Monthly Archives: January 2009

صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد

اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا [دیکھئے نقشہ ۔ 5] ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔

جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی فوجی تربیت لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔

اسرائیل کے خلاف پاکستانیوں کا پہلا احتجاج

ڈاکٹر وہا ج الد ین ا حمد صاحب نے میری تحریر ” برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی” پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح شروع دن ہی سے پاکستانی قوم نے فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی ۔

“محترم ۔ اسرایل کی تاریخ لکھتے رہیں ۔ بہت اچھی معلومات ہیں اور انکا جاننا آج کے وقت میں ضروری بھی ہے ۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے وجود میں آنے پر لاہور کے کالجوں کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا تھا اور میں بھی اس میں شامل تھا گو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا بس یہی کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ہیں ۔ میں اسلامیہ کالج میں نیا نیا داخل ہوا تھا”

وہا ج الد ین ا حمد صاحب جو اعلٰی پائے کے نیورولوجِسٹ ہیں سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب انہوں نے اگست 2006ء میں بلاگ لکھنا شروع کیا ۔ وہا ج الد ین احمد صاحب ریاست بھوپال کے قصبہ ساگر میں غالباً 1933ء میں پیدا ہوئے گو ان کے والدین کا تعلق پنجاب سے تھا ۔ وہاں سے ہجرت کر کے ان کے خاندان نے جموں کشمیر کے علاقہ بھمبر سے منسلک پنجاب کے قصبہ کوٹلہ میں سکونت اختیار کی جہاں انہوں نے جموں کشمیر کے اس حصہ کو آزاد ہوتے دیکھا جو آجکل آزاد جموں کشمیر کا حصہ ہے ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے ڈھائی سال صوبہ سرحد میں ملازمت کی پھر اعلٰی تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے ۔ اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے امریکہ گئے جس کے حصول کے بعد امریکہ کے ہی ہو کر رہ گئے ۔

دبئی میں ہماری دوڑ دھوپ

دوبئی کی سیر کی دوسری قسط 12 جنوری کو لکھی تھی

بیٹے نے بتایا کہ دبئی میں عمارات ۔ مراکز للتسویق [Shopping Malls] کے علاوہ عجائب گھر [Museum] اور ساحِل سمندر [Beach] ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سو عجائب گھر جو ایک پرانے محل کے اندر بنا ہوا ہے دیکھا ۔ اس میں پرانے زمانہ کی کِشتیاں ۔ آلاتِ حرب ۔ لباس ۔ برتن وغیرہ رکھے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں اس علاقہ میں جس طرح کے باورچی خانے ۔ غُسلخانے اور سونے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے تھے وہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پرانے زمانہ کے ہُنر اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی بھی نمائش کی گئی ہے

ہم نے ایک کے بعد دوسرا مرکز للتسویق دیکھنا شروع کئے ۔ ان میں پھرنے سے قبل کئی کلو میٹر پیدل چلنے کا کئی سالہ تجربہ ہونا چاہیئے جو ہمیں دس پندرہ سال قبل تو تھا اب نہیں ہے لیکن اپنی عزت کی خاطر ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ مرکز للتسویق جہاں ہم گئے ان میں سے جن کے نام یاد رہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

مرکز امارات للتسویق ۔ Mall of the Emirates ۔ مول امارات ۔ اس میں برف پر پھِسلنے [Ice Skiing] کا انتظام بھی ہے

مرکز مدینہ الدیرہ ۔ Daira City Centre

مدینہ مھرجان الدبئی ۔ Dubai Festival City

وافی ۔ Wafi ۔ اس کے ساتھ ہی ملحق ایک پرانے بازار کا اصل بحال رکھتے ہوئے اس کی جدید تعمیر کی گئی ہے جس کا نام خان مرجان ہے ۔ یہ بہت خوبصورت سہ منزلہ بازار ہے ۔ اس میں روائتی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور روائتی قہوہ خانہ بھی ہے ۔

ابنِ بطوطہ مرکز للتسویق ۔ اس میں مختلف تہذیبوں کے مطابق حصے بنے ہوئے ہیں اور چھتیں [Ceiling ] بھی مُختلف مگر دلچسپ بنائی گئی ہیں ۔ ایک حصہ میں چھت اس طرح ہے جیسے آسمان جس پر بادل بھی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو جائے

