Monthly Archives: June 2007

زہر آلود چکا چوند

ایک ماہ سے زائد گذر گیا شعیب صفدر صاحب نے “دامن تر” کے عنوان سے ڈاکٹر شبیر احمد کا مضمون نقل کیا تھا ۔ میں نے اس پر اپنے مشاہدات لکھنے کا ان سے وعدہ کیا تھا ۔ پانچ ہفتے یوں گزر گئے کہ پہلے میں دس دن بیمار رہا ۔ پھر میرے پھوپھی زاد بھائی جو دودھیال میں میرے اکلوتے بھائی ہیں اور میرے بچپن سے دوست ہیں کو دل کا دورا پڑا اور اچانک آپریشن کرانا پڑا ۔

چاہے مرد ہو یا عورت شرم و حیاء بذاتِ خود ایک لباس ہے جب اسے اُتار دیا جائے تو پھر کسی چیز کی شرم نہیں رہتی اور انسان پھر انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں انسانوں کو شہروں کے باغیچوں میں اور شہروں سے منسلک جنگلوں میں کھُلے عام جانوروں کی طرح جنسی ہوّس پوری کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ بوس و کنار اور عورت مرد یا لڑکے لڑکی کا آپس میں چپکنا تو ہر جگہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ سمندر کے کنارے چلے جائیں تو کئی عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے بالکل ننگے نہا رہے ہوتے ہیں یا ریت پر لیٹے اپنی جلد کا رنگ گہرا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ ان کی خصلت بن چکی ہے ۔ یہ وہ آزادی ہے جو حقوق کے نام پر حاصل کی گئی ہے لیکن جس نے انسان اور جانور میں فرق مٹا دیا ہے

ابھی تک امریکی حکومت نے پچھلے دو سال کے اعداد و شمار شائع نہیں کئے ۔ 2004 عیسوی میں امریکہ میں 15 لاکھ بچے کنواری یعنی غیر شادی شدہ ماؤں کے ہاں پیدا ہوئے ۔ یہ کل پیدا ہونے والے بچوں کا 35.7 فیصد بنتے ہیں ۔ خیال رہے کہ بہت سے مانع حمل نسخے کئی دہائیاں قبل ایجاد ہو چکے ہیں جو نہ ہوتے تو بغیر شادی کے ماں بننے والیوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ۔

امریکہ میں شادی شدہ جوڑوں کی تعداد 25 سال قبل 75 فیصد تھی جو کم ہو کر 56 فیصد رہ گئی ہے ۔ صرف ماں کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد 417 فیصد بڑھ گئی ہے اور اکیلے رہنے والے بچوں کی تعداد 1440 فیصد بڑھ کر 2 کروڑ 20 لاکھ ہو گئی ہے ۔ صرف 3 کروڑ 64 لاکھ بچے والدین کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ کل بچوں کا 51 فیصد ہیں ۔

میرے انگریزی بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] کی ایک 50 سالہ امریکی قاری لکھتی ہیں کہ اپنی جوانی کے تلخ تجربہ کے نتیجہ میں اس نے اپنی اکلوتی اولاد 18 سالہ بیٹی کی عفت کی حفاظت بہت زیادہ مشکلیں برداشت کر کے کی ۔ لکھتی ہیں کہ جب لڑکی 12 سال کی ہو گئی تو لڑکی کا دادا اسے اپنے پاس بلا کر کہتا رہتا “جاؤ کسی لڑکے کو دوست بناؤ اور زندگی کے مزے لوٹو”۔ لڑکی کا باپ کمپیوٹر پر عورتوں کی بے حیائی کی ننگی تصاویر بیٹی کمرے میں آ جائے تو بھی دیکھتا رہتا ہے ۔ مزید لکھتی ہیں کہ پورے شہر میں اسے اور اس کی بیٹی کو اُجڈ سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا ۔ اس کی بیٹی کے سکول میں ہر سال حکومت کی طرف سے کچھ لیکچرز کا انتظام ہوتا ہے جس میں جنسی ملاپ کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اپنی سوسائٹی کے متعلق لکھتی ہیں کہ 14 سالہ لڑکیوں سے لے کر 60 سالہ عورتوں تک سب جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں اور وہ اپنی عیاشیوں کے قصے مزے لے لے کر سناتی ہیں ۔

