Monthly Archives: March 2009

اہم اطلاع

حکومت نے اسلام آباد میں تمام موبائل کمپنیوں کو ایس ایم ایس سروس تین دن کیلئے بند کرنے کا حُکم جاری کر دیا اور اب اسلام آباد سے ایس ایم ایس نہیں کیا جا سکتا

یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ آنے والی رات کے دوران تمام موبائل فون سروس دو دن کیلئے بند کر دی جائے گی

نوکری ۔ جنگلی پودا جب درخت بن جائے

نوکری ۔ چاکری یا ملازمت ۔ کچھ کہہ لیجئے ۔ ویسے آجکل رواج جاب [job] کہنے کا ہے ۔ ملازمت نجی ادارے کی ہو یا سرکاری محکمہ کی اس کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر ملازم کا فرض ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ہماری قوم کی خواری کی بنیادی وجہ ادارے کے قوانین کی بجائے حاکم کی ذاتی خواہشات کی تابعداری ہے جس کی پنیری 1973ء میں لگائی گئی تھی اور اب یہ جنگلی پودا تناور درخت بن چُکا ہے

میں نے جب 1962ء میں ملازمت اختیار کی تو سرکاری ملازمین پر 1955ء میں شائع کئے گئے اصول و ضوابطِ ملازمت کا اطلاق ہوتا تھا ۔ اس میں قائداعظم کی 25 مارچ 1948ء کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو دی گئی ہدایات پر مبنی اہم اصول یا قوانین مندرجہ ذیل تھے

(الف) ۔ ہر عہدیدار قوم کا حاکم نہیں بلکہ خادم ہے ۔ حکومت کا وفادار رہے گا اور اس سلسلہ میں دوسرے عہدیداران سے تعاون کرے گا
(ب) ۔ تعاون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے عہدیدار کے ہر عمل میں تعاون کرےگا یا اپنے اعلٰی عہدیدار کے ہر حُکم کو مانے گا بلکہ اگر دوسرا عہدیدار کوئی کام مروجہ قانون کے خلاف کرے یا اعلٰی عہدیدار کوئی ایسا حُکم دے جو قانون کے مطابق نہ ہو تو ان سے عدمِ تعاون وفاداری اور تعاون ہو گا
(ج) ۔ اوسط کارکردگی ہی مطلوب ہے ۔ اس سے اُوپر اور نیچے معدودے چند ہوتے ہیں جن کی طلب نہیں ہے
(د) ۔ ترقی کیلئے کارکردگی کی سالانہ رپورٹ (Annual Confidential Report)کے تمام حصوں کو برابر التفات (consideration/ weightage) دی جائے
(قارئین کی سہولت کیلئے قائداعظم کے متذکرہ خطاب کا متن اس تحریر کے آخر میں بھی نقل کیا گیا ہے

زمیندار ۔کاشتکار ۔ باغبان اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے باغیچے بنا رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اگر ایک جنگلی پودہ اُگ جائے اور اسے نکالا نہ جائے اور وہ بڑھتے بڑھتے درخت بن جائے تو پھر اسے تلف کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہائت مُشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ اگر اس درخت کو کاٹ دیا جائے تو زیرِزمین اس کی جڑیں پھیلی ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے وہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایک کے کئی درخت بن جاتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں اب یہی حالت ہو چکی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے 1973ء میں وضع کردہ انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نفاذسے 1955ء کے سرکاری ملازمت کے قوانین کلعدم ہو گئے ۔ گو نئے قوانین کی روح بھی وہی ہے کہ سرکاری عہدیدار قوانین کے مطابق کام کرے گا لیکن اس کی تشریح اُس طرح نہیں کی گئی جس طرح 1955ء کے قوانین میں موجود تھی ۔ بالخصوص ترقی کیلئے جو اصول اُوپر (ج) کے تحت درج ہے کی بجائے کر دیا گیا
Below everage, Average, above Average, Good, Very Good, Exellant
اور ان کے نمبر رکھ دیئے گئے ۔ ترقی کیلئے جو نمبر رکھے گئے اُن کے مطابق اوسط (Average) رپورٹ پانے والا ترقی نہیں پا سکتا تھا ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ متعلقہ افسر کو پرانے قوانین کے مطابق صرف Below Average رپورٹ کی اطلاع دی جاتی تھی چنانچہ افسر کو اپنی نااہلی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس کے جونیئر ترقی پا جاتے ہیں اور وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ستم بھی کہ بی پی ایس 19 کا افسر اگر 3 اوسط رپورٹیں پا لے تو وہ مستقبل میں گُڈ (Good) رپورٹیں لے کر بھی ترقی نہیں پا سکتا

