اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمکلام ہونے کے اسلوب

میں یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جو مضمون میں خود سے لکھتا ہوں وہ فی البدیع نہیں ہوتا بلکہ حتی الوسع کافی مطالعہ اور چھان بین کے بعد لکھتا ہوں ۔ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور علم حاصل کرنے کیلئے تَن دہی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں علم کے حصول کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے گھر بیٹھے بٹن دبایا اور مونیٹر کی سکرین پر دنیا جہاں کا علم حاصل کر لیا ۔ کہاں ہمارا زمانہ کہ استاذ نے کتاب بتا دی اور سارے شہر کے کتاب گھر چھان مارے ۔ لائبریریوں پر بھی دستک دی مگر کتاب نہ ملی ۔ پھر پانچ سات ہم جماعت مل کر پیشگی قیمت ادا کر کے مختلف کتابوں کی ایک ایک جلد آرڈر کرتے جو چھ سے آٹھ ہفتے بعد ملتیں ۔ باری باری ہر کتاب پڑھی جاتی اور امتحان کے قریبی دنوں کیلئے ہر لڑکا اپنے نوٹس تیار کر لیتا کہ ہر ایک کو ایک ہی وقت ایک ہی کتاب دستیاب نہ ہو سکتی تھی ۔ آج اتنی سہولیات کے باوجود جب کوئی میرے جیسا کم علم اپنی ادنٰی معلومات یا تجربات کو پیش کرنے کی جرأت کرتا ہے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ کوئی اتنی بھی کوشش نہیں کرتا کہ پہلے
متعلقہ کتاب یا کُتب کا مطالعہ کر لے ۔

قوموں کی ترقی کا راز کتابیں پڑھنا ہی ہے لیکن صرف فلمی کہانیوں کی نہیں ۔ میں نے اپنی تحریر بعنوان ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی ہمکلام ہوتے ہیں ” اس امید سے لکھی تھی کہ ترقی یافتہ جدید دور کے جواں دماغ میری رہنمائی کریں گے لیکن بغیر دین کی سب سے مستند کتاب ” قرآن شریف ” [جوکہ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ کا اپنا فرمان ہے] کا صحیح طور مطالعہ کئے ۔ فتاوٰی نازل ہونے شروع ہو گئے ۔ میں نے کچھ حوالے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کلام سے دیئے مگر صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہ آئی ۔

ہمکلام ہونا تین طرح کا ہے ۔ ایک ۔ جس کا نتیجہ مکالمہ ہو یعنی دونوں اطراف سے کلام ہو ۔ اس میں براہِ راست یا آمنے سامنے بات چیت یا آجکل ٹیلیفون پر بات کرنا شامل ہے ۔ دوسرا ۔ یکطرفہ یعنی پیغام کسی ذریعہ سے پہنچا دینا ۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ ایک جس میں صرف پیغام دینا مقصود تھا جواب کی ضرورت نہ تھی ۔ دوسرا ۔ جس کا پیغام وصول کرنے والے نے جواب نہ دیا ۔ اس آخری قسم کی بھی دو شاخیں ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغام وصول کرنے والے کو پیغام کی سمجھ ہی نہ آئی ۔ دوسرے یہ کہ سمجھ آئی مگر جواب دینا مناسب نہ تھا ۔ کچھ اور نہ سہی اگر ہم صرف قرآن شریف کا ہی صحیح طرح مطالعہ کر لیں تو یہ ساری صورتیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ نے ہمیں سب کچھ بتا یا ہے اور بار بار غور کرنے کی تلقین بھی کی ہے ۔

میں نے جان بوجھ کر لفظ ” وحی ” کی بجائے ” ہمکلام ” استعمال کیا تھا کہ ” وحی ” لکھنے سے ڈر تھا کہ کوئی طوفان نہ اُٹھ کھڑا ہو اور کہیں میری گردن زدنی کا فتوٰی نہ جاری ہو جائے ۔ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ [Urdu Encyclopedia of Islam] کے مطابق ” وحی ” کے معنی ہیں ۔ لطیف اور مخفی اشارہ ۔ پیغام [رسالت] ۔ دِل میں ڈالنا [الہام] ۔ چھُپا کر بات کرنا [کلامِ خفی] ۔ کتابت [لکھنا] ۔ کتاب یا مکتوب ۔ جو کچھ دوسرے کے دل یا ذہن میں ڈال دیا جائے ۔
اہلِ لغت کے نزدیک ” وحی ” کے معنی یہ ہیں کہ کسی سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کی جائیں کہ کوئی دوسرا سن نہ پائے
عام زبان میں ہم لوگ وحی سے صرف وہ کلام لیتے ہیں جو اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ سے انبیاء علیہم السلام کو پہنچا ۔

