Monthly Archives: December 2008

ممبئی دھماکے ۔ وہ ہمارا آدمی ہے

گذشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو بھارت کے تجارتی شہر ممبئی میں شاید 1947ء کے مسلمانوں کے قتلِ عام جس میں لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا کے بعد سب سے بڑاہلاکت خیز واقعہ ہوا ۔ اس میں 195 لوگ مارے گئے جن میں سے 80 مسلمان تھے ۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کے پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ لیکن انسان چاہے کتنا ہی شاطر ہو سچائی چھپانا ممکن نہیں ۔ زود یا بدیر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور اس سلسلہ میں دس دن کے اندر ہی سچ کا تمانچہ بھارت کے منہ پر آ پڑا جو 6 اور 7 دسمبر کے اخبارات کی زینت بنا ۔ حاصل ہونے والے شواہد نے ثابت کر دیا کہ یہ ڈرامہ بھارت کا اندرونی ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ خفیہ والوں نے کسی خاص بڑے مقصد کیلئے کھیلا ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ دھیان اس طرف بھی جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں کشمیر میں کتنا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے

خبر یہ ہے کہ جو موبائل فون ممبئی میں دہشتگردوں نے استعمال کئے ان کی تشخیص کی مدد سے بھارتی پولیس متعلقہ موبائل فون کارڈ [Subscriber Identity Module – SIM] خریدنے والوں تک پہنچی اور انہوں نے کولکتہ میں دو آدمیوں کو گرفتار کیا جن کے نام توصیف رحمان اور مختار احمد ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر کے ایک اعلٰی پولیس افسر نے کولکتہ کی پولیس سے کہا ہے کہ “مختار احمد ہمارا آدمی ہے ۔ وہ ایک نیم سرکاری دہشتگری مخالف تنظیم کا اہلکار ہے اس لئے اُسے رہا کر دیا جائے” ۔

دوسری طرف ہمارے حُکمرانوں کا حال یہ ہے امریکہ اور بھارت کی خواہش پوری کرنے کیلئے پہلے قبائلی علاقہ میں ہموطنوں کا خون کیا جا رہا تھا اب یہ سلسلہ آزاد جموں کشمیر تک بڑھا دیا گیا ہے اور شُنِید ہے کہ پورے پاکستان میں ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی

عید الاضحٰے

کل وطنِ عزیز میں عید ہے ۔
سب مسلم بہنوں اور بھائيوں کو عيد الاضحٰی کی خوشياں مبارک ۔
سنتِ ابراہيم پر عمل کرنے والوں کو قربانی مبارک ۔ اللہ سب کی قربانی قبول فرمائے ۔
حج کرنے والوں کو حج مبارک ۔ اللہ سب کا حج اور متعلقہ عبادات قبول فرمائے ۔
اُميد ہے حرمين شريفين ميں پاکستانی زائرين نے دعا کی ہو گی کہ اللہ ہمارے ملک کے لوگوں کو سيدھی راہ پر چلائے اور ہمارے ملک پر صالح اور سمجھدارحکمران فائز فرمائے ۔ آمين ثم آمين يا رب العالمين

پینڈُو گیا دبئی

کراچی اور لاہور کے مقابلہ میں اسلام آباد ایک دہ یعنی گاؤں جسے پنجابی میں پِنڈ کہتے ہیں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا چنانچہ اسلام آباد کا باشندہ دیہاتی ہوا جسے پنجابی میں پینڈُو کہتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ اسلام آباد کا باشندہ یعنی خاکسار 24 اکتوبر کی صبح مع اہلِ خانہ دبئی روانہ ہوا اور 22 نومبر کو رات گئے واپس پہنچا ۔ کوئی پوچھے کہ اس افراتفری کے زمانہ میں ہمیں دبئی سدھارنے کی کیوں سُوجھی تو جناب ہمارا چھوٹا بیٹا جو ہمارے ساتھ ہی رہ رہا تھا اسی سال فروری میں دبئی چلا گیا جہاں اُسے بنک میں منیجر کی اسامی کی پیشکش ہوئی تھی اور اُس نے وطنِ عزیز کی افراتفری کی وجہ سے قبول کر لی تھی ۔

