Monthly Archives: July 2007

ان کا کیا قصور ؟

ایک نیک باعمل مسلمان خاندان سے ہماری علیک سلیک ہے ۔ ان میں ایک جوان انجنیئر ہے جس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں ۔ اس کی بیوی چھ ماہ کیلئے اپنے میکے گئی جو ملک سے باہر ہیں ۔ ان کی ایک ملازمہ ہیں ۔ انجنیئر صاحب نے سوچا کہ ملازمہ فارغ کیا کرے گی اس کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں ۔ لکھنا پڑھنا اور دین کا کچھ سیکھ لے گی ۔ یکم جولائی کو وہ اسے جامعہ حفصہ میں داخل کرا آیا ۔ دوسرے دن بعد دوپہر اچانک آپریشن شروع ہو گیا ۔ ملازمہ نے گھر پر ٹیلیفون کیا اور کہا “یہاں گولیاں چل رہی ہیں ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے آ کر لے جائیں”۔

انجنیئر صاحب ملازمہ کو لینے گئے تو اسے جامعہ حفصہ سے ایک کلو میٹر دور ہی روک دیا گیا ۔ واپس گھر جا کر اس نے ٹیلیفون پر جامعہ حفصہ سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں جونہی گولیاں چلنی بند ہوں گی ان کی ملازمہ کو باہر نکال دیا جائے گا ۔ دوسرے دن ملازمہ چار طالبات کے ساتھ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے بھائی کے گھر جا کر انجنیئر صاحب کو اپنی خیریت کا ٹیلیفون کر دیا ۔

انجیئر صاحب نے جو اپنی ملازمہ کے متعلق مدرسہ حفصہ میں ٹیلیفون کیا تھا اس کے نتیجہ میں دوسرے دن ان کے گھر کچھ لوگ سادے کپڑوں میں آئے اور انہیں گرفتار کر کے لے گئے اور وہ ابھی تک اڈیالہ جیل میں بند ہیں ۔ ان کی بیٹیاں محلہ داروں نے ان کے رشتہ داروں کے گھر پہنچادی تھیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی طرح کے 80 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

جو مّلّا نہیں وہ کیا کہتے ہیں ؟

جنگ آن لائین کے مطابق عبدالستار ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی صاحبہ نے کہا کہ لال مسجد کے سانحے میں بے دریغ طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا ہے، اگر یہ معاملہ پہلے ہی ہمارے سپرد کردیا جاتا تو ہم بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے یہ معاملہ حل کرسکتے تھے، لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوت تصفیے کی تمام کوششیں ناکام بنا رہی تھی۔ مذاکرات سے قبل بہت بڑے آپریشن کی تیاریاں کرلی گئی تھیں اور فوج نے بڑے پیمانے پر مورچے بنا رکھے تھے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ تمام تیاریاں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ لال مسجد کے اندر موجود عبدالرشید غازی سمیت کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ۔ ہمیں اعجاز الحق سمیت وزراء بتا رہے تھے کہ یہ پیغام آیا ہے اور یہ دھمکی دی گئی ہے ، جب بھی کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی تھی وہ برق رفتاری سے فون سننے دور فاصلے پر چلا جاتا تھا۔ سانحہ لال مسجد اسلامی تاریخ کا بدترین سیاہ باب ہے جس میں ایک طرف تو لچک کا مظاہرہ کیا گیا دوسری طرف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایدھی صاحب تو بعد میں پہنچے مگر میں نے فوج اور لال مسجد کے اندر موجود افراد سے چیخ چیخ کر اپیل کی کہ نرمی اختیار کی جائے مگر میری کسی نے بھی نہیں سنی ۔ ایک سوال کے جواب میں بلقیس ایدھی نے کہا کہ مجھے مولانا عبدالرشید دہشت گرد نہیں لگتے۔ دہشت گردوں کی تو صورت ہی علیحدہ ہوتی ہے

