ماضی اور حال – رویں کسے ؟

“آپ بھی حیران ہوں گے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کیونکہ میں اس طرح کے کالم نہیں لکھا کرتا لیکن کیا کروں میرا دل کہتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے افق پر شرابی، زانی اور راشی ڈکیت حکمرانوں کے کارناموں کی نحوست چھاچکی ہے اور جب تک یہ نخوست چھائی رہے گی پاکستان سے غربت ختم ہوسکتی ہے نہ پاکستان مسائل کے چنگل سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے”۔ لکھتے ہیں معروف محقق مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود

ماضی
“خبر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی نئی بات ہو اور جس میں کوئی انکشاف ہو، باقی خبریں محض معمول اور روٹین کی ہوتی ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی خبر نہیں تھی جو لندن کے ایک اخبار کے حوالے سے کئی پاکستانی اخبارات میں چھپی جس کے مطابق تین روز پہلے ہما رے سابق صدر اورمسلم لیگ (ق) کے بانی جنرل پرویز مشرف لندن کے ایک پوش علاقے کنزنگٹن کے ایک مہنگے چینی ریسٹورنٹ میں رمضان مبارک کے آخری عشرے کا ”احترام“ کرتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتے پائے گئے۔اس خبر کے مطابق مہنگے کھانے کو حلق سے ا تارنے کے لئے مہنگی شراب بھی موجود تھی۔ ہوسکتا ہے کہ میرے بہت سے سادہ لوح پاکستانی دوستوں کو یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی ہو حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ پرویز مشرف بنیادی طور پر سیکولر اور ترقی پسند واقع ہوئے ہیں۔ مذہبی اصولوں اور دینی پابندیوں کو پامال کرنا اور ہر اس شے سے لطف اندوز ہونا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے ان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔

پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ اکثر اپنے سیّد ہونے پر فخر کرتے تھے اور عوامی جلسوں میں سینہ تان کر کہا کرتے تھے کہ مجھے دوبار خانہ کعبہ کے اندر جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میں نے اتنے عمرے اور حج کئے ہیں لیکن اس راز سے سبھی واقف تھے کہ جنرل صاحب ناؤ نوش کے رسیا اور شوقیہ جواء کھیلنے کے عادی تھے۔ خواتین سے عشق اور آنکھ مچولی ان کی فطرت ہے جس کا انہوں نے چسکے لے لے کر اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کے جاننے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ انکشاف اصل کا عشر عشیربھی نہیں۔

یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو ا پنے مدہوش جام میں ڈبو دیا جبکہ پرویز مشرف نے لال مسجد کے معصوموں کا خون اور اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان اور پاکستان کے امن کو اپنے اس رنگین پیالے میں غرق کر دیا جسے وہ سر پر رکھ کر دوستوں کی محفل میں ڈانس کیا کرتے تھے۔ [ايک بسنت پر لاہور میں بھارتی اداکارہ کے ساتھ بھی] ۔ ان کے دوستوں اور دست و بازو کی فہرست میں احمدیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے دور میں ان کے احمدی دوستوں نے نہ ہی صرف اپنے فرقے کو نوازا بلکہ نہایت کاریگری سے دولت بھی بنائی جسے بیرون ملک بھجوادیا گیا۔فلاش، شراب اور عورت کے رسیا پرویز مشرف ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہے۔آج اسی لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے پرویز مشرف اور ان کے دوست اندرون و بیرون ملک شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ورنہ حلال کی آمدنی سے تو ریٹائرڈ سرکاری ملازم چند روز بھی لندن کے ہوٹلوں کی مار نہیں کھا سکتا۔ لیکچروں کی بڑھا چڑھا کر آمدنی کا ذکر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب حکمرانوں نے ایسے شخص کو کلین چٹ دے دی ہے اور اس کے قومی جرائم پر مقدمہ چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان پر سنگین غداری کا مقدمہ نہ چلا کر غلطی کی اور پٹاری سے ضیاء الحق نکل آیا۔ ایسی ہی غلطی کا ارتکاب بھٹو صاحب کے جانشین کررہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور پٹاری سے پھر کیا کچھ نہ نکلے گا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب31دسمبر1999ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو ساری دنیا میں نیو میلنیم یعنی نئی صدی کے آغاز کا بہت شور و غوغا تھا۔مغربی ممالک نئی صدی کے استقبال کے لئے وسیع پیمانے پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ اتفاق سے دسمبر کے آخر سے لے کر جنوری تک رمضان کا مہینہ تھا تین چار جنوری2000ء کو ایک اہم شخص مجھے ملنے آیا تو گفتگو کرتے کرتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس نے بتایا کہ جنرل صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ نیو میلینیم کے استقبال کے لئے مری کے فلاں میس میں سحری تک خوب پی اور خوب ہنگامہ برپا کیا۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ وہ ہنگامہ کیا ہوگا۔چند ماہ بعد ایک غیر معروف ملک کے سفیر نے مجھے کھانے پر بتایا کہ تمہارے صدر صاحب سے فلاں مشترکہ دوست کے گھر ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔ وہ ہر بار ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں کہ میں نارمل انسان ہوں۔ان کے نزدیک نماز روزے اور اسلامی اصولوں کے پابند لوگ ابنارمل ہیں۔12اکتوبر کو جب پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو لاہور کا ایک دولت مند اسمگلر لندن بھاگ گیا اسے ڈر تھا کہ نئی حکومت اسے دھر لے گی ۔چھ ماہ بعد وہ واپس آیا تو اس کی اکڑ میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک دن اس نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے جماعت احمدیہ لندن سے پرویز مشرف کے ایک قریبی دوست کو فون کروایا تھا جن کے تسلی دینے پر وہ واپس لوٹ آیا ہے اور اب اسے کوئی خطرہ نہیں”۔