(د) کے تحت لکھا گیا کی بجائے کر دیا گیا کہ
Grading and recommendation in the Fitness column given by the reporting officer shall be final

سرکاری عہدیداروں کی مُلک کے قوانین کی بجائے بڑے صاحب یا اس وقت کے حُکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کا عمل شروع ہونے کی دوسری بڑی وجہ مُلکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغلی داخلہ (Lateral Entry) کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور دوسرے منظورِ نظر لوگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اعلٰی عہدوں پر بھرتی بھی ہے جو ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل ضلعی اور اعلٰی عدالتوں میں بھی جج بنائے گئے ۔ ان عہدیداروں اور ججوں میں سے کوئی دس فیصد ہوں گے جو متعلقہ عہدوں کے قابل ہو سکتے تھے باقی سب نااہل تھے ۔ ان لوگوں نے حکومتی مشینری اور عدلیہ کو ہر جابر حکمران کے ہاتھ کا کلپرزہ بنا دیا

متذکرہ بغلی داخلہ کے ذریعہ سے وفاقی حکومت میں بھرتی کئے گئے درجنوں ڈپٹی سیکریٹریوں اور جائینٹ سیکریٹریوں سے میرا واسطہ پڑا ۔ ان میں سے صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کو اپنے عہدے کے قابل پایا ۔ ایک ایسے ڈپٹی سیکریٹری سے بھی واسطہ پڑا جس سے ہر شخص نالاں تھا ۔ اُسے نہ بولنے کی تمیز تھی نہ کسی اور اداب کی ۔ ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتا تھا ۔ نہ انگریزی درست بول یا لکھ سکتا نہ اُردو ۔ اُس کے پاس بی اے ایل ایل بی کی سند تو تھی لیکن کسی قانون کا اُسے علم نہ تھا ۔ ڈپٹی سیکریٹری بنائے جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے کسی محلہ میں پیپلز پارٹی کا آفس سیکریٹری تھا

میری قوم کب جاگے گی یا رب ۔ میرے مولٰی ۔ جھنجھوڑ دے میری قوم کو کہ وہ جاگ اُٹھے اور اپنی بھلائی کیلئے جدوجہد کرے

DO YOUR DUTY AS SERVANTS ADVICE TO OFFICERS
Address to the Gazetted Officers of Chittagong on 25th March, 1948

I thank you for giving me this opportunity to see you collectively. My time is very limited and so it was not possible for me to see you individually. I have told you two things: I have already said what I had to say to the Gazette Officers at Dhaka. I hope you should read an account of what I said there in the newspapers. If you have not I would request you to take the trouble of reading what I said there. One cannot say something new everyday. I have been making so many speeches and I expect each one of you to know my views by now.

Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.

With these observations I conclude what I had to say. I thank you very much indeed that you have given me this opportunity to say these few words to you and if you find anything good in it follow, if you do not find anything good in it do not follow.

Thank you very much.

Pakistan Zindabad

بنی اسراءیل کی تاریخ ۔ حصہ دوم

میں نے 585 قبل مسیح تک کی بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ 22 فروری کو لکھی تھی ۔ حالات کے اچانک تغیر کی وجہ سے وقفہ طویل ہو گیا ۔ حاضر ہے 585 قبل مسیح کے بعد کی تاریخ اختصار کے ساتھ

فلسطین کی ریاست 586 قبل مسیح میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو‏ ع ہوئے اور انہوں نے اُس جگہ کے قریب اپنی عبادت گاہ تعمیر کی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں
وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن پھر بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور اُن کا واپس فلسطین آنا ممنوع قرار دے دیا ۔