عبدالستار ایدھی نے کہا کہ مجھے لگتا تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی شاید بے بس ہوں اور یرغمال ہوں مگر یہ محض ہمارا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزیں پراسرار تھیں، مذاکرات ہورہے تھے اور اخبار نویسوں پر وہاں جانے پر مکمل پابندی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ آپریشن کرنا ہے اور یہ سب کچھ ختم کردینا ہے اور پھروہی ہوا آپریشن ہوا سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں نے میگا فون پر اعلان کیا تھا کہ عبدالرشید غازی اگر سرینڈر کردیں تو ایدھی فاؤنڈیشن کروڑوں روپے خرچ کرکے لال مسجد کا انتظام سنبھالے گی، مگر باہر بھی خوف کی فضا تھی اور ہر طرف مورچے تھے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

مذاکرات میں حکومت کو بے نقاب کرتے ہیں حامد میر

مئی 2007ء کے آخری ہفتے میں جنرل پرویز مشرف پر بھی یہ الزامات لگنے لگے کہ وہ جان بوجھ کر لال مسجد کے ذریعہ گڑ بڑ پھیلا رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ چوہدری شجاعت حسین کے لال مسجد والوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے لیکن انہیں کہاگیا کہ آپ مذاکرات کو لمبا کریں۔ چوہدری صاحب سے رہا نہ گیا اور انہوں نے مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری حکومت پر عائد کردی۔ آخری ملاقات میں عبدالرشید غازی نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ مخلص انسان ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو کچھ مزید لمبا کرے گی اور مناسب وقت پر ہمیں ختم کرکے امریکا کے سامنے سرخرو ہوجائے گی۔ ایک دن عبدالرشید غازی نے یہ بھی کہا کہ اگرہم واقعی قصور وار ہیں تو کیا حکومت ہماری بجلی پانی بند نہیں کرسکتی؟ ہم پھر بھی باز نہ آئیں تو اعصاب شکن گیس پھینک کر ہم سب کو گرفتار نہیں کرسکتی؟

سات جولائی کو چوہدری شجاعت حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ آخری مرتبہ عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن جو فون نمبر ان کے پاس تھے وہ سب بند ہوچکے ہیں۔ چوہدری صاحب دوبارہ رابطہ چاہتے تھے میں نے کوشش کرکے غازی سے رابطہ کیا اور انہیں چوہدری صاحب کی خواہش سے آگاہ کیا۔ غازی ہنسے اور بولے کہ چوہدری صاحب معصوم ہیں وہ نہیں جانتے کہ ہمیں مارنے کا فیصلہ ہوچکا ہے میرے اصرار پر انہوں نے چوہدری صاحب سے دوبارہ رابطہ کیا اور یوں پھر سے مذاکرات شروع ہوگئے۔ ان مذاکرات میں غازی نے بار بارکہا کہ میرے بڑے بھائی عبدالعزیز کو دھوکے سے باہر بلا کر گرفتار کرلیا گیا اور مجھے باہر بلا کر مار دیا جائے گا لہٰذا بہتر ہے کہ میں ذلت کی موت کی بجائے لڑتے ہوئے مارا جاؤں۔

آخرکار وہی ہوا اور غازی نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے لڑتے ہوئے جان دینے کو ترجیح دی۔ آخری رابطوں کے دوران میں نے غازی سے کہا کہ دونوں طرف مسلمان ہیں کوئی راستہ نکالیں کہ مسلمان ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ غازی نے کہا کہ میں نے بہت کوشش کی لیکن حکومت ہمیں رسوا کرنا چاہتی ہے، یہ سارا معاملہ حکومت کا کھڑا کیا ہوا ہے، حکومت نے اس معاملے میں بہت سے سیاسی مقاصد حاصل کئے اور آخر میں ہمیں رسوا کرکے مزید کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ غازی کو یقین تھا کہ ان کی موت ہی ان کی فتح اور حکومت کی ناکامی ہوگی۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری موت ہماری بے گناہی ثابت کریگی اور ہمارا بدلہ اس ملک کے غیرت مند مسلمان لیں گے۔