لیکن کیا کیا جائے ان الفاظ کا جو پیدا کرنے والے کے ہیں ۔ اپنے مطالعہ اور ہمت کے مطابق قرآن شریف کی چند آیات پیشِ خدمت ہیں [اور بھی کئی ہیں] ۔ ان آیات میں لفظ ” وحی ” لُغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ مذکورہ آیات میں اس کے مفہوم میں مخفی تلقین ۔ فطری تعلیم ۔ لطیف و خفیہ اشارے ۔ فطری حُکم ۔ دِل میں بات ڈالنا اور وَسوَسہ پیدا کرنا شامل ہیں ۔

سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 111 ۔ وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَی الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَيْتُ ” وحی سے بنا ہے]
اور جب میں نے حواریوں کے دل میں [یہ] ڈال دیا کہ تم مجھ پر اور میرے پیغمبر [عیسٰی علیہ السلام] پر ایمان لاؤ

سُورت ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیت ۔ 121 ۔ وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَإِنّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَی أَوْلِيَآئِہِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوھُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” لَيُوحُونَ ” وحی سے بنا ہے]
اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر [ذبح کے وقت] اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بیشک وہ [گوشت کھانا] گناہ ہے ۔ اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کے دِلوں میں [وَسوَسے] ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چل پڑے [تو] تم بھی مشرک ہو جاؤ گے

سُورت ۔ 16 ۔ النَّحْل ۔ آیت ۔ 68 ۔
وَأوْحَی رَبُّكَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور آپ کے رَب نے شہد کی مکھی کے دل میں [خیال] ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور انگور کی بیلوں میں

سُورت ۔ 28 ۔الْقَصَص ۔ آیت ۔ 7 ۔ وَ أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَيْنَا ” وحی سے بنا ہے]
اور ہم نے موسٰی [علیہ السلام] کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو

سُورت ۔ 41 ۔ فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَہ ۔ آیت ۔ 12 ۔ و اُوْحَی فِي كُلِّ سَمَاءٍ اَمْرَھَا ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” اُوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور اللہ نے ہر آسمان [کی مخلوق] کو اس کے حُکم بھیجے

سُورت ۔ 99 ۔ الزَّلْزَلَة / الزِّلْزَال ۔ آیات 4 ، 5 ۔ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَھَا ۔ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَی لَہَا ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرگذرے گی ۔ یہ اسلئے کہ آپ کے رَب نے اسے یہی حکم دیا ہے ۔

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صَدَقَ اللہُ العَظِیم ۔ ۔ ۔

ترجمہ : تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

13 thoughts on “اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمکلام ہونے کے اسلوب

  1. SHUAIB

    آپ کی پچھلی تحریر کا قصہ واقعی جذبات سے مغلوب تھا مگر اسکو خدا سے ہمکلام کی بجائے انسانی جذبہ کا نام دینا بہتر ہے ۔

  2. اجمل Post author

    بنگلور والے شعیب صاحب
    جناب بتانا تو یہی تھا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی اپنی اشرف المخلوقات مخلوق کی رہنمائی کرتے ہیں غیر محسوس کلام کے ذریعہ

  3. وقار علی روغانی

    حضرت !
    میں نے دوسرے پوسٹ پر تبصرہ کرتے وقت بھی تسلیم کیا تھا کہ آپ عمر میں ہم سے بڑے ہیں ، ہمارے بزرگ ہیں اور یہاں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آپ عمر کے ساتھ ساتھ ظاہر ہے علم میں بھی ہم سے برتر ہیں ۔ یہ پوسٹ لکھ کر آپ نے اچھا کیا وحی کے اقسام اور طریقہ ہائے کار واضح‌ ہوجائیں گے ۔

    اب میں پچھلے پوسٹ میں آپ کے اٹھائے گئے سوال پر چند گزارشات کروں گا ۔

    آپ نے لکھا :میرا صرف ایک سوال ہے ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ الرّحمٰن الرّحیم انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور بغیر حُجت تمام ہوئے کسی کو سزا نہیں دیتا ۔ تو جب کوئی نبی دنیا میں موجود نہ ہو اور جب دنیا میں موجود بھی ہو تو ہر جگہ موجود تو نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کسی انسان کی کس طرح رہنمائی فرماتا ہے اور کس طرح مدد فرماتا ہے ؟ ”

