Monthly Archives: September 2007

پاکستانیو ۔ ہوش نہ کیا تو نہ ملک رہے گا نہ تم

انصار عباسی کا جنجھوڑنے والا مضمون بشکریہ جنگ جس کا عنوان میں نے موزوں کیا ۔

قوم انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکی ہے لوگ سوال کرتے اور بحث کرتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اب آزاد اور خود مختار ملک رہ گئے ہیں؟ کیا ہم میں اب عزت نفس کی رمق بھی بچی ہے؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جبری جلا وطنی نے ہماری روحوں کو زخمی کر دیا ہے ۔ عدم تحفظ نے ہمیں پھر لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا ارباب اقتدار ہم میں سے کسی کے ساتھ کیا کریں گے۔ اگر سابق وزیراعظم کو قانون، آئین اور عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک بدرکیا جا سکتا ہے تو پھر عام آدمی کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی۔

صدر پرویز نے اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر میں اعتراف کیا کہ القاعدہ کے 600 سے زائد ارکان کو امریکا کے حوالے کر چکے ہیں مگر ایک پتّہ بھی نہیں ہلا اورکیا کسی کو خیال آیا کہ صدر غیر ملکیوں کو جلا وطن کرسکتا ہے اور وہ بھی صرف اُن کے اپنے ملکوں میں۔ ملک بدری کے قانون کا اطلاق اس ملک [پاکستان] کے بدقسمت شہریوں پر نہیں ہوتا۔ [اپنے] وطن کے کسی شہری کو صرف اس ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے جس کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ کیا گیاہو ۔ اس صورتحال میں بھی دو شرائط سامنے آتی ہیں اگر اس پاکستانی شہری نے متعلقہ ملک کے خلاف کوئی جرم کیا ہو اور پھر اسے حوالے کرنے کی درخواست کا مکمل عدالتی عمل کے ذریعے فیصلہ کیا جائے جس میں اس شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے ۔ اگر انکوائری افسر اسے متعلقہ ملک کے حوالے کرنے کی منظوری دیتا ہے تو ملزم شخص کو پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ یوں عدلیہ کی اجازت کے بغیر کسی مجرم کو بھی کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔

صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت سے صرف ایک سادہ سا سوال پوچھا جا سکتا ہے ۔ آیا القاعدہ کے نام نہاد ارکان اور نواز شریف کو قانون کے مطابق ملک بدر کیا گیا ؟ جو اب بہت بڑی ناں میں ملے گا۔ جن ملکوں کو ہم نے اپنے شہری بکریوں کے ریوڑ کی طرح دیے ہیں کیا ان سے ہم بھی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے آئین قانون اور لوگوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر کے ایسا ہی کرینگے؟ لہٰذا ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی فرد کو بھی کسی بھی ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ حیرت ہے کہ ہمیں آئین قانون اور پالیسیوں کی ضرورت کیا ہے جب ہمیں ان کا کوئی احترام نہیں؟ عدالتیں بند کر دینی چاہئیں کہ جب حکومت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ تو پھر لوگوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ پیر کو ایم کیو ایم کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کے اکسانے پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک لحاظ سے گھیراؤ کر لیا اور اسے 12مئی کے واقعات کے حوالے سے سماعت ملتوی کرنا پڑی۔ بہت خوب الطاف بھائی۔ الفت میں اٹھنے والی راجہ محمد ریاض کی آواز خاموش کر دی گئی جو سندھ ہائیکورٹ بار کے رکن تھے۔ اسلام آباد میں کسی کو دکھ ہوا ؟ کسی نے مذمت کی ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ حکمرانوں کو تو کوئی پریشانی نہیں مگر اس ملک کی سول سوسائٹی کیوں چپ ہے؟ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں ؟

