قربانی ؟ ؟ ؟

سعدیہ سحر صاحبہ اخبار میں قربانی پر لکھا کوئی مضمون پڑھ کر پریشان ہو گئیں ۔ موصوف نے لکھا ہے

رسولِ کریم کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ رسولِ کریم نے ان ایام میں جب آپ نے حج نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ھو — قرآن میں بھی جو آیات قربانی سے متعلق ھیں وہ بھی حج سے ھی وابستہ ھیں

آجکل نجانے کیسے کیسے لوگ عالِم بن بیٹھے ہیں ۔ دورِ حاضر میں مسند دِینی کُتب آسانی سے دستیاب ہیں ۔ اصول یہ ہونا چاہیئے کہ اخبار رسالے وغیرہ کو عِلم کا منبع نہ سمجھا جائے اور عِلم حاصل کرنے کیلئے مستند کُتب سے استفادہ کیا جائے

قربانی

قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1 ۔ اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی

وَاتْلُ عَلَیہھمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِھِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے اللہ (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے

2 ۔ منسک : (الحج، 22 : 34) ۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔

3 ۔ نحر: (الکوثر، 108 : 1 – 3) ۔

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر 0 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ 0 إِنَّ شَانِئَكَ ھُوَ الْأَبْتَر

(اے محمد) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے ۔ تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو ۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(مشکوٰۃ ص 128 باب الاضحیہ) ’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوؤں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ ص 127)
٭ امام مسلم سے بھی اسی طرح کی روائت ہے
٭ امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے‘‘۔ (مشکوۃ ص 127)
٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ ص 128)
٭ حضرت براء کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا۔
’’آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت کی بکری تھی جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم، مشکوۃ ص 126)
’’جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
٭ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)
٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)
٭حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا۔ اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا‘‘۔ ( متفق علیہ، مشکوۃ ص 126)

This entry was posted in دین, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

15 thoughts on “قربانی ؟ ؟ ؟

  1. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    میرا تو خیال تھا کہ کم از کم ایسے تمام معاملات کے احکام کا تو سب ہی کو پتا ہوگا جن سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس اخبار کا واقعہ پڑھ کر تو میں کافی پریشان ہو گیا ہوں۔ :(

  2. سعدیہ سحر

    یہ کالم جنگ اخبار میں سردار احمد قادری کے نام سے چھپا تھا جس مین انھوں نے لکھا تھا انھوں نے نہ حج بدل کا کہیں پڑھا ھے حج کے ساتھ قربانی جائز ھے اس کے علاوہ قربانی کا کہیں زکر نہیں —– یہ میں پڑھ کر پریشان ھوگئ تھی اس وجہ سے کہ جنگ ساری دنیا میں پڑھا جانے والا اخبار ھے اس کے کالم نگار مذہب کے نام پہ جھوٹ کیسے لکھ سکتے ھیں آج ان کا کالم چھپا ھے وہ کالم انھوَن نے نہیں لکھا تھا کسی نے ان کے نام سے دیا تھا
    کیا اخبار کی ذمہ داری نہیں کہ مذھب کے بارے میں کوئ بھی بات ایسے نہ چھاپی جائے ایک زرا سی بات سے کتنے لوگ گمراہ ھو سکتے ھیں سیاسی پھلجڑیاں چاھے کتنی بھی چھوڑیں مگر مذھب مذاق نہیں ھوتا کیا مذھب کے بارے میں اخبار کی کوئ پالیسی نہیں یا جنگ اخبار والے اپنے آپ کو آزادئ صحافت کے علمبردار ثابت کرنا چاھتے ھیں کوئ کچھ بھی لکھے وہ کسی کو روکتے ٹوکتے نہیں

  3. محمداسد

    یہ مضمون اسی عنوان “انداز بیاں” سے ہی شائع ہوا ہے جس سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سردار احمد قادری صاحب ہی کی تحریر ہے جو انداز بیاں کے عنوان سے مستقل روزنامہ جنگ کے لئے لکھتے ہیں۔ اس حیرت انگیز اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کے دونوں ہی سزاوار ہونے چاہیں۔ اول وہ شخص کے جس نے قادری صاحب کا نام استعمال کیا اور دوم وہ اخبار کے جس نے بغیر تحقیق کے اس مضمون کو شامل اشاعت کیا۔
    آپ نے مفصل تحقیق اور دلائل سے جواب دیا جو قابل تعریف ہے۔

