Monthly Archives: August 2009

ذہانت اور وکالاتِ ذہانت

ذہانت ایسی خُو ہے جس کا بنیادی مادّہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کے دماغ میں رکھا ہے البتہ ذہانت کی نشو و نما کیلئے اس کا درُست متواتر استعمال ضروری ہے ورنہ اِسے زنگ لگ جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے سے بھی ذہانت کا استعمال کم ہو جاتا ہے ۔ زنگ لگ جانے کی صورت میں معمولی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ دورِ حاضر میں جس طرح عام آدمی [common man] میں عمومی سُوجھ بُوجھ [common sense] کم ہی ملتی ہے اسی طرح وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے اہلکار ذہانت کا استعمال کم ہی کرتے ہیں ۔ عام آدمی محدود وسائل اور فکرِ معاش میں مبتلا ہونے کے باعث کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتا لیکن وکالاتِ ذہانت کے ارکان ذرائع اور اختیارات کی فراوانی کی وجہ سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ عقلِ کُل ہیں ۔ ایسا رویّہ اُن کی ذہانت پر بُری طرح اثرانداز ہوتا ہے ۔ فرسودہ نظامِ تفتیش رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے

غُوغا تو جدیدیت کا بہت ہے لیکن تفتیش کیلئے فی زمانہ بھی ہزاروں سال پرانے طریقے ہی استعمال کئے جاتے ہیں صرف اوزار جدید ہیں جو نفسیاتی اثر رکھنے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے زیادہ تشدد کا سبب بنتے ہیں اور زیرِ تفتیش شخص کا ذہنی توازن مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ گونٹاناموبے میں امریکی جیل میں مُلزمان سے کیا جانے والا سلوک اس کی ایک ادنٰی سی مثال ہے

دورِ حاضر میں تفتیش کا طریقہ جو قدیم زمانہ میں نہ تھا یہ ہے کہ وکالات ذہانت کے اہلکار اپنی مرضی کے چُنے ہوئے شواہد پر ایک کہانی مرتّب کرتے ہیں اور اس میں مفروضہ مُلزِم یا مُلزِموں کو کردار عطا کرتے ہیں ۔ اس کہانی کا ہیرو گرفتار شدہ یا نامزد ملزم ہوتا ہے ۔ اگر گرفتار ملزم تفتیش کاروں کی پٹڑی پر چڑھ جائے تو اُسے وِلیئن [villain] کا کردار بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اسے مناسب معاوضہ دے کر کسی اور تک پہنچا جاتا ہے

طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ گرفتار ملزم کو تیار شدہ کہانی سنائی جاتی ہے ۔ اگر وہ اقرار نہ کرے تو اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے ۔ جب ملزم نڈھال ہو جائے تو اسے پھر اُسی کہانی کا کردار بننے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ عمل ہر بار پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دُہرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت کے طریقے بدل بدل کر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اگر ملزم کی کوئی دُکھتی رگ تفتیش کاروں کے عِلم میں آجائے تو وہ ملزم سے سب کچھ منوا لیتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک پچاس پچپن سالہ عزّت دار مرد کو کہا جائے کہ “اگر تم تعاون نہیں کرو گے تو تمہاری جوان بیٹی کو ہم یہاں لے آئیں گے ۔ اُس کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے اور تفتیش کریں گے “۔ تو وہ شخص تمام ناکردہ جرائم اپنے سر لینے کے لئے تیار ہو جائے گا تاکہ اس کی بیٹی اُسے ننگا ديکھنے اور تفتیش کی اذیت سے بچ جائے

جدید آلات کا استعمال اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ پہلے مفروضہ مُلزمان کے بیانات ریکارڈ کر لئے جاتے ہیں ۔ تفتش کاروں کے پاس اُجرتی آواز نقل کرنے والا شخص ہوتا ہے ۔ وہ نقال ٹیپ سُن سُن کر آواز کی نقل کی مشق کر لیتا ہے ۔ پھر اُسے ایک خود ساختہ بیان لکھ کر دیا جاتا ہے جو نقال اُس آواز میں پڑھ دیتا ہے اور اُسے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے ۔ اس بیان میں مفروضہ ملزمان میں سے ایک کا اقبالِ جُرم ہوتا ہے ۔ اس مصنوعی بیان کی ٹیپ پھر دوسرے ملزمان کے سامنے چلا کر اُنہیں جُرم قبول کرنے کیلئے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور جُرم قبول نہ کرنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت بھی دی جاتی ہے ۔ اس طرح بھی گرفتار آدمی ناکردہ جُرم اپنے سر پر لینے پر مجبور ہو جاتا ہے