حال
لکھتے ہیں حامد میر
“رمضان المبارک میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افطار عشائیوں کی بھرمار کئے رکھی۔ اگر وہ صرف ایک دن چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی و صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے عہدیداروں کو افطار عشایئے پر مدعو کر لیتے اور ان سے گزارش کرتے کہ ملک میں ایک عید منانی چاہئے تو قوم کو ایک عید کا تحفہ آسانی سے مل سکتا تھا۔ بہرحال صدر اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کر کے ہمارا کم اور اپنا نقصان زیادہ کیا ہے۔ اب کئی دن تک دو عیدوں کی وجہ سے حکومت کو کوسا جائیگا اور حسب معمول زیادہ تنقید آصف علی زرداری پر کی جائے گی کیونکہ وہ اپنی عید پاکستان میں نہیں بلکہ امریکا میں منا رہے ہیں۔ امریکا سے ان کی وطن واپسی سے پہلے ہی ان کے متعلق کئی کہانیاں وطن پہنچ چکی ہوں گی۔

پچھلے دنوں ایک ملاقات میں ایسی ہی کہانیوں کے بارے میں ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے مالک صدرالدین ہاشوانی کے حوالے سے یہ کہانی گردش کر رہی ہے کہ آپ اس کا ہوٹل زبردستی خریدنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہاشوانی کا فون نمبر موجود ہے؟ میں نے انہیں نمبر فراہم کر دیا۔ زرداری صاحب نے یہ نمبر اپنے ملٹری سیکرٹری کو دیا اور کہا کہ ہاشوانی سے بات کراؤ۔ نمبر مل گیا تو پہلے زرداری صاحب نے خود ہاشوانی کے ساتھ سندھی زبان میں گفتگو کی اور پھر فون مجھے پکڑا کر اسپیکر آن کر دیا۔ اب وہاں موجود سب افراد ہاشوانی صاحب کی گفتگو سن سکتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ آصف علی زرداری کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں؟ ہاشوانی نے پریشان لہجے میں کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کئی لوگوں کو کہا ہے کہ زرداری مجھ سے میرا فائیو سٹار ہوٹل چھیننا چاہتا ہے اور اسی لئے میں بھاگ کر دبئی آ گیا ہوں۔ ہاشوانی نے اپنے اس مبینہ بیان کی تردید کر دی۔ میں نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی بھی دبئی میں کی اور پاکستان نہیں آئے؟

اس سے پہلے کہ ہاشوانی جواب دیتے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ملٹری سیکرٹری کو اشارہ کیا کہ فون بند کر دیا جائے لہٰذا فون بند کر دیا گیا۔ میں نے زرداری صاحب سے کہا کہ ہاشوانی نے آپ کے سامنے تو تردید کر دی ہے لیکن ایک اور بزنس مین علی محمود اسی قسم کے الزام کے تحت آپ کے خلاف عدالت میں جا رہا ہے۔

