ان کا کیا قصور ؟

ایک نیک باعمل مسلمان خاندان سے ہماری علیک سلیک ہے ۔ ان میں ایک جوان انجنیئر ہے جس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں ۔ اس کی بیوی چھ ماہ کیلئے اپنے میکے گئی جو ملک سے باہر ہیں ۔ ان کی ایک ملازمہ ہیں ۔ انجنیئر صاحب نے سوچا کہ ملازمہ فارغ کیا کرے گی اس کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں ۔ لکھنا پڑھنا اور دین کا کچھ سیکھ لے گی ۔ یکم جولائی کو وہ اسے جامعہ حفصہ میں داخل کرا آیا ۔ دوسرے دن بعد دوپہر اچانک آپریشن شروع ہو گیا ۔ ملازمہ نے گھر پر ٹیلیفون کیا اور کہا “یہاں گولیاں چل رہی ہیں ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے آ کر لے جائیں”۔

انجنیئر صاحب ملازمہ کو لینے گئے تو اسے جامعہ حفصہ سے ایک کلو میٹر دور ہی روک دیا گیا ۔ واپس گھر جا کر اس نے ٹیلیفون پر جامعہ حفصہ سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں جونہی گولیاں چلنی بند ہوں گی ان کی ملازمہ کو باہر نکال دیا جائے گا ۔ دوسرے دن ملازمہ چار طالبات کے ساتھ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے بھائی کے گھر جا کر انجنیئر صاحب کو اپنی خیریت کا ٹیلیفون کر دیا ۔

انجیئر صاحب نے جو اپنی ملازمہ کے متعلق مدرسہ حفصہ میں ٹیلیفون کیا تھا اس کے نتیجہ میں دوسرے دن ان کے گھر کچھ لوگ سادے کپڑوں میں آئے اور انہیں گرفتار کر کے لے گئے اور وہ ابھی تک اڈیالہ جیل میں بند ہیں ۔ ان کی بیٹیاں محلہ داروں نے ان کے رشتہ داروں کے گھر پہنچادی تھیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی طرح کے 80 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

This entry was posted in خبر, گذارش on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

9 thoughts on “ان کا کیا قصور ؟

  1. خاور

    اگر کسی ملک میں ساری بجلی اے سی کی چل رهی هو تو اس میں اگر ایک بنده ایک پنکها ڈی سی بجلی کا لگا دے تو جو اس پنکهے کا حال هو گا ـ
    بس جی اگر آپ کبهی بہت سارے مشرکین میں پهنس جائیں تو جو حال اپ اکیلے توحید والے کا هوگا ـ
    جہاں سار سسٹم هی لوگوں کی تعلیم کے خلاف ہے ان صاحب کو کسی بلڈی سویلین کو تعلیم دلوانے کی گیا پڑی تهی

    بس جی پاکستان میں جو بهی نیکی کرے گا وه اس کی سزا پائے گا ـ
    وه آپ بهی هو سکتے هیں اور میں بهی ـ
    ہاں اخری عدالت میں ماپنے والے پیمانے ، پاکستان والے نہیں هوں گے اس لیے یه انجنئر صاحب واہاں مقدمه جیت جائیںگے ـ

  2. اجمل

    خاور صاحب
    کشتیاں سب کی کنارے پر پہنچ جاتی ہیں
    ناخُدا جن کا نہ ہو اُن کا خُدا ہوتا ہے

  3. زکریا

    میرا خیال ہے ان انجینیر صاحب کو اڈیالہ جیل سے نکال کر پاگل‌خانے بھیج دینا چاہیئے۔ کوئی پاگل ہی ہو گا جو اپنی ملازمہ کو یکم جولائی کو جامعہ حفصہ میں داخل کرائے گا۔ لگتا ہے انجینیر صاحب ملازمہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔

  4. ساجد

    محترم اجمل صاحب ، میں زکریا کی بات سے اتفاق کروں گا۔ کوئی پاگل ہی کسی کو یکم جولائی کو جامعہ حفصہ میں داخل کروائے گا جبکہ جامعہ کے گرد خاردار تار بچھائی جا رہی تھی اور اس بات کے سارے شواہد موجود تھے کہ ایکشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے۔
    دوسرے یہ کہ اگرچہ بات کچھ ذاتی سی ہے لیکن معاملے سے متعلقہ ہے تو کہے دیتا ہوں کہ کیا یہ انجینئیر صاحب اپنی اہلیہ کے جانے کے بعد ہمہ وقت گھر میں ہی براجمان رہتے تھے تا کہ اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کر سکیں؟ کیوں کہ بقول آپ کے بچیاں چھوٹی تھیں اور انجینئیر صاحب نے خادمہ کو جامعہ حفصہ میں داخل کروا دیا تھا یہ سوچ کر کہ فارغ ملازمہ گھر میں کیا کرے گی۔ حالانکہ اُن صاحب کی اہلیہ کے جانے کے بعد اس ملازمہ کی ذمہ داریاں دو چند ہو گئیں تھیں یعنی گھر کے دیگر کام کاج کے ساتھ بچیوں کی دیکھ بھال بھی اسی کو کرنا تھی، اور آپ فرما رہے ہیں کہ وہ فارغ تھی۔ آخر خادمہ کو نوکری پر رکھنے کا فائدہ کیا تھا اگر وہ ان انجینئر صاحب کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی بجائے جامعہ میں تدریس کے سلسلہ میں مقیم تھی؟
    محترم ، ہوتا ہے ، ایسا ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی شدت یا رد عمل سے بعض ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں جو بڑی عجیب و غریب ہوتی ہیں۔
    ایسی ہی ایک کہانی سے میرا واسطہ اس وقت پڑا جب جھنگ شہر میں فرقہ بازی اپنے عروج پر تھی اور کرفیو کا نفاذ معمول بن چکا تھا۔ ایک دوسرے کے مسلک کو گالی دینا اور ان کی عبادت گاہوں پر روزانہ حملے ہوتے تھے۔ انہی دنوں میں میرا جھنگ جانا ہوا۔ وہاں مجھے کچھ دن ٹھہرنا تھا۔ ایک دن میں اپنے ایک عزیز سے ملا کہ جو ایم اے کا طالبعلم تھا اور جس کا تایا ایک مسجد کا پیش امام تھا۔ اور بہت کٹر نظریات کا حامل تھا۔ میرا یہ عزیز اپنے تائے کی اُس وقت کے نفرتوں کے کاروبار میں حاصل شدہ کامیابیوں کا تذکرہ میرے سامنے بڑے فخریہ انداز میں کر رہا تھا اور کہنے لگا ساجد بھائی آپ کو پتہ ہے کہ تایا جی نے ایک بچے کی بند زبان کھول دی۔ میں نے پوچھا کیسے تو وہ بولا کہ بچہ پہلے بولا کرتا تھا پھر ایک دن اچانک اس کی زبان رک گئی۔ اس کی ماں نے بہت علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا پھر وہ اس کو لے کر تایا جی کے پاس آئی۔ تایا جی نے اس بچے پر دم کیا اور اس بچے نے اسی وقت بولنا شروع کر دیا۔ میں نے اس عزیز سے کہا یار تمہارے تایا جی تو دم درود کو شرک کہتے ہیں پھر انہوں نے یہ شرکیہ کام کیوں کیا؟ وہ بولا ساجد بھائی سنیے تو سہی انہوں نے کیا دم کیا تھا۔ میں نے کہا بتاؤ۔ تو وہ بولا “میرے تایا جی نے اپنے منہ میں خفی انداز میں سات بار پڑھا کافر کافر۔۔۔۔۔کافر اور پھر اس بچے کے چہرے پر پھونک مار دی اور بچہ بولنا شروع ہو گیا“۔ محترم اس عزیز کی یہ بات سن کر اگر افسوس سے بھی بڑھ کر آپ کوئی لفظ آپ چنیں تو شاید وہ بھی میرے جذبات کی ترجمانی نہ کر سکے۔ بہر حال اس کے اس بیان کے بعد گالی کے علاوہ جتنے بھی سخت الفاظ میری لغت میں تھے میں نے اس کو اور تایا جی کو ان الفاظ سے کوسا۔ جب ہمارے پڑھے لکھوں کا یہ حال ہو تو عام آدمی کی حالت کیا ہو گی۔
    دوستو ، بہت احترام سے آپ سب سے عرض کرتا ہوں کہ کسی کا دل دکھانا میرا مقصد نہیں تھا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں پائی جانے والی تلخیوں اور منافقتوں کا خاتمہ کرنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم کھلے دل سے ان کدورتوں سے ہو چکے نقصانات اور اپنے تجربات ایک دوسرے کے سامنے حالات کو بہتر بنانے کی نیت سے رکھیں گے تا کہ یہ معاشرہ مزید نقصانات سے محفوظ رہ سکے۔
    آج میرا یہ عزیز اسلام آباد میں مقیم ہے اور ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن سٹیشن کے لئیے رپورٹر کا کام کرتا ہے۔ اور اب وہ اپنے ماضی کی ایسی غلطیوں پر اکثر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اور دوسروں کو بھی نفرتوں سے دور رکھنے میں پیش پیش ہے۔اللہ اس کے ارادوں میں برکت دے۔ اُس کو اپنے تایا جی سے بھی شکایت ہے کہ جنہوں نے اس کو برداشت کی بجائے نفرت سے روشناس کروایا۔ سوچئیے کہیں آج ہم بھی تو اپنے چھوٹوں کے لئیے ویسا ہی یا اس سے بھی برا ماحول تو نہیں دے رہے؟ کہیں کل کو ہمارے بھتیجے ، بیٹے بھی نفرت کے اس ماحول سے جب نفرت کریں تو ہمیں بھی قصور وار تو نہیں پائیں گے؟

