سرسیّد سے غامدی تک

دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے سنّت سے انکار کا فتنہ اُٹھایا ۔ سبب یہ تھا کہ سنّت خوارج کے انتہاء پسندانہ نظریات کے پرچار کی راہ میں ایک مضبوط فصیل کی طرح حائل تھی جبکہ معتزلہ کم علمی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے عجمی اور یونانی فلسفوں سے متاثر ہو کر دین اسلام کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔ یہ دونوں فتنے کچھ مدت بعد اپنی موت آپ مر گئے جس کی بڑی وجوہ محدثین کا زبردست تحقیقی کام ۔ اہلِ عِلم کی طرف سے قرآن کی تصریحات اور اُمت کا اجتماعی ضمیر تھیں ۔ تیسری صدی ہجری کے بعد پھر صدیوں تک یہ فتنہ سر نہ اُٹھا سکا ۔

دوسری بار اس فتنے نے تیرہویں صدی ہجری [اُنیسویں صدی عیسوی] میں عراق میں سر اُٹھایا اور پھر ہندوستان میں اس کی بنیاد سر سیّد احمد خان [1817 تا 1898] نے ڈالی ۔ اُن کے بعد مولوی چراغ علی ۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی ۔ مولوی احمد دین امرتسری اور مولوی اسلم جیراج پوری یکے بعد دیگرے اس کے علمبردار بنے ۔ آخرکار اس کی ریاست چوہدری غلام احمد پرویز [1903 تا 1986] کے ہاتھ آئی جس نے اسے ضلالت کی انتہاء تک پہنچا دیا ۔ فی زمانہ اس کام کا بیڑہ جاوید احمد غامدی نے اُٹھایا ہوا ہے ۔ یہ صاحبان بھی معتزلہ کی طر ح یورپی اور امریکی فلسفہ سے متاثر لگتے ہیں ۔

دین میں ان حضرات نے کتنا غلو کیا ۔ اس کے متعلق علماء دین مفصل لکھ چکے ہیں ۔ دین اسلام کے علماء کی جو چند کتابیں میں نے ان صاحبان کے خیالات کے متعلق دیکھی ہیں ان میں زیادہ زور سنّت کی حیثیت پر دیا گیا ہے ۔ مودودی صاحب کی سنّت کی آئینی حثیت میں غلام احمد پرویز کے ایک پیروکار کے خطوط اور ان کے جامع جوابات رقم کئے ہیں اور اس سلسلہ میں تمام اعتراضات اور واقعات کا مختصر مگر جامع تجزیہ بھی کیا ہے ۔

میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ مجھے ان منکرینِ حدیث میں سے سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کی تحاریر پڑھنے کا موقع ملا ۔ ان صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازع بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے قرآن شریف بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟

حدیث کو متنازعہ بنانے کے علاوہ مجھے زمانۂ جدید کے ان مفکرین کی تحاریر میں دو باتیں نمایاں نظر آئیں ۔ ایک عورتوں کے پردہ کا نظریہ اور دوسرا جہاد کا جنہیں مغربیت کا لباس پہنانے کیلئے ان صاحبان نے قرآن شریف کی متعلقہ کچھ آیات کو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیّبہ کیلئے مخصوص کر دیا اور کچھ کا شانِ نزول اور سیاق و سباق سے قطع نظر جدید دور کے مطالبات کے مطابق اپنی مرضی کا ترجمہ کر لیا ۔ گویا پچھلی 14 صدیوں میں پیدا ہونے والے سینکڑوں اہلِ عِلم سے یہ صاحبان زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔ غور کیا جائے تو ان صاحبان کا مقصد مغربیت زدہ لوگوں کو جواز کج روی مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔

سنّت کے اتباع کی سند

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔

ورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے ۔

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے

سنّت کیا ہے ؟

سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔

حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے ۔

سنّت کی تین اقسام ہیں ۔ قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا ۔ عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا ۔

کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں ۔

حدیث کی تاریخ

آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔

حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھئیے ۔ دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک ۔
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں

ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]

دراصل سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے ۔

This entry was posted in دین, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

35 thoughts on “سرسیّد سے غامدی تک

  1. نعمان

    اس بات سے قطع نظر کہ ان حضرات کا فلسفہ کیا ہے۔ معتزلہ سے لے کر غامدی تک ان حضرات علماءدین کو ہر لمحہ تحقیق و حفاظت پر کمر بند رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں‌ دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں‌ جوابا جو تیزی آتی ہے وہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔

    مجھے غامدی صاحب سے نہ کوئی اتفاق ہے نہ اختلاف۔ لیکن مجھے یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے کہ کیوں‌ ایک متنازعہ شخصیت کو تمام ٹیلیوژن چینلز تقریبا ایک ہی جیسا پروگرام کرنے کو مدعو کرتے ہیں؟ یا تو ان پروگرامز کے فارمیٹ الگ الگ ہوں‌ تو چلیں‌ بات سمجھ میں‌ آتی ہے مگر ایک متنازعہ شخصیت کو اسقدر جانبدارانہ انداز میں‌ ٹیلیوژن کے پرائم ٹائم پر اتنا زیادہ دکھانا معنی خیز ہے۔

  2. Pingback: شاکر کا بلاگ

  3. میرا پاکستان

    ہم نعمان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں‌کہ غامدی صاحب کو کیوں اتنا وقت ٹی وی چینلز پر دیا جارہا ہے۔
    اگر ہم احادیث کا غور سے مطالعہ کریں تو ہمیں‌ایک بھی بات ایسی نہیں‌ملے گی جس سے معاشرے میں شر کے پھیلنے یا بے راہ روی کی راہ ہموار ہوتی ہو۔
    جو لوگ احادیث کو نہیں‌مانتے وہ واقعی قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کرکے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ انہیں‌اپنے اس عمل پر توبہ کرنی چاہییے تاکہ وہ جہنم کی آگ سے بچ سکیں۔

  4. روسی شہری

    ویسے اپ نے نام غلط لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔تصیح‌ فرما لیجئے ” جاوید احمد خوشامدی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ویسے یہ نام ان کے شان شایان ہے ویسے یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  5. اجمل Post author

    نعمان صاحب
    ٹی وی پر دکھانے کے سوال کی مجھے آپ جیسے باخبر آدمی سے توقع نہ تھی ۔ ٹی چینلز پر سوائے خبروں اور کھیلوں کے جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے احکامات کا اُلٹ ہے البتہ اس طرح کے چند نام نہاد دینی پروگرامز ہوتے ہیں ۔ میلاد النببی کے نام پر بھی جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اللہ کے حکم اور رسول اللہ کی سنّت کے برعکس ہوتا ہے ۔ یہی ٹی وی چینلز اگر انسانیت کی فلاح کیلئے استعمال کئے جائے تو قوم ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہو سکتی ہے ۔

  6. نعمان

    بجا فرمایا آپ نے۔ رمضان پر جو ادھم ان ٹی وی والوں‌ نے مچایا ہے جس کسی سے بھی بات ہوئی وہ نالاں‌تھا۔ شروع کے چند روزوں‌ کے بعد تو میری والدہ کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ عصر سے تراویح‌ تک ٹی وی بالکل بند رکھا جائے۔ عین افطار کے وقت تک اشتہارات اور دینی پروگرامز کے نام پر عجیب اور غلط معلومات کی فراوانی۔

  7. خاور بلال

    السلام علیکم!
    امید ہے بخیریت ہونگے۔ ملتِ اسلامیہ کے ساتھ جو سلوک ہمارے زمانے میں ہورہا ہے وہی سلوک اب اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی کیا جارہا ہے۔ تعلیماتِ اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کا جتھہ ہے جو مظلوم مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسلام پر اعتراض اب ایسا ادرک ہے جو ہر بندر کے ہاتھ میں تھمادیا گیا ہے۔ گذشتہ چودہ صدیوں کے اجماعِ امت، اور محدثین و فقہاء کی عظیم خدمات کو جھٹلانا دورِ حاضر کا محبوب مشغلہ ہے۔وہ حضرات جو احادیث‌ پر اعتراضات کرتے ہیں وہ علماء کے روبرو اپنا موقف پیش کرنے کے بجائے عموما کم علم لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ ان کی دال زیادہ سے زیادہ گلے۔

    اجمل صاحب اس موضوع پر آپ کو متحرک دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ امید ہے اس سلسلے کو جلد آگے بڑھائیں گے۔ آپ کا ساتھ ہمارے لیے تقویت کا باعث ہے۔ اللہ اس کام کی برکت سے آپ کی صحت و توانائی میں برکت عطا فرمائے۔ آمین

    نوٹ: اردو محفل پر قسیم حیدر کی خواہش پر “سنت کی آئینی حیثیت” کو برقیانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