    میرے خیال میں آپ نے دو طرح کی چیزوں کو خلط ملط کردیا ہے یہاں ۔ یہاں آپ نے رہنمائی کا لفظ استعمال کیا ہے وہ ہدایت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس سوال کے نیچے آپ نے قرآن سے جتنے واقعات استدلال کے طور پر پیش کئے وہ بھی انبیا علیہ السلام سے متعلق ہیں سوائے سیدنا مریم علیہ السلام کے ۔ تاہم کئی مفسرین نے کہا ہے کہ اس مقام پر جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ ایک فرشتے نے حضرت مریم سے کی ہے نہ کہ اللہ تعالٰی نے ان کو براہ راست خطاب کیا ہے ۔ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہوں‌ گا کہ پوری انسانی تاریخ میں شائد صرف دو پیغمبروں‌ کو اللہ تعالٰی سے براہ راست بغیر کسی واسطے کے بات چیت کی سعادت نصیب ہوئی اور وہ ہیں سیدنا موسی علیہ السلام اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
    اچھا تو جہاں تک اللہ تعالٰی کی طرف سے رہنمائی کا تعلق ہے وہ کبھی پیغمبروں کے واسطے کے بغیر نہ ہوئی ۔ اللہ تعالٰی نے ہدایت کے لئے کسی انسان کو براہ راست خطاب نہیں کیا ۔ اس کی کوئی مثال نہیں ، رہنمائی یعنی ہدایت صرف اور صرف پیغمبروں کے واسطے سے آتی ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے آخری رہنمائی (اسلام) مکمل شکل میں ہمارے ساتھ موجود ہے ۔ آپ کے الفاظ‌ حجت کا تمام ہونا اور سزا نہ دینا بھی میرے موقف کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں‌ رہنمائی سے آپ کی مراد ہدایت ہے ۔ جب دنیا میں نبی موجود ہو تو اس کی ذات ہی واحد ذریعہ ہے رہنمائی کا ۔ اس لئے اللہ نے ہر جگہ ، ہر قوم میں نبی یا رسول بھیجے اور جب نبی یا رسول موجود نہ تو ان کا پیغام ان کی جانشینی کرے گا ۔ یعنی انہوں نے جو پیغام ہدایت اللہ کی طرف سے دیا ہے اسی کے اتباع میں نجات ہے ۔ اور دیکھیں اسلام کہاں نہیں‌ پہنچا ، کیا کوئی اس زمانے میں‌ یہ دعوٰی کرسکتا ہے کہ اسے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نہیں پہنچا ۔ یا اسے معلوم ہی نہیں کہ محمد کون ہیں ۔ اسی کو تکمیل دین کہتے ہیں ۔
    آخری جملے میں تاہم آپ نے رہنمائی کے ساتھ مدد کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے دوسرا معنی نکلتا ہے یعنی عام رہنمائی ۔ یہ رہنمائی تو ہر مسلمان ہر اسی وقت اللہ سے مانگتا ہے جب اسے کوئی مشکل درپیش ہو اور صلٰوۃ استخارہ اسی لئے سکھایا گیا ہے لیکن آخرالذکر رہنمائی اور اول الذکر رہنمائی میں بہت بڑا فرق ہے جسے سمجھنا چاہیئے ۔
    اللہ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور عمل کرنے کی توفیق بھی ۔ مع السلام

  4. شعیب صفدر

    انکل اُوپر کے دونوں تبصرے میں نے نہیں کئے!!!
    یہ پڑوسی ملک والے ہیں!! میں تو پاکستانی شعیب ہوں!! شعیب صفدر!!

  5. راشد کامران

    اجمل صاحب میں‌ کم از کم اس چیز کا انکاری نہیں‌کے عبد و معبود کوئی رابطہ یا سلسلہ کلام نہ ہو۔ اب اس حقیقی یا تمثیلی کہانی جس سے تمام مباحثہ کا آغاز ہوا اس سے متعلق میرے ذہن میں‌ایک الجھن ہے۔۔ فرض کریں‌ میں‌ اس شخص‌کی بات کو سچ مان لیتا ہوں‌ اور اسکو خدا کا پیغام ہی سمجھتا ہوں‌۔۔ تو کل اگر وہ شخص کوئی ایسا پیغام لے کر میرے سامنے کھڑا ہو جس کا ماننا محال ہو ۔۔ جیسے کچھ قلندروں‌ کے لیے نمازوں‌ کی معافی ہوجاتی ہے حالانکہ ان میں‌ بظاہر دیوانے پن کے کوئی اثرات نظر نہیں‌ آتے۔۔ اس صورت میں‌ کیا آپ نہیں‌ سمجھتے کے خاور صاحب کے دلائل زیادہ وزنی معلوم ہوتے ہیں کے اس چیز کا پہلی سطح پر ہی تدارک کیا جائے اور اللہ اور بندے کے رابطے کے لیے صرف اسی وحی پر ہی تکیہ کیا جائے جو کے نبیوں‌ پر نازل ہوئی ہو؟‌ اور اسکے بعد تمام باتیں بندے کے اپنے ذہن کی پیداوار جو علمی میعار کے مطابق درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ؟ کیونکہ اس سے رہنمائی کے پہلو کم اور مہدیت کے دعوی دار زیادہ سامنے آنے کا امکان ہے؟‌

