Monthly Archives: April 2009

عقل ہے پریشان

عقل ہے پریشان سمجھ کی نا سمجھی پر
ہنسوں اپنی سوچ پہ یا اُن کی عقلمندی پر

یہ شعر خود بخود میرے دماغ نے بنا دیا اور لکھتے ہی بنی ۔ آپ بھی مُلک کے حالات پر نظر ڈالنے کے بعد نیچے لکھی خبر پڑھیئے ۔ شاعری دماغ سے خود بخود نہ نکلے تو ۔ ۔ ۔

خبر
اقوم متحدہ کے امدادی اداروں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ متاثرہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ متاثرین کی بحالی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو ۔ دوسری جانب عالمی ادارہ ریڈ کراس کے چیف نے دورہ پاکستان میں اعلیٰ پاکستانی حکام اور ملٹری آفیشلز سے ملاقات کی اور بحرانی انسانی صورتحال پر گفتگو کی ۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے نمائندوں اور پاکستانی سفارتکاروں کے ہمراہ ایک اجلاس میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں آپریشن سے متعلق صورتحال پر گفتگو کی گئی

کراچی کے طالبان ۔ 3

بروز بُدھ بتاریخ 29 اپریل
نارتھ کراچی میں زرینہ کالونی میں صبح دو گروپوں میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد دونوں جانب سے لوگ مورچہ بند ہوگئے اور ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے رہے ۔ فائرنگ کے باعث علاقہ خوفناک آوازوں سے گو نجتا رہا ۔ زرینہ کالونی میں دو طرفہ فائرنگ سے محمد شاہد ۔ محمد خلیل۔ جمعہ خان اور دوست علی ہلاک ہوگئے ۔ ان ہلاکتوں کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا اور نامعلوم مسلح افراد نے موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر رکشے والوں ۔ ٹھیلے والوں اور د کانداروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ۔

نامعلوم مسلح افرا د کی فائرنگ سے سچل رینجرز کا صوبیدار ذوالفقار ڈوگی ۔ خواجہ اجمیر نگری کا سب انسپکٹر معین الرحمن اور پی سی سجاد زخمی ہوگئے جبکہ خواجہ اجمیر نگری کے علاقے میں فائرنگ سے سوہنی خاتون ۔ یاسر ۔ رحیم ۔ عامر ۔ محمد سلیم ۔ محمد امیش ۔ 12 سا لہ اقراء اور 5 سا لہ مقصود زخمی ہوگئے ۔ شرپسندوں نے شا ہ فیصل کالونی میں محمد دین کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا جو زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا ۔ اس پر لوگوں نے علاقے کی دکانیں بند کرادیں اور گاڑیوں پر پتھراؤں کیا ۔ گلستان جوہر میں نامعلوم افراد نے منی بس کے ڈرائیور راج ولی کو گاڑی سے اتا ر کر گولی مار کر ہلاک کردیا اور منی بس کو نذرآتش کردیا اور پرفیوم چوک پر ایک ہوٹل کو آگ لگادی ۔ اس و قت فائرنگ کا بھی تبادلہ ہوا ۔ مختلف فلیٹوں کی چھتوں سے بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔

نیو کراچی صنعتی ایریا میں نامعلوم مسلح افراد نے دو رکشوں کو روک کر ڈرائیوروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا ۔ نارتھ ناظم آباد جے بلاک میں مکئی کے دانے فروخت کرنے والے نو جوان کو موٹر سائیکل سوار نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا جو زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا ۔ سرجانی ٹاؤن میں نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے وحید اللہ ۔ سلیم خان ا ور پھل فروش زمرد خان کو زخمی کردیا ۔ نامعلوم مسلح افراد نے پھل فروشوں کی دکانوں کو نذرآتش کردیا ۔ سرسید ٹاؤن کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے منی بس پر فا ئرنگ کی جس سے ڈرائیور ہلاک ہوگیا ۔ گاڑی کو آگ لگادی گئی ۔ اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کرکے خوف و ہراس پھیلادیا اور فائرنگ کی جس سے 5 افراد فتح جان ۔ خیر خان ۔ رکشا ڈ رائیور آدم خان اور ایک راہگذر زخمی ہوگیا ۔ کئی ٹھیلوں کو نامعلوم مسلح افرا د نے آگ لگادی ۔

عباسی شہید اسپتال میں فائرنگ سے ہلا ک کئے جا نے والوں کی 13 اور جناح اسپتال میں12 لاشیں لائی گئیں جبکہ ہلاک ہونے والے دیگر افر اد کی لاشیں مختلف اسپتالوں میں لائی گئیں ۔ مختلف علاقوں میں خدا بخش ۔ شا ہ خا لد ۔ ظہور شاہ ۔ انور، موسیٰ خان ۔ ز ر گل ۔ 9 سالہ تعاون خان ہلاک ہو ئے ۔ پیالہ ہوٹل کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 30 سالہ شخص ہلا ک ہوگیا ۔ کورنگی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے طوری خان کو زخمی کردیا اور موٹر سائیکل چھین لی ۔

سرجانی ۔ نیو کراچی ۔ نارتھ ناظم آباد ۔ اورنگی ٹاؤن ۔ پیر آباد ۔ کورنگی ۔ حیدری ۔ ناظم آباد ۔ کورنگی ۔ گلستان جوہر ۔ گلشن اقبال ۔ پاک کالونی ۔ بفرزون ۔ لیاقت آباد ۔ سائٹ ۔ شاہ فیصل کالونی ۔ اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے بسوں ۔ منی بسوں ۔ ٹرکوں ۔ سوزوکیوں ۔ موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کر دیا ۔

بُدھ 29 اپریل اور جمعرات 30 اپریل کی درمیانی رات

کراچی کے مختلف علاقوں میں رات گئے تک وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا ۔ کراچی میں مختلف علاقوں میں رات گئے آتشزدگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں ۔ذرائع کے مطابق نامعلوم افراد نے منگھوپیر میں واقع فیکٹری ۔ گلشن اقبال میں بیت المکرم مسجد کے قریب دکان ۔ شاہ فیصل کالونی میں رنگ ساز کی دکان اورگارڈن فوارہ چوک پر ایک مسافر بس کو آگ لگا دی

نامعلوم = یہ اُس گروہ کے لوگ ہیں کہ اگر اخبار والے اس کی نشاندہی کر دیں تو اُن کا دفتر اور اپنی جانیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ ان کی کچھ تشریح اس ضرب المثل سے ہوتی ہے “بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام ”

کراچی کے طالبان ۔ 2

بروز منگل بتاریخ 28 اپریل لیاری میں ایک گروپ نے کچھ دکانداروں کو بھتے کی پرچیاں دیں جس پر وہاں لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے مزاحمت کی جس پر جرائم پیشہ افراد نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس پر لوگ ہتھیار بند ہو کر بیٹھ گئے اور جب جرائم پیشہ افراد فائرنگ کرتے ہوئے آئے تو وہاں موجود افراد نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی جس کے بعد دو طرفہ فائرنگ شروع ہوگئی جس کے بعد علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور مسلح افراد جدید اسلحہ سے لیس ہو کر ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہے ، فائرنگ کے باعث سنگھو لائن پرانا کمہار واڑہ میں گولی لگنے سے 18 سالہ انعم دختر رجب علی ہلاک ہوگئی وہ گھر کی بالکونی میں موجود تھی، اور احمد شاہ بخاری روڈ پر 11سالہ آمنہ دختر ابراہیم فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی اور وہاں موجود اسد، ذیشان، اطہر، ندیم، کریم، بشیر اور محمد فاروق زخمی ہوگئے

آگرہ تاج کالونی میں بابو ہوٹل کے قریب 35 سالہ محمد انور گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا، 25 سالہ ندیم بلوچ، اور 22 سالہ اسد ولد پیر محمد ہلاک ہوگیا اور احمد شاہ بخاری روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 55 سالہ آدم ہلاک ہوگیا اور نور زیب، اسلم اور عامر زخمی ہوگئے ۔ نامعلوم افراد نے راکٹ فائر کیا جو مچھر کالونی میں صدام چوک کے قریب عبدالرشید کے گھر پر گرا جس سے خوفناک دھماکہ ہوا راکٹ چھت کو چیرتا ہوا گھر میں داخل ہوا جس سے مکان تباہ ہوگیا اور وہاں موجود 5 سالہ حیات اللہ ہلاک ہوگیا، 2 سالہ منورہ، 45 سالہ انوری بیگم،23 سالہ خدیجہ، راشدہ ستارہ خاتون اور حافظہ خاتون زخمی ہوگئی

اس واقعہ کے بعد علاقے کے لوگوں نے شدید احتجاج کیا اور پولیس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی جبکہ لیاری میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مچھر کالونی میں سلمان زخمی ہوگیا ، لیاری میں نامعلوم افراد نے مختلف مقامات پر ہینڈ گرینیڈ پھینک کر خوف و ہراس پھیلا دیا اور جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی ، پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، فائرنگ کے دوران کئی مساجد سے امن کیلئے اعلانات بھی کئے گئے اور فائرنگ بند کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

