Monthly Archives: November 2009

دنیا کا بیمثال کنواں

ہر سال لاکھوں لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے علاوہ لاکھوں دوسرے دنوں میں عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ سب آبِ زم زم خُوب پیتے ہیں اور اپنے عزیزوں کیلئے بھی لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ یہ آبِ زم زم کیا ہے ؟

جب سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کو مکہ جا کر اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور چند ماہ کے بچے اسمٰعیل [علیہ السلام] کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے کا حُکم اللہ کی طرف سے ملا تو اُنہوں نے تعمیل کی ۔ اُن کے واپس چلے جانے کے بعد حضرت ہاجرہ نے ننھے بچے کو وادی میں لٹا دیا اور صفا نامی چوٹی سے مروا نامی چوٹی تک جا جا کر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہو گئیں ۔ جب وہ سات بار ایک چوٹی سے دوسری تک جا چکیں تو اُنہوں نے ديکھا کہ اس ننھے بچے نے جو بعد میں اللہ کے نبی سیّدنا اسمٰعیل بنے جہاں زمین پر ایڑیاں ماریں وہاں سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے پانی کا چشمہ جاری کردیا ۔ یہ واقع آج سے 4000 سال سے زائد پہلے کا ہے

اُس دن سے آج تک یہ چشمہ جاری ہے اور لاکھوں آدمیوں کے اس پانی کو پينے کے باوجود کبھی خُشک نہیں ہوا ۔ اسی کو زم زم کا نام دیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ہاجرہ نے کہا تھا “زم زم” جو اُس وقت بولی جانے والی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رُک جا رُک جا

زم زم کا کنواں 13 میٹر گہرا ہے اور اس کا منہ ساڑھے پانچ میٹر لمبا اور سوا چار میٹر چوڑا ہے ۔ زم زم کا پانں پینے کیلئے دنیا کا بہترین پانی ہے ۔ اس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی اس میں کوئی چراثیم یا نباتی شے پیدا ہوئی ہے جب کہ ایسا دوسرے سب پانیوں میں ہوتا ہے ۔ حج کے دوران اس کنویں سے روزانہ بڑے بڑے پمپوں سے 8000 لٹر پانی فی سیکنڈ نکالا جاتا ہے ۔ پانی نکالنے کے بعد 15 منٹ میں یہ کنواں پھر بھر جاتا ہے ۔ سُبحان اللہ

عید مبارک

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

سب قارئین کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے ۔ جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک ۔ اللہ ان کا حج قبول فرمائے

کچھ ہلکا پھُلکا

پہلے 2 معروف لوگوں کی باتیں

مارک ٹوَین : دنیا میں سب سے آسان کام تمباکو نوشی چھوڑنا ہے ۔ میں نے ہزاروں بار اسے چھوڑا ہے

گریسی ایلن : میرے لئے تعجب خیز ہے کہ جب میں پیدا ہوئی تو ڈیڑھ سال تک نہیں بولی
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

” ہمیشہ ” اور ” کبھی نہیں ” دو ایسے مستعملِ گفتار ہیں جو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی نہیں بولے جائیں

کبھی کسی احمق سے بحث نہ کریں ۔ ہو سکتا ہے لوگ نہ پہچانتے ہوں کہ احمق کون ہے

مہاجر کون ؟

نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے

ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا

برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے

بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا

اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے

لطیف کھوسہ کے بعد بابر اعوان

بنک آف پنجاب کے قرض اسکینڈل کیس میں بڑے ملزم ، حارث اسٹیل ملز کے مالک شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث افضل کو آج سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ، شیخ افضل نے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں ۔ ملزم شیخ افضل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر ڈاکٹر بابراعوان نے مقدمہ کی پیروی کے لئے پچاس لاکھ روپے اور مقدمہ ختم کرانے کے لئے ساڑھے تین کروڑ مانگے تھے

طریقہ ۔ غیرتی اور حکومتی

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سعید مہدی مستعفی ہوگئے۔ ان پر پولو گراؤنڈ کیس ختم کروانے کا الزام ہے تاہم سعید مہدی نے کہا ہے کہ انہوں نے کیس ختم کرنے کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور استعفیٰ اپنی عزت بحال رکھنے اور پارٹی گائیڈ لائن کے مطابق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی مقدمہ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں۔این آر او سے استفادہ کرنے والے افراد کی جانب سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ سعید مہدی نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں دو مقدمات میں ملوث کیا گیا تھا جس میں طیارہ کیس اور پولو گراؤنڈ کیس شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 7اپریل 2000ء کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک روز قبل وہ طیارہ سازش کیس میں بری ہوگئے تھے

Minister for Information and Broadcasting Qamar Zaman Kaira on Monday said the NRO beneficiary ministers will not resign, as they were accused and not convicted, terming the demand unjustified.

Talking to media persons here at the CDA Academy, the minister made it clear that the cabinet members, who had benefited from the NRO were accused and not convicted to be asked to step down as minister

زرداری اور ايک ارب ڈالر کا غبن

سوٹزرلینڈ اور دبئی کے بنکوں کے ذریعہ کس طرح اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ آصف علی زرداری نے ايک ارب امریکی ڈالر ناجائز کمیشن کے طور پر پاکستان کے عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے چرا کر سِٹی بنک میں دبئی کے ذريعہ منتقل کئے ۔ این آر او کی وجہ سے نامکمل رہ جانے والی انکوائری رپورٹ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے