میرے متعلق خاندان تو کیا سب جاننے والوں میں مشہور ہے کہ میں بڑے دل کا مالک ہوں ۔ اللہ نے مجھے بنایا ہی اس طرح کا ہے کہ کوئی تکلیف میں ہو تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا مگر دوسروں کی طرح ہمدردی میں بیہوش ہونے یا رو رو کر نڈھال ہونے کی بجائے میں فوراً ضروری مدد بہم پہنچانے میں لگ جایا کرتا ہوں ۔ اللہ مجھے حوصلہ دیتا ہے اور میری راہنمائی کرتا ہے اور میں اشکوں کو آنکھوں میں آنے سے پہلے ہی روک لیتا ہوں ۔ میں ہمیشہ سب کو کہا کرتا ہوں ” آپ لوگوں کی ہمدردی کس کام کی کہ مدد کی بجائے آپ خود مدد کے قابل ہو جاتے ہیں ؟” لیکن دو روز قبل میرا ساری زندگی کا بھرم ٹوٹ گیا حوصلہ ریت بن گیا اور اشک جاری ہو گئے کہ بات ہی کچہ ایسی تھی ۔
عدالتِ عظمٰی میں گم شدہ افراد کے کیس کی سماعت ہو رہی تھی کہ حُزن و ملال کا مجسمہ ایک خاتون عدالتی آداب و قرائن کو بالائے تاک رکھتے ہوئے اچانک کھڑی ہو گئی اور عدالت کو مخاطب کر کے گویا ہوئی “میری عمر 60 سال ہے ۔ میری آخری زندگی کا سہارا میرا صرف ایک بیٹا ہی تھا ۔ اُسے بھی حسّاس اداروں نے گرفتار کر لیا ۔ مجھے کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کسی حال میں ہے ؟ خدا کے لئے مجھے میرا بیٹا لا دو ۔ میں اُسے ساتھ لے کر یہ ملک چھوڑ جاؤ گی ۔ کیا ایم آئی اور آئی ایس آئی والے اس ملک کے باشندے نہیں ؟ کون ہماری دادرسی کرے گا ؟” خاتون بولتی جا رہی تھی اور اشکوں کا سیلاب اس کی آنکھوں سے جاری تھا ۔
میں باپ ہوں ۔ بچے بڑے اور ماشاء اللہ سمجھدار ہیں مگر جب تک گھر نہ آجائیں دل بے چین اور نیند حرام رہتی ہے ۔ بڑا بیٹا امریکہ میں ہے ۔ ہفتہ بھر اس سے بات نہ ہو تو دل بے چین ہو جاتا ہے ۔ لیکن ماں کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے جو صرف ماں ہی سمجھ سکتی ہے ۔ میں جوان تھا بڑا افسر تھا جب دفتر سے گھر آتے ہوئے اپنی سڑک میں داخل ہی ہوتا تو دور سے امی [اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے] گھر کے باہر میرے انتظار میں کھڑی نظر آتیں ۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ اندر چلی جاتیں ۔ کبھی کبھی میں امی سے کہتا “امی آپ روزانہ گھینٹہ بھر میری انتظار میں گھر کے باہر کھڑے ہو کر تھکتی ہیں ۔ آپ آرام کیا کیجئے کہ آپ کا بیٹا تو دفتر سے سیدھا گھر آتا ہے” ۔ تو نظر ملائے بغیر کہتیں “میں تو ویسے ہی باہر نکلی تھی ۔ تم کیوں پریشان ہوتے ہو ؟” میری بیوی کو بھی میرے بچے کہتے رہتے ہیں “امی ۔ آپ ایسے نہ کیا کریں ۔ جب بھی ہم گھر سے باہر ہوں تو آپ پریشان ہو جاتی ہیں” ۔ زکریا بھی ٹیلفون پر یہی کہتا رہتا ہے ۔
ذرا اندازہ لگائیے اس ماں کے دل کا حال کیا ہو گا جس کا واحد لختِ جگر یوں غائب کر دیا جائے کہ اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ مر گیا ہے یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے تو اس کا کیا حال ہے ۔