میرا پاکستان والے صاحب نے میری تحریر سے آگے چلتے ہوئے کچھ ایسا استدلال اختیار کیا ہے جو منطق [Logic] اور تاریخی حقائق کی نفی کرتا ہے ۔ میں نہ تو عالِمِ دین ہوں نہ عالِمِ تاریخ ۔ طالب عِلم کی حیثیت سے جو میں اپنے 60 سالہ مطالعہ کی روشنی میں اُن کے مندرجہ ذیل بیانات کے متعلق اصل صورتِ حال کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ میری مدد فرمائے
ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے
عربی زبان
عربی زبان سیکھنا مُشکل نہیں ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہموطن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان جس کے حروف اور رسم الخط جانے پہچانے ہیں اور جس کے کئی الفاظ ہماری اپنی زبان میں موجود ہیں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔ اس کے مقابلہ میں انگریزی جس کے حروف ۔ قوائدِ ترکیب ۔ صرفِ نحو اور رسمُ الخط سب کچھ بیگانے ہیں نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ اسے مادری زبان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سکولوں میں انگریزی پڑھانے والے کو اگر دس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے تو عربی پڑھانے والے کو دو ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے کیلئے اعلٰی سند یافتہ اُستاذ رکھا جاتا ہے اور عربی زبان پڑھانا کم خرچ کی خاطر کسی ایرے غیرے کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے والے کی عزت کی جاتی ہے اور عربی پڑھانے والے کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔ ایک بچے کو انگریزی گھر پر پڑھانے کا پانچ ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا ہے ۔ گھر آ کر قرآن شریف پڑھانے والے کو ایک سو روپیہ ماہانہ دے کر احسان کیا جاتا ہے ۔ اِن حالات میں عربی زبان کیسے سیکھی جا سکتی ہے ؟
کیا عربی زبان سیکھنا مُشکل ہے ؟
ہمارے ہموطن انگریزی کے علاوہ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان اور چین کی زبانیں ۔ علومِ کیمیاء طبعیات ریاضی بالخصوص کیلکُولس بلکہ ڈِفرینشل کیلکُولس سیکھنے کیلئے سالہا سال محنت کرتے ہیں تو اُنہیں قرآن شریف جس کے حروف اُردو کی طرح ہیں اور اُردو کی طرح ہی لکھی جاتی ہے کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھنے میں کیونکر دقت درپیش ہے ؟ خاص کر جب کتابی صورت کے علاوہ انٹرنیٹ پر قرآن شریف کا ترجمہ سیکھنے اور عربی زبان سیکھنے اور بولنے کا طریقہ آسانی سے دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز میں ایسے کئی مدارس یا جامعات ہیں جہاں قرآن شریف [تجوید ترجمہ تفسیر] ۔ علوم القرآن و حدیث ۔ تعارف ادیان ۔ دینی شخصیات کا احوال ۔ آدابِ زندگی [ذاتی ۔ معاشرتی ۔ کلام ۔ سلوک ۔ عدل] وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں اور یہ گریجوئیٹ کیلئے ایک سالہ کورس ہے اور کورس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جنہیں دین کی آرزو ہے وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتے ہیں مگر اوّل شوق ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت مادہ پرست ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتی
تلاوت بغیر عربی زبان سیکھے