  5. ساجد

    قابل قدر جناب خاور صاحب، کیا آپ اپنے درج ذیل جملے کی وضاحت کرنے کی تکلیف فرمائیں گے؟

    “““بس جی اگر آپ کبھی بہت سارے مشرکین میں پھنس جائیں تو جو حال اپ اکیلے توحید والے کا ہوگا۔“““

    بات بات پر دوسروں پر فتوے اور پاگل خانے میں داخل کرا دینے کے مشورے دینے والے خاور صاحب سے میں توقع کروں گا کہ وہ کسی ایک مسلمان کو مشرک کہنے سے متعلق قرآن و حدیث میں جو وعیدیں اور ممانعتیں ہیں ان کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ اور محترم آپ یہاں ایک دو کو نہیں پورے پاکستانیوں کو من حیث ا لقوم مشرک قرار دینے کا “عظیم کام“ سر انجام دیتے نظر آ رہے ہیں۔
    محترم ، بحث کرنے کے کچھ قاعدے اور اصول ہوتے ہیں۔ اور بحث کا سب سے اہم اصول ہوتا ہے “اپنے دماغ کو بحث کے وقت ٹھنڈا رکھنا“۔
    اجمل صاحب کو مبارک ہو کہ ان کو خاور صاحب سے “توحید پرستی “ کا ڈپلومہ مل گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج سے بہت سال پہلے ایک صاحب کا دعوی تھا کہ جنت میں وہی جائے گا جو ان کا ساتھ دے گا۔
    لیکن میں خاور صاحب کی طرح سے ان کو واپس جواب نہیں دوں گا اور نہ ہی فتوی۔ اور نہ ہی کسی پاگل خانے کا ذکر ان کے لئیے کروں گا۔ ہاتھ جوڑ کر یہ عرض کروں گا کہ “شعلہ بیانی“ کرتے وقت یہ ضرور سوچ لیا کیجیئے کہ ان شعلوں سے دوسروں کا دل اور آپ کا اپنا دامن تو نہیں جلے گا۔