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھئے

کیا قیامت گذر گئی

وہ آئے فی الفور دِل پھیر کر
پھر معصوم روحوں کو گھیر کر
توپوں کے دہانے کھول دئیے
جیسے اچانک قیامت آ پڑے
ننھے فرشتوں کے پرخچے اُڑے
اَن گِنت پھول سے جسم جلے
ہو گیا بپا وہاں پر ایسا حشر
جسم سے جسم علیحدہ نہ کر سکے
سی ڈی اے کے سوِیپر چار دن
جلے جسم و ٹکڑے اکٹھے کرتے رہے
ڈبوں میں ڈال کے سبزی کی طرح
راتوں و رات اُنہیں اکٹھا دفنا دیا
آیا نہ کسی کو بھی خیال مگر
یہ بھی ہیں کسی کے لختِ جگر
کہیں تڑپتے ہوں گے ان کے باپ
کہیں تلملاتی ہوں گی مائیں بھی
قصور تھا ان کا بتاؤ تو کیا
کسی کا سر تو نہیں پھوڑا تھا
اصلاحِ معاشرہ کے واسطے
حکومت نہ فرض نبھا سکی
تھا انہوں نے اپنے ذمہ لیا
بتاؤ کیا وہ جُرم تھا اتنا بڑا
صفائی کا بھی موقع نہ دیا
سینکڑوں معصوموں کو قتل کر دیا

ابھی ابی مجھے موبائل فون پر ایک پیغام ملا ہے

یہ بازی خُون کی بازی ہے
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے غازی نکلے گا
تم کتنے غازی مارو گے

وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ ۔ ۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں

کچی عمروں میں یقینا اِن کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی ۔ اِن کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہو گا ۔ اِن کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے ۔ ہاتھوں میں حِنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہو گا ۔ لیکن آرزوئیں،خواہشات اور تمنائیں ناکام ہو کر برقعوں کے پیچھے اس طرح جا چھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے۔۔ نہ شناخت صرف آوازیں تھیں۔۔ جو اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں اِنہی میں ایک چھوٹی بچی ۔ یہی کوئی آٹھ دس برس کی ۔ حجاب میں اس طرح ملبوس کی چہرہ کُھلا تھا ۔ گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی ۔ مباحثہ ۔ اُس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا ۔ “بیٹی آپ کا نام کیا ہے ؟” میرے سوال پر پٹ سے بولی “اسماء ۔ انکل” پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی”انکل نہیں ۔ بھائی بولو ۔ “خُدا جانے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا”جی بھائی جان”۔ “آپ کیا کرتی ہیں؟” میں نے ننھی اسماء سے پوچھا ۔ “پڑھتی ہوں”۔ “کیا پڑھتی ہو بیٹا ؟” جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا “حفظ کر رہی ہے بھائی”۔ “اور بھی کچھ پڑھا رہی ہیں؟” میں نے پوچھا ۔ “جی ہاں کہتی ہے بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی” بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا ۔ “آپ دو بہنیں ہیں؟” میں نے سوال کیا ۔ “جی ہاں بھائی” بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا “تین بھائی گاؤں میں ہیں ۔ ہم بٹہ گرام سے ہیں نا ۔ کھیتی باڑی ہے ہماری”۔

میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی سلسلے میں موجود تھا۔۔طالبات اور عبدالرشید غازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کو خُدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ اُن کے حجرے کی طرف قدم بڑھایا تو ننھی اسماء پیچھے بھاگتی ہوئی آئی “بھائی جان ۔ آٹوگراف دے دیں”۔ ہانپ رہی تھی “میرا نام اسماء اور باجی کا نام عائشہ ہے”۔ میں نے حسبِ عادت دونوں کیلئے طویل العمری کی دُعا لکھ دی ۔ آگے بڑھا تو ایک اور فرمائش ہوئی”بھائی جان ۔ اپنا موبائل نمبر دے دیں ۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی”۔ نہ جانے کیوں میں نے خلافِ معمول اُس بچی کو اپنا موبائل نمبر دے دیا ۔ اُس کی آنکھیں جیسے چمک اُٹھیں ۔ اسی دوران غازی صاحب نے میرا ہاتھ کھینچا “ڈاکٹر صاحب یہ تو ایسے ہی تنگ کرتی رہے گی”۔ [واپسی پر] دروازے سے باہر قدم رکھتے وہی شیطان کی خالہ اسماء اچھل کر پھر سامنے آ گئی”بھائی جان ۔ میں آپ کوفون نہیں کروں گی ۔ وہ کارڈ باجی کے پاس ختم ہو جاتا ہے نا ۔ ایس ایم ایس کروں گی ۔ جواب دیتے رہیے گا ۔ پلیز بھائی جان”۔ اُس کی آنکھوں میں معصومیت اور انداز میں شرارت کا امتزاج تھا ۔ “اچھا بیٹا ۔ ضرور۔۔۔اللہ حافظ”۔ جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا تو بڑی بہن بھی روشندان سے جھانک رہی تھی کہ یہی دونوں بہنوں کی کُل دُنیا تھی ۔

گزرے تین ماہ کے عرصے میں وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے ۔ عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیثِ مبارکہ یا پھر کوئی دُعا ۔ رومن اُردو میں ۔ اور آخر میں بھیجنے والے کا نام ۔ “آپ کی چھوٹی بہن اسماء” یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تو مجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ “آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟” تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ ۔ حجاب میں ملبوس بچی ہے ۔ جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا ۔ میں نے فوراً جواب بھیجا “بہت جلد”۔ جواب آیا “شکریہ بھائی جان”

میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجداور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے اپنے فون پر اُس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے میں سب مٹا چُکا تھا ۔ اُمید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہو گی لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی ۔ کوئی آیت،حدیث،دُعا بھی نہیں آ رہی تھی ۔ اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آ کر دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ “آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہو جائے گا”۔ “فائرنگ،گولہ باری کا سلسلہ شروع”۔ “مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا”۔ “ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں”۔ “یرغمال بنا لیا گیا ہے” وغیرہ وغیرہ تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ چلی جاتی کہ کاش! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آ جائے ۔ میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا ۔

آخر 8 جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا “بھائی جان ۔ کارڈختم ہو گیا ہے ۔ پلیز فون کریں”۔ میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی پیاری اسماء زاروقطار رو رہی تھی “بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے ۔ گولیاں چل رہی ہیں ۔ میں مر جاؤں گی”۔ میں نے چلا کر جواب دیا “اپنی بہن سے بات کراؤ”۔ بہن نے فون سنبھال لیا “آپ دونوں فوراً باہر نکلیں ۔ معاملہ خراب ہو رہا ہے ۔ کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں”۔ دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے ۔ رو رہی ہے”۔

“بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ وہ بھی کلمہ گو ہیں ۔ اور پھر ہمارا جُرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی ۔ ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا ۔ چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا بھائی ۔ یہ سب ان کی سیاست ہے ۔ ہمیں ڈرا رہے ہیں”۔ بہن پُر اعتماد لہجے میں بولی ۔ “دیکھیں ۔ حالات بُرے ہیں ۔ میں بتا رہا ہوں ۔ آپ فوراً نکل جائیں خدا کیلئے”۔ مجھے احساس ہوا کہ میں گویا اُنہیں حکم دے رہا ہوں ۔ “بھائی ۔ آپ یونہی گھبرا رہے ہیں ۔ غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں ۔ باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہو گا، آپ دیکھیے گا ۔ اب فوج آ گئی ہے ۔نا ! یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگا دے گی ۔ آپ کو پتہ ہے ۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں ۔ وہ ہمیں کیوں ماریں گے ۔ ہم کوئی مجرم ہیں ۔ کوئی ہندوستانی ہیں ۔ کافر ہیں ۔ کیوں ماریں گے وہ ہمیں !”۔ بہن کا لہجہ پُر اعتماد تھا اور وہ کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھی ۔ “ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ آپ کو توپتہ ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔ یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے”۔ “اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا ۔ ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد،والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی ۔ وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے”۔

