پڑھنا کب بہتر

شعیب سعید شوبی صاحب نے لکھا تھا “امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں”

امریکی ماہرین نفسیات نے درست کہا ہے لیکن شاید ایک صدی یا زیادہ تاخیر سے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کئی اساتذہ نے یہ ہدائت ہمیں سکول کے زمانہ میں کی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد سو جایا کریں اور صبح سویرے اُٹھ کر تھوڑی سی سیر کریں اور پھر نہا کر پڑھا کریں ۔ دوپہر کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کریں پھر بیٹھ کر پڑھیں ۔ میرے اساتذہ کے مطابق رات آرام کرنے کے بعد صبح آدمی تازہ دم ہوتا ہے ۔ دوسرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دن رات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ صبح سویرے تازہ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کو تازگی بخشتی ہے ۔ اسلئے جو سبق یاد کرنے میں رات کو تین گھنٹے لگتے ہیں وہ صبح ایک گھنٹہ میں یاد ہو جاتا ہے ۔ میں نے مَیٹرک 1953ء میں پاس کیا تھا

ہماری پہلی یا دوسری جماعت کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سادہ اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا “دن بنایا محنت کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو ۔

میرے والد صاحب[اللہ بخشے] کہا کرتے تھے

Early to bed, early to rise
healthy wealthy and wise

سردیاں ہوں یا گرمیاں میرے والد صاحب سورج طلوع ہونے سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اُٹھ جاتے اور نہا کر اپنا کاروباری لکھنے پڑھنے کا کام کر کے پھر ناشتہ کرتے ۔ میں اور میرے چند ہم جماعت اندھیرے منہ اُٹھ کر اکٹھے دو کلو میٹر دور شہر سے باہر کی طرف جاتے وہاں سے پھلائی کی ٹہنی کاٹ کر واپسی پر داتن کرتے آتے ۔ گھروں میں پہنچ کر نہا کر پڑھنے بیٹھ جاتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ہے لیکن میں ایف ایس سی پاس کرنے تک کبھی عشاء کی نماز کے بعد جاگتا نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اللہ کی مہربانی سے میرا شمار اچھے طلباء میں رہا ۔ آٹھویں جماعت کے دوران صرف ایک دن صبح نہیں اُٹھ سکا تھا تو میری والدہ [اللہ جنت نصیب کرے] نے کہا “مسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہیں اُٹھتا”۔ یہ جُملہ میں کبھی نہیں بھُلا سکتا

رات کو پڑھنے والے صبح سویرے پڑھنے کی افادیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اُنہیں مختلف وجوہ نے رات دیر تک جاگنے کا عادی بنا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں موجودہ جوان نسل کی نسبت اُن کے والدین کا زیادہ قصور ہے جو فطری نظام کے خلاف رات گئے تک فلمیں یا ڈرامے دیکھنے اور محفلیں سجانے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی

صرف چار دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام سکول اور دکانیں گرمیوں میں صبح 7 بجے اور سردیوں میں صبح 8 بجے کھُلتے تھے ۔ دکانیں شام 7 بجے بند ہونا شروع ہو جاتیں اور سب دکانیں 8 بجے تک بند ہو جاتیں ۔ رات کا کھانا سب لوگ سورج چھُپنے کے بعد جلد کھا لیتے ۔ گرمیوں میں صبح ناشتہ دوپہر اور رات کو کھانا کھاتے جبکہ سردیوں میں لوگ صبح اور رات کو کھانا اوربعد دوپر کچھ ہلکا پھُلکا کھا لیتے جسے ناشتہ یا چائے کا نام دیا جاتا ۔ اب کیا ہے ۔ کوّا گیا تھا مور بننے ۔ نہ مور بنا اور نہ کوّا ہی رہا

جن لوگوں کو رات کو جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ پہلے صبح سویرے اُٹھ کر نہانے اور فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ نماز کے بعد صبح ناشتہ کرنے تک جو سب سے مشکل سبق سمجھیں اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جب عادت ہو جائے پھر مزید جلدی اُٹھنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ صبح سویرے نہانے سے آدمی سارا دن تازہ دم رہتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

This entry was posted in تجزیہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

17 thoughts on “پڑھنا کب بہتر

  1. شعیب سعید شوبی

    السلام علیکم اجمل صاحب!

    میں کن الفاظ میں آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے مجھ ناچیز کے مسئلے کے حل کے لئے اپنے موقر بلاگ میں جگہ عنایت کی۔ بہت شکریہ جناب! :smile:

    آپ یقین کریں میں نے پہلی بار کسی بلاگ کی تحریر کو اس قدر توجہ سے حرف بہ حرف پڑھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شہروں میں لوگوں کی اکثریت رات گئے تک جاگنے کے عادی ہوگئے ہیں اور میں بھی ان میں شامل ہوں۔ آپ کی بات سے ہرگز ہرگز انکار نہیں مگر اب میں اپنا اسکول کا روٹین بالکل سچ سچ بتانا چاہوں گا۔ میں اسکول کے زمانے سے رات دیر تک پڑھنے کا عادی رہا ہوں۔ بلکہ میرے ہم جماعت (کم از کم وہ جن سے میری دوستی تھی) بھی اسی روٹین کے عادی تھے۔میری پڑھائی شروع ہی عشا کی نماز کے بعد شروع ہوتی تھی۔ اس دوران لوڈ شیڈنگ ، ٹی وی دیکھنا وغیرہ جیسے مسئلے یا بہانے وغیرہ جاری رہتے تھے۔ چنانچہ اس دوران لکھنے کا کام یا ہوم ورک کرتا تھا اور اصل یاد کرنے کا کام شروع ہی گیارہ بارہ بجے ہوتا تھا۔اکثر دو بجے تک پڑھائی جاری رہتی تھی۔ اس وجہ سے اسکول سے واپسی پر اپنی ادھوری نیند پوری کرنی پڑتی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی میں نے صبح سویرے اٹھ کر یاد کرنے کا کام کیا ہوگا۔ میں ہرگز اسے اچھا روٹین قرار نہیں دیتا۔ لیکن آپ یقین کریں میری کلاس کی اکثریت اسی روٹین کی عادی تھی۔ میں بہت آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈینٹ تو نہیں البتا اچھا اسٹوڈینٹ ضرور رہا ہوں۔

    میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ صبح پڑھنے والے ہی اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ اصل بات پڑھنے کی ہے۔ ورنہ جنھوں نے نہیں پڑھنا ہوتا وہ صبح سویرے اٹھ کر بھی نہیں پڑھتے۔ البتا بہتر بلکہ بہترین یہی ہے کہ صبح سویرے پڑھنے کی عادت ڈالی جائے کیونکہ صبح سویرے اٹھنے کے جو فوائد آپ نے گنوائے ہیں ان سے ہرگز انکار نہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا عادت ختم ہوتے ہوتے بھی وقت درکار ہوتا ہے تو وہی بات ہے۔ بہرحال میں اپنی اس رات گئے دیر سے پڑھنے کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں آج کل میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ عادت سے مجبور ہوکر رات کو سوتے وقت جب میں کوئی کتاب پڑھنے کے لئے اٹھا لیتا ہوں تو جوں ہی مجھے خیال آتا ہے ، کتاب بند کر کے سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ صبح جلد اٹھنا بھی آہستہ آہستہ شروع کیا ہے۔ اب میری انشااللہ تعالیٰ کوشش رہے گی کہ صبح صبح پڑھنے کی بھی عادت ڈالوں۔

    اس مفید پوسٹ پر میں آپ کا بے انتہا شکرگزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے۔

  2. Pingback: شوبی نامہ » Blog Archive » پڑھنا کب بہتر؟

  3. احمد

    گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی ”
    یہ بات بالکل غلط ہے کہ گورے رات دیر تک جاگتے ہیں۔ جرمنی اور امریکہ تک تو میں یہ پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں ما سواء ویک اینڈ پر۔۔ہمیں اپنی ہر غلطی دوسروں پر ڈالنے کی عادت ہو گئی ہے۔۔موسم چاہے کیسا ہی ہو سخت ترین سردی میں بھی کام علی الصبح شروع ہوجاتا ہے۔۔

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    احمد صاحب
    میں نے یہ نہیں لکھا کہ گورے ہفتہ کے سات دن جاگتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جمعہ اور ہفتہ کے بعد کی راتیں جاگتے ہیں ۔ وہ بھی سب نہیں ۔ بات یہ ہے کہ گوروں کو دیکھ کر ہمارے لوگ ہر بات میں نقل کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہین کہ وہ ہفتے میں ایک دن کر رہے ہیں کہ سال میں دن ۔ اتفاق کی بات کہ میں برطانیہ ۔ جرمنی اور بیلجیئم میں رہ چکا ہوں اور وہاں کے لوگوں کی عادات سے واقف ہوں ۔ جرمنی میں تمام دفاتر سارا سال صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتے تھے ۔ رات کا کھانا سب آٹھ بجے تک کھا لیتے تھے ۔

  5. ڈفر

    ہماری اردو کی کتاب میں بھی یہ نظم تھی لیکن کچھ ان مختلف الفاظ کے ساتھ
    دن بنایا کام کرنے کو، رات بنائی نیند بھرنے کو
    مزید یہ کہ آپ چالیس سال پرانی بات کرتے ہیں مجھے نہیں‌یاد کہ جب تک ہم اماں ابا کے کنٹرول میں تھے تو کبھی ہم رات نو بجے والے خبرنامے تک بھی جاگے ہوں، دکانیں بھی رات جلدی ہی بند ہو جاتی تھیں۔ رات دیر تک جاگنے کی رسم کوئی زیادہ پرانی نہیں، شائید یہی کوئی آٹھ دس سال ہوئے ہوں گے ہماری عادتوں کو بدلے ہوئے۔ شائد یہ جب کی بات ہے جب پی ٹی وی نے نائیٹ ٹائم ٹرانسمیشن کا آغاز کیا تھا اور پھر اس کے بعد مزید چینلز کی آمد، پھر 24 گھنٹے کی نشریات۔۔۔۔
    جرمنی کی تازہ روٹین جو مجھے پتا ہے وہ یہ ہے کہ رات آٹھ نو بجے تک بازار میں شائد ہی آپ کو کوئی دکان کھلی ملے۔ کوئی خریداری والا ہی نہیں ہوتا۔ لوگ ویک اینڈ پر خریداری کے عادی ہیں اور مہینے بھر کی یا ہفتہ بھر کی کریداری اکٹھے کرتے ہیں۔ ہم تو اب روز روز کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ کبھی آدھا کلو دال، کبھی ایک کلو چاول، کبھی چھے انڈے اینڈ سو آن۔
    گوروں کی ہر بات بری نہیں لیکن وہی آپ والی بات کہ نقالی میں ہم انگریزوں کے بھی انگریز بن جاتے ہیں یا بن گئے ہیں :mrgreen:

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈِفر صاحب
    میں نے بہت زیادہ احتیاط برت کر چالیس سال کہا تھا ۔ کیونکہ میں 1976ء کے شروع میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا ۔ واپس سات سال بعد ہوئی اور آتے ہی مجھے نیچے اُوپر تیں بڑے پراجیکٹ دیئے گئے ۔ جب میں پونے باون سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھا تو معلوم ہوا دنیا بدل چکی ہے ۔ جرمنی کا مجھے یاد ہے کہ سب دکانیں بشمول اوٹو میس ۔ کار شٹاٹ اور کاؤف ہوف شام ساڑھے چھ بجے بند ہو جاتی تھیں

  7. صبا سیّد

    اسلامُ علیکم
    جب ہم چھوٹے تھے تب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ رات دیر جاگنے کی اور صبح دیر سے اٹھنے کی عیاشی کر سکیں۔ تب تو بس سات کیا بجنے ہوتے تھے فوراً امی کی آواز آتی تھی، بابا آنے والے ہیں ۔۔۔ بس بابا آتے ، کھانا لاگتا اور آٹھ بجے تک بستر کے اندرد یہ ا وہ جا۔ اور صبح بھی جد بیدار ہو جاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ہم جمعہ کے دن بھی 7 بجے کے بعد اٹھیں ہوں۔ اس کے بعد تو بس عادتیں بگڑیں تو بگڑتی گیئں، لیکن تب بھی صرف پڑھائی کی غرض سے ہی جاگنا ہوتا تھا، لیکن اٹھنے کا وقت ہمیشہ وہی رہا۔
    اب میں جس جگہ ہوں کافی سے ذیادہ جہالت ہے یہاں لیکن یہاں کی کچھ باتیں بہت اچھی ہیں۔ یہاں لوگوں کی یہی عادت ہے ۔ فجر کے وقت اٹھتے ہیں ، 8 بجے کے قریب سب اپنے اپنے کام پہ نکل جاتے ہیں، 12 بجے واپسی ہوتی ہے تو ان 4 گھنٹوں میں قیلولہ لینے کا بھی وقت مل جاتا ہے۔ 4 بجے شام کو پھر کام کے لیے نکل پڑھتے ہیں، 8 بجے تک سارے کام کاج بن ہو جاتے ہیں، گھر پہنچ کر یہ لوگ عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور 9 بجے تک سو جاتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب ، عام آدمی ہو یا یہا ں کا صدر سب کی یہی روٹین ہے۔ اب تو میری بھی تقریباً یہی روٹین بن گئی ہے، ورنہ شادی سے پہلے مجھ سے فجر کی نماز قضا ہو جاتی تھی (یا پھر یوں کہیے کہ پڑھے نہیں جاتی تھی :oops: )

    فی امان اللہ

    P.S = ہاں! ایک بات یاد آئی انکل، جس نظم کا ذکر آپ نے کیا ہے وہ نظم ہمارے بھی نصاب میں تھی۔ امید ہے دوسرے مضامین بھی وہی ہونگے اس اندازہ لگائیے ہمارy سرکاری تعلیمی نظام نے کتنے “شاندار” طریقے سے “ترّقی” کی ہے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیّدہ صبا صاحبہ
    بات آپ نے درست کہی ۔ تعلیمی نصاب کا جو حال ہمارے ہاں جدیدیت کے نام پر ہوا ہے ۔ الامان الحفیظ ۔ میں جب 1999ء نے میرے بیٹے زکریا اور اپنی بہو دونوں کی ایم ایس انجنیئرنگ کی کنووکیشن تھی میں بھی پہنچ گیا تھا ۔ ایک دن میں زکریا کے ساتھ اس کی یونیورسٹی جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی چلا گیا ۔ اُسے لائبریری میں کوئی کام تھا ۔ وہاں لائبریری میں کتابیں نہیں کمپیوٹر ہوتے ہیں جن پر ہر کتاب پڑھی جا سکتی ہے ۔ اُس نے اپنی بیوی کے آئی ڈی سے ایک کمپیوٹر کھول کر مجھے دیا تاکہ میرا وقت آسانی سے گذر جائے اور خود وہ دوسرے کمپیوٹر پر مشغول ہو گیا ۔ میں نے وہ سٹڈی کورسز دیکھنا شروع کر دیئے ۔ میں دیکھ کر حیران ہوا کہ وہاں بی ایس انجنیئرنگ کا ہُو نہُو وہی سلیبس تھا جو ہم نے انجنیئرنگ کالج لاہور میں چالیس سال قبل پڑھا تھا لیکن ہمارے ملک میں جدیدیت کے نام پر تبدیل کر کے مُختصر کیا جا چکا تھا ۔
    نظم کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 1973ء تک وہ کتابیں پڑھائی جا رہی تھیں جو ہم نے پڑی تھیں ۔ پھر جو تعلیمی اصلاحات نافذ ہونا شروع ہوئیں تو تعلیم مذاق بن کر رہ گئی

  9. انا

    اقبال نے کہا تھا کہ
    عطار ہو رومی ہو ،رازی ہو غزالی ہو
    کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہِ سحر گاہی
    صبح میں واقعی اسرار پوشیدہ ہیں لیکن ایسی خراب عادت پڑی ہےہم میں سے اکثر لوگوں کو رات تک جاگنے اور دن چڑھے سونے کی-قصور والدیں کا بھی ہے ،ماحول کا بھی اور ہم لوگوں کا بھی-
    باقی پڑھنے کے لئے صبح کا وقت ہی اچھا ہے کیونکہ رات جاگنا ایک خلافِ فطرت بات ہے

  10. شمیم

    میں نے اپنی پڑھائ ایک مشنری سکول میں بورڈنگ ہاؤس میں رہ کی ۔اس کے بعد بھی گورنمنٹ کے سکول کالج میں بورڈنگ ہاؤس میں ہی گزاری لیکن وہ زمانہ ابھی تک یاد ہے وہ ڈسپلن میں نے کسی اور جگہ نہ دیکھا جو مشنری کے سکول میں تھا وقت کی پابندی ہر ۔کام کے لیے وقت کا تعین کرنا بہت ضروری ہوتا بس گھنٹی بجی اور ہم اپنی اپنی نماز کے لیے بھاگے اسی طرح سکول جان کھانا اور سونا پڑھای کے وقت پڑنا اور وقت پر سونا ایک معمول سابن گیا کچھ ھی ہو رات کو اپنا سلیپنگ سوٹ پہننا اور جس دن کام کچھ رہ گیا ہو رات کو باتھ روم کی پانی کی ٹھنڈی ٹینکی پر بیٹھ کر کام ختم کرنا کیونکہ ایک خاص وقت کے بعد لائٹ بند کردی جاتی تھی اور وہ باتیں ساری آج بھی یاد آتی ہیں کہ کاش کچھ اور پڑھ لیا ہوتا ؟۔۔۔۔گھر میں بھی ایسی ہی عادت رہی اور ہے مگر اب کیا فائدہ وقت گزر گیا وقت نے وفا نہ کی سب ادھورا رہ گیا جو آج تک افسوس ہے کہ پڑھ لیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔راضی برضا !

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محترمہ شمیم صاحبہ
    کیا اُس زمانہ میں آپ کے خاندان کی رہائش گاؤں میں تھی ؟ کہ آپ نے سارا تعلیمی زمانہ ہوسٹل میں گذارا ۔
    ہاں ۔ اُس زمانے میں نظم و ضبط کو بہت اہمیت دی جاتی تھی ۔ عوامی دور (جنوری 1972ء تا جون 1977ء) سب کچھ بہا کر لے گیا

  12. شمیم

    افتخار اجمل بھائ اسلام علیکم جی ہاں میرےوالدین گاوں میں رہتے تھے میں نے تمام وقت ہوسٹل میں گزارا۔

  13. سیما آفتاب

    راتیں دیں آرام کو تُو نے، دن دیے ہیں کام کو تُو نے۔۔۔۔ ( ہم نے اس طرح پڑھا ہے)

    بہت مفید تحریر ہے ۔۔۔ اب تو رات کو جلدی سونے والے کو ‘پینڈو’ کہا جاتا ہے بلکہ مذاق ہی اڑایا جاتا ہے کہ 10 بجے کے بعد سے ہی ‘ ان کا تو سونے کا ٹائم ہو گیا بس’ کہہ کر جتایا جاتا ہے کہ بھئی آپ تو ‘آئوٹ ڈیٹڈ” ہو بس ۔۔۔

    ہمارے گھر میں بھی صبح دیر تک سونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہےامتحانات کے دنوں میں امی ہمیں اسکول کے ٹائم سے کافی پہلے اٹھا دیتی تھیں کے جو پڑھا ہے اسے دہرا لو ۔۔۔ اور مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی رات کو جاگ کر پڑھائی کی ہو حد سے حد 11 بجے بس اس کے بعد میری تو بیٹری ہی ڈائون ہو جاتی تھی :)

    ایک مزے کا قصہ سناتی ہوں 1997 یا 98 کی بات ہے جب ایف ایم ریڈیو کا نیا نیا شوق تھا ۔۔ ہم بہنیں رات کو دیر تک ریڈیو سنا کرتی تھیں ایک دن صبح 11 بجے تک آنکھ نہیں کھلی ۔۔۔ جب اٹھے اور دروازہ کھولا تو دروازہ باہر سے لاک ۔۔۔ اب پریشانی کہ یہ کیا ۔۔ کیوں لاک ہے دروازہ کافی دیر بعد امی نے کھولا دروازہ اور بتایا کہ ابو سزا کے طور پر دروازہ لاک کر گئے تھے کہ سونے دو آج ان لوگوں کو ۔۔ وہ دن اور آج کا دن کطھی اتنی دیر نہیں سوئی میں :)

  14. سیما آفتاب

    ہاہاہا جی اس میں تو کوئی شک نہیں ۔۔۔ ویسے میرے ابو بھی غصہ نہیں کرتے بس کچھ باتیں ان کے اصول کے خلاف ہیں :)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.