جتھے آوے دا آوا

پنجابی میں ایک کہاوت ہے “اٹ تے رہی اٹ جتھے آوے دا آوا ای وگڑیا ہوے اوتھے کوئی کی کرے”۔ یعنی بھٹے میں اگر کچھ اینٹیں خراب ہوں تو کوئی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے لیکن بھٹے کی سب اینٹیں ہی خراب ہوں تو بہتری کیسے ہو سکتی ہے . میں وطن عزیز کی ایک اعلی سطح کی نجی کمپنی کا حوالہ بطور نمونہ تاجراں دے چکا ہوں ۔ آج حکومت کے اعلی اہلکاروں کا ایک نمونہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں لیکن پہلے گذشتہ حوالے کی مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔

میں نے 30 سال کی سرکاری ملازمت کے بعد 53 سال کی عمر ہونے سے قبل ملازمت چھوڑی اور بعد میں 5 سال دو مختلف نجی اداروں کی ملازمت کی اس کے علاوہ بہبود عامہ کے ایک ادارہ کا 16 سال بلامعاوضہ کام کیا ۔ اس سارے تجربہ نے مجھے سکھایا کہ کوئی اکیلا شخص خواہ وہ کتنا ہی بااثر ہو بڑے پیمانے پر غلط کام کر نہیں سکتا ۔ جو بھی روپیہ ملک سے باہر بھیجا گیا ہے ضروری ہے کہ اس میں اعلی عہدے پر فائیز سرکاری افسران اور بااثر سیاسی رہنما شامل ہوں گے   

خبر ۔ ذرائع کے مطابق سوئی ناردرن گیس میں گزشتہ ایک سال کے دوران گیس لاسز اوگرا کے دیئے گئے ہدف سے بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں گزشتہ مالی سال میں 2 ارب روپے سے زائد کی گیس چوری ہو گئی ۔ اس صورتحال پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے گیس چوری پر قابو پانے اور گیس چوروں کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی۔ جب سے ملک میں بڑی تعداد میں سی این جی اسٹیشن لگنا شروع ہوئے تب سے گیس چوری کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھے ۔ بالعموم گیس سٹیشنوں کے مالکان حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران اور سیاستدان ہیں جس کے باعث انہیں ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کمپنی نے گیس چوری میں ملوث سی این جی سٹیشنوں اور دیگر صنعتی یونٹوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس دوران متعدد بار بااثر افراد کے سی این جی سٹیشنوں کے کنکشن کاٹ دیئے گئے جس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ آپریشن کے دوران شیخوپورہ میں سوئی ناردرن کے عملہ پر تشدد کیا گیا جبکہ ایک سابق ایم این اے کے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن کاٹنے پر ایک وفاقی وزیر نے اس کا کنکشن بحال کرنے پر زبردست دباؤ ڈالا ۔ اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے پرچے اور جرمانہ بھی واپس لینے کے لئے زبردست سیاسی دباؤ آ رہا ہے۔ دوسری طرف ہفتہ کے روز اس آپریشن کے انچارج افسر پر فائرنگ کے بعد کارکنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور افسران نے اعلیٰ انتظامیہ سے تحفظ کا مطالبہ کر دیا

This entry was posted in تجزیہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “جتھے آوے دا آوا

  1. محمد ریاض شاہر

    جناب بھوپال صاحب
    سرور کونین صلی علیہ نے ایک مرتبہ اپنی تبلیغ میں مسلسل کوشش کی بارآوری نہ ہونے پر دل میں اللہ سے سوال کیا کہ کب نتائج سامنے آئیں گے۔ باری تعالی نے کہا کہ نتائج کا اور اس کے وقت کا تعین ہمارا کام ہے۔ آپ صلی علیہ کا کام تو بس لگے رہنا ہے۔ مومن بھی بس لگا رہتا ہے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ معاشرہ اس کی کوشش کتنی نتیجہ خیز ثابت ہوتی۔ کیا ہے۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ریاض شاہد صاحب
    آپ نے درست کہا ۔ نتیجہ ہر عمل کا اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن کوشش شرط ہے ۔ انسان کا کام نیکی کی کوشش اور تلقین میں لگے رہنا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.