Monthly Archives: September 2006

کيا روزے اسی لئے ہيں ؟

رمضان کا مبارک مہينہ شروع ہوا ۔ اسلامی جمہوريہ پاکستان کی حکومت نے سَستے بازار قائم کرديئے ۔ حکمرانوں کے بيانوں سے اخبار لہلہا اُٹھے ۔ ہم ايک سَستے بازار ميں سودا لينے گئے ۔ پياز 15 روپے کلو اور آلو 25 روپے کلو جو چند دن پہلے علی الترتيب 9 روپے اور 23 روپے کلو لائے تھے ۔ باقی سبزی پھل سب کا يہی حال تھا ايک آدھ چيز پچھلے بھاؤ پر تھی کم پر کوئی نہ تھی ۔ مرتا کيا نہ کرتا سودا خريدنا شروع کيا ۔

ايک پياز والے کے پاس موٹے موٹے پياز تھے اُسے کہا ڈھائی کلو دے ديجئے اُس نے بالکل نيچے سے اس طرح پياز ڈالے کہ سارے بالکل چھوٹے چھوٹے چھوٹے پياز ترازو ميں آئے ۔ اُس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی پوچھا کہ آپ داڑھی رکھنے کا سبب بتائيے گا ۔ جواب ديا کہ سُنّت ہے ۔ ميں نے کہا کيا داڑھی رکھنے کے بعد اجازت ہو جاتی ہے کہ جو ہيراپھيری چاہو کرو ؟ تو منہ بنا ليا ۔ آلو والے نے موٹے موٹے آلو تول کر دے ديئے ۔ کھجور والے سے کہا کہ سب کھجوروں کو تيل لگا ہوا ہے ؟ اشارہ کر کے بولا کہ ان کو تيل نہيں لگا ہوا ۔ ديکھنے ميں موٹی اور تازہ تھيں ۔ بھاؤ پوچھا ۔ 75 روپے کلو ۔ ايک کلو لے ليں ۔ آگے بڑھے تو ڈبے ميں بند کھجوريں بِک رہی تھيں ۔ دوکاندار نے ڈبے کا ڈھکنا اُتار کر دکھايا موٹی موٹی ايرانی کھجوريں تھيں ۔ ايک ڈبہ لے ليا ساٹھ روپے کا ۔ وزن آدھا کلو تھا ۔ امرود والے کے پاس گئے اور درخواست کی کہ بھائی پيسے اپنی مرضی کے لے لينا مگر خراب امرود نہ ڈالنا ۔ کچھ روپے زيادہ لئے اور چُن کے امرود تھيلے ميں ڈال کر دے ديئے ۔ ہم خوش خوش گھر آئے کہ سودا اچھا مل گيا ۔

ملازمہ نے آلو کاٹے تو ڈھائی ميں سے ايک کلو خراب نکلے ۔ تھيلے سے امرود نکالے تو آدھے امرود گلے ہوئے تھے ۔ افطار کے وقت جو کھجوريں کھُلی تھيں وہ ليں تو ہاتھ کو تيل لگ گيا جيسا کبھی کبھی اپنی پرانی گاڑی سے لگ جاتا ہے ۔ تجربہ کيلئے چند کھجوريں دھوئيں تو ايسے محسوس ہوا کہ پانی ميں بھيگے رہنے کی وجہ سے گَل کر پھُول چُکی ہيں ۔ چاروناچار کھجوروں کا ڈبہ کھولا ۔ جب کھجوريں پليٹ ميں ڈاليں تو آنکھوں پر يقين نہ آيا ۔ اُوپر کی تہہ ايرانی کھجوريں دوسری تہہ سوکھی کھجوريں اور سب سے نيچے کی تہہ شيرہ ميں بھِگوئے ہوئے چھوہارے تھے ۔

ذرا ديکھئے سُورت الْبَقَرَہ کی آيت 183 ميں يہی لکھا ہے کيا ؟
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ

پھر کہتے ہيں اسلام ہميں ترقی نہيں کرنے ديتا ۔ چودہ صدياں پرانا ہے ۔

يا مالک و خالق ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق دے

اُردو کا حشر نشر

کسی زبان کی ترقی کيلئے پُر مغز اور محنتی زبان دانوں کی ضرورت سے انکار نہيں کيا جا سکتا ۔ بّرِ صغير ميں ايسی ہستياں ايک ايک کر کے مُلکِ عدم کو سدھاريں اور اُردو يتيم ہو کر رہ گئی ۔ دہی مذکر ہے يا مؤنث ۔ اس پر بحث تو 1945 عيسوی ميں شروع ہو گئی تھی ۔ دہلی والے دہی کو مؤنث اور دوسرے مذکر کہتے ۔  اُميد تھی کہ آزادی کے بعد اُردو پروان چڑھنے لگے گی ليکن 1947 کے بعد بھارت نے سنسکرت جس سے خود ہندو نابلد تھے عام کرنے کی سعی شروع کر دی اور پاکستان ميں لياقت علی خان کے قتل کے بعد عنانِ حکومت انگريز کے پِٹھوؤں کے ہاتھ آگيا اور وہ اُردو کو ثانوی حثيت دے کر انگريزی سے محبت کو اُجاگر کرنے لگے کہ شائد گورا مرغوب ہو کر نذر نياز کرنے لگے ۔

پاکستان بننے کے بعد يہ سوال بھی پيدا ہوا کہ اُردو مذکر ہے يا مؤنث ۔ اُردو زبان يا بولی ہے ۔ زبان اور بولی دونوں مؤنث ہيں اسلئے اُردو کو ہونا تو مؤنث چاہيئے ۔ خير ۔ يہ پُرانی بات ہے ۔

آجکل بالخصوص جوان طبقہ ميں اس طرح کی اُردو سننے ميں آتی ہے ۔ 

نَٹ [not] يار ۔ ايسا تو نہيں بولو ۔
تُو پھر مجھے ملنے ضرور آئِيں ۔
اوہ يار ايمان سے وَٹ شُڈ آئی ٹَيل يُو [what should I tell you] ۔ ۔ ہے نا فنٹاسٹک [fantastic] ؟
تُم آنا شام کو دھَين وِی گو [then we go] نا ۔ ٹھيک ؟

فارسی کا مصدر ہے آمدَن جس کا مطلب ہے آنا ۔ اس سے بنا آمدَيد يعنی آپ آئے ۔ اس سے بنا خُوش آمدَيد ۔ مگر ہوتے ہوتے يہ بن گيا خُوش آمدِيد ۔ يعنی درميانی د پر زبر کی بجائے نيچے زير آ گئی ۔ 

فارسی کا مصدر ہےنوشيِدَن جس کا مطلب ہے پِينا ۔ اس سے بنا نَوش يعنی پينے کا فعل ۔ کسی کو مشروب پيش کيا جائے تو کہا جاتا تھا نوش فرمائيے اور اگر کھانے کی چيز پيش کی جائے تو کہا جاتا تھا تناول فرمائيے ۔ اب اتنے الفاظ کا بوجھ کون اُٹھائے ۔ عام ديکھا ہے کہ کھانے کی اشياء پيش کر کے کہا جا تا ہے نوش فرمائيے ۔

ميز جو انگريزی ميں ٹيبل [table] ہوتی ہے سے بنا ميزبان جو انگريزی ميں ہَوسٹ [host] ہوتا ہے ليکن نمعلوم کيسے يہ مِيزبان بن گيا يعنی م پر زبر کی بجائے نيچے زير بن گئی جبکہ ميز ابھی مِيز نہيں بنی ۔

عربی زبان ميں دوسرے کو ثانی اور دوسری کو ثانيہ کہتے ہيں مگر ث کو ت بولتے ہيں ۔ کسی نے تانيہ سُنا جو کہ دراصل ثانيہ تھا اور اپنی بيٹی کا نام تانيہ رکھ ديا ۔

مصر ميں ق کو آف اور ج کو گِيم بولا جاتا ہے چنانچہ ہند و پاکستان ميں جن لڑکيوں يا خواتين کا نام ادريہ ہے دراصل وہ عربی کا نام قدريہ اور اسی طرح گيلانی دراصل جيلانی ہی ہے ۔

ميرے بڑے بيٹے کا نام ہے زَکَرِيَّا ۔ اس نام کے ايک نبی ہوئے ہيں جو حضرت مريم کے ماموں يا خالو تھے ۔ 40 سال سے زائد پہلے ميرے ماتحت ايک فورمين تھے وہ اپنا نام ذِکرِيہ لکھتے اور اِسی طرح بولتے ۔ جب 1985عيسوی ميں ميری تبديلی بطور جنرل مينجر ايم آئی ايس ہوئی تو محکمہ ميں ايک ڈاٹا اينٹری آپريٹر تھے وہ اپنا نام ذِکرِيا لکھتے تھے ۔ ميرے چھوٹے بيٹے کی شادی ہوئی تو کراچی ميں نکاح رجسٹرار صاحب نے ميرے بيٹے کا نام بطور گواہ ذِکريا ذال سے لکھا ۔ ميں نےکہا کہ زے سے لکھيئے تو فرمانے لگے ۔ يہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ آپ نہيں جانتے ۔ اب اُنہيں کون سمجھاتا کہ حضور قرآن شريف کھول کر سورت مريم پڑھيئے اُس ميں زَکَرِيَّا  زے سے لکھا ہوا ہے اور يہ عربی زبان کا نہيں بلکہ کسی قديم زبان کا لفظ ہے جو قرآن شريف ميں زَکَرِيَّا لکھا گيا ہے ۔ شائد نيم مُلا خطرہءِ اِيمان اِسی لئے کہتے ہيں

رمضان مبارک

 

تمام اہلِ پاکستان اور ساری دنيا کے اہل اسلام کو نزولِ قرآن کے مہينہ رمضان المبارک کی رحمتیں و برکتیں مبارک ہوں ۔ اللہ ہم سب کی عبادات و دعاؤں کو قبول فرمائے اور رمضان المبارک کی رحمتیں و برکتیں سمیٹنے کی توفیق دے ۔ آمین

بيوی بندوق کی گوليوں ۔ ۔ ۔

دن بھر کا تھکا ہارا مرد گھر لوٹا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی دير کيوں لگا دی ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں چلے گئے تھے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کے پاس چلے گئے تھے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ يا گھر ميں آٹا نہيں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دال نہيں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچے کو بُخار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغيرہ وغيرہ ۔

ذرا سوچئے تو اگر اسی طرح روزانہ بيوی بندوق کی گوليوں کی طرح برستی رہے تو اس کا نتيجہ کيا ہو گا ؟

یہ بھی حقيقت ہے کہ مرد سارا سارا دن دوستوں کے ساتھ گھومتے اور قہقنے لگاتے رہتے ہيں ۔ کسی نے چوکڑی جما کر تاش کھيلتے آدھی رات گذار دی تو کوئی کلب ميں بيٹھ کر تکّے کباب اُڑاتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مکمل صورتِ حال جاننے کيلئے پڑھئے ہمارے معاشرہ کا ايک نفسياتی جائزہ اُوپر رشتہءِ اِزدواج پر کلِک کر کے ۔

احوالِ او ۔ آر

1986عيسوی میں آپريشنز ريسرچ و کوانٹی ٹيٹِو ٹَيکنِيکس کورس [Operations Research and Quantitative Techniques Course] کيا ۔ اُن دنوں ميں پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں جنرل مينجر مَينجمنٹ انفارميشن سِسٹمز [General Manager, Management Information Systems] تھا ۔ کورس ميں سرکاری اور غيرسرکاری اداروں کے دو درجن سے زائد سينئر افسران نے شموليت کی ۔ ڈائريکٹر جنرل ٹريننگ نے پہلے دن فيکلٹی اور کورس کے تعارف کے علاوہ انتخابات منعقد کئے ۔ مندرجہ ذيل اساميوں پر انتخاب ہوا ۔ مُنتخب لوگ متعلقہ کاموں کے ذمہ دار تھے ۔ فادر آف نيشن کا انتخاب ووٹوں سے نہيں ہوا ۔ اُسےسب سے زيادہ عمر کی بنياد پر چُنا گيا ۔ باقی سب کيلئے باقاعدہ ووٹِنگ ہوئی ۔

فادر آف نيشن ۔ Father of Nation
ماسٹر آف پروٹوکال ۔  Master of Protocol
ماسٹر آف کامن سروسز ۔ Master of Common Services
ماسٹر آف سَیرِیمَونِیز ۔ Master of Ceremonies
ماسٹرآف سوشل سروسMaster of Social Service
ماسٹر آف پريئرز ۔  Master of Prayers 

فادر آف نيشن کا کام اُس وقت شروع ہوتا جب کسی چيز کا فيصلہ کرنے ميں دقت ہو رہی ہو ۔ ماسٹر آف پروٹوکال تمام ماسٹرز کا ماسٹر تھا يعنی سب کاموں کی ذمہ داری اُس پر تھی ۔ ڈائريکٹر جنرل اے يو خان صاحب معمولی سی بات پر لمبی تقرير کر ديتے تھے ۔ کورس بہت سخت تھا ۔ اس طرح وقت ضائع ہونے پر آدھی رات تک بيٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا ۔ ايک دن ميں نے کورس ميں حصہ لينے والے دس لوگوں کی لکھی ہوئی رپورٹس کی تصحيح کر کے پھر اُن پر مُشتمل ايک جامع رپوٹ لکھ کر دوسرے دن جمع کرانا تھی ۔ ڈائريکٹر جنرل صاحب کی تقرير ختم ہوتے شام ہو گئی اور ميں کامنہ کر سکا ۔ ميرا مغز خراب ہو چکا تھا سو ميں گھر چلا گيا ۔ رات کو کافی دير تک کام کيا ۔ صبح کلاسز 8 بجے شروع ہوتی تھيں چنانچہ دوسرے دن ميں صبح 6 بجے انسٹيٹيوٹ پہنچ گيا ۔ اللہ کے فضل سے ڈيڑھ گھينٹہ ميں رپورٹ تيار ہو گئی ۔ باقی 30 منٹ گذارنے کيلئے ميں حسبِ حال نظم لکھ دی جو اُسی دن چائے کے وقفے ميں پڑھی گئی ۔ رديف قافيہ اور وزن کا خيال نہ کيجئے گا ۔ ميں شاعر نہيں ہوں ۔ چھ سات ہفتے قبل يہ نظم کی تلاش کی مگر نہ ملی ۔ اب اس کے علاوہ کچھ اور پُرانے نُسخے بھی ملے ہيں جو انشاء اللہ ايک ايک کر کے نذرِ قارئين کئے جائيں گے ۔