لیاری اور شاہ بخاری سے 3افراد کی لاشیں ملیں جن میں سے دو جلی ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں غنی، آفتاب اور ایک 30سالہ شخص شامل ہے۔ آفتاب اور غنی کرین آپریٹر ہیں دونوں گاڑی کھڑی کرکے آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے اغوا کرکے قتل کردیا

نامعلوم = یہ اُس گروہ کے لوگ ہیں کہ اگر اخبار والے اس کی نشاندہی کر دیں تو اُن کا دفتر اور اپنی جانیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ ان کی کچھ تشریح اس ضرب المثل سے ہوتی ہے “بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام “

بلوچستان ۔ اسلام آباد کسی کی نہیں سُنتا

سرکاری بیان
صدر صاحب اور دیگر حکومتی افراد نے بار بار کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ صوبائی گورنر کا تقرر صدر کرتا ہے اور وہ صدر ہی کا صوبے میں نمائندہ ہوتا ہے [گورنر وفاق کا نمائندہ اُس وقت بنے گا جب پارلیمنٹ کے اختیارات جو پچھلے صدر نے غصب کئے تھے وہ آئینی ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے جائیں گے] ۔

حقیقت
بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا ہے کہ اسلام آباد کسی کی بات نہیں سنتا ۔ معاملات کو اگر نہ سنبھالا گیا تو بلوچستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ نواب یا سردار حل نہیں کرسکتا بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وہ بلوچستان کے سلسلے میں وفاقی حکومت کو تجاویز دیتے ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام سے کی جانی والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے ۔ بلوچ جو مسائل بتا رہے ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلے بعد میں بڑے مسائل بن جاتے ہیں جس سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں مرکز کا نمائندہ ہوں لیکن مرکز نے کبھی بھی مجھے بلوچستان کے مسائل پر اعتماد میں نہیں لیا جب وہ مجھے اعتماد میں لیں گے تو ضرور بلوچستان اور یہاں پر رہنے والوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بات کروں گا

صوبہ سرحد ۔ اصل حُکمران کون ؟

سرکاری بیان
حکومتی اہلکاروں اور وزراء نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ دیر میں کاروائی وہاں کے عوام کی درخواست پر شروع کی گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹی وی پر اس کاروائی کے حق میں جن عوام کو بولتے دکھایا گیا اُن میں شامل تھیں اسلام آباد کی روشن خیال خواتین جو دوپٹے اور بالوں کو بوجھ سمجھ کر اُتار چُکی ہیں اور کنیئرڈ کالج لاہور کی طالبات جو اُردو کم اور انگریزی زیادہ بول رہی تھیں

حقیقت
دیر کے علاقے میدان میں فوجی آپریشن اور اس میں بے گناہ عوام کی ہلاکتوں کے خلاف منگل کے روز تیمرگرہ اور چکدرہ میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ اور شٹرڈاؤن کیا۔ مظاہرین نے کئی گھنٹے تک چترال روڈ بلاک کردی اور چکدرہ بازار میں دھرنا دیا۔تیمر گرہ میں مظاہرہ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق نے منعقد کیا جس سے تیمرگرہ امن جرگہ کے صدر حاجی محمد رسول خان، مظفر سعید و دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں دیر آپریشن کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ، آپریشن بند نہ کیا گیا تو عوام فوج کے خلاف اسلحہ اٹھانے پرمجبور ہوجائیں گے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور فوجی قیادت پر عائد ہوگی۔ مقررین نے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار کے اس بیان کی سخت مذمت کی کہ دیر میں فوجی آپریشن نہیں ہورہا ہے صرف جوابی کارروائی ہے۔

چکدرہ سے نمائندہ کے مطابق میدان میں فوجی آپریشن کے خلاف عوامی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ علاقے کے تمام چھوٹے بڑے بازار بند رہے، مظاہرین نے پیدل مارچ کرکے چکدرہ بازار میں دھرنا دیا اور مین چترال روڈ کو کئی گھنٹے بلاک کیا۔ احتجاجی مظاہرے سے سینیٹر مولانا گل نصیب خان، چیئرمین قومی جرگہ ہمایوں خان ایڈووکیٹ و دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے حکومت کی طرف سے ملاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشن کے عملی نفاذ میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے حکومت کو امن وامان تباہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہاکہ عوام افواہوں پر نہ جائیں ،جمہوری حکومت ڈکٹیٹر سے آگے بڑھ گئی اور انہوں نے ضلع دیر لوئر و اپر سے منتخب ہونے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے دو دن کے اندر میدان آپریشن بند کرنے اور مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشن کے عملی اقدامات فوری طورپر کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا بصورت دیگر ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا

بقیہ ۔ بنیادی مجرم کون ؟

ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کسی کا بھی غلام بننے پر نفسیاتی طور پر تیار ہو چکی تھی کہ مولانا الطاف حسین حالی کو فکر ہوئی اور اُنہوں نے عرضداشت شروع کی ۔ مسلمانوں نے انگڑائی لی مگر جاگ نہ پائے ۔ پھر مولانا شوکت علی نے یہ جھنڈا اُٹھایا جس کے بعد اُن کے چھوٹے بھائی محمد علی جوہر اور فرزندِ سیالکوٹ محمد اقبال نے اپنے خطوط ۔ تقاریر اور کردار سے قوم کو جاگنے پر مجبور کر دیا ۔ اُن دونوں نے ہند میں کانگرس کی سیاست سے تنگ آ کر برطانیہ واپس گئے ہوئے محمد علی جناح کو قائل کیا کہ آپ کی ہند کے مسلمانوں کو ضرورت ہے ۔ اُنہوں نے واپس آ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور اپنی بے لوث انتھک محنت سے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی

پاکستان بنا تو سب پاکستانی سینہ تان کر چلتے ۔ اپنے مُلک پر فخر کرتے اور اس کی ترقی کیلئے محنت سے کام کرتے تھے ۔ اِن میں مقامی بھی شامل تھے اور وہ بھی جو اپنا گھربار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے ۔ قائداعظم کی وفات کا قوم کو جھٹکا تو لگا مگر محنت اور حُب الوطنی میں فرق نہ آیا ۔ پھر پہلے وزیرِاعظم کے قتل کے بعد قوم ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی منتخب کردہ اسمبلی غلام محمد نے توڑ دی ۔ غلام محمد اور اس کے بعد سکندر مرزا کے پُتلی تماشہ سے تنگ آ کر 1958ء میں ایک پختون عبدالقیوم خان نے قوم کو پکارا ۔ سوجھ رکھنے والے اہلِ وطن نے لبیک کہا اور عبدالقیوم خان نے پشاور سے لاہور تک 6 میل لمبا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا ۔ پشاور سے جلوس روانہ ہوا اور جہلم پہنچنے سے پہلے ہی 20 میل سے زائد لمبا ہو گیا ۔ سکندر مرزا گھبراگیا اور مارشل لاء لگا دیا

اس مارشل لاء کے دوران معاشی حالات 1965ء کے آخر تک ٹھیک رہے ۔ لوگوں کو آسانی سے دو وقت کی روٹی ملنے لگی ۔ پیٹ بھر گئے تو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جگڑنے لگے ۔ آپریشن جبرالٹر کی غلط معلومات پر مبنی تشہیر نے عوام میں غلط جذبات کو جنم دیا اور ناکامی کے نتیجہ میں لوگ حکومت پر اعتماد کھو بیٹھے اور چینی کی قیمت میں 9 فیصد اضافے کی وجہ سے سڑکوں پر نکل آئے ۔ مارشل لاء پھر آ گیا

عوامی دور آیا اور پرچی ایجاد ہوئی اور معاملہ “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” تک پہنچ گیا ۔ صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے اور وہاں حُکمران جماعت کے کارکنوں کی بھرتی کے نتیجہ میں صنعتکار اپنا پیسہ مُلک سے باہر لے گئے اور عوام روزگار کی تلاش میں مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ دساور سے کمایا پیسہ معیشت کیلئے بہت کم استعمال ہوا ۔ زیادہ تر فضولیات میں اُڑا دیا گیا جن میں وی سی آر ۔ میوزک ڈیک اور دوسری دکھاوے کی اشیاء کے علاوہ شادی کی کئی کئی دن بڑی بڑی دعوتیں شامل ہیں ۔ کچھ لوگ امیر اور مُلک غریب ہو گیا ۔ 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کو گولی کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی ۔ دو تین روز کی کاروائی کے بعد لاہور پولیس کی حُب الوطنی جاگ اُٹھی اور اُس نے کاروائی سے انکار کیا ۔ فوج بلائی گئی جس کی صرف ایک کاروائی کے بعد کاروائی کے سربراہ بریگیڈیئر نے کور کمانڈر کے سامنے اپنے بِلے اور پیٹی رکھتے ہوئے کہا “میں اپنے بھائیوں کی حفاظت کیلئے بھرتی ہوا تھا ۔ اُن کے قتل کیلئے نہیں”
دوسرے شہریوں کو دیکھتے ہوئے فوجیوں نے بھی مال بنانا شروع کیا اور وہ منہ زور ہو گئے ۔ عدالتوں کو لیٹرل اَینٹری [lateral entry] کی کھاد پہلے ہی پڑ چکی تھی ۔ معاشرے کی درستگی کرنے والے ناپید ہو گئے ۔ سیاستدانوں کے جھوٹے نعروں اور دوغلے کردار نے “سونے پر سہاگہ” یا زیادہ موزوں ہو گا ” ایک کریلہ دوسرے نیم چڑھا” کا کام کیا ۔ پھر ایک ڈکٹیٹر نے نہ صرف قوم کے فرزندوں کے خون سے ہاتھ رنگے بلکہ سینکڑوں کو ڈالروں کے عِوض بیچ دیا ۔ لوٹ مار اتنی بڑھی کہ سمجھ سے باہر ہو گئی

