جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا

انشاء اللہ العزيز

ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن

ہم کيا چاہتے ہيں ؟ * * * آزادی آزادی آزادی * * *

ثاقب سعود صاحب نے 23 اگست 2005 عيسوی کو ميرے انگريزی کے بلاگ حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے [پُرانا نام منافقت] پر يہ سوال کيا تھا ۔ مجھے یہ بتائیں کے اب تک کشمیر آزاد کیوں نہیں ہوا؟ آزادی حاصل کر نے کے لیے ہر طرح کی چیزیں تو میّسر ہیں۔ مثلا افراد،بیرونی امداد،اسلحہ،چھپنے کے لیے جگہ ۔ چیچنیا اور عراق والے تو ان سب کے بغیر بھی لڑ رھے ہیں۔

ميرا جواب تھا ۔ کاش ایسا ہوتا جیسا آپ نے لکھا ہے ۔ آپ نے سنا ہو گا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔ کچھ دن صبر کیجئے میں اس کے متعلق بھی انشاء اللہ لکھوں گا

گردشِ دوراں نے ذہن کو کچھ ايسا اُلجھائے رکھا کہ ڈيڑھ سال گذر گيا ۔ اس عرصہ ميں کئی بار لکھنا چاہا ليکن ذہن نے ساتھ نہ ديا ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ آج مجھے توفيق بخشی ۔ ميں جموں کشمير کی تحريکِ آزادی کی تفصيل اسی بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔ يہاں مختصر طور پر ثاقب سعود صاحب کے سوال کا جواب دينے کی کوشش کرتا ہوں ۔

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے ۔

جمعہ 24 اکتوبر 1947 جب داعيانِ اسلام حج کی سعادت سے بہراور ہو رہے تھے جموں کشمیر کے مسلمان شہريوں نے جامِ شہادت نوش کرنے کا تہيّہ کر کے جہاد کا اعلان کر دیا ۔ ان لوگوں ميں زیادہ تر کے پاس پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں اور کچھ کے پاس المعروف تھری ناٹ تھری اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ مجاہدين کا مقابلہ شروع میں مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر دو ہفتے کے اندر ہی بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں گِلگِت ۔ بَلتِستان ۔ مُظفرآباد ۔ مِیرپور ۔ کوٹلی اور بھِمبَر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے کچھ لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے پہنچ گئے ۔ کچھ پاکستانی شہری اور فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے تقسيمِ ہند کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ دراصل اس کی وفاداری بھارت کے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بيٹن کے ساتھ تھی ۔

بھارت کا واويلا

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی اور يقين دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

This entry was posted in تاریخ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

6 thoughts on “جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟

  1. My Name

    پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔

    Ajmal sahib is baat ka aap kay pass kia suboot hai?

  2. MeAgain

    پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔

    Ajmal sahib is baat ka aap kay pass kia suboot hai?

  3. اجمل

    My Name / Me Again
    اول ۔ آپ کون ہيں ؟ بے نام کو کسی بات کا جواب دينا معقول نہيں
    دوم ۔ آپ کے پاس مجھے جھُٹلانے کی کوشش کا کيا جواز ہے ؟
    سوم ۔ ہر بات کا دستاويزی ثبوت نہ تو کوئی اپنے پاس رکھتا ہے اور نہ تحرير ميں پيش کرتا ہے ۔
    چہارم ۔ تحرير مصنّف کے مطالعہ اور مشاہدہ پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ قاری کے ۔
    پنجم ۔ دو بار ايک ہی بات لکھنا آپ کی جذباتی کيفيت کا غمازی ہے ۔

  4. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
    واقعی آپ کی تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اللہ تعالی آپ کواور ترقی دے اورکشمیر کوآزادی نصیب ہو(آمیں ثم آمین
    والسلام
    جاویداقبال

  5. Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اہلیانِ جموں کشمیر کی پُکار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.