بعد میں 614 سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھُلی چھٹی دے دی مگر یہودیوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم و تشدّد شروع کر دیا ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے یہودیوں کی سرکوبی کی ۔ 636 عیسوی میں بازنطینی حکومت نے مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس اُن کے حوالے کر دیا ۔ اِس طرح فلسطین پر سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم کی اُمّت کی عملداری میں آ گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہُ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639ء میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 709ء سے 715ء کے درمیان خلیفہ ولید نے اس مسجد کی تعمیرِ نو کروائی اور اُس کا نام غالباً معراج یا اِسراء کے حوالہ سے مسجد الاقصٰی رکھا ۔ 747 عیسوی کے زلزلہ سے مسجد بُری طرح متاءثر ہوئی تو نئے سرے سے مگر وسیع مسجد بنائی گئی ۔ 1033ء میں صلیبی جنگوں نے اسے خاصہ نقصان پہنچایا ۔ مزید صلیبی بادشاہوں نے اُسے اپنے محل میں تبدیل کر دیا ۔ 1927ء اور 1936ء کے زلزلوں سے اس کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جس کے باعث اس کی کُلی طور پر نئے سرے سے تعمیر شروع کی گئی جس کے دوران حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے پہلے کا عمارتی سامان بھی وہاں سے برآمد ہوا ۔

636ء سے 1918ء تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کی امّت مسلمہ کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے بعد کے چند سالوں کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔

بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زَکَرِیّا علیہ السّلام اور حضرت یحٰی علیہ السّلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے

کیا منافق کے سر پر سینگ ہوتے ہیں ؟

منافق کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ اُس کے کلام اور عمل میں تضاد ہوتا ہے یعنی جو وہ کہتا ہے اُس کے خلاف کام کرتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِاعظم اور پی پی پی کے وزراء گذشتہ شام تک بیان دے رہے تھے کہ لانگ مارچ اور احتجاج سب کا جمہوری حق ہے ۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اس میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے ۔ آج بروز بدھ 11 مارچ 2009ء کی صبح 11 بجے تک کی صورتِ حال یہ ہے

پورے صوبہ پنجاب میں منگل اور بُدھ کی درمیانی رات 12 بجے سے دفعہ144کے نفاذ کے ساتھ ہی چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ 30 اضلاع میں فوج اور 11 میں رینجرز تعینات کئے جا رہے ہیں ۔ بعض اضلاع میں فوج اور رینجرز دونوں تعینات کی جائیں گی ۔ 12 مارچ سے آرمی اور رینجر کا فلیگ مارچ شروع ہوگا ۔ پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں اور وکلا کی اے کلا س لیڈر شپ کی نظربندی جبکہ بی اور سی کلاس کے رہنماوں کو حراست میں لئے جانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ مختلف شہروں میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کیلئے فہرستیں حکام کو موصول ہوگئی ہیں

روپوش ہونے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این اے۔ ایم پی اے اور وکلا رہنماؤں کو ان کے موبائل فون سے ٹریس کرنے کے لئے خفیہ اداروں کی مدد لی جارہی ہے

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ ن کی جانب سے لانگ مارچ کے حوالے سے لگائے گئے بینرز اور پوسٹرز اتار دیئےگئے ہیں ۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں سمیت معروف شاہراوں پر پولیس نے گاڑیوں کی چیکنگ شروع کردی ہے۔ گاڑیوں کو روک کی انکی تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی بلال یاسین ،چوہدری نصیربھٹہ،سابق صوبائی وزیرچوہدری عبدالغفور،ارکان پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیراورشمسہ گوہرکی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

رائیونڈ میں مسلم لیگ ن اورجماعت اسلامی کے کارکنوں کیخلاف کریک ڈاؤن کے دوران کئی ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

قصوراورکھڈیاں میں چھاپے مارکرمسلم لیگ(ن)کے متعددمقامی رہنماؤں اورکارکنوں کوگرفتاکرلیا گیا ہے

راولپنڈی میں لانگ مارچ روکنے کیلئے گذشتہ شب شروع سے پولیس سیاسی کارکنوں اور وکلاء کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مار رہی ہے

سرگودھامیں مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری عبدالمحید کے بیٹے اور ملازم کو گرفتار کرلیاگیا
کبیر والامیں مسلم لیگ(ن)کے مقامی صدر ملک عبد الرؤف کوگرفتار کر لیا گیا
گجرات میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے حاجی ناصر،تحصیل صدر تنویر گوندل اورچیمبر کے صدر جاوید بٹ کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ موجودنہ تھے۔دیگرمقامات سے چار کارکنوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی

جھنگ میں مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر سیف اللہ شیروانی کے بھائی سمیت 3 کارکنان گرفتار کرلئے گئے ۔ مسلم لیگ (ن)کے ایم پی اے افتخار احمد بلوچ کے گھر پر چھاپاماراگیااوران کے ڈرائیور اور گن مین سمیت 8 افرادکوگرفتارکرلیاگیا ۔ پولیس چھاپے میں دیگر 7 افراد بھی گرفتار کئے گئے ہیں ۔ پولیس مسلم لیگ ن کے گھروں میں دروازے توڑ کر داخل ہورہی ہے اور گھر والوں کے ساتھ بد سلوکی کی جارہی ہے ۔ جھنگ ہی میں بھکر روڈ کے علاقے سے مسلم لیگ کے دو کارکن گرفتار کئے گئے ہیں ۔ شباب ملی کے ضلعی صدر میر قاسم نیازی کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے والد کوگرفتار کرلیا گیا ہے ۔ ایم ایس ایف ڈویژنل چیف آرگنائزر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور ان کے پہلے سے زخمی بھائی کوگرفتار کرلیا گیا۔ جبکہ دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کیلئے ضلع بھر میں چھاپے مارے جارہے ہیں

بورے والا میں پولیس اور ایلیٹ فورس کی جانب سے سیاسی کارکنوں کیخلاف شروع کئے گئے کریک ڈاوٴن کے نتیجے میں سٹی ناظم گگو میاں احد سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے

ملتان میں پولیس جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے

فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو اور رہنما میاں عبدالمنان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے

ضلع رحیم یار خان میں کریک ڈاؤن جاری ہے اور پولیس سیڑھیاں لگا کر گھروں میں داخل ہورہی ہے

پولیس کے مطابق صادق آباد میں مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما ارشد تاج کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارکر ان کے بیٹے کو گرفتار کرلیا ہے

ساہیوال میں تحریک انصاف کے ضلعی صدر حاجی حفیظ الحق کے گھرپر پولیس کا چھاپاماراگیا اور پولیس نے خواتین اور اہل خانہ کے ساتھ بدسلوکی کی

ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان کے صدر اظہر ترمذی ۔ جنرل سیکرٹری وسیم جسکانی سمیت متعدد سرگرم وکلا کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ۔ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری میرمرزا تالپور ۔ تحریک انصاف کے صدر فہیم سعید اور جمعیت اہل حدیث کے رہنماؤں سمیت کئی سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تاہم ان کی روپوشی کے باعث کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ۔ ضلع کی دیگر صوبوں سے ملنے والی سرحدوں پر بھاری پولیس تعینات کر دی گئی ہے

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے راہ نما ظفر علی شاہ ،ایم این اے ڈاکٹر طارق ،انجم عقیل کے گھروں پرچھاپے مارے گئے تاہم وہ گھروں پر نہیں تھے،پولیس ڈاکٹر طارق کے بھائی کوگرفتارکرکے لے گئی۔ راولپنڈی میں وکیل رہنماجسٹس ریٹائرڈطارق محمود،مسلم لیگ ن کے رہنماؤں حنیف عباسی ،شاہدخاقان عباسی،ضیااللہ شاہ،شباب ملی کے صدر سید شاہد گیلانی،جماعت اسلامی کے رہنم ادبیراحمدخان کے گھر وں پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ گھرپرنہیں تھے ۔ ویمن ایکشن فورم کی سربراہ طاہرہ عبداللہ کو ایم پی او کے tahira-arrestedتحت 90 روز کے لئے اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ کے بعد گرفتار کیا گیا لیکن 3گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد ویمن پولیس اسٹیشن اسلام آباد سے رہا کر دیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ مس طاہرہ عبداللہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں اور انہوں نے انسانی حقوق کیلئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے ۔ یہ ڈاکٹر عبداللہ کی بیٹی ہیں جو دو دہائیاں اقوامِ متحدہ کے پینل پر بطور ڈاکٹر کام کرتے رہے