  4. طارق راحیل

    اخبار رسائل اور میڈیا آج کل اسلام دشمنیاں نکال رہے ہیں
    میں سب کی بات نہیں کر رہا پر
    قادیانیوں کی اکثریت اور بے دینیوں نے اسلام کو جدیدیت کی راہ پر لگانے والوں نے
    اسلام کی نئی تصاویر عیاں کرنے کی ٹھانی ہے
    جس کا واحد مقصد یہی ہے کے لوگوں کو گمراہ کر سکیں دل میں شک و شبہات ڈال سکیں
    آج کال غامدی کا چرچا ہی دیکھ لیں خود کو اسلامی اسکالر کہتے ہیں
    اور اسلام کو مسخ کر دینے پر تلے رہتے ہیں
    اور بھی کئی ایسے چہپرے ہیں جو اخبار پیچھے اور میڈیا کے چہرے پر موجود ہیں

    اللہ سب کو اسلام کے اصولوں پر چلنے اور گمراہی کے فتنے سے بچائے

    اسلام کی اس راہ پر چلائے جو اس کے رسول اور صاحبہ کے اصول تھے
    نئے فتنوں سے دور رکھے
    خاتمہ ایمان خیر پر ہو

  5. طاہر

    السلام علیکم،

    سردار علی صاصبری سے متعلقہ مضمون کی وضاحت جنگ اخبار کے آن لائن ایڈیشن میں دیکھی تھی۔ آپ کے لیئے حاضر ہے:
    سوال یہ ہے جنگ جیسے اخبار میں اور خصوصا اداریوں کے صفحات پر ایسی غلطیوں کی گنجائش کچھ مشکوک ہی سے لگتی ہے۔واللہ اعلم۔

    وضاحت,,,,انداز بیاں …سردار احمد قادری
    http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=386039

    میرے ساتھ ایک انہونی اور غیر معمولی بات ہو گئی ہے۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن میں جمعرات 5نومبر کو ”سنگ اسود کا بوسہ لینے میں احتیاط کیجئے“ کے عنوان سے انداز بیاں کے میرے کالم کے ٹائٹل کے ساتھ اور میرے نام کے ساتھ جو مضمون چھپا ہے واللہ وہ میرا نہیں ہے۔یہ مضمون ایک سخت مزاج اور انتہا پسندانہ جذبات والے شخص کا لگتا ہے جو ایک اہم مسئلے پر اختلاف کا اظہار کر رہا ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے، یہ حدیث پاک کی کھلم کھلا مخالفت پر مبنی ہے۔ اس کا لہجہ، اس کی زبان بے حدقابل اعتراض ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے ”حج بدل کا حکم میری نظر سے نہیں گذرا۔ یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا اور کس نے ایجاد کیا اس پر میں یہاں بحث نہیں کروں گا“ وغیرہ وغیرہ، حالانکہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضورنبی کریمﷺ نے حج بدل کی اجازت عطا فرمائی تھی۔ لکھنے والے نے کالم کا آغاز اس طرح سے کیا ہے جیسے وہ سعودی وزارت حج کا ترجمان ہو اور ان کی پریس ریلیز کی وضاحت کررہا ہو۔یہ میرا انداز ہی نہیں ہے۔ میرے نام سے شائع ہونے والے اس کالم میں علمائے کرام کے خلاف جو گستاخانہ زبان استعمال کی گئی ہے اس کا میں تصور ہی نہیں کر سکتا، علمائے کرام کو میں امت مسلمہ کا مذہبی رہنما سمجھتا ہوں اور ان علمائے حق کی وجہ سے دین کی آبرو ہے۔ مضمون نگار نے مزید لکھا ہے ”سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو دیانت دارانہ طریقہ پر ہم تک پہنچائیں کیا وہ اپنے اس فرض کو ادا کرنے میں دیانت دار رہتے ہیں؟ یا انہوں نے خود کو ”دینی ومذہبی حکمران“ سمجھ کر مسلمانوں کو چرب زبانی کی لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر سیدھا کرنے کی قسم کھالی ہے وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں“ یہ کسی گستاخ کا ”انداز بیاں“ ہو سکتا ہے اس فقیرکا ”انداز بیاں“ نہیں ہے پھر اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب سے کئے گئے ایک تحریری سوال کا تذکرہ ہے جو ان سے ایمسٹرڈم میں کیا گیا تھا۔ یہ فقیر آٹھ برس تک بلجیم میں خطیب وامام رہا اور وہاں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے حبیب کریمﷺ کے وسیلے سے ”مسجد العابدین“ برسلز کی صورت میں ایک عظیم الشان اسلامی ادارہ قائم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جو آج بھی قائم ہے اور وہاں کے احباب اپنی پُرخلوص دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور محبت کے پیغاموں سے نوازتے رہتے ہیں بلجیم کے قیام کے دوران کئی مرتبہ ہالینڈ اور ایمسٹرڈم جاناہوتا تھا لیکن میں پچھلے چار پانچ برس سے بلجیم نہیں گیا اور نہ ہی ہالینڈ جانے کا موقع ملا۔ حضرت علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی زندگی میں ان کی دعوت پر مسجد طیبہ ایمسٹرڈم میں حاضری اور خطاب کا موقع ملتا تھا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب میرے استاد ہیں، میں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور لاء کالج میں ان سے اسلامی فقہ اور اصول قانون پڑھا ہے اوران کے علم وتحقیق کا دل سے معترف ہوں اور ان کا استاد کی طرح احترام کرتاہوں اور وہ بھی اس فقیر کے ساتھ شاگرد کی طرح محبت و شفقت فرماتے ہیں۔واللہ میرا اس متنازع مضمون سے کوئی تعلق نہیں اورعند اللہ میں اس سے بری الذمہ ہوں۔

