قوم کیلئے لمحہ فکریہ

تحریر ۔ مشتاق احمد قریشی ۔ بشکریہ جنگ
سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جب کبھی قوم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور قوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے لگتی ہے تو قوم کسی نئے حادثے کسی نئی دہشت گردی سے دوچار کردی جاتی ہے۔ کیا صرف اس لئے یہ دہشت گردی ہورہی ہے کہ قوم یکجہت نہ ہوسکے‘ کسی بھی مسئلے پر زبان نہ کھول سکے‘ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف اپنے سچے جذبات کا اظہار نہ کرسکے۔ جب جب ملک کسی قسم کے بحران سے دوچار ہوا یا کیا گیا‘ عوام کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرکے جہاں ان کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیا گیا وہیں انہیں ایک ان دیکھے‘ ان چاہے خوف کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟

ذرا سوچئے! جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی من چاہی قیمتوں کا نفاذ تھا جس میں مل مالکان اور حکمران دونوں کی ملی بھگت تھی اس وقت جب عوام سڑکوں پر نکلنا شروع ہی ہوئے تھے کہ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف حکومت کررہی ہے کو بے چین کرنے کے لئے پے درپے دہشت گردی کے واقعات رونما کئے گئے۔ جواب میں عوام خوفزدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔

بجلی کا بحران جس پر عوامی ردعمل جگہ جگہ سر ابھار رہا تھا وہ بھی اسی طرح نمٹایا گیا۔ اس کے پس پشت بھی بجلی مہنگی کرنا اور من چاہے دام وصول کرنا ہی ہے ۔ عوام بے چارے مجبور و بے بس جو ہوئے۔ اب جب کہ قوم کو ایک نیا مسئلہ کیری لوگر بِل (Bill) نہیں بلکہ بُل (Bull) سے واسطہ پڑا ہے اور قوم یک زبان ہوکر واویلا کرنے لگی تو اس بُل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر GHQ کو نشانہ بنا کر انہیں بھی زبان بندی کا پیغام دے دیا گیا ہے کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی بار افواج پاکستان کی جانب سے کسی امداد کی کڑی شرائط کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا تھا جو نہ تو حکومت کو اور نہ ہی حکومتی افراد کے سرپرستوں کو پسند آیا۔ عوام بے چارے تو ویسے ہی خوف کے مارے ہوئے ہیں لیکن افواج پاکستان کی جانب سے ردعمل کے اظہار نے انہیں تقویت دی ہی تھی کہ ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔

دوسرا مرحلہ جو قوم کو درپیش تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم بھی جاری کردیا تھا ‘ این آر او کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے کا‘ وہ بھی حکومت نے بصد مجبوری قومی اسمبلی میں پیش تو کردیا لیکن ساتھ ہی کیری لوگر بُل اور این آر او پر کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تاکہ کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ہوجائے اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہے۔ کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہو۔ رات گئی بات گئی۔ اس سے پہلے کہ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے ملک میں کوئی نیا بحران آسکتا ہے‘ کوئی نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی نئی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور یوں این آر او ہو یا کیری لوگر بُل ازخود سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔

آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اس ساری کارروائیوں کے پیچھے امریکہ کی مضبوط منصوبہ بندی موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض سے لے کر خود دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے لوگ حکومت پاکستان کی بجائے اپنی رٹ قائم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاروک ٹوک جب چاہتے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے کیری لوگر بل کا چرچا ہوا ہے اس وقت سے امریکی سی آئی اے بذات خود ناصرف اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے بلکہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی حلیفوں، مددگاروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پوری طرح دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کو تہس نہس کردیں۔