توہینِ عدالت

المعروف عوامی دور میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک بدنام جج کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا تو اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی صاحب نے توہینِ عدالت کے موضوع کے تحت اس جج کی کرامات لکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جج کو چیف جسٹس بنانا توہینِ عدالت ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے الطاف حسن اور اس کے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن کو گرفتار کر لیا اور ان کا رسالہ اُردو ڈائجسٹ بند کر دیا ۔ مکافاتِ عمل دیکھیئے کہ بعد میں اعلٰی عدالت کے جس بنچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی اُس میں متذکرہ بالا جج بھی شامل تھا

فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نمبر بڑھانے کے واقع سے سب واقف ہو چکے ہیں ۔ اس غلط کام کے خلاف دائر پیٹیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ [re-assessment] کو قانونی قرار دیا تھا ۔ عوامی اور پالیمانی دباؤ سے مجبور ہو کر مرکزی وزیرِ تعلیم نے محکمانہ تحقیقات کا حکم دے رکھا تھا جس کی رپورٹ تیار ہو چکی ہے جو وزیر تعلیم کے دساور سے واپسی پر وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد جاری کی جائے گی ۔ اس رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین کو فرح حمید ڈوگر کی جوابی امتحانی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ کرانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا ۔ غلط فیصلہ دینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس 11 مارچ 2009ء کو ریٹائر ہونے والے تھے ۔ صدر نے اُنہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عظمٰی کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟

پچھلے سال کے آخری مہینوں میں ایک خبر سامنے آئی تھی کہ گوجرانوالہ کا مشہور اور طاقتور ٹھگ نانو گورایہ جس نے شہر کے تمام تاجروں کو یرغمال بنا رکھا تھا گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ پھر اس سال فروری کے شروع میں یہ بات سامنے آئی کہ گوجرانوالہ کے اُس وقت کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کے ساتھ نانو گورایہ کے بہت قریبی تعلقات تھے اور یہ تینوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے ۔ اُس ڈی آئی جی کو 25 فروی 2009ء کو پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب لگا دیا گیا تھا ۔ چند دن قبل نانو گورایہ کے دوست جج کو صدر نے لاہور ہائی کورٹ سے اٹھا کر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ لگا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عالیہ کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟

پچھلے دو ہفتوں میں سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں جو دو درجن سے زائد نئے جج تعینات کئے گئے ہیں ان میں بھاری اکثریت اُن وکلاء کی ہے جو فروری 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار تھے لیکن الیکشن جیت نہ سکے ۔ باقی وہ وکلاء ہیں جنہوں نے وکلاء تحریک سے غداری کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بیانات دیئے ۔ یہ عدل کا سامان ہے یا توہیںِ عدالت ؟

رہ گئی رسم اذاں

میری کل کی تحریر پر سب بہن بھائیوں نے بڑے خلوصِ شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کیلئے میں اُن کا مشکور ہوں اور سب کا انفرادی طور پر جواب نہ دینے پر معذرت خواہ ہوں ۔ احمد صاحب نے درست طور پر تاریخ مولدالنبی پر اختلاف کا ذکر کیا اور اس کیوجہ بھی یہی ہو سکتی ہے کہ پہلی چار صدیاں کسی نے اس کی طرف توجہ دینے کی بجائے پیغمبرِ اسلام رحمتً لِلعالَمِین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ۔ تاریخی کُتب مطابق 9 یا 12 ربی الاوّل میں سے ایک تاریخ ہے ۔ میں کسی زمانہ میں محفلِ میلاد میں جاتا رہا ہوں اور جلوس میں بھی شرکت کی لیکن جو کچھ میں نے وہاں ہوتے دیکھا اُس میں زیادہ تر صرف دکھاوا ہونے کے علاوہ جس سے محبت کے اظہار کیلئے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اُسی کی تعلیمات اور سُنت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

تمام تبصروں کا جواب میں حکیم الاُمت علّامہ محمد اقبال کے الفاظ میں لکھ رہا ہوں

تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
اللہ سے کب پيار ہے ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن ۔ تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئينِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعارِ اغيار ؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعي نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

محبت ۔ کیسی ؟

شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد کو پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سسی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سوہنی کی بھینسیں چرانے لگا ۔

یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے ۔

آج عرب دنیا میں ربیع الاوّل 1429ھ کی 12 تاریخ ہے اور پاکستان میں کل ہو گی ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں ۔ سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے کیوں میں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟ ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ

تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟

میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔

میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا

اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔

الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔

سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا

آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