Monthly Archives: June 2009

بے رسُوخ بندے کدھر جائیں

یکم جون 2008ء تا 31 مئی 2009 کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی ۔ اس سے پچھلے سال کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی جو گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اُس کی قیمت کا 69.375 فيصد صارفین سے وصول کیا گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 45ہزار ملین کیوبک فٹ گیس چوری ہوئی تھی جبکہ اب 42 ہزار ملین کیوبک فٹ ہے ۔ یعنی اس سال سوا چھ ارب روپے صارفین سے اُس گیس کے وصول کئے جائیں گے جو اُنہوں نے استعمال نہیں کی

سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ “گیس مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ جتنی مہنگی ہو گی چوری اتنی زیادہ بڑھتی جائے گی”۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں اس وقت سینکڑوں سی این جی سٹیشن ، ہزاروں ٹیکسٹائل، فرنیس ، فیکٹریوں اور مِلوں میں گزشتہ دو تین برسوں سے گیس چوری بہت بڑھ گئی ہے ۔ یہ سوئی نادرن کا قصہ تو حکومتِ پنجاب کے اقدام کے باعث سامنے آ گیا ۔ سوئی سدرن کا حال کیا ہے وہ ہم نہیں جانتے

بجلی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔ سب خسارے بے رسُوخ صارفین سے وصول کر لئے جاتے ہیں اسلئے کسی کو حالات کو درست کرنے کی فکر نہیں

بھارت ، کالا باغ ڈيم اور مخالف سندھی

وفاقی حکومت کا 28 برسوں میں کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی ،واپڈا ملازمین کی تنخواہوں،سڑکوں کی تعمیر پر 80 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ بنتا نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے بجلی کا بحران حکومتی کوششوں کے باوجود آئندہ 5 برس تک کم نہیں ہوگا۔وفاقی حکومت نے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ25 پیسے فی یونٹ کی لاگت سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی لاگت 10 برس قبل200 ارب روپے لگائی گئی تھی جو سیاست کی نذر ہو کر اب 550 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت اگلے 6 برسوں میں دریائے سندھ کے 90 ملین کیوبک فٹ پانی پر قبضہ کرنے کے لئے کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو دریائے سندھ کے 80 فیصد پانی کو سٹور کر لے گا۔کیونکہ بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیاں گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کر چکی ہیں تاکہ سندھ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں کمی نہ آئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے سندھ کی فصل خریف اور ربیع کو بہت فائدہ پہنچے گا فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا

از نوائے وقت آن لائین

فرق

مشرق اور مغرب کی دو منفرد تہذیبیں ہوا کرتی تھیں ۔ پچھلی تین دہائیوں میں ذرائع ابلاغ [جن کی اکثریت دين مخالف مادہ پرست لوگوں کے قبضہ میں ہے] کی تبليغ نقشہ نے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ چند دن قبل میں ایک واقعہ کا حال پڑھ رہا تھا تو میری سوچ مجھے کئی دہائیاں پیچھے لے گئی جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور دو بچوں کا باپ تھا ۔ ويپنز فیکٹری جس کا میں پروڈکشن منيجر تھا کے نئے سینئر انسپیکٹنگ آفيسر میجر منیر اکبر ملک تعینات ہوئے ۔ کچھ دن بعد وہ اپنی بیگم سمیت ہمارے گھر آئے ۔ گپ شپ ہوتی رہی ۔ جاتے ہوئے بولے “ہم نے ابتداء کر دی ہے ۔ اب یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے”

دو تین ہفتے بعد ہم رات کا کھانا کھا کر چلتے چلتے اُن کے ہاں پہنچ گئے ۔ اُن کی سرکاری رہائش گاہ ہماری سرکاری رہائش گاہ سے کوئی 500 میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ ميرا بڑا بیٹا زکریا تقریباً چار سال کا تھا اور بيٹی تقریباً دو سال کی ۔ ہم اُنہیں گھر ملازمہ کی نگرانی میں چھوڑ گئے کیونکہ میجر منیر اکبر کے ساتھ ہماری بے تکلفی نہ تھی ۔ جب ہم ميجر منیر اکبر کے گھر پہنچے تو اُن کا پہلا سوال تھا “بچے کہاں ہیں ؟” پھر کہا “آپ ڈيوٹی پر نہیں آئے کہ بچے گھر چھوڑ دیئے ۔ ابھی واپس جائیں اور بچے لے کر آئیں”۔ پھر اپنی کار میں مجھے لے کر گئے اور ہم بچوں کو لے کر آئے