سوق مدینہ الجمیرہ . Souk Madinat Jumeirah

مرکز دبئی للتسویق ۔ The Dubai Mall ۔ یہ ابھی نیا نیا بنا ہے ۔ ابھی صرف 500 دکانوں نے کام شروع کیا ہے ۔ 1000 سے زیادہ بند پڑی ہیں ۔ اس میں برف پر پھِسلنے کا دائرہ [Ice Skiing Ring] بھی بن رہا ہے ۔ اس میں بہت بڑا مچھلی گھر [Aquarium] ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دو غوطہ خور بھی تیر رہے ہوتے ہیں ۔

القریہ العالمیہ ۔ Global Village ۔ یہ ایک بین الاقوامی میلہ شاید 18 نومبر کو شروع ہوا اور 22 فروری تک رہے گا ۔ ہم 20 نومبر کو گئے۔ اس میں کچھ دکانیں شروع ہو چکی تھی ۔ اس میں وطنِ عزیز کا بھی ایک بڑا حصہ تھا جس میں قالین ۔ پارچہ جات اور برتنوں کی دکانیں کچھ لگ چکی تھیں باقی سامان آ رہا تھا ۔ اس حصہ کا ماتھا بہت خوبصورت تھا ۔ لاہور کے قلعہ کی شکل بنائی گئی ہے ۔ اس کے سامنے ہی پاکستان کے کھانوں کی دکانیں ہیں بشمول راوی ۔ بندو خان وغیرہ

ان مراکز کی خصوصیات

زیادہتر مراکز کا رقبہ میرے خیال کے مطابق ایک کلو میٹر سکوائر یازیادہ ہے
مرکز کے ساتھ دو سے تین منزلہ پارکنگ کا علاقہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے
ان میں انسان کی ضرورت کی تقریباً ہر شٔے ملتی ہے شرط جیب بھری ہونا ہے یا بغیر حد کےکریڈٹ کارڈ
سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سامان کے ہر چیز وطنِ عزیز کی نسبت مہنگی ہے
ہر قسم کے آدمی کیلئے کھانا کھانے کا بندوبست ہے
زائرین کیلئے مناسب تفریح اور بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے
فضا کو صحتمند رکھنے کیلئے فوارے یا آبشار یا نہر ۔ بعض نہروں میں کِشتی چلتی جس سے زائرین لُطف اندوز ہوتے ہیں
کسی کسی مرکز میں ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے غیرمُسلموں کیلئے
آرام کرنے کیلئے راہداریوں میں صوفے یا بینچ پڑے ہوتے ہیں
کچھ میں سینما ہاؤس ہوتا ہے جہاں سارا دن فلمیں دکھائی جاتی ہیں ۔ ان کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر وقت قطاریں لگی رہتی ہیں

زائرین میں لباس کے لحاظ سے غنیم ترین سے مِسکین ترین عورتیں ہوتی ہیں ۔ غنیم ترین یعنی سر سے پاؤں تک مکمل ڈھکی ہوئی اور مِسکین ترین جن بیچاریوں نے ایک یا آدھی بنیان اور کچھہ یا چڈی پہنی ہوتی ہے

ان مراکز کی ایک اہم اور دل خوش کُن خصوصیت یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کیلئے نماز پڑھنے کا علیحدہ علیحدہ انتظام ہے اور ہر نماز کی اذان پورے مرکز اور پارکنگ ایریا میں واضح طور پر سنائی دیتی ہے ۔ مرکز کی وسعت کی وجہ سے سب لوگ ایک وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکتے اسلئے جماعت کئی بار ہوتی ہے ۔ نماز پڑھنے والوں میں میرے جیسے بھی ہوتے ہیں اور جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے بھی ۔ میری بیگم نے بتایا کہ عورتوں کی مسجد میں بہت سے عبایہ اور رومال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں انگریزی لباس میں ہوتی ہیں وہ نماز کے وقت پہن لیتی ہیں

