Monthly Archives: March 2008

امریکہ کی آرزو ۔ مُطیع پاکستان

پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت نے امریکہ کو نہ صرف پاکستان میں اڈے دیئے بلکہ مکمل لاجسٹک سپورٹ [logistic support] دینے کے علاوہ خفیہ معلومات کا بھی تبادلہ کیا مگر عرابی کے اُونٹ کی طرح امریکی حکومت چوڑی ہی ہوئی چلی جا رہی ہے ۔ اور اب تو نئے 11 مطالبات نے پاکستان کی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کے اہل کار وں جو آج تک امریکہ کے گُن گاتے تھے کو بھی پریشان کر دیا ہے ۔ جاپان ایک مفتوح مُلک تھا ۔ اس میں امریکی چھانی کے لئے امریکہ نے ان 11 میں سے 5 مطالبات منظور کرائے تھے جن کی وجہ سے جاپانی آج تک سخت پریشان ہیں ۔ امریکی جاپانی عورتوں کے ساتھ زبردستی بدکاری کر لیتے ہیں اور جاپانی حکومت صرف کفِ افسوس ملتی رہتی اور کچھ کر نہیں سکتی ۔ امریکہ نے 2001ء کے بعد پاکستان میں قائم کی گئی چھاؤنیوں ہی میں نہیں پورے پاکستان میں جو حقوق مانگے ہیں [5 نہیں 11] اُن کا نتجہ کیا ہو گا ؟

ڈاکٹر شیریں مزاری کا آنکھیں کھولنے والا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔

کیا یہی عُمدہ حکمرانیgood governance ہے ؟

پرویز مشرف جس کو 9 مارچ 2008ء کے میثاقِ مری کے بعد بھی اپنی تا موت حُکمرانی کی قوی اُمید ہے نے پچھلے سوا آٹھ سال میں روشن خیالی کی جو ضخیم کتاب مرتب کی ہے اس کا صرف ایک صفحہ حاضر ہے ۔ ایسے کئی باب ہمارے ملک کے ہر شہر میں لکھے جانا روزانہ کا معمول رہا ہے لیکن آج سے پہلے سرکاری پولیس کو اِسے اُجاگر کرنے کی توفیق نہ ہوئی تھی ۔ البتہ اہالیانِ اسلام آباد کی درخواست پر لال مسجد سے متعلق لوگوں نے پچھلے سال ایک صفحہ کھولنے کی جراءت کی تھی اور اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں ۔

اسلام آباد کے سنیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ مکان نمبر 221 ۔ گلی نمبر 3 ۔ سیکٹر ایف 10/3 میں بااثر لوگ بِلّیاں دی سراں [Cat House] چلا رہے ہیں ۔ پنجابی میں براتھل ہاؤس [Brothel House] کو بِلّیاں دی سراں یعنی بِلّیوں کی سرائے کہا جاتا ہے ۔ ہفتہ 8 مارچ اور اتوار 9 مارچ کی درمیانی شب پولیس نے چھاپہ مار کر وہاں 19 عورتوں اور 34 مردوں کو گرفتار کر لیا جو شراب نوشی اور مخلوط ناچ میں مصروف تھے ۔ عورتوں میں 3 چینی اور 3 روسی تھیں ۔ اس مکان سے شراب کی 66 بوتلیں ۔ بیئر کے 88 ڈبے ۔ ایک 7 ایم ایم کی بندوق ۔ ایک 12 بور کی بندوق ۔ ایک 44 بور کی بندوق ۔ تین 222 بور کی بندوقیں اور گولیوں کی بھاری مقدار بھی برآمد ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ ظفر شاہد نامی ایک بااثر شخص اس گھر کو بلّیاں دی سراں [Brothel House] کے طور پر چلا رہا تھا ۔

امریکہ کی نفسیاتی دہشت گردی

ایک طرف تو امریکہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی تیار کردہ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑیں اور دوسری طرف خود امریکہ کے اندر ایک بلوچ دہشتگرد گروہ کو سہارا دے کر ایران میں سیستان اور پاکستان میں بلوچستان کا توازن خراب کرنے میں مصروف ہے ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کرزئی حکومت کے کھولے ہوئے بدنامِ زمانہ بی ایل اے جس کا اب نام بلوچستان ریپبلیکن آرمی رکھ دیا گیا ہے کے دفاتر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں باوجودیکہ برطانیہ انہیں دہشتگرد قرار دے چکا ہے ۔

پرویز مشرف کی سربراہی میں ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے امریکہ کے سامنے اتنا جھُک چکی ہے کہ بلوچستان جیسے حساس صوبے اور صوبہ سندھ میں امریکہ کو اڈے دے رکھے ہیں ۔ اب تو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکہ تربیلہ کے قریب بھی ایک ہوائی اڈا استعمال کر رہا ہے جہاں سے بغیر پائیلٹ کے جہاز [Predator] کی پروازیں بھیجی جاتی ہیں ۔

یہ سب کچھ نچھاور کر دینے کے بعد کہاں ہے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی کوئی حمائت ؟ اگر ہم پاکستانیوں میں زرا سی بھی غیرت ہے تو امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ہمیں فوراً دستبردار ہو جانا چاہیئے ۔

یہ چھوٹا سا اقتباس ہے ڈاکٹر شیریں مزاری کی تحریر سے جو یہاں کلک کر کے مکمل پڑھی جا سکتی ہے ۔

سوئی کی تلاش

ساٹھ سال قبل جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی تھی کہ ایک شخص رات کے وقت سڑک پر قُمقَمے کی روشنی میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا ۔ ایک راہگیر نے پوچھا “بھئی کیا ڈھونڈ رہے ہو ؟” اس نے جواب دیا ” سُوئی”۔ راہگیر نے کہا “گِری کہاں پر تھی ؟” وہ شخص کہنے لگا “گھر میں”۔ راہگیر کہنے لگا “عجب آدمی ہو ۔ سوئی کھوئی گھر میں اور ڈھونڈ رہے ہو سڑک پر”۔ وہ شخص بولا ” گھر میں روشنی نہیں ہے”۔

ہمارے صدر صاحب اس کا اُلٹ کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے تو ملک کے باہر ہیں اور صدر صاحب انہیں اپنے مُلک میں تلاش کر رہے ہیں ۔ اس طرح دھماکے کرانے والوں کو کھُلی چھٹی ملی ہوئی ہے ۔

پئے در پئے دھماکوں کے نتیجہ میں صدر صاحب کے معتمدِ خاص اور نگران وزیرِ داخلہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد نواز بھی چند دن قبل ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بول اُٹھے کہ “لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دھماکے امریکہ ۔ بھارت اور افغانستان کروا رہا ہے”۔ اس پر امریکی سفیر نے غصہ گِلہ کیا ۔ پھر جب نگران وزیرِ داخلہ نے اپنا بیان واپس لینے کی بجائے ایک اور نجی ٹی وی چینل پر کہا “پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں انڈیا تو بہرحال ملوّث ہے اور شاید امریکہ اور افغانستان بھی اس میں شامل ہیں” تو سرکاری ترجمان نے اسے سرکاری بیان ماننے سے انکار کر دیا ۔

ہمارے صدر صاحب کو بُش نے نمعلوم کونسی گولی کھلائی ہوئی ہے کہ ان پر کسی سچائی کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ۔

تبصرہ کا جواب

نینی صاحبہ نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم نقاط اُٹھائے ہیں ۔ تبصرہ کا جواب سرِ ورق پر دے رہا ہوں کہ کوئی اور بھی قاریہ ایسی یا قاری ایسا ہو سکتا ہے جس کے ذہن میں یہی سوال اُبھرے ہوں لیکن لکھنا مناسب خیال نہ کیا ہو ۔

تبصرہ کا جواب

بہت خوب ۔ آپ کی اُردو بہت پسند آئی ۔ کسرِ نفسی دیکھیئے کہ ماشاء اللہ اتنی طویل اور جامع تحریر کے بعد فرمایا ہے “اف اردو لکھنا بہت مشکل ھے”۔ محترمہ اُردو لکھتی رہیئے ۔ اِسے مت چھوڑئیے ۔ یہ آپ کی اپنی بولی ہے ۔

میری تحریر کی تشنگی کی طرف توجہ دلا نے کا شکریہ ۔ مجھے اختلاط کی تعریف پہلے ہی لکھنا چاہیئے تھی ۔ فیروز اللُغات نیا ایڈیشن کے مطابق “اختلاط” کے معنی ہیں ۔ ربط و ضبط ۔ میل جول ۔ پیار ۔ میل ملاپ ۔ محبت کی گرم خوشی ۔ چھڑ چھاڑ ۔ اور “اختلاط کی باتیں” کا مطلب ہے پیار اور محبت کی باتیں ۔