محض ایک پارٹی یا دوسری کو لعن طعن کرنے سے کام نہیں چلتا یہ ڈرائنگ روم کی بحث ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال بہت ہی پیچیدہ ہے جس کے لیے غیر معمولی جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں معاشرے کا ہر فردشریک ہو۔ پاکستان کو بچانے اور محفوظ بنانے کے لیے ایک اپنا کوئی راستہ اختیار کر لیں مگر کچھ کریں ضرور کچھ عملی اقدام۔ عام لوگوں میں جو حکومتی مشینری کاحصہ ہیں اور کلیدی عہدوں پر بھی بیٹھے ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی چاکری کرنے کے بچائے ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہئیے۔ پُرکشش عہدے آؤٹ آف ٹرن ترقی استحقاق یا اتھارٹی یہی ان کی توجہ کے مرکز ہیں مگر یہ سب ملک سے مشروط ہیں سول بیورو کریسی کو صرف یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ حالیہ عرصے میں اگر قانون آئین اور قواعد کے خلاف اتنا کچھ ہوچکا ہے مگر کتنے افسر ہیں جنہوں نے غیر آئینی احکامات ماننے سے انکار کیا ہو ؟ اس سلسلے میں صرف ایک نام یاد آتا ہے جو سندھ کے سابق چیف سیکرٹری شکیل درانی تھے۔

دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ

ہمارے لڑکپن کے زمانہ میں ایک قوالی تھی جو اس وقت کی نسبت آجکل کے زمانہ میں بہت موزوں ہے

دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ
یہ دنیا ہے عجائب خانہ
دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ
پہلے تو دیکھا تھا تیل
اب دیکھی تیل کی دھار
ماننا ہی پڑتا ہے یارو
جو کہہ دیتی ہے سرکار

دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ
کوّے کی چونچ میں انگور
اور حُور بہ پہلوئے لنگور
کہتے ہیں خدا کی قدرت ہے
دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ
یہ دنیا ہے عجائب خانہ
دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ

تازہ ترین

پیپلز پارٹی کے سوا باقی تمام اپوزیشن پارٹیوں کی اعلٰی قیادت کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ گرفتار کئے گئے کارکنوں کی تعداد دس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ مختلف شہروں میں مظاہرے اور پولیس تشدد جاری ہے ۔

پہلے بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کو ایم پی او [Maintenance of Public Order] کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جس کے تحت کسی کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کیلئے نظر بند کیا جا سکتا ہے ۔

اس کے بعد پنجاب کے وزیرِ اعلٰی پرویز الٰہی نے ٹی وی پر لائیو وڈیو انٹرویو میں بتایا کہ امیگریشن کے بعد نواز شریف کو اس کے خلاف جو مقدمات ہیں ان کے نوٹس دیئے جائیں گے ۔

اس کے بعد خبر دی گئی کے نواز شریف کو نیب کے کرنل نے نیب آرڈیننس کے تحت گرفتار کیا ہے ۔

اس کے بعد بتایا گیا کہ نواز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتاری کے وارنٹ دیئے گئے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 8 ستمبر کو اچانک صدر جنرل پرویز مشرف نے اینٹی منی لانڈرنگ آرڈیننس جاری کیا تو سمجھ نہیں آئی تھی کہ اس کی اچانک کیا ضرورت پڑ گئی ۔


نواز شریف کو پاکستان ایئر فورس کے طیارہ میں بٹھا کر سعودی عرب بھیج دیا گیا ہے

نواز شریف گرفتار

کمانڈوز کے ذریعہ نواز شریف سے پاسپورٹ لینے کی ناکام کوشس کے بعد اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا گیا مگر اس نے حکومت کی مہیا کردہ گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دی ۔ بعد میں ارائیول لاؤنج میں تین سعودی اور سات سرکاری اہلکارو کی موجودگی میں مذاکرات ہوئے ۔ نوازشریف نے حکومت کی کوئی شرط ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد نواز شریف کو گرفتار کر کے پنجاب پولیس کے حوالے کر دیا گیا ۔ ابھی معلوم نہیں کہ اسے کہاں لیجایا جائے گا