ایک دن بیٹا کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ داخلہ فیس والے ساحلِ سمندر کے بالکل ایک طرف جا کر شریفانہ طریقہ سے تفریح کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ ایک جمعہ کو نماز کے بعد روانہ ہوئے اور اس جگہ پہنچ گئے ۔ فیس کی ادائیگی کے بعد داخل ہو کر آخری سِرے پر کار پارک کی اور چٹائیاں اُٹھا کر ساحل کی طرف چل پڑے ۔ ساحل کے قریب پہنچ کر لوہے کی چادر سے بنی دیوار کے قریب براجمان ہو گئے ۔ بیٹا ۔ بیٹی اور بہو بیٹی کھانا لینے چلے گئے ۔ اُس وقت سمندر کے ہمارے سامنے والے حصہ میں چار پانچ کالی اور گوری عورتیں نہا رہیں تھیں تو ہم منہ خُشکی کی طرف کر کے بیٹھ گئے ۔ شاید اُنہیں اس کا احساس ہو گیا اور وہ کچھ دیر بعد وہاں سے دور چلی گئیں اور گویا ہم آزاد ہو گئے یعنی سمندر کی طرف منہ کر کے سمندر کی لہروں ۔ اس میں چلتی کِشتیوں اور سکیٹس [Skates] کا نظارہ کرنے لگے ۔
عجائب گھر

بقیہ تصاویر کیلئے تھوڑا سا انتظار کیجئے ۔

طالبِ علم

الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک قاری محمد سعد صاحب سے ہفتہ عشرہ قبل کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کی مجھے توفیق عطا کی ۔ بلا شُبہ انسان جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے ہے

طالب کا مطلب ہے طلب یا چاہت یا تمنا رکھنے والا ۔ طالب علم کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ شومئیِ قسمت سمجھ لیجئے یا غلط تربیت کا اثر کہ دورِ حاضر کے اکثر طلباء و طالبات کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین اسناد حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ان سند یافتہ جوانوں کو دساور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پچھلے ساٹھ سال کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ شروع کی دو دہائیوں میں جو ہموطن اعلٰی تعلیم کیلئے دساور گئے وہ کم سے کم وقت میں اعلٰی معیار کی جامعات سے کامیاب اور کامران ہوئے حالانکہ اپنے یہاں ان طلباء و طالبات کے نمبر 60 اور 80 فیصد کے درمیان ہوتے تھے ۔ فی زمانہ حال یہ ہے کہ طلباء و طالبات اپنے یہاں تو 80 سے 95 فیصد نمبر حاصل کر تے ہیں لیکن دساور میں ان کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے

آج سے 27 سال قبل تک اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے شاگرد ایسا علم حاصل کریں کہ جہاں بھی وہ جائیں کامیاب ہوں اور اُنہیں دیکھنے والا یا ملنے والا کہہ اُٹھے کہ یہ جوان تعلیم یافتہ ہیں ۔ والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کیلئے درس گاہوں میں بھیجتے تھے کہ اُن کی اولاد پڑھنا لکھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی بن جائیں ۔ لگ بھگ آدھی صدی قبل میری انجنیئرنگ کالج لاہور کی تعلیم کے دوران ایک شام میں پروفیسر عنایت علی قریشی صاحب [اللہ غریقِ رحمت کرے] کے گھر اپنے کسی کام کیلئے گیا تو وہاں ایک بزرگ اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھے ۔ اُن کا بیٹا انجنئرنگ کالج کا ہی طالب علم تھا ۔ وہ بزرگ پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے “میں نے اسے انسان بننے کیلئے یہاں بھیجا تھا ۔ ایک سال میں اس نے انگریزی تو فرفر بولنا شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک گدھے کا گدھا ہے ۔ میں اسے واپس نا لیجاؤں اور خود ہی اسے انسان بناؤں ؟”

شاگرد اور اُن کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اور اساتذہ کی اپنے شاگردوں کی تربیت میں دلچسپی کے نتیجہ میں طلباء اور طالبات کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ امتحان دینے والی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ زندگی گزارنے کے اسلوب بھی سیکھیں ۔ کھیلوں میں حصہ لینا ۔ جسمانی ورزش کی تربیت ۔ بیت بازی اور علمی مباحثوں میں حصہ لینا عام سی بات تھی ۔ ہمیں سکول اور کالج میں آدابِ محفل بھی سکھائے جاتے تھے اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم نے عمارت میں لگی آگ بجھانے کا طریقہ ۔ ابتدائی طِبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے طریقے بھی عملی طور پر سیکھے تھے ۔ اس کے علاوہ طلباء و طالبات اپنے طور پر معلوماتِ عامہ کا علم حاصل کرتے اور اکثریت حکومت کے متعلقہ ادارے کے ترتیب دیئے ہوئے امتحانات میں بھی بیٹھتے ۔

