اچھی حکمتِ عملی

مطالبات کم رکھیئے اور ترجیحات اپنائیے

کوئی چیز یا عمل دسترس سے باہر ہو تو اپنے آپ کو سمجھائیے
“میں اِس کو ترجیح دیتا ہوں لیکن اگر وہ ہو جائے تو بھی ٹھیک ہے”

یہ ذہنی رُحجان اور رویّہ کی تبدیلی ہے جو ذہنی سکون مہیّا کرتی ہے

نتیجہ یہ ہو گا کہ
آپ کی ترجیح ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کریں تو آپ کا دن برباد نہیں ہو گا۔
آپ کی ترجیح ہے کہ آج دھوپ نکلے لیکن اگر بارش ہو جائے تو بھی آپ کو کوفت نہیں ہو گی

This entry was posted in روز و شب, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “اچھی حکمتِ عملی

  1. روغانی

    پاکستان میں‌ آج کل حکمرانوں کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں سادگی اپنانے اور زندگی کے مصیبتوں کو کم کرنے کے لئے سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں آپ کی یہ تجویز نہایت عمدہ ہے ۔
    حد درجہ مطالبات اور ترجیحات میں عدم توازن کی وجہ سے آج ہم کئی معاشرتی برائیوں کا شکار ہیں جس کا نتیجہ ذہنی اور معاشرتی ابتری کی صورت میں نکل رہا ہے ۔

    آخر میں موجودہ حالات پر پشتو کے صوفی شاعر رحمان بابا کا تبصرہ :
    (شعر رحمان بابا کا ہے لیکن آج کے حالات پر اس سے بہتر تبصرہ شعر میں نہیں ہوسکتا)

    پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
    اور او گور او پیخاور درے واڑی يو دي

    (ترجمہ: ظالم حکمرانو کے ہاتھوں آج آگ ، قبر اور پشاور میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا ۔)
    یعنی عذاب قبر کی سختی اور آگ کی تپش آپ پشاور آکر محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ سخت گرمی میں بجلی نہیں اور بھوک لگے تو آٹا نہیں ۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں ۔ پشاور یہاں محض ایک استعارہ ہے ورگرنہ پورے مملکت خدادا کی یہی حالت بنی ہوئی ہے ۔

  2. اجمل Post author

    روغانی صاحب ۔ السلام علیکم
    آپ بہت عرصہ بعد نظر آئے ۔ اُمید ہے انشاء اللہ بخیریت ہوں گے ۔
    آپ نے ایک پرانے شاعر کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ یہ پرانے وقتوں کے لوگ قوم کے سامنے حقائق رکھتے تھے اور قوم کو جگانے اور صحیح راہ پر لگانے کی کوشش کرتے تھے ۔ آجکل کے شاعر قوم کو بے عمل تخیالاتی دنیا میں لیجانا چاہتے ہیں اور قوم اکثریت حقائق کا سامنا کرنا پسند نہیں کرتی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.