کمانڈوز جہاز میں داخل

ایک امریکی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ کمانڈوز پی آئی اے کی پروازپی کے786میں داخل ہو گئے ہیں جہاں انہوں نے نواز شریف سے ان کا پاسپورٹ طلب کیا تاہم نواز شریف نے اپنا پاسپورٹ کمانڈوز کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ذرائع کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے نواز شریف کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔

پرویز مشرف بمقابلہ نواز شریف

پی آئی اے کی پرواز جس میں نواز شریف سفر کر رہے تھے 8 بج کر 40 منٹ پر اسلام آباد اترا ۔

پچھلے ہفتہ حکومت نے راولپنڈی کے تمام تعلیمی اداروں ۔ دوسرے اداروں اور ہسپتالوں میں 10 ستمبر کی چھٹی کا اعلان کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد کے بھی متعلقہ نجی اداروں نے بھی 10 ستمبر کو چھٹی کا اعلان کر دیا ۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کی ناکہ بندی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہی کر دی گئی تھی یعنی 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات کو ۔ کوئی عام آدمی ان شہروں میں داخل نہیں ہو سکتا تھا ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ناکہ بندی زیادہ سخت ہوتی گئی

سندھ سے ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجر 8 ستمبر کو راولپنڈی پہنچ گئے اور اسلام آباد ایئر پورت کے گرد 5 کلومیٹر کے علاقہ میں انہیں تعینات کر دیا گیا یعنی ایئرپورٹ کا محاصرہ ہو گیا اور علاقہ میں کرفیو کی سی صورتِ حال ہو گئی ۔ 8 ستمبر کو ہی غروبِ آفتاب کے بعد ایئرپورٹ کے علاقہ سے سوائے سول ایوی ایشن کے تمام گاڑیاں ہٹا دی گئیں ۔ اور ایئرپورٹ کی طرف جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے گئے ۔ گویا اس گنجان آباد علاقے کے لوگ قید ہو کر رہ گئے ۔ تمام صحافیوں کو اس پانچ کلو میٹر کے علاقہ سے نکال دیا گیا ۔

ہفتہ اور اتوار یعنی 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی رات بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر کے راولپنڈی اور اسلام آباد کو آنے والے تمام راستے بند کر دئیے گئے ۔ صوبہ سرحد اور پنجاب کے درمیان دریائے سندھ کا پُل بند کر دیا گیا ۔ دریائے جہلم ۔ چناب اور راوی پر بھی راولپنڈی کی طرف جانے والی سڑکیں بند کر دی گئیں ۔

پچھلے تین دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم لیگ ن کے کارکن اپنے گھروں سے گرفتار کر لئے گئے اور حکم دیا گیا کہ پاکستان کے کسی بھی حصہ میں جس کے پاس مسلم لیگ ن کا جھنڈا ہو یا نواز شریف کی تصویر ہو اسے گرفتار کر لیا جائے اگر تصویر گاڑی پر لگائی ہو تو گاڑی ضبط کر کے سواریوں کو گرفتار کر لیا جائے ۔ اس وقت تک مسلم لیگ ن کے علاوہ ان کی حمائت کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور دیگر لیڈر گرفتار کئے جا چکے ہیں جن میں حماعتی جماعتوں کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر کے بیرسٹر سلطان محمود ۔ خاکسار تحریک کے لیڈر اور عیسائی لیڈر جے سالک بھی شامل ہیں

نواز شریف کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر اغواۓ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو ناکام ہو گئی ۔ ایئرپورٹ اور اردگرد 5 کلو میٹر کے علاقہ کے زبردست محاصرہ کے باوجود چند چھوٹی چھوٹی ٹولیاں جن میں وکلاء بھی شامل تھے ایئرپورٹ کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں گرفتار کر لئے گئے ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی جگہ نواز شریف کے حق میں اور حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جن کے شرکاء پر پولیس بیدردی سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کر رہی ہے مگر منتشر کرنے میں ناکام ہے ۔ اور مظاہرین کو گرفتار کر کر کے لے جا رہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ 3000 سے زائد کارکن گرفتار کئے جا چکے ہیں