آج کی صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ متذکرہ فرق کا سبب معیارِ تعلیم کا انحطاط ہے جس کے ذمہ دار صرف اساتذہ ہی نہیں طلباء و طالبات اور اُن کے والدین بھی ہیں ۔ حکومت نے 1970ء کی دہائی میں بجائے اِسکے کہ اُس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم میں بہتری پیدا کرتی تقریباً تمام نجی تعلیمی ادارے قومیا لئے اور ان پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو مسلط کیا جن کی اکثریت کے پاس اسناد تو تھیں لیکن اُنہیں تدریسی تجربہ نہ تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے بہتری کے جو تعلیمی نظام چل رہا تھا وہ تنزل پذیر ہو گیا ۔

دورِ حاضر میں اساتذہ ۔ طلباء و طالبات اور اُن کے والدین سب کی صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ عِلم حاصل ہو نہ ہو کسی طرح تعلیمی سند حاصل کر لی جائے چاہے اس کے لئے رٹا لگایا جائے ۔ نقل ماری جائے یا ممتحن کی خدمت کی جائے یا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے ۔ ہمارے زمانہ تعلیم میں بھی کبھی کبھی نقل مارنے کا انکشاف ہوتا رہتا تھا لیکن بہت کم تھا اور اس عمل کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ اب شاید نقل مارنے کو معیوب سمجھنے کی بجائے ہوشیاری سمجھا جانے لگا ہے کہ ہر کمرہ امتحان میں نقل مارنے والوں کا ذکر خیر ہوتا ہے مگر اس کے سدِباب کیلئے کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ نقل مارنے کو انگریزی میں cheating کہا جاتا ہے اور دراصل نقل مارنا دھوکہ دہی ہی ہے ۔ نقل مارنے والا طالب علم صرف اپنے ممتحن ۔ اساتذہ اور طالب علم ساتھیوں کو ہی دھوکہ نہیں دیتا بلکہ اپنے والدین اور اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہا ہو تا ہے ۔ [صحیح اُردو “نقل کرنا” ہے لیکن میں نے “نقل مارنا” اسلئے لکھا ہے کہ عام طور پر مستعمل یہی ہے]

نقل مارنا بڑا جُرم اور بڑا گناہ ہے بلکہ گناہوں کا مرکب ہے ۔ نقل مارنے والا بیک وقت چار جرائم یا گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور چاروں میں سے ہر ایک گناہِ کبیرہ ہے ۔
ایک ۔ وہ جھوٹ بولتا ہے ۔ جو اُس کے علم میں نہیں نقل مار کر بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے ۔
دو ۔ امتحان کا پرچہ دیتے ہوئے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ وہ دیانتداری سے جوابات لکھے گا لیکن وہ نقل مار کر امانت میں خیانت کر رہا ہوتا ہے
تین ۔ وہ نقل مار کر سب کو اپنے لائق ہونے کی جھوٹی گواہی دے رہا ہوتا ہے یا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور
چار ۔ وہ نقل مار کر اُن طلباء کے ساتھ بے انصافی کرتا ہے اور اُن کا حق مارتا ہے جو نقل نہیں مارتے ۔

ایسا گناہ جس کا اثر کسی اور انسان پر بھی پڑتا ہو جیسا کہ نقل مارنے سے بھی ہوتا ہے تو یہ حقوق العباد کی نفی ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب تک متعلقہ انسان معاف نہیں کریں گے اللہ تعالٰی بھی معاف نہیں کریں گے ۔

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 42 ۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔

سورت ۔ 4 ۔ النِسآ ۔ آیت ۔ 135 ۔ اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ [اس میں] تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا [شہادت سے] بچنا چاہو گے تو [جان رکھو] اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے

برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی

فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947ء کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اسرائیل تین ٹکروں میں تھا جیسا کہ نقشہ ۔ 3 میں دکھایا گیا ہے ۔