مندرجہ بالا سطور میں جو سادہ سا خاکہ پیش کیا گیا ہے حقائق اس سے بہت زیادہ بھیانک ہیں ۔ یہ طریقے صرف وطنِ عزیز یا بھارت میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں بھی زیرِ استعمال ہیں ۔ چنانچہ وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے گرفتار کئے ہوئے کسی شخص کا بیان درست ہے یا غلط یہ وہ خود جانتا ہے یا پھر اللہ جانتا ہے

ہمارے متعلقہ مُلکی ادارے کیا تھے ۔ اب کیا ہیں اور کیا ہونا چاہیئے اس کیلئے میری اگلی تحریر اِن شاء اللہ جلد

ہر اچھی چیز کا قاتل دور

میرے بچپن کی یادوں میں ذرائع ابلاغ کے کھاتے میں دو چیزوں سے میرا جذباتی لگاؤ رہا ۔ وہ ہیں

اخبار ۔ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ۔ جو میں نے ساتویں جماعت میں پڑھنا شروع کیا اور سات آٹھ سال بعد اس کی اشاعت بند ہونے تک پڑھتا رہا ۔ اس میں چھپنے والی قسط در قسط ریاست جموں کشمیر کے متعلق اقوامِ متحدہ کی کاروائی کے تراشے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں

رسالہ ۔ ریڈرز ڈائجسٹ جو میں نے آٹھویں جماعت میں پہنچتے ہی سالانہ بنیاد پر لینا شروع کیا اور 40 سال متواتر خریدتا اور پڑھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے ان دونوں نے مجھے انگریزی سمجھنے اور لکھنے کی استطاعت عطا کی ۔ ان دونوں کے عمدہ انگریزی میں لکھے مضامین کے علاوہ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ کے معمے [Crossword puzzles] اور ریڈرز ڈائجسٹ کا اپنی لفظی استعداد بڑھاؤ [Increase your word power] ۔ ان دونوں ذرائع نے مجھے وہ گُر بخشا کہ میرے سکول و کالج کے اساتذہ کے بعد میرے افسران بھی میرے انگریزی میں لکھے مضامین کے معترف رہے

آج صبح سویرے جب میں نے پڑھا کہ ریڈرز ڈائجسٹ شائع کرنے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا ہے تو کچھ دیر کیلئے میں سکتے میں آ گیا ۔ زبان تو نہیں مگر میرا دِل گریہ کرنے لگا ۔ ثابت ہوا کہ دورِ حاضر میں کوئی اچھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی

خبر
دنیا بھر میں ڈاکٹروں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں میں یکساں مقبول اور عوامی انتظار گاہوں کی میزوں کی زینت ”ریڈرز ڈائجسٹ“ کی ایسوسی ایشن نے 90سال کے بعد گزشتہ روز عمداً دیوالیہ ہونے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے ،مذکورہ ایسوسی ایشن ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں رونما ہونے والے مالیاتی بحران کا حال ہی میں شکار ہوئی ہے ،ادارے کے حصص کی خریداری میں اہم سرمایہ کاری کرنے والی فرم” رپل وڈ ہولڈنگز“ جس نے 2006ء میں 2.4 بلین ڈالر کے متوقع منافع کا اعلان کر رکھا تھا کی 600ملین ڈالر کی تمام سرمایہ کاری مکمل طور پر ڈوب جائے گی ،ریڈرز ڈائجسٹ کا آغاز نیو یارک میں ایک بیوی اور شوہر نے 1921ء میں ایک کمرے سے کیا تھا ،اس وقت ڈائجسٹ کی ایسوسی ایشن کے 94 میگزینز میں سے 9 کی صرف امریکا میں ایک ملین سے زیادہ سرکولیشن ہے ، اس کے علاوہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے 78 ممالک میں130ملین افراد اس کے مستقل پڑھنے والے ہیں،گروپ کے انفارمیشن بیورو کے مطابق ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں معاشی بحران کے علاوہ لوگوں کے مطالعہ کرنے کی عادات اور رجحان میں تبدیلی کے باعث گزشتہ سال ادارے کے محاصل میں 18.4 فیصد کی ریکارڈ کمی ہوئی جبکہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران آمدنی کی اس کمی میں 7.2فیصد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