یہ ہے اس معاشررے کی ایک چھوٹی سی جھلک جس معاشرے کو دُور سے دیکھتے ہوئے ہمارے لوگوں کے دل للچاتے ہیں ۔

پڑے سردی مریں غریب ۔ آئے گرمی مریں غریب

ملاحظہ ہوں ہمارے قابل خفیہ اداروں کا ایک اور کارنامہ بی بی سی کے ذوالفقار علی کی زبانی

پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے پانچ ملزمان کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ وہ بےگناہ ہیں اور وقوعے کے روز وہ سب کے سب اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ گرفتار ہونے والے پانچ میں سے چار افراد کا تعلق وادی نیلم کے گاؤں نیلم سے ہے اور ان میں سے تین سگے بھائی ہیں۔ چار افراد ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ پانچویں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کی مالی حالت پسماندہ دکھائی دیتی ہے۔حراست میں لیے جانے والے چاروں افراد کے گھروں کی مالی حالت بظاہر دوسروں سے مختلف نہیں۔

حماد رضا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے شریف الدین گیلانی کی اہلیہ الفت رانی کہتی ہیں کہ’ اٹھارہ مئی کو سادہ کپڑوں میں ملبوس بارہ تیرہ مسلح افراد ہمارے گھر آئے اور میرے شوہر کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔ وہ کون لوگ تھے ہمیں نہیں معلوم، لیکن انہوں نے اپنے ساتھ ایک شخص کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے کرنل صاحب ہیں۔‘ الفت کہتی ہیں کہ ’ہم رو رو کر ان سے پوچھ رہے تھے کہ کیا معاملہ ہے وہ میرے شوہر کو کہاں اور کس جرم میں لے جا رہے ہیں تو انہوں نے ہمیں وجہ بتانے کے بجائے یہ دھمکی دی کہ اگر کسی عورت نے اس میں مداخلت کی تو ہم گولی مار دیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس وقت میرے شوہر جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے چنانچہ ہم نے ان لوگوں کو بتایا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھنے گئے ہیں۔ میرے شوہر وہاں سے وہ واپس گھر نہیں آئے اور ان کو وہیں سے پکڑ کر لے گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ’ دو ہفتے تک تو مجھے اپنے شوہر کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان کا کیا قصور ہے۔ہمیں اخبارات کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ میرے شوہر کو حماد رضا کے قتل کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ’ ہم غریب لوگ ہیں میرے شوہر لکڑی چرائی کر کے بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ہمارے پاس قریبی قصبے اٹھمقام جانے کے لئے کرایہ نہیں ہوتا ہم حماد رضا جیسے بڑے آدمی کے قتل میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں۔‘ الفت رانی نے کہا’میرا شوہر بے قصور ہے اور ان پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔‘ رانی کہتی ہیں کہ وقوعے کے روز ان کے شوہر گھر پر تھے۔ رانی نے اپنے زیر تعمیر لکڑی کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھر تعمیر کر رہے تھے اور یہ کہ وہ کافی عرصے سے پاکستان گئے ہی نہیں۔‘

شریف الدین کو حراست میں لینے کے کوئی دس دن بعد اٹھائیس مئی کو ان کے بھائی بشیر الدین کو بھی حراست میں لیا گیا۔ بشیر الدین کی اہلیہ کلثوم بی بی کہتی ہیں کہ اٹھائیس مئی کوسادہ کپڑوں میں ملبوس دو مسلح اہلکار ان کے گھر آئے اور کوئی وجہ بتائے بغیر میرے شوہر کو زبردستی ساتھ لےگئے۔‘ انہوں نے کہا ’ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہوگا۔‘ کلثوم بی بی کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر معذور ہیں اور وہ آسانی سے چل پھر نہیں سکتے ایسے میں وہ کس طرح کسی کا قتل کرسکتے ہیں اور میرے شوہر کوئی دو ماہ سے گاؤں سے باہر ہی نہیں گئے۔‘ کلثوم کے مطابق ان کے شوہر زلزلے کے دوران ایک دوکان کے ملبے تلے دب گئے تھے جس کے باعث ان کی ایک ٹانگ اور بازو ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد وہ ایک سال تک بستر پر ہی رہے۔انہوں نے کہا کہ’ میرے شوہر کو تیز چلنے سے تکلیف ہوتی ہے ، وہ آہستہ چلتے ہیں اور وہ وزن بھی نہیں اٹھاسکتے۔‘ کلثوم نے بتایا کہ کچھ عرصے سے ان کے شوہر نے تھوڑا بہت کام کرنا شروع کردیا اور بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔


دو جون کو جب میں حراست میں لیے جانے والوں کے خاندان والوں سے ملاقات کرنے کے لئے نیلم گاؤں میں پہنچا تو وہاں سرخ رنگ کی ایک پجارو جیپ کھڑی تھی۔ اس میں سوار دو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ ایک نوجوان کو مقامی لوگوں کے حوالے کر کے چلےگئے۔ یہ نوجوان شریف الدین اور بشیر الدین کے بھائی ضیاءالدین تھے۔

ضیاءالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اٹھارہ تاریخ کو وادی نیلم میں کیرن کے مقام سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے اٹھایا اور قریب ہی اٹھمقام قصبے میں ریسٹ ہاؤس میں لے گئے۔ انہوں نے کہا’ مجھے وہاں دو روز رکھا گیا اور وہاں سے مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہیلی کاپڑ پر بٹھا کر کسی نہ معلوم جگہ پر لے گئے۔حراست کے دوران مجھے ڈنڈوں اور چمڑے سے مارا پیٹا کیا گیا اور رات کو بازو باندھ کر کھڑا رکھا جاتا۔‘ ضیاءالدین نے کہا ’مجھ پر دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ میں اقرار کروں کہ میں نے ڈکیتی اور قتل کیا اور یہ بھی کہہ رہے کہ تھے کہ میں قبول کروں کہ میرے بھائیوں نے بھی ڈکیتی کی اور قتل کیا ہے۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ جب مجھے کسی چیز کا معلوم ہی نہیں تو میں کیسے اس کا اقرار کروں۔‘

ضیاءالدین عارضی طور پر پڑھاتے بھی رہے ہیں اور بعد ازاں انہوں نے وادی نیلم میں لوات کے مقام میں منیاری کی دوکان شروع کی اور اب وہ جنگل میں لکڑی کا کام کرتے ہیں۔  لیکن حکام ان کو حراست میں لینے کے بارے میں مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی والدہ امریزہ بیگم اپنے ایک بیٹے کی واپسی پر خوش ہیں لیکن وہ زیر حراست اپنے دو بیٹوں کے حراست کے بارے میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے کہا ’اللہ کا شکر ہے کہ میرا ایک بیٹا واپس آیا گیا ہے۔ میں التجا کرتی ہوں کہ میرے دوسرے دو بیٹوں کو رہا کریں۔‘ انہوں نے کہا کہ’ ہم کہاں جائیں کس سے فریاد کریں ہمارے پاس وسائل ہی نہیں ہیں۔‘

اسی گاؤں کے ایک سابق فوجی بشارت میر بھی حماد رضا کے قتل کے الزام میں زیر حراست ہیں۔ ان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ذہنی حالت درست نہ ہونے کے باعث ان کو کچھ سال قبل فوج سے برخاست کیا گیا تھا اور علاج کی وجہ سے وہ اب بہتر تھے اور لکڑی چرائی کا کام کرتے تھے۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ ’ ہمیں نہیں معلوم کہ میرے بیٹے کو کیوں حراست میں لیا گیا ہے۔ اٹھائیس تاریخ کو سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح اہلکار ہمارے گھر آئے اور میرے بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ فوجی تھے یا خفیہ ادارے کے اہلکار، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کون لوگ تھے۔‘ بشارت میر کے والد نے کہا ’ان لوگوں نے پورے گاؤں میں دہشت پھیلادی اور لوگوں پر تشدد شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا ’ بشارت میرا واحد سہارا ہے۔ میرا ایک بیٹا بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے ہلاک ہوا جبکہ دوسرا نویں جماعت کا طالب علم ہے اور بشارت ہی ہمارا واحد سہارا ہے۔ بشارت شادی شدہ ہے اور اس کے چار بچے ہیں۔ ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔‘

بشارت کی والدہ نگار بی بی کہتی ہیں کہ’ وہ لوگ میرے بیٹے کی تلاش میں گھر آئے تو ہمارے گھر میں ادھیڑ عمر کے ایک رشتہ دار آئے ہوئے تھے۔ مسلح اہلکاروں نے ہمارے سامنے ان کو برہنہ کرکے مارا پیٹا کہ وہ ہمارے گھر کیوں آئے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نےگاؤں میں کئی دیگر افراد کو بھی مارا پیٹا۔‘ انہوں نے کہا کہ’ حماد رضا کے قتل کے روز میرا بیٹا گھر پر تھا اور ہم مکئی بو رہے تھے۔‘

حماد رضا کے قتل کے الزام میں گرفتار چوتھے شخص میر محمد افضل کا تعلق مظفرآْباد سے ہے۔ وہ کئی سال دبئی میں مزدوری کر تے رہے اور گزشتہ سال ستمبر میں واپس آئے۔ کچھ ماہ سے وہ وادی نیلم کے قصبے اٹھمقام میں گوشت کا کام کر رہے تھے۔ میر محمد افضل کے بھائی منیر اختر سلہریا کا کہنا ہے کہ’ وقوعے کے روز میرے بھائی بیمار تھے اور وہ گھر پر موجود تھے۔ میں ان کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر ایک میڈیکل اسٹور پر لے گیا جہاں ان کو ڈرپ لگائی گئی۔ میرے بھائی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ موٹر سائیکل چلاسکتے۔ منیر اختر نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی تاریخ میں ایک شخص دو جگہ پر موجود ہو؟

انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ میرے بھائی کو انتیس مئی کو گرفتار کیا گیا۔ ’ اٹھارہ مئی کو تین مسلح اہلکار ان کو اٹھمقام میں اپنی دوکان سے اٹھا کر لے گئے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ آئی ایس آئی اہلکار تھے اور ان کے ساتھ کوئی پولیس نہیں تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ’ ہمارے گھر کے قریب تھانہ ہے۔ آپ کہیں سے بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ ہمارے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ ہم نے عزت کی زندگی گزاری ہے۔‘

منیر اختر نے الزام لگایا کہ حماد رضا کو پاکستان کے صدر نے خفیہ ادارے والوں سے قتل کروایا اور انہوں نے کسی نہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانا تھا اور ہمارے بھائی کو پھنسا دیا۔

ان چار افراد کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ ملزمان کو دو مختلف دنوں یعنی اٹھارہ اور اٹھائیس مئی کو سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح اہلکاروں نے حراست میں لیا لیکن پاکستان کے وزیر داخلہ نے گزشتہ ماہ کے آخر میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملزمان کو مقامی پولیس کی مدد سے انتیس مئی کو حراست میں لیاگیا تھا۔ مظفرآباد کے ایڈینشل ڈپٹی کمشنر جنرل کا بھی یہی کہنا ہے کہ’ ان افراد کو انتیس مئی کو گرفتار کیا گیا اور ان کو گرفتار کرنے کے لیے مقامی پولیس نے اسلام آباد پولیس کی مدد کی اور ان کو تیس مئی کو مجسڑیٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور بعد ازاں ان کو قانون کے مطابق اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی نیلم کے پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ’ ان افراد کو وادی نیلم میں نہیں بلکہ مظفرآباد میں گرفتار کیا گیا اس لیے ان کو زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان افراد کو ماضی کے جرائم کے ریکارڈ اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن ملزمان کے خاندان والے اس کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے عزیز ماضی میں کسی جرم میں ملوث رہے ہیں۔ یہ افراد گناہ گار ہیں یا انہیں حبس بے جاہ میں رکھا جا رہا ہے، یہ فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی لیکن حقیقت سامنے آنے تک ان کے خاندانوں کا سکون برباد ہوچکا ہے۔