  6. جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین

    پاکستان میں حکومت کی سرپرستی میں قسم قسم کے پروپنگنڈے کے ذریعئے مذھبی جماعتوں کو جو اسطرح کے سازشی افراد اور اداروں کے خلاف ڈٹ جاتی تھیں، ان مذھبی جماعتوں کو اپنے تئیں دیوار کے ساتھ پارک کرنے کے بعد اسلام اور اسلام کے چاہنے والوں کا بھونڈا مذاق اڑانے والوں کی حکمت عملی کے دوسرے دور کا نکتہ آغاز ہے۔

    حکومت کی امریکی سعادت مندی، دو صحفے کے اخبار سے پاکستان کے سب سے بڑے اور مظبوط میڈیا اور ٹی وی نیٹ ورک کے راتوں رات مالک بن جانے والوں کی دھن سے الفت اور اسکے پیچھے قادیانیوں المعورف احمدیوں کے لئیے الطاف حسین اور نام نہاد روشن خیالوں کی قادیانی فتنے سے ہمدردی اور غتر بودیاں۔ اسی آڑ میں قادیانی فتنے کی نئی حشر سامانیاں کی ایک ادنٰی جھلک ہے۔

    ہونا تو یہ چاہئیے تھا پاکستان کی روائتی مذھبی جماعتیں ایسی مذھبی شر انگیزی پہ پوری قوم کو سراپا احتجاج بنا دیتیں۔ مگر پاکستان کے میڈیا اور نام نہاد جغادری دانشور کسی حد تک اپنی اس مہم میں کامیاب نظر آتے ہیں جسمیں انھوں نے دورِ حاضر میں اسلامی اور مذھبی جماعتوں کو کچھ اسطرح سے دیوار کے ساتھ لگایا ہے کہ ان کی کسی بات پہ اب عام پاکستانی کان رکھنے کو تیار نہیں۔

    شاید یہ جغادری دانشور اور حکومتی امریکی مفادات کے نگران مشیر نہیں جانتے کہ جب کسی معاملے میں جائز طریقے سے احتجاج ریکارڈ کروانے یا قوم کو میسر مزھبی جماعتوں وغیرہ کے ذریعئے اگر اپنی آواز اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے یا مذھبی جماعتوں کی کریڈیبلٹی قسم قسم کے میڈیا پروپگنڈا سے مشکوک بنا دی جائے تو یہ لاوا اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے اور جب پھٹتا ہے تو پھر بہت کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے اخبار اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار کا دعواہ کرنے والے اخبار کا پاکستان جیسے حساس مذھبی عوام کے جذبات کی پرواہ کئیے بغیر کسی تحقیق کے بغیر، ایسی باتیں چھاپ دینا، آنے والے وقتوں میں مذید لن ترانیوں کا پتہ دیتی ہیں۔ جس کا ابھی سے رستہ مسدود کیا جانا نہائت ضروری ہے- اسے عام سی غلطی کے طور پہ مت لیا جائے۔