کیا اس کے ذمہ دار طالبان ہیں ؟

امریکا ہمیشہ پاکستان بالخصوص طالبان کو منشیات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔ حقائق ہمیشہ امریکا اور اس کے حواریوں کو جھٹا ثابت کرتے ہیں لیکن نامعلوم کیوں دنیا کی اکثریت امریکی جھوٹ کو سچا سمجھتی ہے

امریکی سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ہر10 میں سے 9 امریکی بنک نوٹ کوکین [Cocaine ] کے ذرات سے آلودہ پائے گئے ہیں ۔ تحقیق کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے کئے گئے لوگوں کے تجزیہ سے پتہ چلا کہ وہاں 95 فیصد نوٹوں پر کوکین کے ذرات تھے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوٹوں پر کوکین کے ذرات منشیات کی آمدنی کے تبادلے اور کاروبار کے علاوہ آلودہ نوٹوں کے مشینوں کے اندر گنتی کی وجہ سے بھی پھیلتے ہیں

اس تحقیق کے دوران امریکہ کے علاوہ کینیڈا ۔ برازیل ۔ چین اور جاپان کے نوٹوں کا بھی تجزیہ کیاگیا ۔ امریکی اور کینیڈین نوٹوں پر کوکین کے ذرات کا تناسب 85 سے90 فیصد کے درمیان تھا جبکہ سب سے کم آلودہ جاپان اور چین کے نوٹ تھے ۔

ریسرچ ڈائریکٹر یونیورسٹی آف میسا چوسٹس سے ڈاکٹر یوگنگ زو کا کہنا تھا کہ نوٹوں پر کوکین کے ذرات سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی کساد بازاری کی بنا پرامریکیوں میں کوکین کا استعمال بڑھ گیا ہے

بشکریہ جنگ

عمر صاحب کے استفسارات اور جوابات

تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ سب شرارت منظرنامہ کی ہے جنہوں نے بلاگستان کا شوشہ چھوڑا ۔ عمر احمد بنگش صاحب نے میری تحریر اور تشریح کے بعد مندرجہ ذیل اظہارِ خیال کیا ہے جو مزید وضاحت مانگتا ہے ۔ میں اللہ کی عطا کردہ سمجھ ۔ تحقیقی کتب کے مطالعہ اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں

1 ۔ چیک پوائنٹ‌حلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کا‌آلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے
2 ۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میں‌صرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے
3 ۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے
اس کے علاوہ اگر کچھ میں‌سمجھنے میں‌ناکام رہا ہوں‌تو میری کوتاہی ۔ یہاں‌تک تو بات ٹھیک ہے ۔ لیکن دو ایک چیزیں‌ہیں‌جو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں
4 ۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
5 ۔ ضمیر کا ماخذ‌کیا ہے؟، دماغ‌، قلب یا دونوں
6 ۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
7 ۔ کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے

1 ۔ انسان میں اچھے بُرے کی تمیز پیدائشی ہے ۔ میں نفسیات بالخصوص بچوں کی نفسیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ میں انسانوں اور بچوں پر ہلکے پھُلکے تجربات کرتا رہا ہوں ۔ میں نے 6 سے 10 ماہ کے بچوں پر آزما کے دیکھا ہے کہ اُنہیں بھی اچھے بُرے کی پہچان ہوتی ہے ۔ بعد میں جب ماحول ان پر حاوی ہو جاتا ہے تو یہ پہچان معدوم یا مجروح ہو جاتی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین لکھتے ہیں کہ رحمِ مادر میں بھی بچہ باہر کے ماحول سے متاءثر ہوتا ہے

