نعرہ اور عمل

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چند صدیاں قبل نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی کہے “نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

دورِ حاضر میں نان نہاد ترقی یافتہ دنیا کے سب سے بڑے نعرے ” امن” اور “انسان کی خدمت” ہیں جبکہ یہ نعرے لگانے والوں کے عمل سے ان کا نصب العین دنیا میں دہشتگری اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں غیروں سے کیا وہ ہمارے سجّن تو نہیں ہوسکتے ۔

آج ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ اللہ کی آیتوں کی بجائے شاعروں کے شعروں پر شاید زیادہ یقین ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ تْجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔ اسلئے کسی سے کُچھ کہا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی نعروں کی ۔ افواجِ پاکستان یعنی مملکتِ خداد داد پاکستان کی فوج کا نعرہ ہے
ایمان ۔ تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ

میں جب وطنِ عزیز میں کسی فوجی علاقہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ نعرہ لکھا پڑھتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جس نعرے پر عمل نہیں کر سکتے وہ لکھا کیوں ہے ؟ لیکن پچھلے دو سال سے تو عمل اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ کبھی باجوڑ کے قصبہ ڈماڈولا کے دینی مدرسے کے درجنوں معصوم کم عمر طالب علموں کی لاشیں نظر آکر تڑپاتی ہیں اور کبھی جامعہ حفصہ میں گولیوں اور گولوں سے ہلاک کی جانے والی اور سفید فاسفورس کے گولوں سے زندہ جلائی جانے والی 4 سال سے 17 سال کی سینکڑوں معصوم ۔ یتیم یا لاوارث طالبات کی یاد پریشان کرتی ہے ۔ تو کبھی اپنے وطن میں چلتے پھرتے یا گھر سے اُٹھا کر غائب کئے گئے ہموطنوں کی ماؤں کے نہ رُکنے والے آنسو اور ان کے بلکتے بچوں کے اُداس سپاٹ چہرے خُون کے آنسو رُلاتے ہیں ۔ کہیں بلوچستان آپریشن ہے تو کہیں سوات مالاکنڈ آپریشن ۔

سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے فوجی جرنیلوں کو دین اور وطن سے کوئی محبت نہیں تو وہ یہ نعرہ ختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیا اُنہیں احساس ہے کہ یہ نعرہ لکھ کر اور پھر اس کی خلاف ورزی کر کے وہ دوہرے جُرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟

This entry was posted in ذمہ دارياں, روز و شب, منافقت on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

3 thoughts on “نعرہ اور عمل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.