صدر پاکستان نے اس شخص کو فراڈ قرار دے کر بات گول کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص واقعی فراڈ ہو لیکن جس ملک میں دو عیدیں منائی جائیں اس ملک کے عوام اپنی حکومت کو زیادہ بڑا فراڈ سمجھتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت میں شامل ایک خاتون وزیر ٹیلی ویژن پر کسی کو طوائف کہہ دے تو اس حکومت کو مذاق نہیں تو کیا سمجھا جائے؟ خاتون وزیر نے جن موصوفہ کو ٹیلی ویژن پر طوائف کہا ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم سے کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کی اس خاتون ایم این اے کو وفاقی وزیر تجارت بنا دیا جائے۔ وزیراعظم نے چپکے سے یہ بات مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو بتا دی اور انہوں نے موصوفہ کو پارٹی سے نکال دیا۔

خاتون وزیر کو چاہئے کہ وہ پتہ لگائیں کہ جسے وہ طوائف قرار دیتی ہیں اسے وزیر تجارت بنانے کی سفارش کس نے کی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر بھی حکومت تقسیم ہو چکی ہے۔ جس ملک کی حکومت ہر اہم معاملے پر قوم کو تقسیم کر دے اور چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود بھی تقسیم ہو جائے اس حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اسے حکومت میں رہنے کا حق ہے یا نہیں؟

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

21 thoughts on “ماضی اور حال – رویں کسے ؟

  1. سعدیہ سحر

    ھم ماضی کو کل بھی روتے تھے
    ھم حال کو آج رو رھے ھیں
    اور جو حالات ھیں مجھے لگتا ھے مستقبل میں بھی
    آنسو ھی ھیں

  2. یاسر عمران مرزا

    واقعی قوم کو تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں میڈیا بھی بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہر ٹی وی چینل پر ایک بدتمیز سے میزبان دو تین سیاستدانوں کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور بک بک شروع ہو جاتی ہے۔ جیسے پاکستانی عوام ہیں ویسے ہی ان کےلیڈران ہیں، ویسی ہی فوج اور ویسے ہی مولوی حضرات، اس قوم کا کیا بننا ہے

  3. ریحان

    درست جمہوریت کی ایک بات سے میرا دل بہت خوش ہوتا ہے اور جو ہے بھی ٹھیک

    آرمی ۔۔ کو سولین کو سلوٹ کرنا ہوتا ہے ۔

    سولین جو آرمی کو پالتا ہے ۔۔ نا کہ آرمی جو سولین پالتی ہو ۔۔۔ ( پالنا ) یہ لفظ کافی عجب لگ رہا ہوگا ۔۔ مگر درست ہے ۔

  4. اسماء پيرس

    باتي تو حال اور ماضي دونوں والي ٹھيک ہے بلکہ مستقبل کا بھي يہي حال ہو گا بس نام بدل جائے گا کرنے والے کا، يہ سب اس ان پڑھ طبقے کا تحفہ ہے جو ان کو ووٹيں دے کر منتخب کرتے ہيں دو دو سو ميں مگر کريں بھی تو کيا کريں کوئی اچھی چوائس بھی تو نہيں ہے

  5. DuFFeR - ڈفر

    معاف کیجئے گا لیکن “کسے روئیں” سے یاد آیا
    میرے نانا ایک بات کہا کرتے تھے ہمیں کوئی بھی غلط کام کرنے اور سزا بھگتنے کے بعد
    “اپنے جندوں کو رو اب بیٹھ کے”