آپ ایک ايسے بچے کے پاس جو بیٹھتا ہے مگر کھڑا نہیں ہوتا اور کبھی مٹی کے پاس نہیں گیا اس کے دودھ کی بوتل یا بسکٹ جو وہ کھاتا رہتا ہے رکھ دیجئے اور قریب ہی مٹی کا ڈھلا رکھ دیجئے اور کمرے سے باہر نکل جایئے ۔ اگر بچہ مٹی اٹھائے اور عین اس وقت آپ کمرے میں آ جائیں تو بچہ ڈر جائے گا ۔ اگر بچے نے دودھ کی بوتل یا بسکٹ اٹھایا ہو تو اس پر آپ کی آمد کا کچھ اثر نہیں ہو گا

2 ۔ سیدھی یا اچھی راہ کا تعیّن از خود ہو جاتا ہے اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا

3 ۔ سیدھی راہ آگ کا دریا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو وہ تراوٹ بخشتی ہے جو کسی مادی چیز سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اللہ پر یقین شرط ہے

4 ۔ “علم کا منبع” میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ علم تو بذاتِ خود منبع ہے ۔ علمِ نافع انسان کو سیدھی راہ پر چلا کر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جبکہ علمِ باطل انسان کو سبز باغ دکھا کر تباہی کی طرف لے جاتا ہے جس کا احساس بعض اوقات بہت دیر سے ہوتا ہے ۔ وہ علم بیکار ہے جس کا عملی زندگی سے تعلق نہ ہو ۔ اسے المیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں علم نہیں اسناد حاصل کرنے کا رجحان ہے ۔ عالِم یا اچھا انسان بننے کیلئے بہت کم لوگ علم حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کثیر تعداد ایم بی بی ایس کر کے طِب کا پیشہ اختیار نہیں کرتیں ۔ اس طرح ایک تو وہ اپنا عِلم ضائع کرتی ہیں دوسرے ان طلباء اور طالبات کا حق مارتی ہیں جو اِن کی وجہ سے ایم بی بی ایس کے داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ ملک میں اطِباء کی قلت ہے

5 ۔ ضمیر نہ دل میں ہے نہ دماغ میں ۔ یہ ایک احساس ہے جو اللہ تعالٰی نے ہر ذی ہوش انسان میں رکھا ہے ۔ بُرے سے بُرے آدمی کا ضمیر کسی وقت جاگ کر اسے سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے ۔ ایسے کچھ لوگ میرے مشاہدے میں آ چکے ہیں جو میرے ہمجماعت یا دفتر کے ساتھی تھے

6 ۔ حق کا سب کو علم ہوتا ہے لیکن خودغرضی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ بات وہیں پر آ جاتی ہے جیسا میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ ” اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا”

7 ۔ وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا جائے یا جس پر عمل نہ ہو سکے ۔ جو لوگ حاصل کردہ علم سے استفادہ کرتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں اللہ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ وقتی تکالیف تو ہر شخص پر آتی ہیں چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق اختیار کرے ۔ تکلیف کی نوعیت فرق ہو سکتی ہے

علم انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے ۔ آئزک نیوٹن نے کہا تھا کہ ہاتھ کے انگوٹھے کی ایک پور کا مطالعہ ہی خالق کو پہچاننے کیلئے کافی ہے

بلاگستان کا جشنِ تعلیم

میرا مشاہدہ ہے کہ جدیدیت کے اس دور میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم کسے کہتے ہیں کیونکہ پڑھائی عام ہے اور تعلیم خال خال ۔ ہم 18 جولائی کو لاہور آئے ۔ جو مکان ہم نے کرایہ پر لیا ہے اس کے سامنے والے مکان میں جو صاحب رہتے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ کچھ دن بعد رات کو بجلی غائب تھی تو میں باہر کھُلی ہوا میں نکلا اتفاق سے وہ بھی باہر کھڑے تھے ۔ بات چیت کے دوران کہنے لگے “میرے بچے ایک اعلٰی معیار کے سکول میں پڑھتے ہیں ۔ پڑھائی اور لباس ٹھیک ہے تربیت کہیں نظر نہیں آتی”