میں نے دونوں کو دُعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کر لیا ۔ اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آ رہی تھیں اور میں حقیقتاً گُزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ دُرست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہو گئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسرکا بیان تھا “لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کر دی ہے ۔ فائرنگ ۔ دھماکے ۔ گولہ باری ۔ شیلنگ ۔ جاسوس طیارے ۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز ۔ خُدا جانے کیا کچھ! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کر دینے کا اعلان ۔

اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا ۔ اور پھر پتہ چلا کہ اُن کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔ اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا “پلیز کال”۔ یہ اسماء تھی ۔ میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف چیخیں ۔ شور شرابہ ۔ لڑکیوں کی آوازیں “ہیلو۔۔اسماء ۔ بیٹی ! ہیلو”۔ خُدا جانے وہاں کیا ہو رہا تھا ۔ “ہیلو بیٹی آواز سُن رہی ہو ؟” میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا “بات کرو کیا ہوا ہے ؟” وہ جملہ آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا ۔ ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز “باجی مر گئی ہے ۔ مر گئی ہے باجی”۔ اور فون منقطع ہو گیا۔

اسٹوڈیوز سے کال آ رہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ کچھ کہنے یا سُننے کی ہمت نہ تھی ۔ کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجازالحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں ۔ فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں”بھائی جان ! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟” کی صدائیں سُنائی دے رہی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہو گا ۔ اور باہر فائرنگ ہو رہی ہو گی ۔ بہت سی بچیاں تھیں ۔ فون نہیں مل رہا تھا ۔ پھر عمارت میں آگ لگ گئی ۔ اور میں اسماء کو صرف اُس کی لا تعداد دُعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دُعا دینا چاہتا تھا ۔ ناکام رہا ۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کر رہی تھیں ۔ اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی ! جیسے پریاں۔

قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُر سکون تو ہو چکا ہے لیکن شاید اُداس بھی ! اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟

دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق اُن کے فرضی نام تحریر کر رہا ہوں ۔ ڈاکڑ شاہد مسعود
پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھئے

آنکھوں دیکھا حال ۔

لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران منگل کو باہر آنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ آٹھ روزہ آپریشن کے دوران انہوں نے ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھا ہے اور انہیں درختوں کے پتے کھاکر گزارا کرنا پڑا۔

گزشتہ ایک سال سے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جامعہ حفصہ میں زیر تعلیم نزہت جمیل نے بتایا کہ مدرسوں میں تو وہ پہلے بھی پڑھتی رہی ہیں مگر اس طرح کی صورتحال کا سامنا انہیں پہلی مرتبہ ہوا۔ آپریشن کے دوران یہ طالبات کیسے اور مدرسے کے کس حصے میں قیام کئے ہوئے تھیں اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کمروں کی بجائے چھوٹے چھوٹے سٹورز میں چلے گئے تھے۔ ہر سٹور میں تقریبا پندرہ پندرہ لڑکیاں تھیں ۔لیٹنے کی جگہ نہیں تھی ہم بس سیدھی بیٹھی رہتی تھیں۔باہر دھماکوں کی آوازیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم فلسطین میں ہوں۔ تیسرے دن پانی بجلی اور گیس سب کچھ بند ہوگیا تھا لہذا مشکل اور بڑھ گئی تھی۔‘

جامعہ حفصہ میں موجود یتیم بچیوں کے بارے میں نزہت جمیل کا کہنا تھا ’ہمیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔ البتہ باقی جو چھوٹی بچیاں ہمارے ساتھ تھیں وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھیں۔ نہ کھانے کو کچھ مانگتی تھیں اور نہ ہی پینے کو۔ان کا بڑا حوصلہ تھا۔ پولیس والوں کو جب بھی کہیں برقعہ نظرآتا تھا تو وہ بہت بمباری شروع کر دیتے تھے۔‘