محترمہ ۔ عنوان مناسب ہے کیونکہ بات پوری دنیا کی ہو رہی ہے ۔ یہ بتاتا چلوں کہ دنیا کا کوئی مذہب عورت مرد کے اختلاط کی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ بے راہ روی کا نتیجہ ہے ۔ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بعثت کے وقت یہودیوں میں اختلاط کے نتیجہ میں ہونے والی بدکاری کی سزا عورت اور مرد دونوں کو سنگسار کرنا تھی ۔ یہی سزا سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے شادی شُدہ مرد یا عورت کے بدکاری کرنے پر مقرر فرمائی ۔

محترمہ ۔ میں نے اُس کشش کی بات کی تھی جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فطرتِ انسان میں رکھی ہے اور جائز ہے ۔ جس کشش کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی ” تاجر کی لئے سود میں کشش اور سرکاری ملازم کے لئے رشوت میں”۔ یہ کشش شیطان نے انسان کو بہکانے کیلئے پیدا کی ہے اور ہر شخص میں نہیں ہوتی ۔ ہاں ۔ جب مرد عورت کی پاکیزا کشش میں شیطان کا عمل داخل ہو جائے تو نتیجہ وہی ہوتا ہے جس کی میں نے دو مثالیں دی ہیں ۔

آپ نے اسلامی حدود و قیود کا ذکر کیا ہے ۔ میں پھر کہوں گا کہ کوئی بھی مذہب اس اختلاط کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہاں اگر ہر انسان اپنے مذہب پر چلے تو پھر کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو مگر آج کے دور میں تو اُن سیّدنا عیسی علیہ السلام کے ماننے والے جنہوں نے کہا تھا کہ “اگر ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا گا آگے کر دو” اپنے علاوہ باقی سب کا بلا جواز قتلِ عام کر رہے ہیں ۔

آپ نے درست لکھا کہ ساری بگاڑ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔ آپ نے اللہ کے فرمان کا ذکر کیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا یہ حُکم سورت 2 ۔ الْمَآئِدَة کی آیت 2 کا آخری حصہ ہے ۔ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللہَ إِنَّ اللّہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ ۔ اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے

روشن خیالی؟

میں نے اپنی کل کی تحریر کے آخر میں ایک مشورہ لکھا تھا ۔ اس مشورہ کا ایک پہلو میں نے اُجاگر نہیں کیا تھا جو یہ ہے کہ کسی غیر مرد کے ساتھ اکیلے میں سفر نہیں کرنا چاہیئے ۔ اس سلسلہ میں آج انگریزی اخبار دی نیوز اسلام آباد میں ایک خبر چھپی ہے جو ملاحظہ ہو ۔

ہمارے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر مارگلہ تھانہ ہے ۔ وہاں اسلام آباد کے ایک کالج کی 18 سالہ طالبہ نے پہنچ کر ایس ایچ او کو بتایا کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ۔ 9 میں اپنی سہیلی سے ملنے گئی ۔ سہیلی گھر پر نہ تھی ۔ وہاں اُس کی ملاقات سہیلی کے دوست سے ہوئی جس نے اُسے اپنی کار میں اُس ہوٹل میں پہنچانے کی پیشکش کی جہاں کہ وہ جانا چاہتی تھی ۔ چنانچہ وہ اس لڑکے کے ساتھ چلی گئی مگر بجائے ہوٹل کے وہ اُسے اسلام آباد کے مضافات میں لے گیا اور پستول دکھا کر اُس کی عزت لوٹ لی ۔ میں اس سانحہ کے بعد سیدھی یہاں آئی ہوں ۔ خبر کے مطابق لڑکے کو گذشتہ رات گرفتار کر لیا گیا ہے ۔

اصل بات تو لڑکا لڑکی کے علاوہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ اس واقعہ کے متعلق مندرجہ ذیل سوال اہم ہیں

لڑکی اس غیر لڑکے کے ساتھ کیوں گئی ؟
لڑکی سہیلی کے گھر سے واپس اپنے گھر جانے کی بجائے ہوٹل کیوں جانا چاہتی تھی ؟
جب لڑکی نے دیکھا کہ لڑکا صحیح راستہ پر نہیں جا رہا تو اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی ؟
اسلام آباد کے جس علاقے کی بات ہو رہی ہے اس میں آجکل رات 11 بجے تک بھی رونق ہوتی ہے ۔