میں وطنِ عزیز میں تعلیم کے حوالے سے صرف دو پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا لیکن پہلے اپنے پڑھائی کے طریقہ کار کا بالکل مختصر بیان ۔ میرا طریقہ دسویں جماعت تک یہ رہا کہ سکول کا کام [home task] وہیں فارغ وقت یا آدھی چھٹی [recess] کے دوران یا گرمیوں میں چھٹی کے بعد دھوپ ڈھلنے تک کسی درخت کے نیچے بيٹھ کر ختم کر لیتا ۔ گھر پہنچنے پر کھانا کھاتا پھر سودا سلف لاتا ۔ اس کے بعد ہاکی کھیلنے چلا جاتا ۔ واپس آ کر نہاتا اور تازہ دم ہو جاتا ۔ اگر کچھ کام رہ گیا ہوتا تو کر لیتا ورنہ بیٹھ کر اخبار یا رسالہ یا کوئی اور کتاب پڑھتا ۔ رات کا کھانا کھا کر عشاء کے فوراً بعد سو جاتا ۔ صبح فجر سے پہلے اُٹھ کر گھر سے دو کلو میٹر دور ايک دوست کے ساتھ جاتا ۔ وہاں سے پھلائی کی ٹہنی توڑ کر دونوں مسواک کرتے واپس لوٹتے ۔ گھر واپس آ کر نہاتا ۔ نماز پڑھتا اور جو سبق اس دن سکول میں پڑھنا ہوتا اس پر نظر ڈالتا ۔ اس کے بعد ناشتہ کر کے سکول روانہ ہو جاتا ۔ گیارہویں بارہویں میں اس معمول میں معمولی فرق پڑا لیکن انجنيئرنگ کالج میں تو سوائے پڑھائی کے اور کچھ نہ تھا ۔ راتوں کو جاگ کر پڑھنا معمول بن گیا کیوں کہ دن کا وقت بہت کم تھا

ایک پہلو
ہمارے سکول کالج کے زمانہ میں تعلیمی اداروں کا ماحول کچھ مختلف تھا ۔ اساتذہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دلی لگاؤ محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ سکول ۔ کالج وغیرہ سے فارغ ہو کر جب بھی میں نے مُڑ کر دیکھا مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں اس طرح تعلیم دی جیسے کہ ہم اُن کے اپنے پیارے بچے تھے ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئر بننے تک جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے ہمارے اساتذہ کبھی کبھی وقت بچا کر ہمیں ایک اچھا انسان یعنی حق پر چلنے والا ہمدرد انسان بننے کی ترغیب دیتے اور اس کا عملی طریقہ بھی سمجھاتے ۔ ہم پر اپنے اساتذہ کی باتوں کا بہت اثر ہوتا ۔ شریر سے شریر طالب علم بھی اساتذہ کا احترام کرتا ۔ اگر استاذ کسی کی سرزنش کرتا تو وہ اسے اپنی بہتری سمجھ کر قبول کرتا ۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے غلط سزا کی شکائت کی

ہمارے بعد ایک دور آیا کہ بچے کی سرزنش سکول میں ہوئی تو والد صاحب استاذ سے بدلا چکانے سکول پہنچ گئے یا سکول سے گھر جاتے ہوئے لفنگوں سے ان کو سزا دِلوا دی ۔ دورِ حاضر میں تو استاذ کو شاگرد کا خادم تصور کیا جاتا ہے سو کسی استاذ کی مجال نہیں کہ کسی کے بچے کو بُری نظر سے دیکھ سکے

دوسرا پہلو
ہمارے زمانہ میں اکثر سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ براہِ راست مقرر کردہ کتابوں سے نہیں پڑھاتے تھے بلکہ نصاب [syllabus] کے مطابق پڑھاتے تھے اور ہدائت کرتےتھے کہ کتابیں خود پڑھیں ۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اور کتابوں کے نام لکھوا دیتے کہ پانچ سات یا دس لڑکے مل کر خرید لیں اور باری باری پڑھیں ۔ اساتذہ کبھی خلاصہ [notes] نہیں لکھواتے تھے ۔ اس کی بجائے ہدائت کرتے کہ اچھی طرح پڑھ کر خود خلاصہ [notes] تیار کریں اور اگر چاہیں تو فارغ وقت میں مجھے [استاذ کو] دکھا دیں ۔ اگر استاذ سے اشارہ [guess] مانگتے کہ امتحان میں کیا آئے گا تو یا ڈانٹ پڑ جاتی یا کہا جاتا “جو تم نے نہ پڑھا وہی امتحان میں آئے گا”۔ اُس زمانہ میں سکول یا کالج کے داخلی [internal] امتحان کیلئے کوئی چھٹی نہ ہوتی تھی اور بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان کیلئے دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی تھیں ۔ ہر امتحان میں 7 میں سے 5 یا 8 میں سے 6 سوال کرنا ہوتے تھے اور ہر سوال کے ایک سے 4 جزو ہوتے تھے جبکہ ہر جزو ایک مکمل سوال ہوتا تھا