بیٹے نے جانے سے قبل وعدہ لیا تھا کہ وہ رہائش کا بندوبست کر کے جب کار خرید لے گا تو ہمیں اُس کے پاس دبئی جانا ہو گا ۔ رہائش کا بندو بست ہو گیا تو وہ ڈرائیونگ کی از سرِ نو تربیت حاصل کرنے میں لگ گیا کیونکہ وہاں پاکستان کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں مانا جاتا اور وہاں تربیت لینا بھی ضروری ہے ۔ لائسنس ملنے کے بعد اس نے اقساط پر کار خریدی تو جون کا مہینہ شروع ہو چکا تھا ۔ بیٹے نے تقاضہ شروع کر دیا کہ پہنچیں ۔ میں مارچ اپریل 1975ء میں 15 دن کیلئے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا مہمان ہوا تھا اور اچھی طرح یاد تھا کہ کار ۔ ہوٹل یا سرکاری دفتر سے نکلتے ہوئے چند لمحے جو کھلی فضا میں ہوتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ تنّور یا تندور میں سے گذرے ہیں سو میں سخت گرمی کا بہانہ کرتا رہا جون جولائی اسی طرح گذرا ۔ اگست میں قریبی عزیزوں میں ایک شادی آ گئی ۔ پھر رمضان المبارک شروع ہو گیا ۔ عید الفطر کے بعد بڑا بیٹا زکریا مع بیگم اور ننھی بچی کے 15 دن کیلئے آ گیا ۔ ان کے واپس جانے کے چند دن بعد ہم روانہ ہوئے ۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے ۔ پہلے باہر کے پھاٹک [gate] پر ہماری پڑتال ہوئی ۔ پھر عمارت کے دروازے پر ہماری پڑتال ہوئی ۔ آگے بڑھے تو سامان مشین میں سے گذارہ گیا اور ہماری تلاشی لی گئی ۔ خیر خیریت سے نکل جانے پر اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ایک بار پھر کاغذات کی پڑتال کیلئے قطار میں لگنا پڑا ۔ کوئی بیس پچیس لوگ ہم سے آگے تھے ۔ ہمیں اُس وقت اپنی بزرگی پر فخر ہوا جب ایک آفیسر نے ہمیں قطار میں سے نکال کر کاغذات دیکھے اور دوسرے نمبر پر بورڈنگ کارڈ لینے کیلئے بھیج دیا ۔ بورڈنگ کارڈ ملا تو تسلّی ہوئی کہ اب روانگی ہو سکتی ہے لیکن ابھی ایک اور تلاشی ہونا باقی تھی امیگریشن والوں سے ۔ بیوی اور بیٹی کو کیبن میں سے گذارہ گیا اور مجھے پتلون کی بیلٹ اُتار کر دروازے میں سے گذرنے کو کہا گیا ۔ خیریت سے تمام مراحل عبور کرنے پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شُکر ادا کیا اور اوپر جا کر ہوائی جہاز کی روانگی کا انٹظار کرنے لگے ۔

ہم نے اتحاد ایئر لائین کا ٹکٹ لیا تھا جو ابوظہبی جاتی ہے اور وہاں سے بلامعاوضہ کوچ پر دبئی پہنچانا ایئر لائین والوں کے ذمہ ہوتا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے دولت کی بچت ۔ دبئی پہنچنے پر ہم امیگریشن ڈیسک پر پہنچے ۔ اُنہوں نے ہیں آنکھ کے سکین [eye scan] کیلئے بھیج دیا جہاں باقی مرد عورتوں کی آنکھوں کا بھی سکین ہو رہا تھا ۔ وہاں بھی میری بزرگی کام آئی اور صرف میری آنکھ کا سکین کئے بغیر پاسپورٹ پر مُہر لگا دی گئی ۔ واپس ہوئے جہاں دو مرد اور دو عورتیں کام کر رہے تھے ۔ تین کاؤنٹروں میں سے ہر ایک کے سامنے دس بارہ لوگ تھے ۔ ایک عورت کے سامنے صرف ایک آدمی تھا تو جلدی فارغ ہونے کی غرض سے ہم اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ اس کا شاید اس کام میں پہلا دن تھا ۔ جتنی دیر میں ہم فارغ ہوئے باقی تینوں کاؤنٹرز کے سب لوگ جا چکے تھے ۔

بہرکیف باہر نکلے کہ معلوم کریں کوچ کہاں سے جائے گی تو بیٹے کو سامنے کھڑے پایا اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اس کے ساتھ کار میں بیٹھے اور دبئی کی طرف روانہ ہوئے ۔ ایک گھنٹہ میں گرینز [دبئی] پہنچ گئے ۔ یہ نیا علاقہ ہے اور ابوظہبی سے پرانے شہر دبئی کی نسبت زیادہ قریب ہے

واہ بھئی واہ ۔ ۔ ۔

ہمیشہ کی طرح ایم کیو ایم نے چار پانچ روز “تک دنا دن” کر کے وہ حاصل کر لیا جو حاصل کرنا تھا اور بڑی کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیا ۔ آپریشن ہوا اور سرکاری بیان کے مطابق 28 اور غیر سرکاری بیان کے مطابق 60 افراد جو دہشتگردی میں مطلوب تھے گرفتار کر لئے گئے ۔ چار دن کی مار ڈھاڑ میں مرنے والوں کی اکثریت رکشا ڈرائیور ۔ چوکیدار ۔ کوڑے کباڑ میں سے پلاسٹک کے تھلے اور کاغذ پتر چُن کر روزی کمانے والے پٹھان تھے ۔ آپریشن کس علاقہ میں ہوا ؟ جہاں اِسی قسم کے اور دوسرے غریب پٹھان رہتے ہیں ۔

اسی کو کہتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کی پانچوں گھی ۔ شاید سر کڑاہی میں ہونے کی کسر رہ گئی ہے