جھوٹ چھپائے نہیں چھُپتا

پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے انکشاف کیا ہے کہ سال2002 عیسوی کے عام انتخابات اور صدارتی ریفرنڈم کے وقت تیار کردہ ووٹر فہرست میں شامل تقریباً 2 کروڑ ووٹرز جعلی تھے پاکستان کے الیکٹرول ایکٹ کے تحت کسی ایسے شخص کا نام انتخابی فہرست میں نہیں ہو سکتا جس کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہو۔

الیکشن کمیشن نے ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق گھر گھر جا کر جو نئی ووٹر فہرستیں مرتب کی گئی ہیں ان میں کل ووٹرز کی تعداد 52،102،428 ہے جب کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سال 2002 عیسوی میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم اور عام انتخابات میں کل ووٹرز کی تعداد 71،900،000 کے قریب تھی ۔ جس کا مطلب ہوا کہ 19،787،572 ایسے ووٹروں کا اندراج کیا گیا تھا جو موجود ہی نہ تھے ۔ پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو نئی ووٹر فہرست میں ووٹرز کی تعداد پہلے سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن صورتحال اس کے برعکس بنتی ہے۔

اس سے پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ پرویز مشرف نے ریفرنڈم کس طرح جیتا اور اس کے ساتھی 2002 کے الیکشن میں کیسے جیتے ۔ یہ ہے پرویز مشرف کا بنایا ہوا شفاف الیکشن ۔

دکھاتا ہے زمانہ رنگ کیسے کیسے

عوامی تحریک کے رہنماء رسول بخش پلیجو نے اپنے خطاب میں کا کہا “پاکستان ابھی تک غلام ہے۔ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر امریکہ کی غلامی میں چلے گئے ہیں، اس سے اچھی تو انگریزوں کی غلامی تھی جس میں ہمیں کم سے کم غلام کی حثیت تو دی گئی تھی۔ لیکن اب تو ظلم یہ ہے کہ ہمیں غلام بھی بنا رکھا ہے اور تسلیم بھی نہیں کرتے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم بھی امریکہ کے غلام ہیں، ہمیں بھی غلاموں کا درجہ دیا جائے۔ غلاموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، موجودہ حیثیت میں تو ہمیں وہ حقوق بھی نہیں مل رہے”۔

انہوں نے کہا “سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو آزاد کروانا ہے اور اس سلسلے میں وکلاء کی تحریک بہت خوش آئند ہے۔ چھوٹے صوبے ہمیشہ پنجاب کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، لیکن پنجاب کے عوام نے عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں جو کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے”۔

آج اور اے آر وائی کے بعد جیو نیوز کی نشریات بند

جیسا کہ میں 3 مئی کو لکھ چکا ہوں ٹی وی چینلز ” آج ” اور ” اے آر وائی ون ” اسلام آباد ۔ پشاور ۔ لاہور اور ان کے گرد و نواح شہروں کیلئے جمعہ یکم مئی سے بند ہیں ۔ سوائے ڈراموں اور ناچ گانے کے ۔ اتوار 3 مئی کو جیو نیوز چینل تقریباً تمام ملک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ جنگ گروپ اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے

ڈاکٹر شاہد مسعود کا مقبول پروگرام ”میرے مطابق“ دکھانے پر حکومت نے ”جیو نیوز“ کی نشریات ملک بھر میں بند کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ ریکارڈ شدہ یہ پروگرام نشر ہونے سے دو گھنٹے قبل اتھارٹیز نے ”جیو“ کی انتظامیہ کو پروگرام نشر نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پروگرام چلایا گیا تو ہم اسے خود بند کر دیں گے اور ایسا ہی کیا گیا جبکہ باقی ساری دُنیا امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ وغیرہ میں پروگرام نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کے نامور دانشوروں جسٹس [ریٹائرڈ] ناصر اسلم زاہد، ۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ اور حکمران مسلم لیگ کے رہنما کبیر علی واسطی نے ملک کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی تھی اور ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے گرانقدر تجاویز پیش کی تھیں۔