  8. اجمل Post author

    خاور بلال صاحب
    آپ کی نیک خواہشات کا شکریہ ۔ جزاک اللہ خیر
    اس قسم کے لوگوں سے نبیوں علیہم السلام کو بھی واسطہ پڑتا رہا اور ہر دور میں موجود رہے مگر جب دین والے باعلم ہوئے تو یہ اُبھر نہ سکے اور جب دین والوں نے علم کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ لوگ دلیر ہوئے ۔ آج کے دور کا مسئلہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں کی علم سے دُوری ہے ۔ اللہ ہمیں دین کا علم سیکھنے اور اس پر علم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

  9. قسیم حیدر

    السلام علیکم، حدیث‌کے موضوع پر آپ کی تحریریں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

  10. باذوق

    السلام علیکم
    جزاک اللہ خیر اجمل صاحب ‫!
    ویسے کافی دن بعد آپ کے بلاگ پر حاضری دی ہے ۔ ان شاءاللہ اس موضوع پر میں‌ بھی علیحدہ تحریر لکھوں‌ گا۔

  11. اجمل Post author

    باذوق صاحب
    آپ تو ہیں ہی با ذوق ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں :smile:
    جزاک اللہِ خیرٌ

  12. ظفر اقبال

    غامدی صاحب کی ایک بات واضح ہے۔ وہ ہمیشہ اسلام اور اسلامیوں کے خلاف ہونے والی مہم میں دل جمعی سے سامراجی سمت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایک عالم کے تاثر کے ساتھ وہ ان سامراجی مہم جووئوں کے لئے بہت مدد گار ہوتے ہیں۔
    کییسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ سلسلے رہے
    میرے بھی ساتھ ساتھ تھےاورون سے بھی ملے رہے

  13. ظفر اقبال

    اجمل صاحب
    آپ کا کام ایک صدقہ جاریہ ہے۔
    حدیث اور سنت کو قانون اسلامی کا ماخذ ماننے سے ان انکاریوں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے خطبات بھاولپور،نسخہء ہمام بن منبہ،سید ابوالاعلٰی کی سنت کی آئینی حیثیت کے علاوہ کچھ دوستون کی کاوش
    http://www.searchhadith.com
    پر موجود ہے۔

  14. ظفر اقبال

    اجمل صاحب
    معذرت
    شاعر کا نام یاد نہیں
    جوں ہی علم ہو گا۔آپ کی خدمت مین پیش کر دوں گا۔
    فتنوں کا پیچھا کرنے کے لئے کچھ دوستون کا گروپ تشکیل دیا ہے۔ دعا کریں۔ مدد بھی کیجئے گا۔ یوسف کذاب گروپ کے بارے میں مذید پیش رفت ہوئی ہے۔گھر چھوڑ کر آنا ہے۔انشاءاللہ

  15. لطف الا سلام

    جہاں تک میری اطلاع ہے، عبدالمنان عمر نام کے ایک صاحب مولانا نورالدین کے فرزند تھے- حکیم مولانا نورالدین جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ تھے۔ عبدالمنان عمر کو جماعت احمدیہ سے بوجوہ خارج کر دیا گیا تھا اور وہ لاھوری جماعت سے وابستہ ہو گیے۔

  16. کوثر بیگ

    بہت معلوماتی مضمون ہے شکریہ بھائی

    مجھے مطالعہ کا شوق دیکھکر میرے بھائی عثمانیہ یونیورسٹی سے کتابیں لاکر دیا کرتے تھے ۔ایک بار مقالات سرسید لے کر آئے بابا خود پڑھنے کتابیں چیک کیا کرتے تھے جب اسے دیکھا تو وہ اپنے پاس رکھ لیے دوسری کتابیں واپس کرتے وقت اسے میرے پاس سے لے کر جانا فرمائے جب میں بولی کہ میں نے تو یہ پڑھی ہی نہیں تو کہنے لگے کہ اس کا مطالعہ کچے ذہنوں کے لئے مناسب نہیں کسی کے پوچھنے پرتمہارے دادا نے سرسید احمد خاں کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ایسا پھل ہے جو پک کر سڑ گیا اور مودودی ایسے پھل کی طرح ہیں جو کچا توڑ لیا گیا ۔(اللہ بہتر جاننے والا ہے ) تیس پیتیس سال کے بعد اب سوچ رہی ہوں اگر جب پڑھی ہوتی تو آج شاید انکے بارے میں کچھ لکھ سکتی۔