غسل خانوں کی سہولت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانی نہیں آرہا تھا اور صفائی نہ ہونے کی بناء پر بہت بدبو پھیلی ہوئی ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا آپریشن کے دوران طالبات جاں بحق ہوئیں اور کیا انہیں مدرسے کے احاطے میں دفن کیا گیا، کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والی نزہت نے کہا کہ ’تیس شہید طالبات کو بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کشمیر میں زلزلہ آنے کے بعد کیا گیا تھا۔‘ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی قبر نہیں ملی۔ ’ہمیں ان کے جنازے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ۔ہمیں تو مجاہد بھائیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں کہاں ہیں ۔کبھی کبھی ایک دو نظر آجاتے اور پھر غائب ہو جاتے تھے۔‘

عائشہ لیاقت جامعہ حفصہ کی معلمہ ہیں اور ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ آٹھ روز مسلسل محاصرے میں رہنے کے بعد اب وہ اپنے گاؤں روانہ ہو چکی ہیں۔رابطہ کرنے پر ان کی آواز سے ان کے رتجگوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ جامعہ حفصہ کے اندر گزری آخری رات کا حال بتا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑی خاموش رات تھی۔کوئی گولہ باری نہیں ہوئی۔جب یہ سلسلہ طویل ہوا تو میں نے اپنی ساتھی طالبات کو یہ مصرع سنایا

جو آج کی شب سکوں سے گزری تو کل کا موسم خراب ہوگا۔

اور پھر میں نے کہا ’مجھے اس خاموشی کے بعد کے کل سے ڈر لگ رہا ہے۔اور پھر اگلی صبح ٹھیک پونے چار بجے ہماری آنکھ سیکیورٹی فورسز کے حملے سے کھلی۔گولوں کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔‘ ’میں تو بس دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔چھ بجے مجھے لگا کہ فوجی اندر آگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد بھائیوں کی آوازیں بھی آئیں کہ اندر مت آؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ آخر کار ہمیں باہرآنے کو کہا گیا اور فورسز نے ہمیں کہا کہ اب نقاب اُلٹ دیں۔ ہم نے ان کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ مت کریں ۔شکر ہے انہوں نے پھر زیادہ زور نہیں دیا۔‘

مصباح طارق کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ پچھلے پانچ سال سے جامعہ حفصہ میں زیرتعلیم تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ شہادت کے جذبے سے سرشار آخری وقت تک جامعہ حفصہ کے اندر رہنا چاہتی تھیں لیکن اندر رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔انہوں نے بتایا ’ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے شہد لے آئے۔ ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔‘

’آخری دن ہمارا کمرہ دھوئیں سے بھر چکا تھا ۔ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم سینے پر گولی کھا کر مر جائیں۔ مگر مجاہد بھائیوں نے ہمیں باہر نکلنے سے منع کر دیا۔ بعد میں پولیس والوں [فوجیوں] نے کہا کہ باہر آجاؤ ورنہ دب کر مر جاؤگے تو تب ہم باہر نکل آئے۔میں تو اب بھی یہ کہتی ہوں کہ یہ دن مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔‘

بی بی سی

سوالوں کے جواب ندارد

بی بی سی کے ہارون رشید لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے دورہ کے بعد کیا کہتے ہیں

لال مسجد اور مدرسہ حفصہ میں کوئی زیر زمین سرنگ نہیں، غیرملکیوں کی موجودگی کی بھی تصدیق نہیں ہوسکی، ابو زر جیسے شدت پسند کیا ہوئے، یرغمالیوں کی تعداد آیا صرف چھاسی تھی یہ بھی واضح نہیں، وہ کہاں تھے اور کہاں چلے گئے؟ مسجد اور مدرسے کے دورے کے بعد بھی ان سوالات کے جواب نہیں مل سکے۔

مسجد و مدرسہ میں صرف رینجرز اور گولیوں سے چھلنی در و دیوار تھے۔ جن دیواروں پر آیات یا نظمیں لکھی تھیں وہاں اب گولیوں نے عجیب و غریب نقوش چھوڑے تھے۔ مسجد کا مرکزی ہال تو محفوظ رہا تاہم اس کے برآمدے کی ٹین کی چھت بےشمار سوراخوں اور در و دیوار آگ سے سیاہ ہوچکے تھے۔ دو میناروں کو بھی گولیوں سے نہیں بلکہ بظاہر راکٹوں سے نقصان پہنچا ہے۔