پروگرام نشر ہونے سے پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود کو دو فون بھی موصول ہوئے جن میں دھمکی دی گئی کہ ہم نے آپ کے لئے لٹھا تیار کرلیا ہے۔ آپ ویسے بھی لمبے چوڑے آدمی ہیں آپ کیلئے کتنا لٹھا چاہئے ہوگا بتا دیں۔ علاوہ ازیں چند روز قبل ”جیو“ کی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو چھٹی پر بھیج دیا جائے۔ یاد رہے کہ ٹی وی چینل ”آج“ کی پنڈی، اسلام آباد اور قریبی علاقوں میں نشریات بند ہیں۔ اسی طرح چینل اے آر وائی کی نشریات بھی پنڈی، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں روک دی گئی ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس پروگرام میں جو ریکارڈڈ تھا جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اور ہر شخص کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا آنے والا فیصلہ صدارتی ریفرنس کے متعلق ایک تاریخی فیصلہ ہوگا۔ آج ہمارے بار اور بنچ نے اور ان کے ساتھ ہمارے عوام نے مل کر اس تحریک کو جس مقام پر پہنچایا ہے اس سے حکومت خوفزدہ ہے اور یہ تمام نشانیاں ہیں اس کی خوف کی اور ڈر کی جب اقتداران کے ہاتھ سے جانے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج پہلی دفعہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آرمی ، چیف اپنے ماتحت فارمیشن کمانڈر سے اپنے اقتدار کی ضمانت مانگ رہا ہو یہ بڑے تعجب کی بات ہے یعنی میں تو اسے اعتراف شکست کہتا ہوں۔ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ، بھٹو صاحب جب وزیراعظم تھے تو ان سے فوج نے کہا کہ ہم اس حکومت کے ساتھ ہیں اور آخر وقت تک ساتھ رہیں گے لیکن چند دنوں بعد مارشل لاء لگا دیا ۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوگئی، آج کون کور کمانڈر یا فارمیشن کمانڈر یہ ہمت کر سکتا ہے کہ صدر کے سامنے کہہ دے کہ میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ کور کمانڈروں کا حالیہ بیان بے معنی ہے اور اعتراف شکست ہے کسی آرمی چیف کو اپنے فارمیشن کمانڈرز سے سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی

جب میں سنتا ہوں کہ حکمران جماعت کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ فوج کے خلاف بات کرنے والوں کو گولی مار دی جائے تو مجھے حیرت ہوتی ہے یہ پاگل پن ہے ۔ چوہدری شجاعت یہ بات کئی دفعہ کہہ چکے ہیں اسی طرح سے اگر کوئی عدلیہ کی بے عزتی کرتا ہے اس کو بھی کہنے کا
حق ہوگا کہ ہر اس شخص کو گولی مار دو جو عدلیہ کے ساتھ اور چیف جسٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتا ہے یہ بڑی خطرناک ذہنیت ہے ایسے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

حکمران مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر کبیر علی واسطی نے بتایا کہ اسلام آباد میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور بہت ابہام ہے۔ جب سے چیف جسٹس کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے حکومت بلاوجہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایوان صدر میں اس بات کا بہت زیادہ احساس کیا جا رہا ہے اور غلطیاں بھی ایوان صدر ہی کی ہیں کسی نے کوئی سازش نہیں کی ہے نہ ہی کوئی ایجنسی ، کوئی شخص یا ادارہ اس میں شامل ہے اس بحران کے ذمہ دار صدر مشرف ہیں جنہوں نے خود قبول کیا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے، ریفرنس میں نے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا یہ کہنا غلط ہے کہ چیف جسٹس پر الزامات تھے اس لئے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا۔ قوم ان باتوں کو قبول نہیں کر رہی ۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈروں کی طرف سے جو بیان دلوایا گیا وہ بلاضرورت تھا اگر اس کی ضرورت تھی تو صدر صاحب اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوج کا ادارہ قومی ادارہ ہے قوم اس کی عزت کرتی ہے اور جس طرح صدر نے اس ادارے کو اپنے معاملات میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے وہ بلاضرورت تھا۔ صدر صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا انہیں عوام کی حمایت دکھانی چاہئے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ کبیر واسطی نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کے سینئر عہدیدار ہونے کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ ساری صورتحال کے ذمہ دار صدر اور ان کے مشیر ہیں۔ وزیراعظم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جو اختیارات انہیں ڈکٹیٹ کرائے گئے ہیں ان ہی کے مطابق وہ چل رہے ہیں ان کو یہ اختیار بھی نہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیج سکیں۔ وزیراعظم ازخود کوئی ریفرنس نہیں بھیج سکتے ، چیف جسٹس کے بیان حلفی نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں،اس میں بہت کچھ آگیا ہے،یہ پڑھنے والوں پر ہے کہ وہ اسے کیسے پڑھتے ہیں۔ ذمہ داری ہر طرح سے صدر کی ہے۔ ہم صدر صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں ، بہت احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صدر صاحب اس ملک میں اپنا رول ادا کریں اور اگلے 5 سال بھی ان کو ملیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ وردی اتاردیں اور اگلی اسمبلی سے انتخاب لڑیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اگر صدر نے موجودہ اسمبلی سے انتخاب لڑا تو بہت تباہی ہوگی۔ ایسی تباہی جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

