دہشتگرد کون ہے ؟ خود فیصلہ کیجئے

ایپی گاؤں پر بمباری 1937ء میں بھی ہوئی تھی ۔ اُس وقت برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی تھی ۔ 2007ء میں پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی لیکن فرق یہ ہے کہ برطانوی ایئر فورس نے پہلے اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں جبکہ 7 اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر پاکستان ایئر فورس نے بغیر کسی اطلاع کے اچانک بمباری کی ۔

پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔

وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا   :?: 

مشہور صحافی حامد میر جنہوں نے عید الفطر کوہاٹ میں وزیرستان کی بمباری سے زخمی ہونے والے شہریوں میں گذاری لکھتے ہیں ۔

عید کا دوسرا دن تھا۔ بنّوں شہر کے ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین مجھے اپنی تباہی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ اکثر مہاجرین کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تھا۔ عید سے چند دن پہلے میر علی کے مرکزی بازار اور آس پاس کے قصبوں پر ہونے والی بمباری سے سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس کے عالم میں محفوظ مقامات کی طرف بھاگے۔ دس اکتوبر کو میر علی کے قریب ایک گاؤں ایپی میں پچاس افراد کی نمازہ جنازہ پڑھی گئی۔ ایپی کا ایک زخمی بچّہ مجھے بنّوں کے ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں ملا۔ چھ سات سال کے اس بچّے کا چہرہ بم کا ٹکڑا لگنے سے بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ ساتھ والے بستر پر ایک زخمی بزرگ پڑا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے مجھے بتایا کہ اس بچّے کا نام عبداللہ ہے اور یہ بول چال سے قاصر ہے۔ اس بچّے کا باپ بمباری میں مارا گیا، زخمی ماں اسے اٹھا کر یہاں تک پہنچی اور چند گھنٹوں کے بعد چل بسی۔

اس بزرگ نے کپکپاتے ہونٹوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 1937ء میں وہ اس معصوم بچّے کی عمر کا تھا اس وقت بھی ایپی گاؤں پر بمباری ہوئی تھی، اس وقت بھی کئی لوگ مارے گئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ 1937ء میں ایپی گاؤں پر برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی اور گاؤں والوں نے بڑے حوصلے اور فخر سے اپنے شہداء کو دفن کیا لیکن 2007ء میں ایپی گاؤں پر پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی اور جب شہداء کو دفن کیا جا رہا تھا تو جذباتی نوجوان برطانوی سامراج کی بجائے پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

بنّوں شہر کے مختلف علاقوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی حالت زار دیکھنے اور ہاسپیٹل میں زخمیوں کی عیادت کے دوران مجھے بار بار لبنان یاد آتا رہا۔ پچھلے سال جولائی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو عذر پیش کیا کہ حزب اللہ کے گوریلے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کرتے ہیں لہذا اسرائیل نے پورے جنوبی لبنان کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا۔ جنوبی لبنان کے مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کر بیروت کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں پہنچے جہاں انہوں نے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لی۔ ان اسکولوں میں پناہ لینے والے لبنانی مہاجرین کی کہانیوں اور بنّوں کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لبنانی مہاجرین اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں تباہ ہوئے اور شمالی وزیرستان والے پاکستانی فوج اور مقامی طالبان کی لڑائی میں تباہ ہو رہے ہیں۔ بیروت کے اسپتالوں میں زخمی عورتوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ریڈ کراس کے علاوہ عبدالستار ایدھی بھی نظر آتے تھے لیکن بنّوں میں شمالی وزیرستان کے تباہ حال مہاجرین کی خبر گیری کرنے والوں میں جماعت اسلامی اور الرحمت ٹرسٹ کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی والوں نے بنّوں شہر میں مہاجرین کے تین کیمپ قائم کئے۔

جماعت اسلامی ضلع بنّوں کے امیر مطیع اللہ جان ایڈووکیٹ سے میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے لیکن ان کی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ یہ سوال سن کر مطیع اللہ جان نے نظریں جھکا لیں اور موضوع بدلتے ہوئے کہنے لگے کہ ان متاثرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے جو میر علی کے گرد و نواح میں آباد ہے، یہ بڑے غیرت مند لوگ ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے، لہذا یہ بمشکل دو تین دن ہمارے کیمپوں میں ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنا انتظام کر کے آگے کوہاٹ اور کرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں بمباری کے متاثرین کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھی کہ ان کی تباہی کے ذمہ دار غیر ملکی عسکریت پسند یا طالبان ہیں۔ یہ سب متاثرین اپنی تباہی کی ذمہ داری امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ڈال رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بہت کم سننے میں آیا۔ کافی دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ داوڑی لوگ اپنے اصلی دشمن کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔

ڈگری کالج میر علی میں فورتھ ایئر کے ایک طالب علم نے کہا کہ سات اکتوبر سے پہلے وہ عسکریت پسندی کے سخت خلاف تھا اور دن رات اپنی تعلیم میں مگن تھا لیکن سات اکتوبر کی بمباری کے بعد اسے تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اب اسے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا ہے جو بمباری میں مارا گیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میرا بھائی صبح سحری کے وقت میر علی بازار میں دہی لینے گیا تھا اور بمباری سے مارا گیا، وہ غیر ملکی دہشت گرد نہیں تھا صرف بارہ سال کا سٹوڈنٹ تھا جو ہر وقت کرکٹ کھیلتا تھا اور شاہد آفریدی کی تصاویر جمع کرتا تھا، میرے بھائی کے قتل کا ذمہ دار سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور اب میں اس سے بھی بڑا دہشت گرد بن کر دکھاؤں گا۔ یہ سن کر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کیا لاہور اور کراچی کے دانشور نفرت کی اس نئی آگ کا ادراک رکھتے ہیں جس پر آئے دن مزید تیل ڈالا جا رہا ہے؟

بنّوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں سننے کے بعد میں بکا خیل کی طرف روانہ ہوا۔ بکا خیل سے شمالی وزیرستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ میر علی میں کرفیو ختم ہونے کے باوجود میرانشاہ بنّوں روڈ پر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مہاجرین میر علی سے نہیں بلکہ دتّہ خیل سے آ رہے تھے۔ دتّہ خیل سے آنے والے بتا رہے تھے کہ ان کے علاقے میں پاکستانی فوج بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لیکر پہنچ گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میر علی کے بعد اگلا آپریشن دتّہ خیل میں ہو گا۔ کچھ لوگ بنّوں سے واپس میر علی بھی جا رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سامان لیکر واپس جائیں گے۔ اب انہیں کسی امن معاہدے پر اعتماد نہیں کیونکہ حکومت اپنی ضرورت کے مطابق معاہدہ کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق توڑتی ہے، ہمارے مفاد کا کسی کو خیال نہیں۔

بکا خیل میں کھلے آسمان تلے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تباہ حال خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ہمارے بزرگ انگریزوں کے ظلم کی جو داستانیں ہمیں سناتے تھے اب تو وہ بھی ماند نظر آتی ہیں۔ انگریز ہمیشہ بمباری سے قبل اعلان کرتے، ہوائی جہاز سے ہینڈ بل گراتے اور بمباری کا وقت اور جگہ بھی بتاتے تھے تاکہ فقیر ایپی کے مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ فقیر ایپی پر ڈاکٹر فضل الرحمان کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 9 اپریل 1937ء کو برطانوی ایئر فورس نے دتّہ خیل اور میر علی کے آس پاس اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان میں آج بھی انگریزوں کے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن انداز انگریزوں والا نہیں ہے۔

سات اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر کسی اطلاع کے بغیر بمباری کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔ 1937ء کی بمباری نے انگریزوں کے خلاف فقیر ایپی کی تحریک کو مزید آگے بڑھایا تھا اور 2007ء کی بمباری نے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو غصّے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مہیا کی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار شمالی وزیرستان میں وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو امریکہ نے عراق اور بھارت نے کشمیر میں کیں۔ نجانے ان ارباب اختیار نے لال مسجد آپریشن سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ چند لبرل فاشسٹوں کی خوشی کیلئے لال مسجد آپریشن کیا گیا جس نے مزید تشدد اور خودکش حملہ آور پیدا کئے۔ لبرل فاشسٹوں کو خوش کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شمالی وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا

This entry was posted in خبر, گذارش on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

6 thoughts on “دہشتگرد کون ہے ؟ خود فیصلہ کیجئے

  1. Pingback: شاکر کا بلاگ

  2. نعمان

    جنگیں‌ مصائب کے سوا اور کچھ نہیں‌ لاتیں۔ لیکن کراچی میں‌ مرنے والے ڈیڑھ سو لوگ بھی تو انسان کے بچے تھے۔ ان کا درد بھی محسوس کیجئے۔ پاکستانی فوج کے جو فوجی اغوا اور قتل کرے گئے ان کے گھر والوں‌ کا دکھ بھی تکلیف دہ ہے۔ اس پر بھی کچھ لکھیں، اس پر بھی کچھ غور کریں۔

  3. shahidaakram

    محترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے طبيعت بھی اب بہتر ہو گی ليکن ميرے خيال ميں ہر دردمند دل رکھنے والے کو موجُودہ حالات کی سنگينی کُچھ ايسے تکليف دے رہی ہے کہ باوجُود کوشش کے دل ڈر رہا ہے ہر لمحے ہر آن کوئ ايک نيا سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے جس کا جواب ہم کيا ديں کہ ہم تو اپنی کُھلی اور بند آنکھوں سے سکُون اور خُوشيوں کے صرف سپنے ديکھ سکتے ہيں دُکھ ہے تو صرف اس بات کا کہ ہم نے پچھلے ساٹھ سالوں ميں صرف کھويا ہی کھويا ہے پايا ہے تو صرف يہ کہ اپنی خُوشيوں کی ،خواہشوں کی دُھول جس ميں ہم خالی ہاتھ جاتی ہُوئ خُوشيوں کو ديکھ رہے ہيں اور ايک ہی سوال دماغ ميں گردش کر رہا ہے
    کس کی خاھر ہم نے دی قُربانی لاکھوں جان کی
    پھر بھی دُعاگو ہيں کہ اے اللہ ميرے وھن کی حفاظت کرنا بے وقُوف مصاحبوں اور خُود غرض ارباب اقتدار لوگوں سے نجات دلا کر کسي ا يسے کو ہم پر مامُور فرما جو ہميں اس بات کي ياد نا دلاۓ کہ کسي قوم کے لۓ عزاب کي صُورت ايسے لوگ مُقرر کۓ جاتے ہيں جو اس کے اہل نا ہوں ہو سکے تو آپ سب بھی ميرے ساتھ اس دُعا ميں شامل ہو کر آمين کہيں کہ اس وقت دوا کے ساتھ ساتھ دُعا کی بھی اُتنی ہی ضرُورت ہے کہ دوا کے ساتھ جب تک دُعا نا شامل ہو ميرے خيال ميں بات بنتی نہيں اللہ تعاليٰ ہماری خطاؤں کو معاف فرماۓ اور اپنی امان ميں رکھے ،آمين
    اپنا خيال رکھيۓ گا
    دُعاگو
    شاہدہ اکرم

  4. اجمل Post author

    شاکر صاحب
    یہ مسئلہ تھا نہیں بلکہ پیدا کیا گیا ہے صرف ایک شخص کی کرسی مضبوط کرنے کیلئے دشمن کے کہنے پر اپنے بہن بھائی اور بچے مارے جا رہے ہیں ۔

    میں تازہ ترین فائرفاکس کے ساتھ بھی آپ کا بلاگ کھولنے کی کوشش کر چکا ہوں مگر نہیں کھلتا ۔ اس پر کچھ سوچ بچار کیجئے ۔ :smile:

  5. اجمل Post author

    نعمان صاحب
    جنگ تو بہت بڑی بات ہے ۔ بدامنی بھی قوم کو تباہ کر دیتی ہے ۔ فوج کے جو جوان قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مر رہے ہیں یا پولیس والے کراچی میں یا کسی اور جگہ مر رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی مرضی سے نہیں لڑ یا مر رہا ۔ صرف اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ بھرنے کی کوشش میں وہ خود لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ لیکن جو بچارے عام لوگ مارے جا رہے ہیں ان کا کیا قصور ؟

    کراچی میں مرنے والے صرف انسان کے بچے نہیں خود بھی انسان تھے ۔ ان میں عام لوگ بھی تھے اور پولیس والے بھی اور کچھ ننھے بچے بھی ۔ خیال رہے کہ ہمارے کچھ رشتہ دار جو فیصل کالونی میں رہتے ہیں بیوی بچوں سمیت جلوس میں شامل تھے اور دھماکوں سے کچھ دیر پہلے تھک کر واپس چلے گئے ۔ بس اللہ نے انہیں بچانا تھا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قتل کرنے والے کون ہیں ۔ یہ کام قبائلیوں یا نام نہاد طالبان کا ہرگز نہیں ہے ۔ بینظیر نے ارباب غلام رحیم ۔ پرویز الٰہی اور ڈی جی آئی بی کو موردِالزام ٹھہرایا ہے ۔ میں ان تینوں کو اچھا آدمی نہیں سمجھتا لیکن میرے خیال میں ان تینوں کو اس سے فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اس سے صرف ایک شخص اور دو سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ شخص پرویز مشرف ہے جس نے اپنی کرسی کی خاطر سینکڑوں بے قصور پاکستانی فروخت کئے ۔ 5 سال سے 20 سال تک کی سینکڑوں بچیوں کو جامعہ حفصہ میں زندہ جلوا دیا ۔ بہت سے بے قصور لوگ ماورائے عدالت مروائے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام سے مروا رہا ہے ۔ ڈیل کی دُہائی نے بینظیر کی مقبولیت کو بہت زک پہنچایا تھا ۔ لاشیں گرا کر ہمدردی حاصل کرنا اس کی سیاست کا پرانا طریقہ ہے ۔ یہ کارستانی بطور تنبیہ ایم کیو ایم بھی کر سکتی ہے ۔

    سنا ہے کہ ایک دھماکہ سفید کار میں ہوا جو موقع پر موجود تھی اور دوسرا پولیس وین میں ہوا ۔ اس خبر کو گم کر کے خود کُش حملوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔ کیا کراچی والوں نے اس پر غور کیا ہے کہ یہ خبر کس کے حکم پر بدلی گئی ؟

    جہاں تک اس بارے میرے لکھنے کا تعلق ہے میں نے اسلئے نہ لکھا کہ ایک تو کراچی کی صحیح صورتِ حال میرے علم میں نہیں دوسرے میں نے جو کچھ لکھنا تھا اس پر کراچی والے مجھ سے ناراض ہو جاتے ۔ کچھ تو اب میں نے لکھ دیا ۔

  6. اجمل Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ
    السلامُ عليکُم و رحمة اللہ
    میں آپ کی دعا پر آمیں ثم آمین کہتا ہوں
    بالکل دعا اس وقت کام کرتی ہے جب دوا بھی کی جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.