پاکستانی افواج کو خارجی جنگ کی جگہ داخلی جنگ میں الجھادیا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی امریکہ کا ہی مفاد ہے کہ افواج پاکستان جو اسلحہ استعمال کرے گی اس کا بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازوں سے ہی خریدا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جو قرضے بھاری سود کے بدلے ان سے لیتا ہے وہ پاکستان کو لوز ڈالروں میں نہیں ملتے بلکہ اس قیمت کا سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے یعنی اصل کے ساتھ دہرا منافع بھی ان کو ہی جاتا ہے اور وہ سامان بھی پاکستان کی مرضی و منشا کا نہیں، اپنی پسند کے مطابق سپلائی کرتے ہیں۔ پہلی بار ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو غیر فوجی امداد سے نوازا جارہا ہے لیکن اس میں بھی ایسی شرائط عائد کی گئیں کہ فوجی قیادت جس پر صحیح بول پڑی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی منصوبہ سازوں اور ان کے پاکستان دشمن حلیفوں کے پاکستان پر دو اعتراض ہیں۔ ایک تو پاکستان اسلامی مملکت ہے دوسرا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی قوت والا ملک بن گیا ہے جو نہ تو بھارت سے برداشت ہورہا ہے اور نہ اسرائیل سے برداشت ہورہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح جلد از جلد پاکستان، جسے وہ اپنی سازشوں سے پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں‘ اب تک کیسے اپنے قدموں پر قائم ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے چکر میں جو اپنے لوگوں پر فوج کشی پر ناصرف مجبور کردیا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے ملک میں خانہ جنگی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو توڑنے مروڑنے کی کسی بیرونی قوت کو ضرورت ہی نہ پڑے اور پاکستان کے دائیں بائیں کے پڑوسی بھارت اور افغانستان اطمینان سے محفوظ و مامون رہ سکیں اور وہ جو چاہے اپنی من مانی کارروائیوں سے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات نہ تو دوستانہ ہیں نہ برادرانہ بلکہ خالص کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم چاہے انہیں کوئی نام کیوں نہ دیتے رہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام اہل سیاست کے لئے یہ بڑا ہی نازک لمحہٴ فکر ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم انگریز کی غلامی سے نکلنے کی سزا کے طور پر امریکہ کے دام غلامی کا شکار بنایا جارہا ہے۔

اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمیں کسی شکوے کا بھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ امریکی گھیرا جو پہلے بھی تنگ تھا اب مزید تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ خالص عوامی حکومت کے دورمیں ہورہا ہے۔ عوامی حکمران بہ رضا ورغبت اپنی گردنوں میں امریکی پھندے ڈلوانا اپنے لئے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن جب یہ پھندے سخت ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں بچا سکے گا۔اب بھی وقت ہے گوکہ کمر کمر دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو امریکی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے حب الوطنی‘ اخلاص اور ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جو فی الحال اہل سیاست چاہے وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ناپید نظر آرہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں نظر آرہا جو قوم کی درست رہنمائی پورے خلوص نیت سے کرسکے۔ سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

This entry was posted in تجزیہ, روز و شب, سیاست, طور طريقہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

8 thoughts on “قوم کیلئے لمحہ فکریہ

  1. نازیہ

    اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

    لیڈروں خصوصاً نواز شریف کی خاموشی مجرمانہ ہے اور قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

  2. عنیقہ ناز

    فی الحال میں اس تحریر کا اردو ترجمہ نہیں کرسکتی، اس لئیے اسے ایسے ہی پڑھا جائے۔ اسے تحریر کیا ہے بینا سرور نے اور یہ ڈان میں شاءع ہوچکا ہے۔

    ‘Kary Logar’ ain’t the issue
    Share
    Yesterday at 4:55pm
    My article on the ‘Kerry Lugar Bill’ and the crisis Pk faces today – a slightly edited version of which was published in Dawn today as KLB is not the issue

    ‘Kary Logar’ ain’t the issue

    Beena Sarwar

    Photo from the demonstration on Oct 11. Courtesy http://www.dawn.com
    As pressure mounted in South Waziristan with the army action, and retaliatory bombings began, a demonstration in Karachi by parties that claim religion as their raison d’etre underscored some key conflicts Pakistan faces: the requirements of justice under due process of law versus tribal, extra-judicial punishments, tensions between the elected civilian government and the ‘establishment’, and conflict between a long-standing foreign policy versus new domestic compulsions.

    The demonstration symbolised the two options ahead: the long road towards becoming a modern, progressive democratic nation — or descent into the retrogressive order envisioned by the Taliban and their supporters.

    Ostensibly railing against proposed changes in the controversial ‘Blasphemy law’, speakers slammed the ‘Kary Logar Bill’ and its supporters like Punjab Governor Salman Taseer and Pakistan’s ambassador to USA Husain Haqqani. They supported the armed forces’ stand against the Bill (subsequently signed into law, drafted by American legislators for the American, not the Pakistani government, to approve).

    The traditional nexus between the religious right and the military is no secret. Superficial divisions surfaced after the army, under Gen. Musharraf, took a U-turn on its traditional pro-jihadi stand following the cataclysmic events of 9/11 but the bond remains strong. They share notions about defending Pakistan’s ideological frontiers and the ‘real enemy’ (India), and distaste for democracy (especially the Pakistan People’s Party).

    These views found echo in the cacophony of knee-jerk protests against the Enhanced Partnership with Pakistan Act 2009. Those who went against the tide were dismissed as ‘American lackeys’ – although the military (annoyed at being by-passed this time) has for decades taken far huger amounts of aid with various undisclosed conditions leading to repercussions that reverberate today. But conditionalities were unacceptable when the aid went to social sectors under civilian rule – education, health and energy.

    The Act was in the works for nearly two years, since before this government took over, the result of sustained efforts by various people, not least the late Benazir Bhutto, to make America realise it must deal with elected representatives. It is a belated response to the long-standing and justified criticism of past policies of supporting military governments in Pakistan, as acknowledged by Secretary of State Hillary Clinton and President Barrack Obama.

    Washington is obviously – and understandably – concerned that American taxpayers’ money is not used for illegal and dangerous activities, as any accountable, elected government would be (a good lesson for Pakistanis to learn). The wording of the Act, even after the explanatory note, makes it more difficult to repeat past mistakes. Pakistan must now ensure that the US itself sticks to this commitment and vice versa – concerns based on past betrayals.

    The alternative to this ‘enhanced partnership’ is a continued one-dimensional (security-based) relationship with America at the expense of democratic institutions in Pakistan, and continued mediations by countries like Saudi Arabia with even more dangerous vested interests and agendas. Such agendas have directly contributed to a rise in religious extremism, sectarianism, and misogyny in Pakistan, and restrictions in how Pakistan deals with other (Muslim) countries.

    The Pakistan army’s protest proved to be a storm in a teacup as some had predicted, but the tantrum did get them more direct military aid prior to the ground offensive in South Waziristan. It also makes it more difficult for the civilian government to take any credit for restarting the economy and for creating a political consensus against the militants.

    The demonstration against ‘Kary Logar’ illustrated the irrationality and anti-Americanism that triggered the anti-Bill wave. Speakers accused America of using the Bill (President Obama had not yet signed it into an Act) to amend the ‘Blasphemy law’ –even though several Islamic scholars and jurists have recommended review and even repeal for the sake of justice and humanity, the essence of the Islam.

    Ideally, of course, Pakistan should not require aid. Hardly realistic after decades of dependence but still, a long term goal to aspire towards. Another goal to aspire towards is for the civilian government to control the army and not the other way around.

    Pakistan’s armed forces need to focus on the fight against the militants. Public sympathy is swinging in the army’s favour but it will take a lot more to weed out elements sympathetic to the Taliban/Al Qaeda from the ranks of those who were until recently handlers for their jihadi partners.

    The armed forces are also still struggling to regain credibility lost during the Musharraf years (hence Gen. Kayani’s stance after taking over as COAS, that no army person would meet politicians without due clearance). But old habits die hard, as evidenced by the politics played during the Sharif-led ‘long march’ and by the covert ‘midnight meeting’ of Shahbaz Sharif with the COAS, which hardly conformed with due process for such meetings laid out by the Defence Ministry.

    The daring attack and siege of the GHQ rallied opinion around the men in uniform. Confusingly, this includes religious right-wing parties linked to the very forces the army is pitted against (not so confusing when one remembers the generals who termed the Tehrik-e-Taliban Pakistan as true ‘patriots’ after they offered to fight India in the post-Mumbai attack fallout).

    These ‘patriots’ are now attacking targets everywhere, ‘hard’ or ‘soft’. Their ideological brethren in other organisations are mounting attacks in neighbouring countries – most recently, Iran and Afghanistan. Rather than be defensive and deny the complicity of Pakistan-based actors in such attacks, the government and army need to accept this possibility, plan preventive measures, and charge, try and punish those who are arrested. They need to be on the same page and work together for the direction Pakistan needs to move towards. This goes for pro-democracy elements in civil society too.

    Pakistan joined this war at someone else’s behest and with someone else’s money decades ago. But right now, the entire country is the battleground and entire population potential targets as underlined by the despicable attack on the Islamic University in Islamabad. We cannot win it with a half-hearted anti-‘jihadi’ stance that sees fit to use ‘good Taliban’ against ‘bad Taliban’ — and unless the ‘establishment’ (army-bureaucracy-intelligence agencies) removes its traditional anti-India blinkers.

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ ناز صاحبہ
    جس اخبار میں یہ مضمون چھپا ہے اس کا حوالہ ہی کافی تھا ۔ اسے یہاں لکھنے کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ مضمون بینا سرور صاحبہ کا اپنا خیال ہے ۔ اللہ کا فرمان نہیں کہ اسے بلا تحقیق قبول کر لیا جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے اللہ کے فرمان کو ماننے کے باوجود اس پر تحقیق کی اور پہلے سے زیادہ یقین کے ساتھ مانا
    یوں محسوس ہوتا ہے کہ بینا سرور صاحبہ کو پورے ملک کی کمان دے دی گئی ہے اور وہ تمام برائیوں کی جڑیں اکھاڑنے کے طریقے سمجھا رہی ہیں ۔ ان صاحبہ کی حکومتی معاملات مین تعلیم کیا ہے ؟ اوران کا عملی انتظامی تجربہ کتنا ہے ؟
    آپ صرف اسلئے خوش ہیں کہ انہوں نے جماعتِ اسلامی اور فوج کو ہدف بنایا ہے ۔ ایم کیو ایم تو فوج کے جرنیلوں نے ہی پیدا کی اور ایم کیو ایم نے ہر جرنیل کا ساتھ بھی دیا خاص کر پرویز مشرف کا ۔ اس واسطے سے آپ کا ایم کیو ایم کے متعلق کیا خیال ہے ؟

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نازیہ صاحبہ یا صاحب
    آپ کی دعا پر میں آمین ثم آمین کہتا ہوں ۔ پائے کے سیاسی رہنماؤں میں ایک نواز شریف ہی سے اُمید ہے لیکن وہ نجانے کیوں آگے نہیں بڑھ رہا ۔

  5. خرم

    افتخار انکل نوازشریف کے متعلق آپ کی خوش گمانی پڑھ کر انتہائی تعجب ہوا ہے اور افسوس بھی۔ آپ تو باتوں کو گہرائی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اس معاملہ میں سطحیت پر اکتفا کیوں؟

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    سطحیت اور کہرائی تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ مجھے کوئی خوش گمانی نہیں ہے ۔ جب بُوں میں ایء کم بُرا ہو تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے

  7. عنیقہ ناز

    اجمل صاھب، مشتاق احمد قریشی کا فرمانا بھی خدا کا فرمان نہیں۔ آپ نے ایک طبقے کے نظرئیے کو پیش کیا جو ابھی تک طالبان کی حمایت میں سرکرداں ہے اور میں نے دوسرے طبقے کا بیان بتا دیا، یہ بھی آپکے ہی ہم وطن ہیں اور اس طرح سوچنے کی قوت سے مالا مال ہیں جیسے آپ یا کوئ اور پاکستانی۔ یہ الگ بات کہ وہ، وہ نہیں سوچتے جو آپ سوچتے ہیں۔
    یہاں میں اس چیز کی وضاحت کر دوں کہ میرا ایم کیو ایم کے انتظامی معاملات، سیاسی ڈھانچے، انکے پی آر او سیکشن، یا اس سے ملتی جلتی کسی چیز سے تعلق نہیں۔ نہ ہی وہ مجھے کسی بھی قسم کی کوئ مالی امداد دیتے ہیں اور نہ ہی میرے اگلے انتخابات میں انکی طرف سے کھڑا ہونے کا ارادہ ہے۔ آپ وقت کے ایک لمحے میں پھنس گئے ہیں جبکہ موجودہ معاملات جو ملک کے اسوقت ہیں ان سے ایم کیو ایم کا کوئ تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اسکے ذمے دار ہیں۔ اسکے ذمہ داروں میں نواز شریف بھی اتنے ہی شامل ہیں جتنے کہ مشرف۔ صرف اس لئے کہ ایک شراب پیتا اور دوسرا شاید نہیں۔ آپ نہ پینے والے کی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، نہ اسکی کو تاہ اندیشی کو اورنہ حد سے بڑھی ہوئ خود غرضی کو، اور نہ ہر قیمت پر اقتدار کے حصول کو۔
    یہاں اس وقت ہر شخص محض دعا کر رہا ہے کہ ملکی حالات درست ہو جائیں، لیکن کوئ بھی اپنے یوٹوپیا سے نکلنے کو تیار نہیں۔ خاص طور پر وہ طبقہ جو اپنے آپ کو مذہب کا نجات دہندہ سمجھتا ہے اور اپنے تئیں سمجھتا ہے کہ وہ مذہبی امور پہ زیادہ عمل پیرا اوراسکا خیال رکھنے والا ہے۔ میرے علم میں ایسا کوئ تاریخی واقعہ نہیں جس میں جنگ محض دعاءووں سے جیتی گئ۔
    فتنے کو اسکے ختم ہونے تک ہمیں اسکے خلاف جنگ کرنی پڑے گی اور یہی اسکا اختتام ہونا چاہئیے، اسی میں پاکستان کی بقاء ہے اور ہماری پر وقار زندگی۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ ناز صاحبہ
    کیا آپ اپنے خودساختہ خول سے باہر نکل آئی ہیں جو دوسروں کو ہدائت دے رہی ہیں ؟ ہمارے ملک میں جو موجودہ بگاڑ ہے اس کے ذمہ دار موجودہ اور گذشتہ حکمرانوں کی اکثریت اور ان کو ووٹ دے کر کھُلی چھُٹی دینے والے ہیں جن میں آپ بھی شریک ہیں ۔ آپ نے ایک خاص گروہ کو نشانہ بنایا ہے مگر اس کے محرکات سے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں ۔ مزید ہر اُس شخص کو مختلف ناگوار خطابات سے نوازتی جا رہی ہیں جو دونوں طرف کی بات سننے کے اصول پر کاربند ہے ۔ آج آپ نے ایم کیو ایم کے راہنماؤں سے قطع تعلق کا ذکر کر دیا ہے جب کہ میں نے ان میں سے کسی کے خلاف حقیقت جب لکھی تھی تو آپ نے شور مچا دیا تھا ۔ آپ کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ مشتاق احمد قریشی صاحب طالبان کے حامی نہیں ہیں اور نہ اخبار جنگ جس میں یہ مضمون شائع ہوا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر کہ آپ کو ہر جگہ اور ہر مضمون مین طالبان کے حمئتی نظر آ جاتے ہیں ۔ متذکرہ مضمون میں مشتاق احمد قریشی صاحب نے طالبان کی حمائت میں نہیں لکھا بلکہ ملک کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے بتانے کی کوشش کی ہے دہشتگردی کے اصل محرکات کو تلاش کیا جائے ۔ فتنہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور لٹھ لے کر جو سامنے آئے اس کا سر پھوڑ دیا جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.