قانون ۔ پرویز مشرف مارکہ

جمہوریت کی اساس یہ ہے کہ قانون سب کیلئے یکساں ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جو حقیقی جمہوریت طاری کی ہوئی ہے اس کی چند مثالیں یہ ہیں ۔

Devolution

سارے ملکی نظام کو devalue ۔ اوہ معاف کیجئے گا ۔ devolve کیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کی اسامی ختم کر کے [اپنی مرضی سے] منتخب کردہ ناظم لگائے گئے مگر وہ بھی سارے ملک میں نہیں ۔ اسلام آباد میں ابھی بھی ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے اور حکومت کے کئی بار وعدوں کے باوجود آج تک ضلعی حکومت بنانے کیلئے الیکشن نہیں ہوئے ۔ اسلام آباد کے علاوہ پاکستان میں جتنی چھاؤنیاں [cantonments] ہیں جو کہ سو سے زیادہ ہی ہوں گی ان میں ابھی تک سٹیشن کمانڈر [Station Commander] کی حکومت ہے جو کہ کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے اور جی ایچ کیو کے ماتحت ہوتا ہے ۔


دفعہ 144

ڈپٹی کمشنر ۔ اسلام آباد کے حکم سے پورے ضلع اسلام آباد میں بدھ 30 مئی سے 2 ماہ تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جس کے تحت کسی جگہ 5 یا 5 سے زیادہ اشخاص کا اکٹھا ہونا یا اکٹھے چلنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔ عملی طور پر حکومتی پارٹی کے لوگ جب چاہیں جہاں چاہیں درجنوں اکٹھے ہوتے رہتے ہیں لیکن جمعہ یکم مئی کی سہ پہر سے رات گئے تک ہماری رہائش گاہ سے 500 میٹر کے فاصلہ پر فاطمہ جناح پارک میں اسلام آباد کی حکومت نے اگر ہزاروں نہیں تو ایک ہزار سے زیادہ اشخاص کا میلہ لگایا ہوا تھا ۔ ان حالات نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ چیف جسٹس صاحب کا قافلہ ہفتہ 2 جون کو صبح 9 بجے اسلام آباد میں ان کی سرکاری رہائش گاہ سے روانہ ہوا تو حکومتی مشینری حرکت میں نہ آسکی ۔۔


سیکیورٹی

اسلام آباد کی سیکیورٹی ویسے ہی سخت رہتی ہے کیونکہ حکمرانوں کی قیمتی جانوں کو خطرہ رہتا ہے ۔ جمعہ یکم مئی کو امامِ کعبہ جناب عبدالرحمٰن السّدیس تشریف لا رہے تھے اس لئے جمعرات 31 مئی سے ہی سیکیورٹی اور سخت کر دی گئی تھی ۔ وزیراعظم صاحب نے بھی فیصل مسجد میں جمعہ کی نماز پھنا تھی ۔ نماز جمعہ کے وقت سے کئی گھینٹے پہلے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ فیصل مسجد کے چاروں طرف پھیل گئے تھے ۔ فائر بریگیڈ بھی وہاں موجود تھا ۔ اس کے باوجود پارکنگ میں آگ لگی جس سے 17 گاڑیاں اور ایک موٹر سائیکل جل گئے ۔ اس خبر کو اخبار میں چھاپنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ڈان نے یہ خبر صرف اسلام آباد ایشو میں مع تصویر کے چھاپی ہے ۔


