Monthly Archives: June 2008

وجودِ زَن سے

یہ دَور اشتہار بازی کا ہے جسے انگریزی میں پروپیگنڈہ کہتے ہیں اور اس کا جدید نام کسی حد تک انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی ہو سکتا ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین صدیاں قبل اشتہاربازی کی بجائے لوگ یا قومیں اپنے ہُنر یا طاقت سے اپنا سِکہ منواتے تھیں ۔ یورپ میں جب یہ خیال اُبھرا کہ صرف حقائق کے سہارے دوسروں کو متأثر کرنا اُن کے بس کا روگ نہیں رہا تو آزادیِ نسواں کے ساتھ ساتھ اشتہار بازی کی صنعت معرضِ وجود میں لائی گئی ۔ اشتہاربازی کا بنیادی اصول حقائق کی وضاحت کی بجائے یہ رکھا گیا کہ اتنا جھوٹ بولو اور اتنی بار بولو کہ کوئی اس کا دس فیصد بھی درست مان لے تو بھی فائدہ ہی ہو ۔

موجودہ دور کی اشتہاربازی نے ٹی وی کی مدد سے اپنے گھروں میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے ۔ نتیجہ صرف یہی نہیں کہ ایک روپے کی چیز 5 یا 10 روپے میں بِک رہی ہے اور لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں بلکہ بقول ایک مدبّر سربراہِ خاندان ۔ اُنہیں خالص دودھ میسّر ہے لیکن اس کے بچے کہتے ہیں کہ یہ دودھ مزیدار نہیں اور ٹی وی پر سب سے زیادہ اشتہار میں آنے والے ناقص دودھ کو پینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے

آمدن برسرِ موضوع ۔ مجھ سے پچھلی نسل کے کسی شاعر نے آدھی صدی سے زیادہ ماضی میں نجانے کس ترنگ میں آ کر کہا تھا

وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ

کسی اور نے کچھ سمجھا یا نہیں سمجھا ۔ ہمارے وطن میں اشتہار بنانے والوں نے اسے خُوب سمجھا اور اشتہاروں میں عورت کی شکل نظر آنے لگی ۔ جب عورت کا رنگ اخباروں میں بھرا جا چکا تو ٹی وی نے جنم لے لیا ۔ پھر کیا تھا ۔ نہ صرف عورت کی شکل بلکہ اس کے جسم کی دل لُوٹ لینے والی حرکات کا بھی رنگ بھرنا شروع ہوا ۔

وقت کے ساتھ ساتھ اشتہاری عورت ۔ معاف کیجئے گا ۔ اشتہار میں آنے والی عورت کا لباس اُس کے جسم کے ساتھ چِپکنے لگا ۔ پھر لباس نے اختصار اختیار کیا اور عورت کے جسم کا رنگ ناظرین کی آنکھوں میں بھرا جانے لگا ۔ ٹی وی سکرین سے عورت کا رنگ بڑے شہروں سے ہوتا ہوا قصبوں اور دیہات میں پہنچنے لگا ۔

پچھلے سات آٹھ سال میں حکومتی سطح پر روشن خیال ترقی قوم کی منزلِ مقصود ٹھہرا کر پُورے زور شور سے مادر پِدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی دوڑ لگا دی گئی ۔ کائنات میں عورت کا رنگ بھرنے کیلئے نِت نئے ڈھنگ نکالے گئے ہیں ۔ عورت اور مرد کا اکٹھے جذبات کو اُبھارنے والے ناچ ناچنا ۔ ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانی کرنا ۔ اور پھر اس سے بھی اگلی منزل شروع ہوئی کہ مرد کا عورت کو اُٹھا کر ہوا میں لہرانا یا گلے لگانا بھی کائنات میں رنگ بھرنے کا ایک طریقہ قرار پا گیا ۔

بیچاری عورت کھیل تماشہ تو بن گئی مگر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مقرر کردہ تحریم تو ایک طرف اپنی جو عفّت تھی وہ بھی کھو بیٹھی ۔

ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ شیطان کی یلغار سے بچائے اور سیدھی راہ پر چلائے ۔ آمین ۔