  6. راشد کامران

    اجمل صاحب نا معلوم کیوں آج کل آپ معروضی باتوں کو چھوڑ‌ کر افسانوی کالموں کو اپنے بلاگ پر جگہ دینے لگے ہیں ۔۔ اب اسی کو دیکھیے کہ صفدر محمود صاحب لکھتے ہیں “ایک اہم شخص” تو آخر کو اہم شخص کا نام بھی تو ہوگا کیا نام عوام کو کرنٹ مار دے گا یا “ایک غیر معروف ملک کے سفیر” کیا دنیا میں ہمارے لیے “غیر معروف ملک” کا کوئی نام ہوتا ہے یا نہیں؟ دوسری طرف حامد میر صاحب نے دو عیدوں کی ذمہ داری بھی زرداری اور وزیر اعظم پر ڈال دی بجائے اس کے کہ صوبہ سرحد کی سیاسی قیادت کی بدتمیزی کو اجاگر کیا جائے جو پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کے ساتھ تو عید منانے سے بدک رہی ہے لیکن اپنے سے کوسوں دور سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا نا معلوم کیا فارمولا ہے۔ دونوں کالموں میں صرف یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے ہمارے شب و روز صدور، سفیر، ایک اہم شخص اور ایک غیر معروف ملک کے سفیروں‌ کے ساتھ ظہرانے اور عشائیے اڑانے میں صرف ہوتےہیں۔۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اسماء صاحبہ
    تبصرہ کا شکریہ ۔ بات آپ نے درست کہی ہے ۔ میں معمولی سی ترمیم کرنا چاہوں گا ۔ اَن پڑھ تو اُن پڑھ رہے بہت سے پڑھے لکھے بھی ذاتیات کی بناء پر ووٹ دیتے ہیں

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    جب مین قومی اہمیت کی بات لکھتا ہوں تو قارئین میرے بلاگ کو تج دیتے ہیں جنانچہ اچھی باتوں کی طرف لانے کیلئے مجھے عام فہم باتیں لکھنا پڑھتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں صوبائی خودمختاری نام کو بھی نہیں ہے اور موجودہ دور میں ہر فیصلہ صدر کی آشيرباد سے ہو رہا ہے تو پھر ایک صوبائی حکومت جسے روئتِ ہلال کا اختیار ہی نہیں کیسے عید کا اعلان کر سکتی ہے جب جغرافیائی لحاظ سے ہلال نظر آنا ممکن ہی نہ تھا ؟

  9. محمد ریاض شاہد

    مھترم بھوپال صاحب
    السلام و علیکم
    میری حقیر راے میں پاکستان میں ایک ہی بحران رہا ہے اور وہ ہے قیادت کا بحران – میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر الیکشن میں وہی چہرے کیوں سامنے آتے ہیں۔ اگر لوگ تہیہ کر لیں کہ اگلی دفعہ صحیح لوگوں کو منتخب کریں گے آخر اصلاح کیوں ممکن نہیں۔ مگر لوگ چند حقیر سکوں یا معاشرتی دباو پر ووٹ جسے بیعت بھی کہ سکتے ہیں غلط آدمی کو ڈال دیتے ہیں تا ان کا آج محفوظ رہے۔

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ریاض شاہد صاحب
    آپ نے درست اشارہ دیا ہے ۔ میں اسی یوں کہوں گا کہ لوگ اللہ کی بجائے غير اللہ سے ڈرتے ہیں اور توقعات رکھتے ہیں ۔ اور اللہ نے فیصلہ دے دیا ہوا ہے جو میرے اس بلاگ کے بائیں حاشیہ میں نقل ہے کہ “اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے” ۔ سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔

  11. لتف الا سلام

    جناب احمدیوں کو ہر جگہ زبردستی گھسیٹ کر لے آنا کہاں کا انصاف ہے۔ جماعت احمدیہ ایک خالص دینی جماعت ہے۔ مشرف صاحب چونکہ ملانوں کے اچھے دوست ثابت نہیں ہوے اس لیے رجعت پسند عناصر ان کو کبھی احمدی اور کبھی قادیانی نواز قرار دے کر عوام میں ان کا تاثر خراب کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں- در اصل لبرل طبقہ ملک کے احمدی مخالف قوانین کی وجہ سے اتنا شرمندہ ہے کہ وہ ان کے حق میں بات کرتے ہوے ہچکچاتا ہے اور یہ ہچکچاہٹ ہی ملاں کے لیے بہانہ ہے۔ ھمارے ملا حضرات کو تبھی سکون مل سکتا ہے جب احمدیوں پر ایک عام فتویٰ قتل جاری کیا جاے گا۔

    اگر کسی احمدی پر حرام کمانے اور اکٹھا کرنا ثابت ہو جاے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ جماعت میں شامل رہ سکے۔ یہ بات ہمارے حلف میں شامل ہے کہ ہر احمدی ملک اور قوم کا وفادار رہے گا۔