  6. اجمل

    زکریا بیٹے
    یکم بلکہ 2 جولائی کی دوپہر تک حکومت کی طرف سے یہی کہا جا رہا تھا کہ وہاں رینجرز اسلئے اکٹھے کئے ہیں کہ لال مسجد والوں کی مسجد سے باہر مزید کاروائی پر نظر رکھی جا سکے اور انہیں ایسا نہ کرنے دیا جائے مگر یہ سب دھوکہ تھا ۔ 2 جولائی کو فوزی اپنی نئی کار مرمت کیلئے ورکشاپ دے کر آیا تھا ۔ یہ ورکشاپ آبپارہ میں ہے ۔ اسی دن بعد دوپہر ساڑھے بارہ بجے بغیر کسی وجہ کے لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس پر رینجرز نے فائرنگ شروع کردی ۔ 2 اور 3 جولائی کی درمیانی رات ٹرِپل وَن بریگیڈ کے فوجی اور ایس ایس جی کے کمانڈو بھی پہنچ گئے ۔
    کسی وزیر تک کو معلوم نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ مندرجہ ذیل ربط پر ایک متعلقہ مضمون پڑھ لو ۔
    http://thenews.jang.com.pk/top_story_detail.asp?Id=9078

  7. اجمل

    ساجد صاحب
    آپ کی لمبی کہانی کا جواب تو میں اس وقت لکھوں کا جب اسے پڑھنے کا وقت ملے گا ۔ فی الحال آپ کے صرف پہلے فقرے کے متعلق عرض ہے کہ یا تو آپ حالات سے باخبر نہیں یا پھر آپ کے پاس غلط معلومات پہنچی ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ پاگل خانے بھیجنے کا کہنے پر آپ نے خاور صاحب کی سرزنش کی ہے اور خود ایک اچھے خاصے سمجھدار انجیئر کو پاگل کہہ رہے ہیں جبکہ کہ آپ اصل حالات سے اور اس انجنیئر کے معاملہ سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ پھر بھی میں آپ کو پاگل نہیں کہوں گا بلکہ ناواقف کہوں گا ۔

    میں نے اپنے بیٹے کیلئے جو جواب لکھا ہے وہ اگر پڑھ لیں تو شائد کچھ سمجھ آ جائے ۔

  8. ساجد

    محترم اجمل صاحب ، میں ہمہ تن گوش ہوں اور آپ کی طرف سے جواب کا منتظر بھی۔
    ویسے جناب والا یہ کیسا لطیفہ ہے کہ جو نامہ آپ کے نام تھا وہ تو (بقول آپ کے) آپ نے پورا پڑھا نہیں اور خاور صاحب کی خدمت میں جو کچھ میں نے عرض کیا وہ نہ صرف آپ نے پڑھا بلکہ اس کا جواب بھی دیا۔ چلئیے کوئی بات نہیں آپ بلاگ کے مالک ہیں کسی بھی پوسٹ کا جواب دے سکتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر آپ انصاف سے کام لیتے ۔ اور یہ بھی فرما دیتے کہ لفظ “مُشرک“ انہوں نے کس کے لئیے اور کیوں استعمال کیا۔
    صرف میں ہی نہیں دوسرے احباب بھی آپ کے تسلی بخش جواب کے منتظر ہیں۔
    ہاں یہ وضاحت کر دوں کہ میں نے خاور صاحب کو دوسروں کو مشرک کہنے پر ٹوکا ہے مجھے پاگل خانے جانے کا مشورہ دینے پر نہیں۔
    میری کہانی میں بیان کیا گیا کڑوا سچ شاید آپ کے بلاگ کی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتا ہو لیکن چھپانے سے حقیقت بدل نہیں جاتی اس لئیے میں نے اس کو تحریر کر دیا۔ وہ پوسٹ آپ کو پسند نہ ہو تو آپ اسے حذف کر سکتے ہیں۔

  9. اجمل

    ساجد صاحب
    آپ بہت جلد رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ میں نے خاور صاحب کو مخاطب کر کے لکھا ہوا آپ کا ایک فقرہ ہی پڑھا تھا جس کا میں نے جواب دیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.