صیہونیوں نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی باقاعدہ دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948ء کو ختم کر دے گا ۔
صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے بغیر کسی کی پرواہ کئے اپنی 2000سال پرانی آرزو ” یہودی ریاست اِسرائیل” کا 14 مئی 1948ء کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنا لی جو نقشہ ۔ 4 میں دکھائی گئی ہے ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔

موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا ۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حُکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

قانون اور ہموطن

یہ صد سالہ غلامی کا اثر ہے یا ہماری دین سے بیگانگی کہ ہموطنوں کی اکثریت میں ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری کا فُقدان ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ آئین و قانون کی مُخالفت پر فخر کیا جاتا ہے تو درست ہو گا ۔ میں دنیا کے کوئی درجن بھر ممالک میں گیا بلکہ رہا ہوں جن میں امریکہ ۔ برطانیہ ۔ افریقہ ۔ جزیرہ نما عرب اور یورپ کے متعدد ممالک شامل ہیں مگر یہ صفت وطنِ عزیز کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں دیکھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ ہموطن جواپنے عمل سے وطنِ عزیز میں آئین و قانون کی کھُلی مخالفت کرتے ہیں دساور کے ان ممالک میں وہاں کے آئین و قانون کی پاسداری کی پوری کوشش کرتے ہیں

ہموطنوں میں اس رویّہ کی بڑی وجہ حُکمرانوں کے آئین اور قانون کے ماوراء اقدامات اور آئین و قانون کی کھُلے عام خلاف ورزی ہے ۔ حُکمرانوں یعنی صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔ گورنروں ۔ وُزرائے اعلٰی ۔ چیئرمین سینٹ ۔ اسمبلیوں کے سپیکر ۔ وفاقی اور صوبائی وزراء ۔ سنیٹروں اور اسمبلیوں کے ارکان پر صرف آئینی و قانونی ہی نہیں اخلاقی پابندیاں بھی ہوتی ہیں ۔ اُنہیں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف قومی اور عوامی مفاد میں کام کرنا ہوتا ہے اور عوام کے سامنے اپنے کردار کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں کے اندر بھی وہ ان قوانین اور اقدار کے پابند ہوتے ہیں ۔

سنیٹر اور ارکان اسمبلی تو سیاسی ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اُن پر آئین کے مطابق دوسری جماعتوں کی آئینی و قانونی رائے کا احترام واجب ہوتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی منتخب کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد یہ پورے مُلک کیلئے ہوتے ہیں اور اُنہیں جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہی صورتِ حال اپنے اپنے صوبے کے لحاظ سے صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور وزرائے اعلٰی کی ہوتی ہے ۔

صوبائی گورنروں کو صدر نامزد کرتا ہے اسلئے وہ ذاتی لحاظ سے کچھ بھی ہوں حکومتی ذمہ داری کے لحاظ سے وہ کسی جماعت یا گروہ کے نہیں پورے صوبے کے نمائندہ ہوتے ہے ۔ چنانچہ آئین کے مطابق انہیں کسی مخصوص جماعت یا گروہ کی کسی ایسی حمائت کی اجازت نہیں ہوتی جس سے دوسری کسی جماعت یا گروہ کو نقصان پہنچتا ہو یا اُسکی دل آزاری ہوتی ہو ۔ گورنر اپنی تقرری پر حلف اُٹھاتا ہے کہ
وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور کام دیانتداری سے آئین و قانون کے مطابق کرے گا
وہ نظریہ اسلام کی پوری کوشش سے حفاظت کرے گا
وہ اپنی ذاتی دلچسپی کو اپنے دفتری کام اور کردار پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا
وہ ہر حالت میں بغیر کسی جانبداری یا میلان یا مخالفت کے قانون کے مطابق تمام قسم کے لوگوں کی بہتری کیلئے کام کرے گا

آئین کی شق 105 کے مطابق گورنر صوبے کی کابینہ یا وزیرِ اعلٰی کے مشورہ کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے ۔ گورنرکسی مشورے پر دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس بھیج سکتا ہے اور اگر وہ تجویز وزیرِ اعلٰی دوبارہ گورنر کو بھیج دے تو گورنر اُس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔

اصل صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں کے گورنر آئین و قانون کے مطابق کم اور آئین و قانون کے خلاف زیادہ عمل کرتے ہیں بالخصوص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے تو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ مختلف شہروں میں محفلیں منعقد کر کے اُن میں انتہائی گھٹیا بیان دینا ۔ گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلیں منعقد کرنا ۔ جو اراکانِ اسمبلی حکومت میں نہیں اُنہیں حکومت کے خلاف اُکسانا اور صوبائی اسمبلی کی بھیجی ہوئی سمری کو ہمیشہ کیلئے دبا کر بیٹھ جانا اُن کا طرّہ امتیاز ہے ۔

جب حُکمران کھُلے بندوں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کریں تو عوام سے آئین اور قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟

کیا قائداعظم دھوکہ باز تھے ؟

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری قوم کو انحطاط کے اس درجہ پر پہنچانے میں ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ کا بڑا ہاتھ ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنے آپ کو مفکّر اور تاریخ دان سمجھنے والے کچھ پاکستانی جو مُلکی ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں اپنی کج فہمی کی گندگی صاف شفاف کرداروں پر اُگلتے رہتے ہیں ۔ ان قوم دُشمنوں سے نبٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی مستند تاریخ کا خود مطالعہ کرے ۔ اس سلسلہ میں قائدِ اعظم اور علامہ اقبال پر اُچھالی گئی گندگی کی حقائق پر مبنی وضاحت معروف محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے اس مضمون میں ملتی ہے ۔

میرے بزرگ اور فاضل دوست جناب حقانی صاحب نے اپنے جمعرات کے حرف تمنا میں بعض ایسے سوال اٹھا دیئے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے ورنہ میں نے تو بحث سمیٹ دی تھی کیونکہ اول تو فلسطین میں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خون اور دوم ہندوستانی رویئے نے مجھ
پر اداسی طاری کرر کھی ہے۔ ان کے جمعرات والے دو حصوں پرمشتمل کالم کے بعض فقرے پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگاہے کہ اب یہ بحث ایک اندھی گلی میں داخل ہوگئی ہے اس لئے اسے آگے بڑھانا لاحاصل ہے۔

برادر بزرگ حقانی صاحب فرماتے ہیں ”میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے“۔ یہاں ذکر ہو رہا تھا 1946ء کے کابینہ مشن پلان کا اس لئے حقانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات کابینہ پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان کا یہ فقرہ پڑھ کر چکرا گیا کیونکہ علامہ اقبال 1938ء میں وفات پا گئے تھے اور اس سے قبل انہوں نے قائداعظم کے نام خطوط میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے جواز اور مطالبے پر زور دیا تھا بلکہ اس مطالبے کے لئے لاہوراور مارچ کا ماہ بھی تجویز کر دیا تھا جہاں ان کے انتقال کے بعد مارچ 1940ء میں قرارداد پاس کی گئی۔ اس دور میں پاکستان سے مراد وہ پاکستان تھا جس کا تصور چودھری رحمت علی نے پیش کیا تھا اور علامہ اقبال بوجوہ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“ میں موجود ہے۔ البتہ جب کیمبرج کے طلبہ نے علامہ اقبال کی توجہ لفظ پاکستان کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ اسے لکھ کر ان کے کمرے میں چھوڑ جائیں، وہ اس پر غور کریں گے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ گول میز کانفرنس کے لئے لندن میں موجود تھے۔ علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح گواہ ہیں کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے داعی تھے او رانہوں نے قائداعظم پر اس مطالبے کے لئے دلائل اور منطق کے ذریعے زور دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خطبہ الٰہ آباد کے کئی برس بعد کی ہے۔ اس ضمن میں میرے پاس خاصا مواد ہے لیکن کالم اس کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال موت تک مسلمانوں کے لئے علیحدہ اور آزاد وطن کے حق میں تھے اور وہ کبھی اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔

اب رہا معاملہ قائداعظم کا۔ میرے مہربان دوست حقانی صاحب کی تحقیق ہے کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قائداعظم نے کبھی مطالبہ پاکستان کیا ہی نہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ نے سرکاری طور پر علیحدہ وطن کا مطالبہ قرار داد لاہور کے ذریعے مارچ 1940ء میں کیا۔ 1940ء سے لے کر قیام پاکستان تک قائداعظم اور مسلم لیگ بار بار کہتے رہے کہ پاکستان کا حصول ہماری حتمی منزل ہے۔ کابینہ مشن پلان کی آمد سے قبل 46-1945ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات پاکستان کے نام پر اور نعرے پر لڑے گئے اور مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تمام مسلمان نشستیں جیت کر ثابت کر دیا کہ مسلمانانِ ہند پاکستان چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ان کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ کابینہ مشن مارچ 1946ء میں ہندوستان آیا۔ اس کے بعد اپریل 1946ء میں اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے مسلم لیگی اراکین کا کنونشن دہلی میں ہوا جس میں اراکین اسمبلی نے حصول پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا حلف اٹھایا۔

اگر قائداعظم کابینہ مشن سے پہلے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے تو
کیا 46-1945ء کے پاکستان کے منشورپر انتخابات اور مسلم لیگی اراکین اسمبلیوں کا حلف سب ڈرامہ تھا؟
کیا قائداعظم قوم کو دھوکہ دے رہے تھے کہ وہ خود تواس مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے لیکن قوم کو اس جنگ میں جھونک رہے تھے؟

یہ وہ الزام ہے جو قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان پر نہیں لگاتے۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اسکالرز اور کانگریسی ذہن کے مؤرخ یہ ضرور پراپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ دراصل پاکستان کانگریسیی ہٹ دھرمی سے بنا یا انگریزوں کی دین تھا اور اس پراپیگنڈے کا مقصد نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے بلکہ مسلمانوں کی قربانیوں اور قائداعظم کے قائدانہ کردار کی نفی کرنا بھی ہے۔ یہ ایک عجیب منطق بلکہ متضاد دلیل ہے کہ قائداعظم تقسیم ہند اور پاکستان کے حق میں نہیں تھے اور پاکستان کانگریس نے بنایا لیکن اس سے قائد اعظم کی عظمتِ کردار کو گرہن نہیں لگتا ۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان مسلمانان ہند کی قربانیوں کا صلہ تھا اور قائداعظم پاکستان کے بانی ہیں اور یہی ان کی عظیم قیادت کو خراج تحسین ہے۔ قائداعظم سے بانی ٴ پاکستان ہونے کا اعزاز چھین کر یہ اصرار کیا جائے کہ اس سے ان کی کردار کشی نہیں ہوتی تو پھرا ور کردار کشی کیا ہوتی ہے؟

برادر بزرگ حقانی صاحب کے کالم میں سیروائی اور خالد بن سعید کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ سیروائی کی کتاب کا اردوترجمہ میں نے اٹھارہ برس قبل کیا تھا جسے جنگ پبلشرز نے چھاپا۔ خالد بن سعید کی کتاب تقریباً نصف صدی پہلے شائع ہوئی تھی اور میں اسے کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اس کے بعد اس موضوع پر خاصی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ خالد بن سعید کا تھیسِس [thesis] یا نچوڑ یہی ہے کہ قائداعظم کبھی بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے اور انہوں نے کابینہ مشن پلان بھی اسی لئے قبول کیا کہ اس کے ذریعے انہیں پاکستان مل رہا تھا۔ کتاب کے آخری حصے میں نتائج اخذ کرتے ہوئے خالد بن سعید نے قائداعظم کے سیاسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کانگریسی پراپیگنڈہ کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے۔

”جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہندوؤں کے رویئے کے سبب معرض وجود میں آیا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف [Hostile] تھے تو مسلمان ہندوؤں کے خلاف تھے۔ دوئم یہ کہ یہ حضرات مطالبہ پاکستان کو اپنے تاریخی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر طویل عرصہ حکومت کی تھی اور انہیں ایسا جمہوری نظام قبول نہیں تھا جو انہیں اقتدار سے محروم کر دے۔ پاکستان کے مطالبے سے بہت قبل جناح نے انہی خطوط پر سوچنا شروع کر دیا تھا”