  6. اجمل Post author

    بنگلور والے شعیب صاحب
    خوش آمدید ۔ معذرت خواہ ہوں ۔ لمبے عرصہ بعد آپ کا تبصرہ دیکھا تو غلطی ہو گئی

    شعیب صفدر صاحب
    معذرت ۔

  7. اجمل Post author

    وقار علی روغانی صاحب
    آپ کے بار بار یاد دِلانے پر مجھے یوں محسوس ہونے لگ گیا ہے کہ میں چھڑی ٹیک کر چل رہا ہوں ۔ کمر جھُکی ہوئی ہے ۔ تھوڑا چلنے کہ بعد رُک کر سر اُٹھا کر دیکھتا ہوں اور پھر چل پڑتا ہوں :lol:
    نوازش کا شکریہ ۔

    آپ رہنمائی کو محدود معنی میں لے رہے ہیں ۔ ہر اچھی ہدائت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی طرف سے ہوتی ہے ۔ میں نے ایک واقعہ بیان کیا ۔ سچا یا کہانی ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ میں نے لفظ ہمکلام استعمال کیا کیونکہ کلام کے ایسے اسلوب بھی ہیں جن میں آواز نہیں ہوتی اور بعض اوقات موجودگی ضروری نہیں ہوتی ۔ آپ نے عام دیکھا ہو گا کہ ماں اپنے بچے کی طرف دیکھتی ہے تو بچہ سمجھ جاتا ہے کہ ماں کسی چیز سے منع کر رہی ہے یا کوئی خاص کام کرنے کا کہہ رہی ہے ۔ بعض ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو سمجھ نہیں پاتے کہ ماں کیا چاہتی ہے ۔ وجہ بچے کا ماں سے لاتعلق ہونا ہوتی ہے ۔ کلام کا ایک اور طریقہ بھی آپ نے دیکھا ہو گا ۔ بچہ دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں ہے ۔ اس کی ماں کے دل میں بلاجواز پریشانی پیدا ہوتی ہے ۔ ماں دل ہی دل میں کہتی ہے “جا بچہ ۔ اللہ تیری مشکل آسان کرے یا اسی طرح کی کوئی چیز”۔ اگر بچے کا ماں سے اچھا تعلق ہے تو اس کے دل میں اطمینان پیدا ہوتا ہے ۔ یہ احساس بھی اللہ کے حکم سے بغیر لمحہ بھی خرچ کئے دُور سے دُور پہنچ جاتا ہے ۔

    میں نے خلط ملط نہیں کیا بلکہ ایسا لگ سکتا ہے ۔ اگر بولنے یا لکھنے والا اور سننے یا پڑھنے والا ایک ہی پسِ منظر نہیں رکھتے تو بھی اس طرح کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو میری تحریر سے پیدا ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے قاری پر کبھی غصہ نہیں آیا ۔ غلط سمجھ آنے کی چند وجوہات دیکھنے کیلئے آپ کو میرے تحقیقاتی مقالہ کا ایک حصہ پڑھنا پڑے گا ۔
    http://iabhopal.wordpress.com/8acommunication

    بلا شُبہ دین نہ بدلنے والے قرآن اور سنّت کے ساتھ مکمل کر دیا گیا لیکن انسان کو ورغلانے کیلئے اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے شیطان کو جو اجازت دے رکھی ہے ۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ ایسی صورت میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی اپنے ان بندوں کی قدم قدم پر رہنمائی فرماتے ہیں جو کہ راندۂ درگاہ نہیں ہوئے ہوتے ۔ اگر اچھے حافظہ والا شخص اپنے ماضی پر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس نے کئی کام ایسے کئے جس سے اسے یا کسی اور کو فائدہ پہنچا مگر نہ تو اس نے اس کیلئے منصوبہ بندی کی تھی اور نہ ہی بظاہر اس کے کرنے کا کوئی جواز تھا ۔ میرا اعتقاد ہے کہ ایسے سب کام اللہ سبحانُہُ و تعالٰی غیرمحسوس کلام کے ذریعہ کرواتے ہیں ۔