    اس طرح کی بد دیانتیاں اور دینی اور دنیوی خیانتیں ملانوں کا شیوہ ہیں۔ پورا ملک ان کے اور ان کے چیلوں کے ہاتھ یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہر دوسرے دن معصوم عوام کو جہاد کے نام پر قتل کیا جا رہا ھے۔ پاکستانی افواج حالت جنگ میں ہیں۔ احمدی فوجی افسران بھی اس جہاد میں شریک ہیں۔ ایک احمدی افسر شہید بھی ہوا۔ اس سے قبل بھی ہر جنگ میں احمدیوں نے ملک کی خاطر اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ اور یہ ملاں اپنے فتنوں سے اب بھی باز نہیں آتے- خدا ان کے شر سے ملک کو محفوظ رکھے۔

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لتف الاسلام صاحب
    تشریف آوری کا شکریہ
    اس موضوع [احمدی یا مرزائی] کو کم از کم میرے بلاگ پر نہ چھیڑیں تو آپ اور باقی آپ کے ہمخیالوں کیلئے بہتر ہے ۔
    آپ جانتے ہوں گے “گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے” کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔
    وہ سات جنرل ۔ پانچ بری فوج کے اور دو ہوائی فوج کے بھی احمدیہ ہی تھے جنہوں نے 12 دسمبر 1971ء کو جنرل آغا محمد یحیٰ خان کو قید کر لیا تھا جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان جاتا رہا ۔ اور بھی بہت سے کارنامے مرزائیوں کی حبِ وطنی کے میرے علم میں ہیں ۔
    دینی خدمت کا بھی ایک واقعہ سُن لیجئے ۔ ڈاکتر عبدالسلام اسرائیل میں اسرائیل کی ہائی کمان سے شاید دینی تعلیم ہی حاصل کرنے جایا کرتے تھے

  13. لطف الاسلام

    جناب اگر آپ کے بلاگ پر احمدیوں پر الزام لگاے جایں گے تو ان کا جواب سننے کا تحمل بھی ہونا چاہیے-

    ذرہ ان سات جرنیلوں کے نام تو بتا یں؟

    جہاں تک میری اطلاع ہے، جنرل اختر ملک، عبدالعلی ملک تو 65 کی جنگ میں ملک بچانے میں مصروف تھے۔ جنرل افتخار جنجوعہ 71 میں کشمیر کے محاذ پر شہید ہوے- یہ اس وقت تک جدید جنگوں میں واحد جنرل تھے جو محاذ پر شہید ہوے۔ جی ایچ کیو افتخار جنجوعہ روڈ پر واقع ہے-

    جنرل اختر ملک کو یحییٰ خان نے کھڈے لاین لگا کر ترکی بھیج دیا تھا، جھان ایک کار حادثے میں ان کی وفات ہوی- عبدلعلی ملک 71 میں سیالکوٹ محاذ پر تھے۔

    پروفیسر عبدالسلام نے اپنی عمر کا اکثر حصہ امپیرییل کالج لندن اور ٹرسٹے سنتر اٹلی میں علم کے فروغ میں صرف کیا۔ آپ کو کس نے بتا یا کہ اسرایلیوں میں اتنا ظرف تھا کہ وہ سلام جیسے عظیم مسلمان کو “دینی” تّعلیم دے سکتے تھے؟