پردہ سِرکنا شروع

انسان کو جب کسی وجہ سے اللہ تعالٰی اقتدار دے دیتا ہے تو بہت سے ایسے ہیں جو خود کو ہی خدا سمجھنے لگتے ہیں ۔ موجودہ دور میں اِن میں سے ایک امریکہ کا صدر بُش ہے اور وطنِ عزیز میں پرویز مشرف جو بُش کا غلام بن کر اپنے آپ کو پاکستان کا خدا سمجھ بیٹھا ہے ۔ لیکن مشِیّت ایک ایسی چیز ہے جو بالآخر حقائق سے پردہ اُٹھا دیتی ہے ۔

لگتا ہے کہ ایسا ہی عمل پرویز مشرف کے سلسلہ میں شروع ہو جکا ہے ۔ کچھ دن قبل وطنِ عزیز کے مایہ ناز سائنسدان انجنئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پردہ تھوڑا سا سرکایا تھا کہ پرویز مشرف نے ان پر سے پابندیاں اُٹھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پورہ نہیں کیا ۔ ساتھ ہی اُن کے دیرینہ دوست نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر پابندیوں کے خلاف دعوٰی دائر کردیا جس کی سماعت شروع ہو چکی ہے ۔ اب بات مزید کچھ آگے بڑھی ہے

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ اُن کا پی ٹی وی پر اعتراف خوف سے نہیں بلکہ ملکی مفاد میں تھا کیونکہ ان سے کہا گیا تھا کہ ملک پر بمباری کر دی جائے گی اگر آپ نے یہ جرم اپنے سر نہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا آدمی جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہے اسلئے اب وقت ہے کہ حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں ۔ اُنہوں نے واضح کیا اُن کی رپورٹ حمود الرحمان رپورٹ کی طرح چھُپی نہیں رہے گی بلکہ قوم حقیقت جان جائے گی کیونکہ انہوں نے سب کچھ اپنے بیوی بچوں کو بتادیا ہے

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق صدر مشرف وہی کچھ کر رہے ہیں جو امریکا چاہ رہا ہے ۔ امریکا کا منصوبہ ہے کہ 2015 تک پاکستان کو تقسیم کر دیا جائے ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ بھی کہا کہ آئی اے ای اے عالمی ادارہ نہیں بلکہ امریکا اور یہودیوں کا مشترکہ ادارہ ہے ۔

اس سوال کے جواب میں کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے ؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ میرا اس پر ایمان ہے کہ جو رات قبر میں آنا ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی ۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا ۔

کی موجودگی میں بڑے پیمانے پر جو اسلحہ خریدا جا رہا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ اس اسلحے کی ایٹمی اسلحے کے سامنے کچھ نہیں ۔ لوگ صرف کمیشن کمانے کے لئے یہ اسلحہ خرید رہے ہیں۔

وقتِ دعا

آج پی سی او ججوں نے نواز شریف کو الیکشن کیلئے نا اہل قرار دے دیا ۔

یہ فیصلہ نواز شریف کے سپورٹروں کیلئے تو بُراہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر پورے ملک کیلئے بُرا ہے کیونکہ اس وقت نواز شریف کی جماعت قومی سطح دوسری سب سے بڑی جماعت ہے اور اس جماعت کے ساتھ تمام وکلاء ۔ سِول سوسائٹی ۔ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی ملک میں انصاف قائم کرنے کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ان باقی گروہوں کی آواز اسمبلی میں اُٹھانے والی جماعت مسلم لیگ نواز ہی ہے اور اعلٰی ترین سیاسی سطح پر انصاف کا مقدمہ نواز شریف ہی لڑ رہا ہے ۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اس فیصلہ کا جھٹکا ان سب گروہوں کو لگے گا ۔

اگر یہ سب گروہ سڑکوں پر نکل آئے تو پھر [خاکم بدہن] ہمارے ملک کا بہت نقصان ہو سکتا ہے ۔ اس لئے دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اس مسئلہ کو بخیر و خوبی سُلجھا دے ۔

ایک بات جو اس فیصلہ سے کھُل کر سامنے آ گئی ہے یہ ہے کہ پی سی او کا حلف اُٹھانے والے جج قابلِ اعتبار نہیں ہیں ۔

حِکمت

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درست آدمی یا راستہ کی تلاش میں ہمارا واسطہ غلط قسم کے آدمی سے پڑ جاتا ہے ۔

شاید یہ اس لئے ہوتا ہے کہ جب ہم درست آدمی سے ملیں یا صحیح راستہ کو پا لیں تو ہم اس کی قدر و منزلت کو پہچان سکیں
اور یہ نعمت عطا کرنے والے کا صحیح طور شکر ادا کریں