قوم کو بھُلانا نہیں چاہیئے تھا خان عبدالقیوم خان کو جس نے اپنے وقت کے ڈکٹیٹر کے خلاف آواز اُٹھائی اور قید و بند جھیلی ۔ لاہور کے اُن تھانیدار اور بریگیڈیئر کو جنہوں نے اپنی قوم پر گولی چلانے کی بجائے ملازمت سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ۔ مگر قوم کی کوتاہ اندیش اکثریت نے صرف اتنا خیال رکھا کہ مال کتنا اور اکٹھا کرنا ہے ۔ قوم غلط راہ پر آگے بڑھتی گئی اور قومی جذبہ اور احساسِ زیاں کھو بیٹھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ملک کے وزیرِاعظم کو جبری ہٹا دیا گیا لیکن قوم سوئی رہی

دین سے بیگانہ قوم نے جاہلانہ رسم و رواج میں گُم ہو کر اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں میں کیڑے نکالنا شغف اپنایا اور نتیجہ میں ہونے والی اپنی بربادی کا دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔ کچھ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے اور آگے بڑھے اور قائداعظم میں کیڑے نکانے شروع کئے اور اپنے ہاتھوں تیار کردہ جہنم کو دین کی قباحت قرار دیا ۔ چار دہائیاں قبل بے معنی مباحث کی جگہ حجام کی دُکان ہوا کرتی تھی ۔ قوم پٹڑی سے اُتر گئی اور ہر محفل لاحاصل مباحث کا مرکز بن گئی ۔ دین اور مُلک کے آئین و قانون کی خلاف ورزی روز کا معمول بن گئی ۔ یہ کسی قوم کے زوال کی آخری نشانی ہوتی ہے

حکومت نے اُس علاقہ میں جہاں کبھی بھی مُلک کا آئین نافذ نہیں کیا گیا تھا امن قائم کرنے کیلئے 15 سال پرانا عدل ریگولیشن نافذ کرنے کی منظوری دی تو 1500 کلو میٹر دُور بیٹھے لوگوں نے طوفان مچا دیا ۔ ریاست کے اندر ریاست کا شور مچانے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ اُن کے پسندیدہ مُلک امریکہ میں مختلف علاقوں کے قوانین مختلف ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہم جنس پرستی جو اُن کے مذہب کے مطابق بھی گناہِ کبیرہ ہے وہ کسی علاقہ میں جُرم ہے اور کسی میں قانون کے عین مطابق

اگر ہماری قوم کی اکثریت سرد مہری ۔ بے حِسی یا بیوقوفانہ خودغرضی کا شکار نہ ہوتی تو کوئی ڈکٹیٹر مُلک پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ کوئی مُلک خواہ امریکا ہی ہو ہمارے مُلک میں مداخلت تو کیا اس کی طرف بُری آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اسی سرد مہری ۔ بے حِسی اور خودغرضی کی وجہ سے ہماری قوم نے مشرقی پاکستان گنوایا تھا اور باقی کو اس حال میں پہنچایا جہاں آج ہے ۔

ریاستہائے متحدہ امریکا کے بانیوں میں سے ایک بنجامِن فرینکلِن [Benjamin Franklin] سے 1787ء میں کسی نے پوچھا “آپ نے ہمیں کیا دیا ہے؟” اُس نے جواب دیا “جمہوریت ۔ اگر آپ لوگ اسے سنبھال سکیں” ۔ ہماری قوم کو قائداعظم نے ایک مُلک اور جمہوریت زبردست سیاسی قوت کے ساتھ دی تھی ۔ آدھی صدی میں ہم نے اُس کا جو حال کر دیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ جمہوریت مضبوط اداروں کی بنا پر ہوتی ہے اور اداروں کو فعال رکھنے کیلئے مسلسل جد و جہد ضروری ہوتی ہے ۔ اگر گھر یا دفتر میں بیٹھے اداروں کی صحت کی سند جاری کر دی جائے تو ادارے انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اداروں کے اصل محافظ عوام ہوتے ہیں ۔ ایک فرانسیسی مفکّر [Montesquieu] نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں کہا تھا ” بادشاہت میں ایک شہزادے کا ظُلم و تشدد عوامی بہبود کیلئے اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا جمہوریت میں ایک شہری کی سرد مہری