سنا تھا کچھ سال قبل تک 10 میں سے 5 سوال کرنا ہوتے تھے [اب کا مجھے معلوم نہیں]۔ پورے نصاب کی تیاری بہت کم طلباء کرتے تھے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ امتحان میں تمام سوالات پڑھائی گئی کتابوں میں سے آتے ہیں ۔ اور چونکہ 10 میں سے 5 کی رعائت کے باعث اکثر تعلیمی اداروں میں پورا نصاب نہیں پڑھایا جاتا اسلئے نصاب سے باہر [out of course] کا شور مچتا رہتا ہے

يہی وجہ ہے کہ عِلم جسے ماضی میں بڑی دولت کہا جاتا تھا اب اس کی بجائے اسناد کی تعداد دولت بن گئی ہے ۔ جو طالب علم اپنے طور محنت کر کے عِلم حاصل کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ بن جائیں ان کی ہمارے ہاں کوئی قدر نہیں کچھ لوگ انہیں بیوقوف یا پاگل کا خطاب دیتے ہیں

ہفتہ بلاگستان ۔ بچپن کی آزاد دنیا

منظرنامہ کے منتظمین کا شکریہ کہ مجھے چھ سات دہائيوں کا واپسی کا سفر طے کرنے کیلئے تھوڑا سا وقت عنائت کر دیا

مجھے اپنے بچپن کے دو واقعات یاد ہیں ۔ اس کے علاوہ میرے پہلی اور دوسری جماعت کے دو واقعات ہیں جو مجھ سے 7 سال بڑی میری پھوپھی زاد بہن نے بتائے

مارچ 1947ء میں فسادات شروع ہو گئے اور سکول بند ہو گئے ۔ ستمبر میں ہم بچوں کو حفاظت کی خاطر کسی کے ساتھ چھاؤنی بھیجا گیا نتیجہ اپنے بزرگوں سے جدائی بن گیا ۔ 18 دسمبر کو پاکستان پہنچنے پر باقی ماندہ بزرگوں سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے جنوری 1948ء میں خاص رعائت کے تحت امتحان لے کر سکول میں داخل کر دیا گیا ۔ مارچ 1948ء میں سالانہ امتحان ہوا ۔ سارا سال پڑھائی کی بجائے 10 ماہ خوف و دہشت اور 2 ماہ بے یقینی میں گذرے تھے ۔ نتیجہ نکلا تو ہماری جماعت کے طلباء کے نام پکار پکار کر کامیاب قرار دیا گیا ۔ آخر میں اعلان ہوا کہ افتخار اجمل جسے رعائتی طور پر داخل کیا گیا تھا وہ فیل ہے اور دوسرا افتخار اجمل اوّل آیا ہے ۔ افتخار اجمل فیل کا سن کر میرا دماغ بند ہو گیا تھا اسلئے شاید میں دوسرے افتخار اجمل کا سن نہ سکا ۔ میں بھاری قدموں سے گھر کو روانہ ہوا ۔ 2 کلو میٹر کا فاصلہ 20 کلو میٹر بن چکا تھا ۔ گھر پہنچ کر سب سے نظریں چُرا کر ایک کمرے میں گھُس گیا ۔ بیس تیس منٹ بعد ہمارے سکول کا ایک طالب علم ہمارے گھر آیا اور مبارک دے کر مٹھائی کا مطالبہ کیا تب گھر والوں نے مجھے ڈھونڈا ۔ میں پھُوٹ پڑا ۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ لڑکا بولا ”تم اوّل آئے ہو تو رو کیوں رہے ہو ؟“ میری جماعت میں ایک اور افتخار اجمل تھا جو فیل ہو گیا تھا