  7. وھاج الدین احمد

    اجمل بھائ واقعی آپ نے مکمل جواب تحریر فرمایا اور ماشا اللہ ھمیشہ کی طرح سارے حوالے بھی دیے
    میں پہلے اتنا مکمل جواب پڑھ کر حیران ہءوا تھا لیکن جاوید صاحب اور طاہر صاحب کا تبصرہ پڑھ کر محسوس کیا کہ آپ نے بہت درست کام کیا
    اللہ آپ کو جزاء خیر دے
    حیرانی بھی ہو رہی ہے کہ جنگ ایسے اخبار میں ایسی غلطی کیسے ھوئ

  8. احمد

    اجمل صاحب کا شکریہ کہ جن کو معلوم نہیں تھا ان کیلئے وضاحت کردی

    کسی کے بڑا ہونے سے اس کے حق پر ہونے کا کیسے پتا چلتا ہے؟ جنگ اخبار کا مزہب اور کردار تو سورج کی طرح عیاں ہے
    احادیث میں شک پیدا کرنے اور لوگوں کو احادیث سے ہٹانے کیلئے صدیوں سے کام ہورہا ہے سب سے پیلے اس کام کو منظم انداز سے عبداللہ بن سبا نے شروع کیا جس نے بعد میں ایک نئے دین رافضیت جو کہ شیعیت کے نام سے جانا گیا کی بنیاد رکھی تو ملعون قادیانی اکیلے نہیں اس کام میں ملعون شیعہ بھی ان کع ساتھ ہیں۔ اخبار میں لکھنے والوں اور مالکان میں سے بہت بڑی اکثریت شیعوں کی ہے یا بچ بچا کر جو رہ گئے وہ کبھی جماعتی تھے یا ہیں ( یہ بھی اسی کا نیا ایڈیشن ہیں )
    اب جب موقع ملے تو اپنی شرارت کرتے رہتے ہیں کوئی نہ کوئی کسی بھی بہانے ایمان بھی لے آتا ہے
    طارق صاحب نے پیاری بات کی ہے

    اب عقل کے اندھے یہ بھی پڑھ لیں البتہ شیعوں اور قادیانیوں کو زحمت نہیں دی لیکن جشن منانے کو پڑھنا چاہیں تو ضرور
    http://www.ummatpublication.com/2009/11/09/lead12.html

  9. احمد

    اجمل صاحب اسی پر عبدالقدیر خان نے بھی گواہی دی ہے کہ مجھ سے جھوٹ بول کر ساری تفصیلات لکھواکر امریکیوں کو دیں
    ایک قادیانی کیسے فوج کا چیف بن سکتا ہے؟ کیا اسلام آباد کیلئے کوئی مسلم آئی جی نہیں ہے؟ بار بار شیعہ ہی کیوں؟
    مسلمانوں کا کندھا استعمال کرکے قادیانوں اور شیعوں کیلئے یہ ملک بنا تھا

    جاوید صاحب شام غریباں میں لکھتے ہیں
    “پاکستان کے سب سے بڑے اخبار اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار کا دعواہ کرنے والے اخبار کا پاکستان جیسے حساس مذھبی عوام کے جذبات کی پرواہ کئیے بغیر کسی تحقیق کے بغیر، ایسی باتیں چھاپ دینا، آنے والے وقتوں میں مذید لن ترانیوں کا پتہ دیتی ہیں۔”

    عوام کے جذبات کی کوکوئی حیثیت نہیں ہوتی اصل بات اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردا دین ہوتا ہے۔ دین کے خلاف کوئی بھی بات ہو وہ بھی فتنہ اور کرنے والا بھی مردود
    اب عوام کے جزبات نہ رہیں تو شیطانوں کو سب کرنے دو کیا؟

  10. محمد رفیع یکرم

    اسلا م علئکم مفتی صاحب
    مجہے قربانی کی تاریخ چا ہےٰ اور وجوب کی دلیل ؟اور دونوں عید کب لازم ہوے؟
    میں قربانی کی انہی تفصیلات کو تلاش کریا تہا
    یہ تو راے والا کالم ھی پتا نہیں سوال کرنا درست ہے یا نہیں ؟ای میل کردیں تو بہی بڈی مہربانی ہوگی۔جزا ک اللہ خیرا

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد رفیع صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمة اللہ
    اتنا بلند لقب دينے کا شکریہ ۔ لیکن میں تو ایک عام سا آدمی ہوں ۔ آپ کے سوالات کا جواب مطالعہ کے بعد دینا مناسب رہے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.