آزادیٔ صحافت

صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کئی بار کہہ چکے ہیں “میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حق میں ہوں اور میں نے انہیں پوری آزادی دے رکھی ہے”۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے پرانے اُردو اخبار نوائے وقت اور انگریزی اخبار دی نیشن کے اشتہارات کئی سالوں سے بند ہیں ۔ ان کی ویب سائٹ عام طور پر بلاک ہی رہتی ہے ۔ پاکستان کے سب سے پرانے انگریزی اخبار ڈان کے ساتھ موجودہ حکومت کی چپقلش چلتی ہی رہتی ہے ۔ جمعہ یکم مئی سے اسلام آباد ۔ اسلام آباد کے گرد و نواح اور پنجاب کے کئی شہروں میں ٹی وی چینلز آج اور اے آر  وائی ون کی نشریات جزوی طور پر بلاک کر دی گئی ہیں ۔ مزید لائیو کوریج [live coverage] ۔ ٹاک شوز [talk shows] اور تبصروں [commentaries] پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت نے کچھ قومی اور بین الاقوامی اداروں کو چند ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہ دینے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں ۔ یہ بھی حکم جاری کیا گیا ہے کہ تمام ٹی چینلز کو اپنی نشریات دکھانے کیلئے ہر شہر کیلئے علیحدہ علیحدہ لائیسنس لینا ہو گا ۔


ہَور چُوپَو

حکومتِ پاکستان کے دباؤ کے تحت ہفتہ 2 جون کو کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیرمین خالد شیخ نے اعلان کیا کہ جو ٹی وی چینل حکومت یا افواجِ پاکستان کے خلاف کچھ دکھائیں گے وہ بند کر دیئے جائیں گے ۔ خالد شیخ نے یہ بھی بتایا کہ کچھ سیاسی جماعتیں کیبل آپریٹرز کو دھمکیاں دے رہی ہیں کہ اگر اُن کی بات نہ مانی گئی تو تو کیبل آپریٹرز کے ٹرانسمشن سسٹم پر حملے کئے جائیں گے ۔

میکالے کا ایک اور فیصلہ

لارڈ میکالے کی تجویز نقل کی تھی جس پر چند قارئین نے اعتراض کیا تھا ۔ بزرگ کہتے تھے “اللہ مہربان سو کُل مہربان”۔ میرا سب سے بڑا لالچ سچائی کا حصول رہا ہے اور جب کبھی مجھے مشکل پیش آئی اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے میری مدد فرمائی ۔ اسی سلسلے میں 23 مئی کو ایک خط ڈان اخبار میں شائع ہوا جو اگرچہ مختلف تحریر ہے مگر میرے مؤقف کی تائید کرتی ہے ۔ متعلقہ اقتباس ۔ ۔ ۔ Macaulay’s children

The term Macaulay’s children is used to refer to people born of Indian ancestry who adopt western culture as a lifestyle, or display attitudes influenced by colonisers. Connotation of the term shows the specific behaviour of disloyalty to one’s country and one’s heritage. The passage to which the caption refers is taken from a minute Lord Macaulay wrote on Indian education. It reads:

“It is impossible for us, with our limited means, to attempt to educate the body of the people. We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern; a class of persons, Indian in blood and colour, but English in taste, in opinions, in morals, and in intellect. To that class we may leave it to refine the vernacular dialects of the country, to enrich those dialects with terms of science borrowed from the western nomenclature, and to render them by degrees fit vehicles for conveying knowledge to the great mass of the population.”

Should we mug up our state of affairs right from the independence, we find we have been governed till date by the class of people trained in accordance with the desired standards set out by the Macaulay theory.

Would the system that derives strength from the Macaulay doctrine bring any change in our lives? Civil society must strive hard and support those who are eligible to lead the masses. It appears that future is not so gloomy and we can see light at the end of the tunnel in the present struggle spearheaded by the chief justice. But we need hundreds of people like him who could guide the people to shun self-interest and be brave.