  17. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بہن کوثر بیگ صاحبہ
    سر سیّد احمد خان صاحب کے بارے میں مزید مندرجہ ذیل ربط پر پڑھ سکتی ہیں ۔ میں آجکل گھر سے بہت دور ہوں ۔ اِن شاء اللہ واپس پہنچنے کے بعد انگریزوں کے اس کارنامے کی بنیاد کے متعلق میں مواد یکجا کر کے وسط مئی تک شائع کروں گا
    http://bunyadparast.blogspot.ae/2011/11/blog-post.html

  18. dua khan

    غامدی اور ان کا خوشامدی ٹولہ سوشل میڈیا پر دن رات قادیانیوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں مصروف عمل ہے

  19. Rafi ud Din

    Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh sahib ! I am student of Islamic studies in Sargodha University.My topic for PhD is ” Punjab maen Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran per Ghair Matbooa Urdu Mwad”.Please guide me and send me the relavent material. I will be thankful to you for this kind of act and I will pray for your forgiveness and succeed in this world and world hereafter.
    Jzakallah o khaira
    yours sincerely
    Rafi ud Din email address drfi@ymail.com o3336750546 , 03016998303
    Basti Dewan wali St. Zafar Bloch Old Chiniot road Jhang saddar

  20. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محترم رفیع الدین صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاۃ
    عزت افزائی کیلئے مشکور ہوں ۔ میں الشیخ نہیں ہوں بلکہ سکول میں داخل ہونے سے لے کر آج تک طالب علم ہوں ۔ ان 7 دہائیوں میں علم کی سطح ہی پر گرداں ہوں ۔علم کے اندر داخل نہیں ہو پایا ۔ خلوص اور استقلال کے ساتھ محنت کیجئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مدد فرمائیں گے

  21. محمّد سلیم

    یہ بلاگ تو مجھے دولے شاہ کے چوہوں کا لگتا ہے جن کو بچپن میں ہی لوہے کی ٹوپی پہنا دی گئی ہو – کسی ایک شخص میں بھی رتی بھر عقل، شعور اور علم کی جھلک دکھائی نہیں دیتی

  22. ھدایت اللہ شاہ

    جن لوگوں نے دین کی خدمت کو اپنا شعار بنایا وہ کسی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہوئے انہوں نے دین کے لئے سب کچھ قربان کر دیا۔ مولانا مودودی تختہٰ دار تک پہنچے لیکن معافی کی اپیل کو نفرت سے ٹھکرا دیا۔ حق کو حق کہا۔ دیگر علمائے کرام نے بھی حق کی خاطر ہر قسم کی صعوبت کو برداشت کیا۔ محترم غامدی صاحب کسی موہوم خوف کی وجہ سے اپنے وطن کو چھوڑ گئے۔ غیروں کی سرپرستی مین اور حفاظتی حصار کے اندر بیٹھ کر کلمہؑ حق ارشاد فرماتے ہیں۔ اور وہی کچھ فرماتے ہیں جن سے ان کے سر پرست خوش ہوتے ہیں۔

  23. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ھدایت اللہ شاہ صاحب
    خوش آمدید
    جاوید احمد غامدی صاحب ساہیوال (پنجاب) کے ایک گاؤں جیون شاہ یا شاہ جیونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا عرب یا عرب کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ انہوں نے امین احسن اصلاحی اور مودودی صاحبان جیسے لوگوں سے استفادہ حاصل کیا لیکن پھر شاید ناموری کے شوق نے انہیں غلط راستہ پر ڈال دیا ۔ لِٹریچر اور فلاسفی میں بی اے پاس کرنے کے کچھ سال بعد کسی سے سُنا کہ عرب میں ابو غامد قبیلہ کے لوگ صلح جُو ہوتے تھے تو صلح جُو کہلانے کی خاطر غامدی بن بیٹھے ۔ اس کے بعد حاکموں کو خوش کرنے کی ٹھانی اور خلافِ شرح تشریحات کو اپنایا ۔ خیال رہے کہ مرزا غلام احمد بھی امام مسجد کا بیٹا تھا اور بالغ ہونے تک دماغ درست تھا

  24. فتح الرحمٰن

    محترم بھوپال صاحب السلام علیکم!
    آپ کا آخر ی پوسٹ 17 اپریل 2017 کا ھے یعنی 16 قبل کا-
    کوئی کمنٹ کرنے سے قبل آپ سے استدعا ھے کہ اپنی عافیّت کا میسج کریں کہ آپ ابھی تک صحت وسلامتی کے ساتھ بقید حیات ھیں- آپ کی تاریخِ پیدائش net پر نھیں ملی تاکہ میں آپکی عمر کا اندازہ کر سکتا-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.