اختصار کا دامن پکڑتے ہوئے ایک ابہام کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اس جدوجہد میں ہندوستان کے مسلمان بھی ایک پارٹی تھے۔ بلاشبہ انہوں نے حصول پاکستان کے لئے تاریخی قربانیاں دیں۔ براہ کرم یہ بات ذہن میں ر کھیں کہ 46-1945ء میں مسلم لیگ کی کونسل 475 اراکین پر مشتمل تھی جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے منتخب اراکین شامل تھے۔ اس کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے جب جون 1946ء میں کابینہ مشن پلان قبول کرنے کی قرارداد پاس کی تو واضح طور پر یہ کہا کہ ہم اسے پاکستان کے حصول کی جانب اہم قدم کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 5,6 جون کو قائداعظم نے اسی کونسل کے سامنے یہ کہا کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان نظر آرہا ہے۔ میں قرارداد اور قائداعظم کی تقریر کے فقرے گزشتہ کالموں میں کوٹ کر چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ کونسل کے اراکین جو ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین نمائندے تھے اور جن میں منتخب اراکین اسمبلیاں بھی شامل تھے قوم کودھوکہ دے رہے تھے اور قائداعظم یہ کہہ کر کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کی بنیادیں نظر آتی ہیں ، مسلمانوں سے جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم سے ڈرامہ کررہے تھے؟ خدانخواستہ…!!

تاریخی پس منظر کے مطابق کابینہ مشن پلان کے ضمن میں مسلم لیگ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے 22مئی 1946ء کو کہا ”بنگال، آسام، پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، پاکستان زونز ہیں اور ان پر مشتمل ایک آزاد [Sovereign] ریاست بنائی جائے
اورپاکستان کے قیام کی ضمانت دی جائے۔ ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل ہے“۔ 5 جون کو مسلم لیگ کونسل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ ”مسلمان پاکستان حاصل کئے بغیر چین نہیں لیں گے۔ دراصل پاکستان کی بنیاد کابینہ پلان میں موجود ہے“ [تالیاں] مزید کہا ”دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان سے محروم نہیں کر سکتی“۔

حرف تمنا میں قائداعظم کے 29 جولائی کے بیان کو معنی خیز قرار دیا گیا جس میں قائداعظم نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی مکمل خود مختار ریاست کو ہندوستان کی جلد آزادی پر قربان کر دیا۔ اس ابہام کو رفع کرنے کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کے تحت مرکزی حکومت کو دفاع، خارجہ اور مواصلات دے کر گروپنگ کے اصول کو قبول کر لیا تھا کیونکہ ان گروپس میں مسلمان اکثریتی صوبے شامل تھے جن کی اپنی دستور ساز اسمبلی ہونی تھی اور جو دستور سازی کے بعد گروپ سے باہر نکلنے کا اختیار رکھتے تھے۔ قائداعظم کی حکمت عملی یہ تھی جس کی وضاحت ان کی تقاریر میں بار بار ملتی ہے کہ ایسا مرکز جس کے پاس ٹیکس لگانے، فنانس اور آمدنی کے اختیارات نہ ہوں وہ بے بس ہوتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ پلان ناقابل عمل ہے اور انہوں نے اس پلان کو اس لئے قبول کرلیا تھا کہ اس طرح وہ اپنے مقصد میں آئینی اور پُرامن انداز میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ کس طرح کامیاب ہوں گے اس کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ پہلے قدم کے طورپر گروپس معرض وجود میں آئیں گے اور دوسرے مرحلے میں ان گروپوں سے مسلم اکثریتی صوبے باہر نکل کر [optout] پاکستان حاصل کریں گے۔ اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن پاکستان بنگال او ر پنجاب کی تقسیم سے بچ جائے گا۔

ابہام یہ ہے کہ ہمارے محترم دانشور صرف پہلے مرحلے تک محدود رہتے ہیں اور اسی حوالے سے قائد کی تقریر کے چند فقرے کوٹ کرتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ قائد کے مطابق دوسرا مرحلہ مسلمان اکثریتی صوبوں کا اس اسکیم سے باہر نکل کر پاکستان قائم کرنا بھی تھا جن پر قائداعظم نے روشنی ڈالی تو مسلم لیگ کونسل کے 475 مسلمان زعماء نے اس کی تائید کی اور جب نہرو کو احساس ہوا کہ وہ گروپنگ اسکیم کے تحت پاکستان کو پورا بنگال اور پنجاب دے رہا ہے تواس نے کابینہ مشن پلان کو مسترد کردیا۔

موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے لیکن میں نے نہایت مختصر انداز میں وضاحت کر دی ہے۔ کئی باتوں کا جواب نہیں دے سکا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کس نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