیڑھ دہائی بعد بڑے شہروں میں لسانی گروہ نے یہی وطیرہ اختیار کیا اور آج تک اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کچھ عرصہ سے بلوچستان میں بھی پنجابی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے حالانکہ بلوچستان میں پہلی فوجی کاروائی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ میں ہوئی اور دوسری پرویز مشرف کے زمانہ میں اور دونوں کا تعلق پنجاب سے نہ تھا ۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی پروپیگنڈہ کیا گیا تھا حالانکہ وہاں کاروبار ہندؤں اور بہار سے آئے ہوئے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔ اگر اس ساری صورتِ حال پر غور کیا جائے تو صرف ایک قدرِ مُشترک ہے کہ پنجاب آبادی اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی پروپیگنڈہ اور مخفی معاندانہ کھیل کا زمانہ ہے ۔ کسی ملک کو طاقت سے فتح کرنے کی بجائے اس کے اندر نفاق کا بیج بو کر پھر نفاق کی افزائش کی جاتی ہے تاکہ وہ مُلک اپنی طاقت کھو بیٹھے اور خود ہی گھٹنے ٹیک دے ۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے دُشمن پچھلی 4 دہائیوں سے پنجاب کو اپنی سازش کا ہدف بنائے ہوئے ہیں

غریبوں کا مذاق

فرنگی نے دے کے یہ جمہوریت
ہم غریبوں کا کیوں اُڑایا ہے مذاق

ملاحظہ ہوں عوام کے غم میں مبتلا رہنے اور عوام کی بہبود کی خاطر رُکن اسمبلی بننے کا دعوٰی کرنے والوں کی تنخواہ اور مراعات

تنخواہ ماہانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120000 تا 200000
دستوری اخراجات ماہانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000
دفتری اخراجات ماہانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 140000
زمینی سفر اجلاس کیلئے ۔ ۔ ۔ ۔۔ 8 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے 6000 کلومیٹر تک
اجلاس کے دنوں میں الاؤنس ۔ ۔ ۔ 500 روپے روزانہ
رہائش جہاں بھی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مُفت
بجلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 50000 یونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مفت
ٹیلیفون ۔ ۔ ۔ 170000 یونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ مفت
ہوائی جہاز پر دو آدمیوں کے ايک سال میں 40 سفر مُفت
ٹرین پر جتنا چاہے خود اور بیوی بچوں کیلئے پاکستان کے اندر سفر مُفت

اگر کوئی کمی بیشی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ۔ یہ اعداد و شمار مجھے ایک سابق سرکاری افسر نے بھیجے ہیں

کیری لوگر لاء ۔ ڈی ایچ اے اور غریب

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں کے کنارے پرویز مشرف دور میں قائم کی جانے والی ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم جس میں صرف بڑے بڑے دولتمند ہی پلاٹ خرید کر سکتے ہیں اس میں امریکی امداد سے غریب بچوں کیلئے سکول اور غریبوں کیلئے ہسپتال بنانا ایک لطیفہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے ۔ ایک حقیقت کا انکشاف

انہوں نے بتایاکہ کیری لوگر بل کے تحت ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی راولپنڈی میں غریبوں کے لئے اسکول اور اسپتال بنایا جائے گا تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟
میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ہے؟
موصوف نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ سینیٹر جان کیری کے دوست شاہد احمد خان کا ہے جو بوسٹن میں رہتے ہیں اور انہوں نے کیری لوگر بل کی منظوری میں دن رات ایک کردیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کیری لوگر بل کے اس حامی سے پوچھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں غریبوں کی خدمت کرنے کے لئے آپ غریب کہاں سے لائیں گے؟”
یہ سن کر وہ بھائی صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ شاہد احمد خان کروڑوں ڈالر راولپنڈی لارہا ہے اور آپ اس کا مذاق اڑارہے ہیں ۔ آپ دراصل پاکستانیوں کو قومی غیرت کے نام پرگمراہ کررہے ہیں اور ”غیرت لابی“ پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے

میں نے جواب میں کہا کہ ”غیرت لابی“ کی مخالف تو کوئی ”بے غیرت لابی“ ہوسکتی ہے یہ بتایئے کہ آپ کون سی لابی میں شامل ہیں؟
یہ سن کر انہوں نے فتویٰ صادر کیا کہ ”غیرت لابی“ کی وجہ سے پاکستان بہت جلد ٹوٹ جائے گا اور یہ کہہ کر وہ انگریزی میں اول فول بکتے ہوئے میرے دفتر سے چلے گئے

مجھے شاہد احمد خان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن وہ صرف جان کیری کے نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری کے بھی دوست ہیں لہٰذا انہیں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کو دیئے جانے والے فنڈز سے دور رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ یہ احتیاط نہیں کرسکتے تو پھر انہیں یا کیری لوگر بل کے فنڈز سے مستفید ہونے والی این جی اوز کو ”غیرت لابی“ اور ”بے غیرت لابی“ کی بحث نہیں چھیڑنی چاہیئے

مندرجہ بالا چند سطور ہیں ایک مضمون کی جو یہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

ہم بھی اہلِ قلم ہو گئے

آج میں انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہا تھا کہ نظر آیا “تحریک آزادی جموں کشمیر”۔ یہ میرے محبوب موضوعات میں سے ایک ہے سو تلاش کو چھوڑ کر اسے پڑھنے لگا اور خود پر ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔ کیوں ؟ یہاں کلِک کر کے معلوم ہو سکتا ہے

اُس نے دسویں پاس کی تو 11 سال کی تھی

خاتون کی تفصیل رقم کرنے سے پہلے کچھ قوانین کا حوالہ ضروری ہے ۔ جس زمانہ کا یہ ذکر ہے اُن دنوں 13 سال سے کم عمر کے طالب یا طالبہ کو دسویں جماعت کا امتحان دینے کی اجازت نہ تھی ۔ سرکاری ملازم 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتا ہے

اُسے 2008ء میں ریٹائر کیا گیا تو اُس نے فیڈرل سروس ٹربیونل میں درخواست دائر کر دی کہ اُسے وقت سے قبل ریٹائر کر دیا گیا ہے
محکمہ نے ثبوت پیش کیا کہ محترمہ نے ملازمت شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ سے جو فارم پُر کیا تھا اُس میں اپنی تاریخ پیدائش 23 مارچ 1948ء لکھی تھی
اُس کا خاوند وقت کے حاکم کے بہت قریب تھا چنانچہ اس وقت کی عدالت [پی سی او ججز] سے فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا
محکمہ نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کر دی
اس نے عدالت میں بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس میں اس کی تاریخ پیدائش 22 مارچ 1952ء درج ہے جس کی بنیاد پر اس نے پی سی او چیف جسٹس کی وساطت سے بغیر اس سرٹیفیکیٹ کی پڑتال کے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا
ابھی مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ہونا تھی کہ دنیا نے پلٹا کھایا اور 15 مارچ 2009ء کو پی سی او ججز برطرف اور اصل ججز بحال ہو گئے
محکمہ کے پاس بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ ہے جو اس نے ملازمت شروع کرتے وقت محکمہ میں جمع کرایا تھا جس پر تاریخ پیدائش 22 مارچ 1946ء لکھی ہے

تو جناب اب بنے گا کیا محترمہ فہمیدہ کے ساتھ جو اپنے آپ کو حق کا علمبردار کہنے والے ماہرِ قانون احمد رضا قصوری کی بیوی ہے

مزید تفصیلات 13 نومبر 2009ء کے اخبار “دی نیوز” میں پڑھیئے