واہ بھئی واہ ۔ واہ بئی واہ
پڑے پالاتو مریں غیریب
چلے لُو تو مریں غریب
واہ بھئی واہ ۔ کر دیا ٹھاہ

جل کےدل

آدھی صدی سے زائد قبل ایک گانا لکھنے والے کی روح سے معذرت کے ساتھ کچھ حسبِ حال تبدیلیاں شامل کر کے

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

عوام خطاوار ہیں یا اُن کو بہکانے والے ؟
سب کے چہروں پر داغ ہیں کالے کالے

کتنے انتخابات ہوئے کوئی داغ دھویا نہ گیا
جل کے دِل خاک ہوا ۔ آنکھ سے رویا نہ گیا

[بہکانے والے یعنی حُکمران طبقہ]

کراچی کے طول و عرض میں میرے کئی بہت قریبی عزیز رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں کراچی کے حالات پر نظر رکھتا ہوں ۔ نومبر کے آخری ہفتے میں تو میرا چھوٹا بیٹا اور بہو بیٹی بھی کراچی میں موجود تھے ۔ پاکستانی صاحب کی تحریر پڑھ کر جی چاہا تھا کہ میرے علم میں آنے والے واقعات کے متوقع نتائج بیان کروں پھر ٹھٹھک گیا کہ کہیں اس کا منفی اثر نہ ہو جائے ۔ لیکن جو مجھے صاف نظر آ رہا تھا اور اُسے لکھتے ڈر رہا تھا وہ وقوع پذیر ہو گیا ۔

الطاف حسین کا بار بار بیان آ رہا تھا کہ “کراچی میں طالبان جمع ہو رہے ہیں” ۔ “کراچی کو طالبان نے گھیرے میں لے لیا ہے” ۔ “عوام کراچی کو بچانے کیلئے تیار ہو جائیں” ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ دبئی سے 22 نومبر رات گئے واپسی ہوئی ۔ 24 نومبر کو میرا کراچی میں اپنی ایک پھوپھی زاد بہن سے رابطہ ہوا تو میں نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا ۔ وجہ پوچھنے پر میں نے بتا دیا کہ الطاف حسین کے بیانات معنی خیز اور خطرناک ہیں

29 نومبر کی رات ٹی وی اے آر وائی ون ورڈ لگایا تو کراچی میں بلووں کا معلوم ہوا ۔ جیو سمیت باقی سب ٹی وی سٹیشن دیکھے مگر سوائے اے آر وائی اور سماع کے کسی چینل نے یہ خبر نہ دی ۔ کراچی میں پھوپھی زاد بہن کو ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بیٹی کے ہمراہ کہیں گئی ہوئی تھیں ۔ واپسی پر راستہ میں پٹھانوں کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے جو ایم کیو ایم کے لگتے تھے فائرنگ کی اُنہوں نے ایک پٹھان کو گرتے دیکھا ۔ رکشا والے نے رکشا بھگایا اور متوقع متنازع علاقوں سے بچتا ہوا نارتھ کراچی پہنچ گیا ۔ اُن کا بیٹا اپنے کام کے سلسلہ میں کراچی میں پھرتا رہتا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے جوانوں نے دو پٹھانوں کو پِک اَپ سے اُتار کر پولیس والوں کی موجودگی میں زد و کوب کرنا شروع کر دیا ۔ اُس نے اپنی ایف ایکس کار موڑی اور بچتا بچاتا رات گئے گھر پہنچا ۔

تمام عینی شاہد کہتے ہیں کہ پہل ایم کیو ایم نے کی اور زیادتی بھی ایم کیو ایم نے کی ۔ یہی کچھ تھا جس کا اعلان الطاف حسین بار بار کر رہا تھا ۔ لیکن ایم کیو ایم کے رہنما کہتے ہیں کہ یہ کام اُن کے دشمنوں کا ہے ۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم والوں کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ ہے کہ ظُلم بھی
کرتے ہیں اور مظلوم بھی کہلوانا چاہتے ہیں ۔ اگر بقول ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے باہر کے لوگ دہشتگردی کر رہے ہیں تو پولیس ۔ رینجرز اور ایم کیو ایم کی چابکدست تنظیم کی موجودگی میں ایسا کیونکر ممکن ہے ؟

وہ جو کراچی کی مظلوم مہاجر تنظیم تھی وہ تو مئی 1993ء میں چیئرمین عظیم احمد طارق کے قتل [شہادت] کے ساتھ ہی مر گئی تھی یا الطاف حسین نے مار دی تھی جو اُس محنتی اور صُلح جُو رہنما عظیم احمد طارق کا بھی قاتل ہے ۔ میں دس سال کی عمر میں 1947ء میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا لیکن میں نے یا میرے خاندان والوں نے اپنے آپ کو کبھی مہاجر نہ سمجھا ۔ میں صرف پاکستانی ہوں ۔ نہ پٹھان ہوں ۔ نہ بلوچی ۔ نہ سندھی ۔ نہ پنجابی ۔ نہ مہاجر