دورِ حاضر میں بڑے شہروں میں رہنے والے والدین کی اکثریت معمول ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ملازمین پر چھوڑ کر شامیں اور راتیں موج میلے میں گذارتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں بہت کم بچے والدین کا مکمل احترام کرتے ہیں

جنہوں نے مجھے انسان بنایا

شام کو کھانا کھا کر اور دیگر فرائض سے فارغ ہو کر جب میں بستر پر دراز ہوتا ہوں تو کبھی کبھی نیند کی بجائے میں دُور ماضی کی پھُلواڑی میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ایک ایسی ہی رات میں اپنے اساتذہ کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا جنہوں نے مجھے انسان بنایا ۔ آب وہ سب راہی مُلکِ عدم ہو چکے ہیں

میرے پرائمری جماعتوں کے اساتذہ مجھے اُردو کے ہدائت حسین ۔ حساب کے بھگوان داس اور انگریزی کی مسز گُپتا یاد آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اُستاذ ہدائت حسین نے کس طرح پہلے میری کاپی پر خود لکھ کر اور پھر مجھ سے لکھوا کر مجھے پہلی جماعت میں اُردو لکھنا سکھائی تھی ۔ اُستاذ بھگوان داس ہر بچے کی کاپی دیکھ کر اُسے اُس کی غلطی سمجھاتے اور اگر سوال ٹھیک حل کیا ہوتا تو شاباش دیتے ۔ مسز گپتا ہر بچے سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے اُن کا اپنا اور لاڈلا بچہ ہو ۔ وہ ہمیں انگریزی کی اچھی اچھی نظمیں بھی سُناتيں

چھٹی اور ساتویں جماعتوں کے اُستاذ ہدائت حسین [یہ مُختلف ہیں] جنہوں نے ہمیں حساب اور الجبرا پڑھایا ۔ ان کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اُنہیں مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ کوئی واقعہ ہو جائے اور حقیقت معلوم نہ ہو رہی ہو تو مجھے بلا کر پوچھتے کہ کیا ہوا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سچ بولنے میں بہت دلیر ہو گیا

آٹھویں جماعت میں انگریزی کے اُستاذ نذیر احمد قریشی اور ریاضی کے اُمید علی اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ میں نے درُست انگریزی لکھنے میں جو مہارت حاصل کی وہ اُستاذ نذیر حسین قریشی صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ وہ میٹرک یا ایف اے پاس تھے مگر انگریزی میں اُنہوں نے ہمیں بی اے کے برابر کر دیا ۔ سارا سال بشمول گرمیوں کی چھٹیوں کے اُنہوں نے ہمیں ایک گھنٹہ روزانہ بغیر کسی معاوضہ کے فالتو پڑھایا ۔ ہمارا روزانہ امتحان لیتے ۔ ایک بار میرے 10 میں سے 9 نمبر آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈے ہاتھ پر ڈنڈا مارا ۔ میرا ہاتھ سُوج گیا ۔ میں نے کبھی مار نہ کھائی تھی اس لئے درد کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا ۔ میں آواز کے ساتھ کبھی نہیں رویا ۔ اس وقت بھی میں منہ چھپا کر آنسو بہاتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم کون سے ہم جماعت شام کو اُستاذ کے گھر گئے اور میرے ساتھ زیادتی کی شکائت کی ۔ دوسرے دن اُستاذ میرے پاس آئے ۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا اور کچھ بولے بغير ایک دم دوسری طرف منہ کر کے چل دیئے ۔ بعد میں ہم جماعتوں نے بتایا کہ اُستاذ کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ کچھ دن بعد اُستاذ نے ساری جماعت کے سامنے کہا “آپ سب مجھے اسی طرح پیارے ہیں جیسے میرے اپنے بچے ہیں ۔ اجمل ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتا ہے ۔ اُس نے 10 میں سے 9 نمبر لئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا تھا ۔ میں اپنے بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہوں”۔ اُستاذ اُمید علی نے ایک ایک لڑکے کو اس طرح کر دیا کہ آٹھویں جماعت کا پورا ریاضی کا کورس وہ از بر جانتا تھا ۔ اُستاذ اللہ بخش صاحب نے مجھے ڈرائينگ کرنے کا گُر سکھا ديا

