موت اور اللہ کی مدد

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو پیدا ہو ا وہ زُود یا بدیر مر بھی جائے گا اور یہ بھی کہ موت کا وقت مقرر ہے ۔ میں موت کا فلسفہ نہیں بلکہ اپنے صرف دو مشاہدات رقم کرنا چاہتا ہوں ۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک رشتہ دار جو اسلام آباد جی ۔ 10 میں رہتے ہیں کسی کام سے اپنی کار پر ترنول گئے ۔ ترنول اُن کے گھر سے 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ کام ختم ہونے تک دوپہر ہو گئی تھی ۔ کار میں سوار ہونے سے قبل وہ سڑک کنارے کسی سے اپنے موبائل پر بات کر رہے تھے کہ اچانک گر پڑے ۔ ایک راہگذر نے دیکھ لیا اور اپنی کار کھڑی کار کے اُن کا موبائل پکڑ کر جس نمبر پر بات ہورہی تھی ملا کر پوچھا “ابھی آپ کی جن سے بات ہو رہی تھی اُن کا نام کیا ہے اور وہ آپ کے کیا لگتے ہیں ؟” جواب ملا “راجہ محمد نواز اور میرے رشتہ دار ہیں”۔ اُس شخص نے کہا “میں راجہ صاحب کو لے کر پمس جا رہا ہوں آپ فوری طور پر پمس پہنچیں”۔ وہ شخص مری میں تھا چنانچہ اُس نے اسلام آباد میں ان کے گھر ٹیلیفون کر دیا ۔ اتفاق سے اُن کا چھوٹا بیٹا کوئٹہ سے آیا ہوا تھا ۔ وہ آدھے گھنٹہ کے اندر پمس پہنچ گیا ۔ جو شخص راجہ محمد نواز صاحب کو لے کر آیا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنی کار پر گئے تھے تو وہ نمبر پوچھ کر گیا اور ان کی کار لے کر ہسپتال پہنچ گیا اور بغیر شکریہ وصول کئے چلا گیا ۔ وہ اجنبی اپنا فرض ادا کر گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ راجہ محمد نواز صاحب اگلے دن راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ نواز صاحب میری بھانجی کے سُسر تھے ۔ بہت ہی خوش اخلاق شخص تھے ۔ اللہ جنت میں مقام دے ۔

دوسرا واقع ان دنوں کا ہے جب شاہراہ کشمیر صرف اکیہری سڑک تھی ۔ ایک صاحب راولپنڈی کی طرف سے اسلام آباد آ رہے تھے ۔ شاہراہ کشمیر پر اُنہوں نے ایک کار سڑک کے کنارے کھڑی دیکھی جس کا بونٹ کھلا تھا اور ایک خوش پوش شخص جھُکا ہوا انجن کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ اپنی کا ایک طرف کھڑی کر کے اس کی مدد کو گیا اور کہا ” کیا ہوا ؟ میں کچھ آپ کی مدد کر سکتا ہوں ؟” جھکا ہوا شخص سیدھا کھڑا ہو کر کہنے لگا “پتہ نہیں اچانک انجن بند ہو گیا ہے”۔ اُس شخص نے کار میں بیٹھ کر چابی گھمائی تو کار سٹارٹ ہو گئی ۔ وہ باہر نکل آیا اور کہا”جناب آپ کی کار تو بالکل ٹھیک ہے”۔ یہ کہہ کر وہ اپنی کار کی طرف جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ وہ شخص اچانک اپنی کار کے بونٹ پر گر پڑا ۔ اس نے بھاگ کر اسے سنبھالا ۔ اُس کی کار کی تلاشی لی تو اسے وزٹنگ کارڈ مل گئے ۔ اس کا نام ظفر تھا اور وہ اسلام آباد ایف ۔ 10 گلی نمبر 40 میں رہتا تھا ۔ ظفر صاحب کو اپنی کار میں ڈالا اور اس کی کار کو بند کر کے ہسپتال کی طرف روانہ ہوا ۔ ہسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ ظفر صاحب وفات پا چکے ہیں ۔ ضروری کاروائی کے بعد ظفر صاحب کے گھر گیا اور بتایا کہ “ظفر صاحب کی راستہ میں طبیعت خراب ہو گئی تھی اُنہیں ہسپتال داخل کرا دیا ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو بھیجیں جو اُن کی کار لے آئے”۔ ظفر صاحب سے میری ملاقات طرابلس لبیا میں ہوئی ۔ وہ لیبی ایئرلائین میں پائلٹ تھے ۔ اچھے ملنسار آدمی تھے اللہ جنت نصیب کرے ۔

کوئی شخص بیمار پڑا ہو یا کسی حادثہ میں شدید زخمی ہو جائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وجہ بیماری یا حادثہ ہے ۔ لیکن کئی بھلے چنگے آدمی بھی ایک لمحہ میں مُلکِ عدم کو سُدھار جاتے ہیں ۔ اسے جدید زبان میں کارڈِیئک اریسٹ کہہ دیا جاتا ہے ۔ میں نے اُوپر دو واقعات بیان کئے ہیں ۔ میری والدہ تو تین دن بے سُدھ رہ کر اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن میرے دادا ۔ پھوپھی اور بڑی خالہ گھر میں بیٹھے باتیں کرتے اچانک چلتے بنے تھے ۔ ہر جاندار نے مرنا ہے اور جانداروں کے علاوہ بھی جو کوئی چیز ہے اُس نے بھی فنا ہو جانا ہے ۔ انسان کو ہر وقت اپنی موت کیلئے تیار رہنا چاہیئے یعنی غلط کام چھوڑ کر اچھے کام کرنا چاہئیں کیونکہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے ۔

سُورت 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیت 185 ۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَة ُالْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو ۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ رہی یہ دنیا تو یہ ایک ظاہر فریب چیز ہے

سُورت 21 ۔ الْأَنْبِيَآء ۔ آیت 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ ہم بطریقِ امتحان تم میں سے ہر ایک کو بُرائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے

سُورت 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیت 57
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ پھر تُم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے

سُورت 55 ۔ الرَّحْمٰن ۔ آیت 26
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
ہر چیز جو زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے

This entry was posted in تاریخ, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “موت اور اللہ کی مدد

  1. محمد وارث

    آپ نے بالکل صحیح فرمایا اجمل صاحب، ایسے واقعات کافی سننے میں‌ آتے ہیں‌ کہ فلاں‌ شخص اچھا بھلا، بیٹھا بیٹھا اللہ کو پیارا ہو گیا۔

  2. شکاری

    اسلام علیکم،
    چند دن پہلے میری امی کی مامی فوت ہوگئیں تو انکا بھائی تمام رشتہ داروں کو اپنی بہن کی وفات کی اطلاع دے کر ایک گھینٹے بعد خود فوت ہوگیا۔ حالانکہ وہ بالکل تندرست تھے۔

  3. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    یہاں پر آپ نے “سُورت 21 ۔ الْأَنْبِيَآء ۔ آیت 35” کا ترجمہ مکمل نہیں لکھا۔ براہِ مہربانی درستگی کر لیں۔

  4. اجمل Post author

    محمد سعد صاحب
    نشان دہی کیلئے مشکور ہوں ۔ خزاک اللہ خیر ۔
    سمجھ میں نہیں آیا کہ شائع کرتے ہوئے آخر کے الفاظ پہلے اور دو الفاظ غائب کیسے ہو گئے ۔ :???:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.