مئی 2006ء میں ایک نوجوان سیّد عدنان کاکا خیل اُٹھا اور اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں مُلک کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو آئینہ دکھا دیا ۔ فروری 2007ء میں اس کی وڈیو کی سی ڈی راولپنڈی بار میں پہنچی اور وکلاء نے بار بار دیکھی ۔ مارچ 2007ء میں پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا تو راولپنڈی کے وکلاء کی حُب الوطنی جاگ چکی تھی چنانچہ وکلاء کی تحریک شروع ہوئی جو دو سال زندہ رکھی گئی

قوم کو مرہونِ منت ہونا چاہیئے سیّد عدنان کاکا خیل کا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کا جس نے ایک باوردی ڈکٹیٹر کے سامنے جھُکنے سے انکار کیا اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں اور اُن وکلاء کا جنہوں نے اپنی روزی پر لات مار کر ۔ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک عمدہ تحریک چلائی ۔ قوم کو شکرگذار ہونا چاہیئے اُن درجنوں بوڑھوں کا اور سینکڑوں جوانوں کا جنہوں نے تمام پابندیوں کو توڑ کر اور 200 اشک آور گیس کے گولے برداشت کرکے لاہور جی پی او چوک پر پورا دن احتجاج کیا ۔ قوم کو آفرین کہنا چاہیئے اُس سپرنٹنڈنٹ پولیس گُوجرانوالا کو جس نے غیر قانونی حُکم ماننے سے انکار کیا ۔ قوم کو مشکور ہونا چاہیئے اُس مجسٹریٹ کا جس جی پی او چوک لاہور پر احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کے غیر قانونی حُکم کو ماننے سے انکار کیا ۔ میاں نواز شریف کو بھی کچھ تو داد دینا چاہیئے جس نے اپنی جان داؤ پر لگا غیرقانونی نظربندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس کا حصار توڑا اور جلوس کی سربراہی کر کے اُسے کامیاب بنایا ۔ اللہ کی کرم فرمائی ہے کہ ابھی اس قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے ۔ سچ کہا تھا شاعرِ مشرق نے

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ ابھی تو جمہوریت کے سکول میں داخلہ لیا ہے ۔ بہت سے سبق یاد کرنا اور کئی امتحان دینا باقی ہیں اور اِن شآءَ اللہ کامیاب بھی ہونا ہے

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔
اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے

بنیادی مُجرم کون ؟

میں وطنِ عزیز کے حالات اور اس سلسلے میں ہموطنوں کے کردار کے بارے میں گاہے بگاہے لکھتا رہا ہوں ۔ آج جس حال کو وطنِ عزیز پہنچ چکا ہے اس کی ذمہ داری حُکمرانوں اور سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن اس سب کا بنیادی ذمہ دار کون ہے اس کا ادراک اور اصلاح ازحد ضروری ہے ۔ اصل وجہ کی طرف جانے کیلئے 62 سال کی سیاسی تاریخ کا مختصر سا جائزہ ضروری ہے

قوم 1947ء میں کئے گئے مسلمانوں کے قتل وغارت کے نتائج سے ابھی سنبھلی نہ تھی کہ قائداعظم چل بسے ۔ پھر پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم قتل کر دیئے گئے ۔ پھر پورے ہند کے مسلمانوں کی منتخب کردہ اسمبلی توڑ دی گئی ۔ وہ سیاستدان جنہوں نے صدق دل سے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا اُنہوں نے قانونی جنگ لڑی جو عدالتِ اعلٰی کی سطح پر جیت لی مگر عدالتِ عظمٰی کا سربراہ منیر جو گورنر جنرل غلام محمد کا ہم نوالا اور ہم پیالہ تھا ڈنڈی مار گیا ۔ اس کے بعد غلام محمد اور سکندر مرزا اپنی باری پر پُتلی کا تماشہ کرتے رہے ۔ 1958ء میں ایک پختون عبدالقیوم خان نے اس مطلق العنانی کے خلاف آواز اُٹھا کر پشاور سے لاہور تک 6 میل لمبا جلوس نکالنے کا اعلان کیا ۔ قوم تحریکِ پاکستان کے بعد پہلی دفعہ اُٹھی ۔ پشاور سے جلوس روانہ ہوا جہلم پہنچنے سے پہلے 21 میل لمبا ہو گیا ۔ حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔ ایک بار پھر قانون کا غلط استعمال ہوا اور اسے جائز قرار دیدیا گیا جو کہ آج تک معمول بنا رہا

سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کر کے نئی پنیری لگائی گئی ۔ دوستیاں نبھاتے ہوئے نئے چہرے سیاست میں متعارف کرائے گئے جن میں سکندر مرزا کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھا ۔ معاشی منصوبہ بندی کسی طرح پٹڑی پر رہی اور عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی رہی ۔ پھر جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کیا گیا اور نہ صرف ہزیمت اُٹھانا پڑی بلکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ افواج قوم کے تعاون سے بے جگری سے لڑیں اور ملک کو بچا لیا ۔ پہلی بار بڑی طاقت سوویٹ روس جو جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتی تھی اور کئی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے پر تیار ہو گئی ۔ یہ بات جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے کو پسند نہ آئی جس پر اُسے وزارت سے ہٹایا گیا ۔ اُس نے توڑ پھوڑ کی سیاست شروع کی جس کیلئے طلباء رہنماؤں کو 2000 روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا ۔ ان میں راولپنڈی کا شیخ رشید احمد بھی شامل تھا ۔ مارشل لاء پھر لگا دیا گیا ۔ اس دور میں ترقی رُک گئی اور ملک کے حالات بالخصوص مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے

ذوالفقار علی بھٹو کو قید کیا گیا تو اُسے غلام مصطفٰے گھر کی صحبت ملی اور وہ لیڈر بن گیا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آ کر اُسے رہا کیا گیا ۔ انتخابات کا اعلان ہونے پر مشرقی پاکستان میں “سونار بنگلہ اور پنجابی کھا گیا” کا نعرہ لگایا گیا اور مغربی پاکستان میں محروم عوام اور مادہ پرست لوگوں نے “روٹی کپڑا مکان” کے نعرے میں بہت کشش محسوس کی ۔ عام تاءثر ہے کہ 1970ء کے انتخابات منصفانہ تھے لیکن جو لوگ اس عمل سے منسلک رہے وہ جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن حکومتی اداروں کی بے رُخی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھونس دھاندلی کے ذریعہ بھاری اکثریت لے گیا ۔ مغربی پاکستان میں باقی علاقوں کا تو مجھے علم نہیں ضلع راولپنڈی کے کچھ علاقوں کا میں شاہد ہوں کہ کس طرح دھمکیوں کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈلوائے گئے ۔ نتیجہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے نامنظور کرتے ہوئے” اُدھر تُم اِدھر ہم ” کا نعرہ لگا دیا

حُکومتی اداروں کی خودغرضیوں اور بے حِسی کے سبب یحیٰ خان کے تین سالوں میں بھارت نے سرحدوں کی جغرافیائی موافقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں اپنے سینکڑوں ایجنٹ اور کمانڈو داخل کر دیئے تھے جن کیلئے مجیب الرحمٰن سودمند ثابت ہوا ۔ یحیٰ بھٹو گٹھ جوڑ کے بعد مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے کی بجائے قید کر کے مشرقی پاکستان میں اچھے اور بُرے کی تمیز کے بغیر فوجی کاروائی نے حالات خطرناک بنا دیئے ۔ موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے حملہ کر دیا ۔ نہ صرف حکمران بلکہ پاکستانیوں کی اکثرت امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا تصور لئے مطمئن بیٹھے رہے ۔ دیسی شیر کہلانے والے جرنیل نے قید کو شہادت پر ترجیح دیتے ہوئے 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار ڈال دیئے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق یحیٰ خان کو 12 دسمبر 1971ء کو صدارت سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ 12 دسمبر سے ذوالفقار علی بھٹو کے صدر بننے تک کون حکومت چلاتا رہا یہ راز بھی اُسی طرح نہیں کھُل سکا جس طرح غلام محمد کے مکمل مفلوج ہونے کے بعد سے سکندر مرزا کے گورنر جنرل بننے تک گورنر جنرل کے دستخط کون کرتا رہا ۔ قصہ کوتاہ ۔ مشرقی پاکستان میں صفر اور مغربی پاکستان میں سیاستدانوں کی ناچاقی کے نتیجہ میں 33 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو بقیہ پاکستان کا اکثریتی راہنما ٹھہرا اور پاکستان کا صدر اور دنیا کا پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بقیہ پاکستان کو بڑا پاکستان [Greater Pakistan] کا نام دیا

عوامی دور میں صنعتی اور تعلیمی ادارے ماسوائے اُن کے جو غیرملکی چلا رہے تھے بغیر مناسب منصوبہ بندی کے قومی تحویل میں لے کر اُنہیں چلانے والوں کو چلتا کیا گیا اور اُن کی جگہ سیاسی بھرتیاں کی گئیں ۔ دفاتر اور عدالتوں میں انتظامی اصلاحات کے نام پر اپنے حمائتیوں کو براہِ راست بھرتی کیا گیا جن کی اکثریت اس قابل نہ تھی ۔ اگلے انتخابات میں باوجود جیتنے کی اُمید ہوتے ہوئے لالچ کے تحت بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کی گئی ۔ احتجاج کو گولی کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی ۔ لاہور میں درجنوں لاشیں گریں ۔ احتجاج زور پکڑ گیا اور پھر مارشل لاء نافذ ہو گیا ۔ ضیاء الحق نے بڑی سیاسی غلطی یہ کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھوا دیا ۔ اس مارشل لاء کے دوران امریکا نے اپنے دیرینہ حریف کو نیچا دکھانے کی خاطر ہماری سرزمین ۔ عوام اور حکومت کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی ۔ اسی دوران ضیاء الحق نے افغانستان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو اُسے مع اُس کے قریبی ساتھیوں کے ہوائی حادثے میں مروا دیا گیا

پھر انتخابات ہوئے اور کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی ۔ صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے مطابق اکثریت دکھانے کی دعوت دینے کی بجائے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کر دیا اور بے پیندے کے لوٹے لُڑھک کر اُس کی طرف چلے گئے ۔ ابھی سال ہی گذرا تھا کہ مردِ اول کی کارستانیوں سے لوگ پریشان ہونے لگے ۔ وزیراعظم اور صدر کے اختلافات بڑھے اور حکومت جاتی رہی ۔ اگلے انٹخابات میں میاں محمد نواز شریف اکثریت لے کر آئے مگر جرنیل کی فرماں برداری نہ کرنے پر اُسے اور صدر دونوں کو گھر بھیج دیا گیا ۔ اگلی بار پھر بینظیر بھٹو کی حکومت بنی مگر اپنے بنائے ہوئے صدر اور مردِ اول کی جھڑپ کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور نواز شریف تین چوتھائی اکثریت سے سامنے آئے ۔ جرنیل نے قومی سلامتی کونسل کی تجویز پیش کی ۔ سیاستدانوں کو اس کی آڑ میں آئینی فوجی حکمرانی کو تحفظ ملتا محسوس ہوا ۔ اس پر جرنیل کو مستعفی ہونا پڑا ۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے اور پھر پاکستان کو دھمکیاں دینے کے نتیجہ میں ایٹمی دھماکہ کیا اور اور عوام نے بہت سراہا مگر کچھ ہموطنوں اور اُن کے غیرمُلکی آقاؤں کو یہ ادا پسند نہ آئی ۔ جب پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا گیا تو اُسے ہیرو بننے کی سوجھی ۔ کرگل کا محاظ کھول دیا اور ہزیمت اُٹھائی ۔ پارلیمنٹ میں انکوائری کی صدا بلند ہوئی تو ہائی جیکنگ کا جھوٹا بہانہ بنا کر وزیرِ اعظم اور اس کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا گیا ۔ امریکا کی تابعداری اختیار کی اور قوم اور مُلک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ صرف اسی پر بس نہ کیا ۔ جس کی طرف اشارہ ہوا اُٹھا کر امریکا کے حوالے کر دیا ۔ اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے اپنے ہموطنوں کا قتلِ عام شروع کیا یہاں تک کہ ڈاماڈولا کے مدرسہ کے 70 سے زائد کم سن لڑکوں اور اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی سو سے زائد 4 سے 17 سال کی بیگناہ بچیوں کو بھون کے رکھ دیا ۔ چودہ ماہ قبل کے انتخابات سے ایک بار پھر کم از کم نام کی جمہوریت آئی لیکن ابھی تک کوئی جمہوری کام ہوتا نظر نہیں آیا

اس سب ظُلم و ستم اور قوم و مُلک کے انحطاط کا بنیادی ذمہ دار کون ہے ؟

کیا بھارت ہے ؟ یا افغانستان ؟ یا امریکا ؟ ٹھیک ہے کسی حد تک یہ سب بھی ذمہ دار ہیں لیکن اُن کا تو یہ سیاسی منصوبہ اُن کے اپنے قومی یا سیاسی مفاد کیلئے منفی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ مگر وہ اپنی ان کاروائیوں میں کامیاب آخر کیونکر ہوئے ؟ اس کا بھی جائزہ ضروری ہے لیکن اب میں تھک گیا ہوں اور کچھ اور کام بھی کرنا ہے ۔ کل میں نے ہفتہ بھر کا سودا لانا ہے اور دوسرے کام بھی ہیں ۔ باقی اِن شاء اللہ بُدھ 29 اپریل کو