احوالِ اَو ۔ آر

تھا آرام سے بيٹھا ايم آئی ايس ميں
يونہی ياں اَو آر پڑھنے بُلايا گيا ہوں
پھر ساتھيوں کی خُفيہ سازش سے
ماسٹر آف پروٹوکال بنايا گيا ہوں
مزيد فادر آف نيشن کی وساطت سے
بزورسوشل سروس پہ لگايا گيا ہوں
جب کبھی جی چاہا محنت کرنے کو
لمبی تقريروں سے ٹرخايا گيا ہوں
سُنائی بات شگفتگی ماحول کی خاطر
بسيارگو کے ليبل سے ڈرايا گيا ہوں
واہ بادشاہی ماسٹر آف کامن سروسز کی
دال چاول بلا ناغہ کھلايا گيا ہوں
کبھی کھلا کے جی ۔ 9 کے چپّل کباب
ميں آدھی رات تک جگايا گيا ہوں
اور جب کچھ بھی نہ بن پڑی يارو
پاپ کارن دے کے بہلايا گيا ہوں
جانے يہ کِس جُرم کی ہے پاداش
اے يو خان کے پاس لايا گيا ہوں
لے لو قسم ماسٹر آف سَيرِيمَنِيز کی
ايسی جگہ پہ کبھی نہ آيا گيا ہوں
ماسٹر آف پريئرز ميرے لئے ذرا کرنا دُعا
چلا جاؤں واپس جيسا کہ بھجوايا گيا ہوں

عوامی بہبود کاری

ہماری حکومت عوامی بہبود کے بُلند بانگ دعوے اور وعدے کرتی ہے مگر عوامی بہبود کا کوئی کام نہيں کرتی ۔ البتہ اگر کوئی قرضہ دينے والا ادارہ عوامی بہبود کی شرط عائد کر دے تو جو عوامی بہبود کے پراجيکٹ کا حال ہوتا ہے وہ ان چھ خاکوں ميں واضح کيا گيا ہے ۔





قائد اعظم اور ہم

آج کے دن 58 سال قبل ہماری قوم کے مُحسن اور معمار اِس دارِ فانی کو خيرباد کہہ کر مُلکِ عدم کو روانہ ہوئے ۔ اِس دن کو منانے کا صحيح طريقہ يہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کر کے مرحوم کيلئے دُعائے مغفرت کريں اور اُن کے اقوال پر عمل کريں ۔ پچھلے چند سال سے دين اسلام کو دقيانوسی سمجھنے والے ہر طرح سے ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہيں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی نہيں بلکہ بے دين رياست بنايا تھا ۔ موجودہ حکومت بھی اپنے پالنہاروں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان ميں تعليم کو بھی بے دين بنانا چاہتے ہيں اور اصل ضروريات کو پسِ پُشت ڈالا ہوا ہے ۔ نيچے قائد اعظم کے ايک پيغام کے کچھ اقتباسات درج کر رہا ہوں جو اُنہوں نے 27 نومبر 1947 کو کراچی ميں منعقد ہونے والی کُل پاکستان تعليمی کانفرنس کو ديا تھا ۔

Under foreign rule for over a century, in the very nature of things, I regret, sufficient attention has not been paid to the education of our people, and if we are to make any real, speedy and substantial progress, we must earnestly tackle this question and bring our educational policy and program on the lines suited to the genius of our people, consonant with our history and culture, and having regard to the modern conditions and vast developments that have taken place all over the world.

Education does not merely mean academic education, and even that appears to be of a very poor type. What we have to do is to mobilize our people and build up the character of our future generations. There is immediate and urgent need for training our people in the scientific and technical education in order to build up future economic life, and we should see that our people undertake scientific commerce, trade and particularly, well-planned industries. Also I must emphasize that greater attention should be paid to technical and vocational education.

In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honor, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honor to Pakistan