  14. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    میں نے آپ کو بحث کرنے سے منع کیا تھا مگر آپ رُک نہیں پائے ۔ میرے بلاگ پر کسی نے نہیں لکھا ۔ میں نے کسی کی تحاریر جو اخبار میں شائع ہوئیں نقل کی تھیں کسی اور حوالے سے ۔ صحافی نے اس مین بطور مشیران پرویز مشرف مرزائیوں کا ذکر کیا تھا ۔
    آپ نے عبدالعلی ملک کا ذکر کیا ہے ۔ یہ صاحب چونڈہ میں بریگیڈ کمانڈ کر رہے تھے ۔ جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو عبدالعلی ملک نے کمپنی کمانڈر کو بُلا کر کہا کہ پسپائی اختیار کرو ۔ اس مردِ مومن نے پسپائی اختیار کرنا گناہ سمجھا ۔ یہ وہی کمپنی کمانڈر ہے جس کی رجمنٹ نے بھارتی ٹینکوں کا مقابلہ کیا اور بھاتی فوج کے دانٹ کھٹے کر دیئے تھے ۔ ان دنوں کور کمانڈر سیالکوٹ جس کا نام شاید ابراھیم تھا وہ بھی مرزائی تھا ۔ اس کمپنی کمانڈر کی بہادری اور حُب الوطنی کا سہرا بریگیڈ کمانڈر عبدالعلی ملک اور کور کمانڈر ابراھیم کے سروں پر باندھا گیا اور اس کمپنی کمانڈر کا جو کہ اصل ہیرو تھا عبدالعلی کی حُکم عدولی کے نتیجہ میں کورٹ مارشل ہوا
    آپ اُسی اختر ملک کی بار کر رہے ہیں نا کہ بادشاہ بنانے کے نتیجہ میں جسے ذوالفقار علی بھٹو نے ترکی میں سفیر مقرر کیا تھا اور زیادہ پی کر گاڑی چلاتے ہوئے حادثہ میں ہلاک ہوا تھا ۔ کیا شراب پینا آپ کے مذہب میں جائز ہے ؟
    اختر ملک اور عبدالعلی ملک ان پانچ جرنیلوں میں شامل تھے جن کا میں نے ذکر کیا ۔ رہا افتخار جنجوعہ تو شہید یا محبِ وطن اُسے کہتے ہیں جو دُشمن سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو بھاگتے ہوئے جو مارا جائے اُسے بھگوڑا کہتے ہیں ۔

    ڈاکٹر عبدالسلام اسرائیلی میں اسرائیلی ہائی کمان کے دفاتر میں کیا دودھ سپلائی کرتا تھا ؟ وہ وہاں کیوں جاتا تھا جبکہ کوئی پاکستانی اسرائیل نہیں جا سکتا

  15. لطف الا سلام

    بھوپالی صاحب۔ مستند تاریخی حوالوں سے بات کریں۔ ھماری جماعت جس اسلام پر عمل پیرا ہے اس میں شراب حرام ہے لیکن کار حادثے میں موت واقع ہو جاے تو کسی پر بلا تحقیق تھمت لگانا بھی حرام ہے۔ آپ کے اسلام میں غالبا دونوں کی اجازت ہے۔

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    آپ کس چیز کا مستند تاریخی حوالہ مانگ رہے ہیں ؟ میں آپ کے مذہب اور آپ کے ہم مذہبوں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں مگر سب لکھنا پسند نہیں کرتا ۔ اور یہ کار کا حادثہ کہاں سے آ ٹپکا ؟
    جو کچھ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اور حامد میر نے لکھا ہے کیا آپ اسے تہمت کہتے ہیں ؟ یا جنرل پرویز مشرف مرزائی تھا یا جنرل یحیٰ خان یا دونوں ؟
    اسلام میرا نہیں اللہ کا دین ہے ۔ اس پر درست طریقہ سے جو کاربند ہو گا وہ مسلم ہے اور جو اس میں اختراع نکالے گا وہ غیرمسلم یا منافق یا مشرک ہو گا ۔

  17. لطف الا سلام

    “آپ اُسی اختر ملک کی بار کر رہے ہیں نا کہ بادشاہ بنانے کے نتیجہ میں جسے ذوالفقار علی بھٹو نے ترکی میں سفیر مقرر کیا تھا اور زیادہ پی کر گاڑی چلاتے ہوئے حادثہ میں ہلاک ہوا تھا ۔ کیا شراب پینا آپ کے مذہب میں جائز ہے ؟” (بھوپال صاحب)

    اس کار حادثے کی بات کر رہا تھا۔

    جو اسلام آپ کا دین ہے وہ نہ اللہ کا دین ہے نہ ہی اس کے رسول (ص) کا دین ہے۔ یہ اسلام ملانوں کی تخریب ہے۔ مودودی اور قطب کی ایجاد ہے۔ طالبان کا وہم ہے اور قبر پرستوں کا شغل ہے۔ اصل اسلام امام مہدی (ع) کی جماعت کے پاس ہے۔ قران اور سنت پر مبنی اسلام جو وحئ الٰہی سے امت کو دوبارہ سکھایا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.