میری کمزوریوں سے فائدہ

ہفتہ بھر میں بیمار کیا رہا جوانوں نے اُدھم مچا دیا اور دھڑادھڑ ایک دوسرے کو نتھی کرنے لگے ۔ اور مجھے شاید پنساری کی دُکان کا لفافہ یا سرکاری دفتر کا خط سمجھ لیا کہ سب نے نتھی کرنا شروع کر دیا ۔ اتنی گرمی میں میری کمزوری کو دُور کرنے کیلئے بڑا سا میٹھا تربوز بھیجنے کی بجائے 16 جون کو اُردو بلاگ والے قدیر احمد صاحب نے ۔ 17 جون کو ضمیمہ والے عارف انجم صاحب نے ۔ 19 جون کو ابو شامل صاحب نے اور 20 جون 2008ء کو اکرام صاحب نے حُکم صارد کیا کہ میں بچوں کے مندرجہ ذیل کھیل میں ملوّث ہو جاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک صاحب نے اغواء کاروں کی طرح دھمکی دی “پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش نہ کیجئے اور خاموشی سے ٹیگنگ کے مطالبات پر عمل کر ڈالئے”۔ اسے کہتے ہیں کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانا

بقول علّامہ اقبال صاحب ۔ “برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ”

قوانین
1 ۔ کھیل کے قوانین جوابات دیتے وقت ارسال کرنا ہوں گے ۔
جِس نے آپ کو اس کھیل سے منسلک کیا ہے، اُسکی تحریر کا حوالہ دینا لازمی ہے ۔2 ۔
3 ۔ سوالات کے آخر میں آپ مزید پانچ لوگوں کو اِس کھیل سے منسلک کریں گے، اور اس کی اطلاع متعلقہ بلاگ پر نئی تحریر میں تبصرہ کر کے دیں گے ۔

سوالات اور جوابات

1 ۔ اِس وقت آپ نے کِس رنگ کی جرابیں پہنی ہوئی ہیں؟
جواب ۔ میں گھر میں جرابیں صرف سردیوں میں پہنتا ہوں

2 ۔کیا آپ اس وقت کچھ سُن رہے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا؟
جواب ۔ جی نہیں ۔ میں اس وقت لکھ رہا ہوں

3 ۔ سب سے آخری چیز جو آپ نے کھائی تھی کیا تھی؟
جواب ۔ جب تک زندہ ہوں کھاتا رہوں گا ۔ آخری کونسی ہو گی صرف اللہ جانتا ہے ۔

4 ۔ سب سے آخری فلم کونسی دیکھی ہے؟
جواب ۔ یاد نہیں ۔ غیر اہم چیز کو پچیس تیس سال یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھتا

5 ۔ آپ کا پسندیدہ قول کیا ہے؟
جواب ۔ نیکی کر دریا میں ڈال ۔ اللہ بخشے میرے دادا جان کہا کرتے تھے جن کا انتقال 1955ء میں ہوا

6 ۔ کل رات بارہ بجے آپ کیا کر رہے تھے؟
جواب ۔ کون سے 12 بجے ؟ امریکہ کے ۔ پاکستان کے یا میرے ؟

7 ۔ کِس مشہور شخصیت زندہ یا مردہ سے آپ مِلنا چاہیں گے؟
جواب الف ۔ زندوں میں ۔ ایسے شخص کو ملنا چاہتا ہوں جو اتنا خود دار ہو کہ ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق بلاتأمل کہہ دے ۔
ایک طالب عِلم ذہن میں آ رہا ہے جس نے مئی 2006ء کو کنوینشن سینٹر اسلام آباد میں قوم کو خودی کا راستہ دکھایا تھا ۔ جامعہ علوم الاسلامیہ العالمیہ ۔ بنوری ٹاؤن ۔ کراچی کا طالبعلم سیّد عدنان کاکاخیل ۔
اس کے بعد 18جون 2008ء کو اسلام آباد کے جلسہ تقسیم اسناد میں ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم سرمد خُرم نے ایک بار پھر خودی کی مشعل جلائی ہے ۔ اللہ کرے اب تیزی سے مشعل سے مشعل جلتی جائے اور خودی کا ایک کارواں بن جائے ۔