نویں اور دسویں جماعتوں میں انگریزی کے اُستاذ ظہور احمد ۔ سائنس کے شیخ ہدائت اللہ اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ سب ہی اعلٰی اور محنت سے پڑھانے والے ہمدرد انسان تھے ۔ انہوں نے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں بھي ایک ایک ماہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ پڑھایا

گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں انگریزی کے وی کے مَل ۔ ریاضی کے خواجہ مسعود اور کیمسٹری کے نسیم اللہ ۔ انجنیئرنگ کالج کے بزرگ اکمل حسین [ایک اکمل بعد میں بھی تھے] ۔ عنائت علی قریشی ۔ مختار حسین اور عبدالرحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشید ۔ احمد حسن قریشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ اکرام اللہ ۔ محمد سلیم الدين ۔ منیر ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کر تھے اور ہمیں بڑی محنت سے پڑھايا

اساتذہ اور بھی بہت تھے جنہوں نے ہمیں پڑھایا ۔ میں اُں کا احترام کرتا ہوں لیکن ذکر صرف اُن کا کیا ہے جن کا کردار غیرمعمولی تھا ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئرنگ کالج تک کے ہمارے اِن اساتذہ نے پڑھائی کے علاوہ ہمیں معاشرتی تربيت بھی دی اور ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں ہماری رہنمائی کی

بُجھا ایک اور چراغ

اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون

لاہور ميں دورِ حاضر کے تین عالِمِ دين تھے جنہيں میں جانتا ہوں اور جن کا سياست سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک جنہیں پچھلی حکومت کے دور میں شہید کیا گیا تھا

آج لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں مسجد جامعہ نعیمیہ میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مُہتمم اعلیٰ مولوی ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی صاحب مسجد سے ملحق اپنے دفتر میں حسبِ معمول لوگوں سے مل رہے تھے کہ ایک خودکش حملہ آور نے اُن کے دفتر میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے

شہید ہونے والوں میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے معتمد ڈاکٹر خلیل بھی شامل ہیں ۔ ان دو سميت چار افراد شہید اورآٹھ افراد زخمی ہوگئے

کيا يہ خود کُش حملہ آور مُسلمان ہیں ؟
نہیں نہیں نہیں ۔ ہو ہی نہیں سکتا
یہ طالبان کے بھیس میں غيرمُلکی ايجنٹوں کے سوا کچھ نہیں

اب حکومت کو چاہیئے کہ کم از کم ڈاکڑ اسرار احمد کی حفاظت کی معقول بندوبست کرے

درُست وقت

اچھی زندگی گذارنے کیلئے وقت کا انتخاب انتہائی اہم ہے

وعدہ نہ کیجئے جب جوش یا بہت خوشی میں ہوں

جواب نہ دیجئے جب غمگین ہوں

فیصلہ نہ کیجئے جب غُصہ میں ہوں

ہر کام سے قبل سوچ لیجئے اور عقلمند بنیئے

[اور سوچنے سے پہلے سوچئے کہ سوچنا چاہیئے بھی یا نہیں :smile: ]

عقل اور سمجھ ؟

عقل اور سمجھ دونوں ہی لطیف یعنی نہ نظر آنے والی چیزیں ہیں اور انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر انسان ان دونوں کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں ۔ عقل بے اختیار ہے اور سمجھ اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ عقل آزاد ہے اور سمجھ غلام

عقل وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے ۔ عقل کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے عقل کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے ۔ جس کی عقل پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں پاگل کہا جاتا ہے ۔ عقل اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ ایک پاگل نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی “ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟” ڈاکٹر نے بتایا تو پاگل کہنے لگا “باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر لگا لیں”

عقل جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی ۔ ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے

کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ طوطا ۔ مینا ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے

عقل پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے ۔ آدمی اپنی عقل کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتے ہیں

سمجھ وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ سمجھ جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے ۔ ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی سمجھ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے ۔ اگر ابلیس انسان کی سمجھ کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں آنکھوں پر پردہ پڑنا کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے

اُخروی سزا و جزا کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ سمجھ سے ہے ۔ سمجھ مادی جنس نہیں ہے اور میرا مفروضہ ہے کہ سمجھ انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے ۔ سمجھ کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے

مندرجہ بالا تحریر میری ساری زندگی کے مشاہدوں اور مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری سمجھ کو ابلیس سے محفوظ رکھے