رینجرز بوٹوں میں جب مسجد میں گھومتے دیکھے گئے تو چند صحافیوں کی شکایت پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ مسجد نہیں رہی۔ مسجد کے احاطے میں سکیورٹی فورسز نے خاردار تار لگا کر صحافیوں کی تقل وحرکت محدود رکھی گئی تھی۔

مدرسے کے فرش ٹوٹے ہوئے شیشیوں، طالبات کے جوتوں، پتھروں، پلاسٹک کے برتنوں اور ملبے سے بھرے پڑے تھے۔ مدرسے کی حالت سے صاف ظاہر تھا کہ میدان جنگ مسجد سے زیادہ یہ چار منزلہ عمارت رہی۔ کوئی کمرہ کوئی دیوار محفوظ نہیں رہی۔

تہہ خانے پہنچے تو وہ اس قسم کا نہیں جو ذہن میں آتا ہے۔ زیر زمین بڑے بڑے کمرے ضرور ہیں تاہم ان میں جنوب کی جانب باقاعدہ بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جوکہ قریب سے گزر رہے ایک نالے کی جانب کھلتی ہیں۔ اسی جانب سے داغے گئے راکٹوں سے دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ بھی تھے۔

مسجد و مدرسے میں اتنے زور دار دھماکے ہوئے کہ پنکھوں کے پر ان کی شدت سے آسمان کی جانب مڑ گئے تھے۔

مدرسے کے ہی ایک کمرے میں صحافیوں کو دکھانے کے لیے قبضے میں لیا گیا اسلحہ سجایا گیا تھا۔ اس میں پستول سے لے کر مشین گنز، دستی اور پیٹرول بم، استعمال شدہ اور غیراستعمال شدہ گولیوں کے ڈھیر اور راکٹ لانچر شامل تھےالبتہ ان پندرہ خودکش حملہ آوروں کی بیلٹس نظر نہیں آئیں جن کی ذرائع ابلاغ میں سرکاری ذرائع کے مطابق بات کی گئی تھی۔

مسجد و مدرسے کے باہر کئی مقامات پر دیوراوں میں شگاف ڈالے گئے تھے اور مدرسے کا آہنی دروازہ بھی گرا ہوا تھا۔ ایک جلی ہوئی گاڑی بھی باہر کھڑی تھی۔ اندر کئی کنکریٹ پلر بھی دھماکوں سے ٹوٹ چکے تھے۔ مسجد و مدرسے کے درمیان واقع بچوں کی لائبریری بھی لڑائی سے متاثر ہوئی۔ جبکہ قریب میں عبدالرشید غازی اور ان کے بھائی کی رہائش گاہ اور چند کواٹروں کا بھی حال باقی عمارتوں سے مختلف نہیں تھا۔

مدرسے کی ایک سمت عمارت میں آگ لگی تھی جس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس سے مختلف چیزوں کے جلنے سے درمیانے دھماکے بھی سننے گئے۔

اس تمام لڑائی میں مثبت بات کمروں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود دینی کتب محفوظ دکھائی دے رہی تھی۔کہیں کہیں خون کے دھبے موجود ہیں۔ بظاہر سکیورٹی فورسز نے صحافیوں کو لانے سے قبل کافی صفائی بھی کی ہوگی۔

ایک صحافی مسعود عاصم کا کہنا تھا کہ حکومت اس دورے سے پہلے جو باتیں کر رہی تھی اور اب جو یہاں بتا رہی ہے اس میں فرق نظر آ رہا ہے۔ ’پہلے حکومت کا موقف تھا کہ یہاں انتہائی مطلوب افراد ہیں اور ابو منصور انہیں لیڈ کر رہا ہے اور دوسرا زیر زمین غار ہیں۔ مجھے لگتا ہے انہیں غلط معلومات ملی تھیں‘۔