    صرف آنسہ مریم [اللہ ان پر اپنا کرم کرے] سے ہی نہیں خضر [اللہ ان پر اپنا کرم کرے] جن کے نبی ہونے کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا سے بھی اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے کسی صورت کلام کیا ۔ فرشتے کا کلام اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا پیغام ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے نقل کر دیا ہے قرآن شریف میں آنسہ مریم [اللہ ان پر اپنا کرم کرے] کے سلسلے میں فرشتے کا ذکر نہیں ہے ۔

    آپ بات کر رہے ہیں اس مسلمان کی جو آج سے کم از کم 1300 سال پہلے تھا ۔ آج کا مسلمان قرآن کو ہی نہیں سمجھ پایا اسی لئے حدیث کا انکاری ہے ۔ اس کو تو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے اور اس رہنمائی کا نعم البدل نہ تو تبلیغی جماعت والے ہیں اور نہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب ۔ نہ فضل الرحمٰن ۔ نہ فضل اللہ ۔ نہ قاضی حسین احمد ۔

    جو تیسری لڑی آپ نے بیان کی اس میں سید سلیمان ندوی ۔ علامہ شبلی نعمانی ۔ علامہ محمد اقبال ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور امین احسن اصلاحی صاحبان کو میں نے پڑھا ہے اور ان سے متفق ہوں ۔ حمید الدین فراہمی صاحب کو میں نے نہیں پڑھا ۔ ابوالکلام آزاد صاحب سے میرا اختلاف ہے ۔

    آپ نے آخر میں رہنمائی مانگنے کا ذکر کیا ہے جو کہ موضوعِ سخن نہیں ۔ میں نےجس فعل کا ذکر کیا ہے وہ آدمی سے کوئی غیرمرئی طاقت کروا دیتی ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے کر گذرتا ہے ۔ وہ اسے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہوتا ۔ یہ غیرمرئی طاقت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہوتے ہیں

  8. اجمل Post author

    راشد کامران صاحب
    میں نے یہ واقعہ اس لئے نہیں لکھا کہ قاری سچی کہانیاں پڑھنے کے شوقین ہیں ۔ اصل چیز اس کہانی میں دیا گیا خیال ہے ۔ پھر اگر آپ عبد و معبود میں رابطہ یا سلسلہ کلام کے انکاری نہیں ہیں تو بحث کی گنجائش نہیں رہی ۔

    جس طرح کے قلندر کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کی اسلام میں کوئی گنجائش مجھے کہیں نظر نہیں آئی ۔ کسی فعل کا ہو جانا اور کسی کردار کا دعوٰی کرنا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں ۔ بندے کا اللہ سے رابطہ صرف اور صرف قرآن شریف اور سنّت کی رہنمائی میں ہونا چاہیئے ورنہ غلط ۔ میں تو بات کر رہا ہوں ایک ایسے فعل کی جو ایک انسان بغیر منصوبہ بندی کے غیرارادی طور پر کر گذرتا ہے اور اس سے کسی کو فائدہ پہنچ جاتا ہے خواہ وہ اس کا دشمن ہو اور اسے اس فعل کے کرنے کا کوئی جواز نہیں ملتا ۔ ایسا فعل کسی غیرمرئی طاقت نے اس سے کروا دیا ہوتا ہے اور وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہیں ۔ایسی کمیونیکیشن کو میں اللہ کے ہمکلام ہونے کے طریقوں میں سے ایک کہتا ہوں ۔

  9. Meesna02

    “جس طرح کے قلندر کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کی اسلام میں کوئی گنجائش مجھے کہیں نظر نہیں آئی ۔”

    سوائے ديوبنديوں کے بانی نانوتوی صاحب کي نظر ميں، جو قلندر کيا نبی تک لانا چاہ رہے ہيں-

    http://www.youtube.com/watch?v=0sw6Qyqjh04

    ہميں اس بات کو کھل کر condemn کرنا چاہيئے-

  10. اجمل Post author

    میسنا 02 صاحب
    آپ اس وڈیو کا پہلے بھی حوالہ دے چکے ہیں ۔ میں نے ابھی دیکھی نہیں میں زاتی جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتا ۔آجکل میں مصوف بھی زیادہ ہوں جونہی وقت ملا میں اسے دیکھوں گا اور پھر آپ کے تبصرہ کے متعلق کچھ کہہ سکوں گا ۔

  11. اجمل Post author

    میسنا 02 صاحب
    آپ کا ڈھاک کے تین پات والا معاملہ ہے ۔ آپ نے اس تحریر کے مضمون پر تبصرہ نہیں کیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.