یہ 1946ء کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہم بچے مغرب کے بعد ایک کھیل میں مشغول تھے جس میں آدھے لڑکے چھُپتے ہیں اور باقی آدھے انہیں ڈھونڈتے ہیں ۔ جب ہماری ٹیم کی ڈھونڈنے کی باری آئی تو ہم بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے ۔ ہمارے ایک ساتھی نے بہانہ بنایا کہ اُس نے جِن دیکھا ہے اسلئے گھر چلنا چاہیئے ۔ میں چونکہ جھوٹ نہیں بوتا تھا اسلئے مجھے چُپ رہنے کا کہا گیا ۔ جب اس لڑکے نے دوسرے لڑکوں کو جِن کا بتایا تو انہوں نے میری طرف دیکھا ۔ میں چُپ رہا ۔ بلاتوقف اسی لڑکے نے کہا ”اجمل کو معلوم ہے جِن کیسا ہوتا ہے“۔ اس پر کئی لڑکوں نے کہا ”اجمل بتاؤ جِن کیسا ہوتا ہے ؟“ میں نے کہا ۔ ”میں نے سُنا ہے کہ اس کے لمبے دانت ہوتے ہیں اور آنکھیں جیسے آگ نکل رہی ہو“۔ سب لڑکے ڈر گئے اور گھر کی راہ لی

جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول سے گھر پہنچا تو میری متذکرہ پھوپھی زاد بہن نے میرے بستے کی تلاشی لی اور میری اُردو کی کاپی نکال کر کہنے لگی ”آج 10 میں سے 9 نمبر کیوں ؟“ میرا جواب تھا ”کرنا تھی برکت پر ہو گئی حرکت“۔ استاذ صاحب نے اِملا لکھائی تھی جب اُنہوں نے برکت بولا تو مجھ سے کافی دور تھے ۔ مجھے حرکت سمجھ آیا اور میں نے حرکت لکھ دیا جس پر ايک نمبر کٹ گیا

پہلی جماعت کا نتیجہ سُن کر میں مُنہ بسورے گھر پہنچا ۔ پوچھا گیا ”فیل ہو گئے ہو ؟“ میں نے کہا ”نہیں“۔ پھر پوچھا ”پاس ہو گئے ہو تو منہ کیوں بنایا ہوا ہے ؟“ میرا جواب تھا ”میں پاس نہیں ہوا“۔ پھر کہا گیا ”نہ فیل ہوئے نہ پاس ہوئے تو پھر کیا ہوا ؟“ میں نے جواب دیا ”فرسٹ آيا ہوں“۔

ہم ایک ہیں

image001آج وہ دن ہے جس دن ہم ایک قوم کی حیثیت سے متعارف ہوئے لیکن ہم نے اس دن کی قدر نہ کی ۔ کوتاہ اندیشی اور خودغرضی کو اپنایا اور ہر ممکن طریقہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم قوم نہیں بلکہ بھانت بھانت کی لکڑیوں کا انبار ہیں یا بھیڑوں کا ریوڑ کہ جو چاہے ہمیں چولہے میں جھونک دے یا ہانک کر لے جائےgo-green

گیت ہم نے بہت لکھ کر گانے شروع کر دیئے جنہیں ہم ایک عام فلمی گانے کے برابر بھی حیثیت نہیںimage015 دیتے ۔
جب گیت بجتا ہے
تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اپنا مذاق اُڑاا رہے ہیں
اگر آپ واقعی پاکستانی ہیں تو پاکستان کو اپنی ایسی پہچان بنایئے کہ دنیا کے لوگ آپ کو پاکستانی جان کر آپ کا احترام کریں اور آپ پر اعتماد کریں جیسے آج سے چار پانچ دہائیاں قبل ہوا کرتا تھا

سب سے پہلے اپنی پہچان اپنے بلاگ پر لگایئے کہimage0021my-id-pak1

اللہ میرے ہموطنوں کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ وطن کیا ہوتا ہے ؟ قوم کیا ہوتی ہے ؟ اور ان کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی توفیق دے