درِندہ اُس جانوار کو کہتے ہیں جو کہ شقی القلب ۔ انتہاء کا ظالم یا بے رحم ہو ۔ چوپایوں میں بھیڑیا درندہ کہلاتا ہے کیونکہ ہر شریف جانور یعنی ہرن ۔ بکرا ۔ گائے بیل وغیرہ اور انسان پر بھی بلا وجہ حملہ کر کے اُسے ہلاک کرنے کی کوشس کرتا ہے ۔ شیر کو درِندہ نہیں کہا جاتا کیونکہ اگر بھوکا نہ ہو یا اُسے کوئی تنگ نہ کرے تو وہ کسی پر حملہ نہیں کرتا خواہ ہرن ہو یا انسان ۔
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن ان میں کئی درندوں کو بھی مات کر جاتے ہیں ۔ اس کا ثبوت آئے دن پیش آنے والے واقعات ہیں ۔ تازہ ترین واقعہ اپنی نوعیت کی ایک مثال قائم کر گیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ انسانوں میں چوپایوں سے بڑھ کر درندہ صفت پائے جاتے ہیں ۔ یہ واقعہ کسی گاؤں یا قصبہ میں نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہوا ہے جہاں کے رہنے والے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب سمجھتے ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق 14 مئی 2008ء کو دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب رنچھوڑ لائینز میں ٹمبر مارکیٹ کے قریب سومیا مکرّم پیلس کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر اکبر سومرو کے گھر چار آدمی گھُس گئے ۔ اسلحہ کے زور پر اُنہوں نے زیور اور نقدی لوٹ لی ۔ جب ڈاکو جانے لگے تو اکبر سومرو پہنچ گئے ۔ اُس پر گولی چلا کر ڈاکو بھاگ نکلے ۔ گولی کی آواز اور اکبر کا شور سُن کر محلہ کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اُنہوں نے تین ڈاکوؤں کو قابو کر لیا ۔ مار پٹائی کے بعد لوگوں نے ڈاکوؤں پر مٹی کا تیل یا پٹرول چھِڑک اُن کو آگ لگا دی ۔ اس دوران پولیس اور ایدھی والے پہنچ گئے لیکن لوگوں نے اُنہیں بیس تیس منٹ تک قریب نہ جانے دیا ۔ اس طرح تین آدمی زندہ جلا دیئے گئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب ڈاکو جل رہے تھے تو کچھ لوگ تالیاں بجا رہے تھے ۔
ایسی بیہیمانہ درندگی کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
کہا گیا کہ لوگ آئے دن کی ڈکیتیوں اور پولیس یا حکومت کی بے حِسی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اسلئے اُنہوں نے ایسا کیا ۔ اگر یہ جواز مان لیا جائے تو ہمارے مُلک کے 8 کروڑ بالغان میں سے کم از کم 5 کروڑ جلائے جانے کے مستحق ہیں ۔
1 ۔ جو لوگ اپنی دہشت یا اثر و رسوخ کی بنا پر یا محکمہ کے اہلکاروں کی مُٹھی گرم کر کے ۔ ۔ ۔
ا ۔ بجلی چوری کرتے ہیں کیا وہ 24 گھنٹے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟ ان میں سے عوام کہلانے والے کُنڈے ڈالتے ہیں اور صاحب کہلانے والے میٹر سے بالا بالا اپنے ایئر کنڈیشنر چلانے کیلئے بجلی حاصل کرتے ہیں ۔
ب ۔ نہروں کا پانی چوری کرنے والے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
ج ۔ اپنے پانی کے نلوں کیلئے لگے ہوئے چھوٹے سوراخ والے فیرُول [ferrule] اُتروا کر بڑے سوراخ والے فیرُول لگوانے والے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
2 ۔ کم تولنے والے یا عُمدہ چیز کی قیمت لے کر گھٹیا چیز بیچنے والے دُکاندار یا ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے لوگ خریداروں کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
3 ۔ دوا ساز کمپنیوں کے اہلکار ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دے کر ۔ بااثر لوگوں اور ڈاکٹروں کو بڑے بڑے تحائف دے کر ۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں ڈنر دے کر اور ہوائی سفر کے ٹکٹ دے کر اپنی من مانی قیمت پر دوائیاں بیچتے ہیں ۔ کیا وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
4 ۔ قوم سے ٹیکسوں کی مَد میں وصول کیا ہوا روپیہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرنے والے حکمران یا اہلکار کیا عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
5 ۔ جو ملازمین اپنے اوقاتِ کار میں سے وقت ذاتی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں یا اس وقت کو گپ شپ میں یا دوسرے طریقوں سے ضائع کرتے ہیں یا دفتری املاک جن میں کار اور ٹیلیفون بھی شامل ہیں ذاتی اغراض کیلئے استعمال کرتے ہیں کیا وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟
6 ۔ جو بھائی اپنی بہن کے ۔ والدین اپنی اولاد کے ۔ خاوند اپنی بیوی کے ۔ بہن اپنے بھائی کے ۔ بیوی اپنے خاوند اور اولاد اپنے والدین کے جائز حقوق ادا نہیں کرتے کیا وہ اُن کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟
7 ۔ جو لوگ گاڑی چلاتے ہوئے سُرخ بتی ہونے کے باوجود گذر جاتے ہیں یا اپنی قطار سے نکل کر زبردستی دوسری قطار میں گھُستے ہیں اور اگر راستہ نہ دیا جائے تو بدکلامی اور مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں کیا وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟
8 ۔ اپنی آمدن کیلئے فحش یا لچر قسم کے اشتہارات دکھانے والے ٹی وی چینلز اور اخبارات کیا عوام کے اخلاق پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟
9 ۔ زبردستی کی شادی کرنے والے یا زبردستی بدکاری کرنے والے کیا ڈاکہ ڈال کر کسی کی پوری زندگی نہیں لُوٹ لیتے ؟
فہرست مزید طویل ہے لیکن یہ بھی کیا کم ہے ۔