اگر کوئی اُردو پڑھنا جانتا ہو تو قرآن شریف کو سمجھے بغیر پڑھ سکتا اور پھر قرآن شریف میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو اُردو میں موجود ہیں ۔ میرا نظریہ ہے کہ کوئی زیادہ وقت نہیں دے سکتا تو صرف روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کا ایک رکوع اُردو ترجمہ کے ساتھ اس نیّت سے پڑھے کہ میں نے اسے ذہن نشین کرنا ہے اور اس میں دیئے گئے اللہ کے پیغام پر عمل کرنا ہے ۔ اِن شا اللہ وہ شخص قرآن شریف کو سمجھنے لگے گا اور اس پر عمل بھی کرنے لگ جائے گا ۔ رہی بات عربی زبان پڑھ کر خود قرآن شریف کا ترجمہ کرنا اور اس کو سمجھنا تو اس کیلئے لمبی عمر کے ساتھ انتہائی خشوع و خضوع درکار ہے ۔ اُن کیلئے بھی جن کی مادری زبان عربی ہے ۔ کُجا میرے جیسے کم عِلم جنہیں اپنی زبان کی بھی درست سمجھ نہیں ۔ اگلا سوال ہو گا کہ مختلف لوگوں نے مُختلف ترجمے کئے ہیں ۔ یہ ایک معاندانہ افواہ ہے جو مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کیلئے پھیلائی گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ اُردو تراجم سب ایک سے ہی ہیں ۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مفہوم نہیں ۔ مستند عام فہم مختصر تفصیر کے ساتھ اُردو ترجمہ پڑھنے کیلئے دارالسلام پبلشرز کا احسن البیان ۔ مودودی صاحب کا تفہیم القرآن اور سعودی حکومت کا منظور شدہ قرآن مع اُردو ترجمہ اور تفسیر ۔ اولالذکر دونوں بازار میں عام ملتے ہیں اور تیسرا کسی سعودی سفارتخانہ کے تحت کام کرنے والے مکتب الدعوہ سے بغیر معاوضہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ تفہیم القرآن چھ عمدہ مجلد حصوں پر مشتمل 2500 روپے میں دستیاب ہے اور اس سے کم ہدیہ والے بھی ہیں ۔ احسن البیان کا ہدیہ اس سے کم ہے
مُلا کی تاریخ
جو قوم اپنی تاریخ میں ہی دلچسپی نہیں لیتی وہ بیچارے امام مسجد کی تاریخ کیسے جان سکتی ہے ؟ مُلا انگریزی کے پروفیسر [Professor] کا ہم وزن ہے ۔ وطنِ عزیز میں تو گیارہویں جماعت کو پڑھانے والے کو بھی پروفیسر کہتے ہیں لیکن میں اس کی نہیں بلکہ عمدہ جامعہ [university] کے پروفیسر کی بات کر رہا ہوں ۔ مُلا ایک ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو صرف عالِمِ دین نہیں بلکہ کئی علُوم کا عالِم ہوتا تھا ۔ زمانہ قدیم میں مساجد اور کلیسا عِلم کا گہوارہ تھے اور یہی جامعات تھے ۔ علمِ کیمیا کا ماہر ایواگیڈرو ایک پادری تھا ۔ یونانی ماہرِ کیمیا مارک ایک راہب تھا ۔ وہ مسلمان جنہوں نے ریاضی ۔ جغرافیہ ۔ فلکیات ۔ طب ۔ طبعیات ۔ کیمیا اور عِلمِ ہندسہ وغیرہ کو جدید ترقی کی پٹڑی پر چڑھایاسارے مُلا ہی تھے اور دین پر قائم رہتے ہوئے دنیاوی عِلم میں عروج حاصل کیا تھا ۔ جب عیسائیوں نے مذہب کو دنیا سے الگ کیا تو علِم کو کلیسا بدر کر دیا جس کے نتیجہ میں عیسائی اپنے مذہب سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ہند وستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو جانے کے بعد تمام عالِم خواہ وہ دین کے تھے یا دنیاوی عِلم کے سب کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور مساجد جو کہ جامعات [universities] تھیں کا خرچ چلانے کیلئے مُختص جاگیریں ضبط کر لی گئیں ۔ پھر چھوٹے قصبوں اور دیہات سے کم پڑھے لکھے روٹی کے محتاج چند سو جوانوں کو چُن کر دین اسلام کی خاص تعلیم و تربیت کیلئے برطانیہ بھیجا گیا ۔ اس تعلیم و تربیت کے بعد انہيں واپس لا کر مساجد کے امام بنا دیا گیا اور ان کا نان و نفقہ متعلقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا ۔ اس طرح مُلا جمعراتی کی پود لگا کر اُس کی آبیاری کی جاتی رہی ۔ حکومت ان مُلاؤں سے اپنی مرضی کے فتوے لیتی رہی ۔ دین کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان انگریز غلام مُلاؤں نے اپنے مقتدیوں کو رسم و رواج میں اُلجھایا اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔ بد قسمتی یہ ہے آج بھی امام مسجدوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی مُلاؤں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ نہ حکومت اور نہ مقتدی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہوں تو ملاؤں کا کیا قصور ؟
قرآن شریف اپنی زبان میں
قرآن شریف کا ترجمہ رائج کرنا اسلئے بھی غلط ہے کہ کسی زبان کا ترجمہ کیا جائے تو مضمون کی اصل روح کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور بعض اوقات مترجم اصل عبارت کا مفہوم ہی بدل کے رکھ دیتا ہے ۔ اس وقت دنیا کی ہر بڑی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ موجود ہے ۔ اگر صرف دوسری زبانوں پر ہی انحصار شروع کر دیا جائے تو اللہ کا اصل پیغام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو جائے گا ۔ مزید برآں پہلے سے کوشاں مخالف قوتوں کو اسے بدلنے میں سہولت ہو جائے گی اور قرآن شریف کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو تورات ۔ زبور اور انجیل کے ساتھ ہوا آج دنیا میں بائبل کے نام سے درجنوں مختلف کتابیں موجود ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ عربی نہ سمجھتے ہوئے بھی قرآن شریف کی تلاوت بہت اثر رکھتی ہے اور پورا قرآن شریف لوگ زبانی یاد کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہ سب تو صرف بحث ہے ۔ آجکل قرآن شریف کے مستند بامحاوہ ترجمہ آسانی سے دست یاب ہے ۔ اسے پڑھ کر اپنے فراض و حقوق کو اچھی طرح سے ذہن نشین کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عربی میں تلاوت جاری رکھی جائے تو اللہ کے کلام کی برکت سے بہت کچھ سمجھ آنے لگ جاتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے
قرآن شریف سے قبل جتنے صحیفے اُتارے گئے وہ ایک مخصوص قوم کیلئے تھے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دین مکمل کرنا چاہا تو ایسی زبان میں قرآن شریف اُتارا جو اُس وقت کی آباد دنیا کے اکثر حصہ میں سمجھی جاتی تھی اور وہ زبان عربی تھی ۔ تاریخ پر غور کیا جائے تو عربی زبان نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ ملحقہ علاقوں میں بھی بولی یا کم از کم سمجھی جاتی تھی ۔ مشہور واقع حبشہ کا ہے جو افریقہ میں واقع تھا اور مکہ سے سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمان حبشہ پہنچے تھے اور وہاں کے عیسائی بادشاہ کو سورت مریم سنانے پر بادشاہ نے اُنہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا
اپنی اپنی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں ۔ پچھلے 55 سال کے دعووں کے برعکس اب تک نہ مُلک میں اُردو نافذ کی گئی ہے اور نہ تعلیم اُردو میں شروع ہوئی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ عام پڑھی جانے والی آسان کتابوں کا بھی اُردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔ علاقائی زبانوں میں کون اور کیسے ترجمہ کرے گا ؟ پھر پاکستان میں درجن بھر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان ہر ضلع میں فرق بولی جاتی ہے اور کئی اضلاع میں ہر تحصیل میں فرق فرق بولی جاتی ہے ۔ پنجابی ہی دیکھ لیں ۔ ہر ضلع میں فرق فرق ہے ۔ راولپنڈی کی تو ہر تحصل کی پنجابی فرق ہے ۔ ایک تحصیل میں آؤں گا دوسری میں آ ریساں تیسری آساں نا چھوتھی میں اچھی ریساں ۔ ایک تحصیل میں شودا کا مطلب بدمعاش یا انگریزی والا شوئی [showy] ہے اور دوسری تحصیل میں شودا کا مطلب بیچارا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت کم لوگ ہیں جو اپنی مادری یا علاقائی زبان کو ہی پڑھ ۔ لکھ یا درست طریقہ سے بول سکتے ہیں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کا خواندگی ہے جو 31 فیصد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو معمولی اُردو لکھ اور پڑھ لیتے ہیں
قرآن شریف اپنی زبان میں پڑھنے کا نتیجہ
اپنی زبان میں قرآن شریف اور نماز پڑھنے سے لوگوں کے اللہ کے بتائے راستے پر چل پڑنے والی بات تاریخ کی صریح نفی ہے ۔ ترکی کے مصطفٰے کمال پاشا نے مئی 1881ء میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد مولویوں کو جاہل قرار دے کر اُن سے دین چھین لیا ۔ مسجدوں کو تالے لگا دیئے ۔ اپنی قوم کا [بقول اُسکے] ترقی کی راہ میں حائل لباس اُتروا کر اُنہیں ترقی دلانے والا یورپی نیم عُریاں لباس پہنا دیا ۔ یہاں تک کہ اپنا رسم الخط بدل کر انگریزی رسم الخط رائج کیا ۔ قرآن شریف کا ترجمہ اپنی زبان میں کروایا اور حُکم دیا کہ قرآن شریف اور نماز صرف ترکی زبان میں پڑھی جائے گی ۔ مصطفٰے کمال پاشا 10 نومبر 1938ء تک حکمران رہا ۔ اس عرصہ میں مسلمانی زیادہ ہونے کی بجائے بہت کم ہو گئی اور ترکی میں مسلمانوں نے شراب اور سؤر کے گوشت کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا اور دیگر غیراسلامی عادات اپنا لیں لیکن اس جدیدیت کو اپنانے کے ایک صدی بعد بھی ترکی کو یورپی یونین کی رُکنیت نہ مل سکی ۔ میں 1979ء میں بیوی بچوں سمیت استنبول گیا ۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا ۔ میری بیگم کو فکر پڑی تھی کہ افطار میں دیر نہیں ہونا چاہیئے ۔ مجھے ہوٹل میں صرف ایک شخص ملا جسے معلوم تھا کہ روزہ کتنے بجے کھُلے گا ۔ مُسلمانوں کے اس بڑے شہر میں روزہ کب کھلے گا معلوم کرنا تو در کنار اکثریت کو روزے کا ہی معلوم نہ تھا ۔ اسے کہتے ہیں
نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
دوسرے ممالک میں اپنی اپنی زبان میں تعلیم
دوسرے ممالک میں اپنی زبان میں تعلیم کے حوالے پر میں مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ درست ہے کہ جرمنی ۔ فرانس ۔ اطالیہ ۔ چین ۔ جاپان حتٰی کہ عرب ممالک میں بھی دنیاوی تعلیم اپنی اپنی زبانوں میں ہے لیکن وطنِ عزیز میں آج تک دنیاوی تعلیم کا علاقائی تو چھوڑ قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست ہو نہیں سکا یعنی اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ انسان کی لکھی سائنس ۔ ریاضی وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کر لیا جائے جو کوئی مُشکل کام نہیں اور ہم چلے ہیں اللہ کے کلام کا ترجمہ درجنوں علاقائی زبانوں میں کرنے جن کی سو سے زائد مقامی طرحیں ہیں ۔ وہ اللہ کا کلام جسے عام عربی پڑھنے والا بھی بغیر اُستاذ کے سمجھ نہیں سکتا ۔ جبکہ قرآن شریف کو سمجھنے کیلئے ہر سورت اور آیت کے شانِ نزول اور تاریخ کو بھی تحقیقی نگاہ سے پڑھنا پڑتا ہے