جواب ب ۔ مُردوں میں ۔ دعا ہے اور سب قارئین سے بھی دعا کی استدعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری خطائیں معاف کر کے مجھے جنّت میں جگہ دے دے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا دیدار نصیب ہو جائے اور پھر اسی وجہ سے اپنی والدہ کا بھی ۔

8 ۔ غصہ میں اپنے آپ کو پُرسکون کِس طرح کرتے ہیں؟
جواب ۔ غُصہ ہی تو ہے جو مجھے آتا نہیں اور اگر کبھی آ جائے تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھتا ہوں

9 ۔ فون پر سب سے آخر میں کِس سے بات ہوئی؟
جواب ۔ کسی بہن بھائی سے ہوئی ہو گی

10 ۔ آپ کا پسندیدہ تہوار کونسا ہے؟
جواب ۔ جس دن مجھے سب چہرے حقیقی بشاش نظر آئیں ۔
یا اللہ ۔ میری زندگی میں وہ گُمشدہ دن پھر لوٹ آئے ۔

11 ۔ حسب قواعد میں نتھی کرتا ہوں‌ ان بلاگرز کو ۔
جو بلاگرز ابھی تک نتھی نہیں کئے گئے اُن سے التماس ہے کہ کم ازکم 5 اپنے آپ کو یہاں نتھی کر کے ممنون فرمائیں ۔ مجھے کسی کی ذرا سی دل آزاری بھی قبول نہیں اسلئے میں نے کسی کو نتھی نہیں کیا ۔

نعرہ اور عمل

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چند صدیاں قبل نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی کہے “نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

دورِ حاضر میں نان نہاد ترقی یافتہ دنیا کے سب سے بڑے نعرے ” امن” اور “انسان کی خدمت” ہیں جبکہ یہ نعرے لگانے والوں کے عمل سے ان کا نصب العین دنیا میں دہشتگری اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں غیروں سے کیا وہ ہمارے سجّن تو نہیں ہوسکتے ۔

آج ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ اللہ کی آیتوں کی بجائے شاعروں کے شعروں پر شاید زیادہ یقین ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ تْجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔ اسلئے کسی سے کُچھ کہا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی نعروں کی ۔ افواجِ پاکستان یعنی مملکتِ خداد داد پاکستان کی فوج کا نعرہ ہے
ایمان ۔ تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ

میں جب وطنِ عزیز میں کسی فوجی علاقہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ نعرہ لکھا پڑھتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جس نعرے پر عمل نہیں کر سکتے وہ لکھا کیوں ہے ؟ لیکن پچھلے دو سال سے تو عمل اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ کبھی باجوڑ کے قصبہ ڈماڈولا کے دینی مدرسے کے درجنوں معصوم کم عمر طالب علموں کی لاشیں نظر آکر تڑپاتی ہیں اور کبھی جامعہ حفصہ میں گولیوں اور گولوں سے ہلاک کی جانے والی اور سفید فاسفورس کے گولوں سے زندہ جلائی جانے والی 4 سال سے 17 سال کی سینکڑوں معصوم ۔ یتیم یا لاوارث طالبات کی یاد پریشان کرتی ہے ۔ تو کبھی اپنے وطن میں چلتے پھرتے یا گھر سے اُٹھا کر غائب کئے گئے ہموطنوں کی ماؤں کے نہ رُکنے والے آنسو اور ان کے بلکتے بچوں کے اُداس سپاٹ چہرے خُون کے آنسو رُلاتے ہیں ۔ کہیں بلوچستان آپریشن ہے تو کہیں سوات مالاکنڈ آپریشن ۔

سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے فوجی جرنیلوں کو دین اور وطن سے کوئی محبت نہیں تو وہ یہ نعرہ ختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیا اُنہیں احساس ہے کہ یہ نعرہ لکھ کر اور پھر اس کی خلاف ورزی کر کے وہ دوہرے جُرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟

خوش کیسے رہیں ؟

خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو ہم ساری دنیا کو تبدیل کر دیں یا ہم اپنی سوچ بدل دیں

دنیا کو تو کوئی بدل نہیں سکتا اس لئے ہمیں اپنے آپ کو درست رکھتے ہوئے یہ توقع چھوڑ دینا چاہیئے

مختصر یہ کہ مسئلہ متنازعہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ حل کرنے کا رویّہ متنازعہ ہوتا ہے

خوشی کا تعیّن اس سے نہیں ہوتا کہ کسی کے ساتھ کیا ہوا بلکہ اِس سوچ سے ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا