Monthly Archives: May 2006

مزيد بابت خُدا حافظ اور عربی کا قصور ؟

سيّدہ مہر افشاں صاحبہ نے ميری تحرير پر تبصرا کرتے ہوئے لکھا “- – ليکن ايک بات ميری سمجھ ميں نہيں آتی جو اللہ حافظ کہنا چاہتے ہيں اُن پر اِتنی تنقيد اور جو خُدا حافظ کہنے کيلئے صفحوں پر صفحے سياہ کئے جاتے ہيں کيا وہ شدّت پسندی ميں مُبتِلا نہيں ہيں ؟ جب يہ طے ہو گيا کہ جس کو جو اچھا لگے وہ وہی کہے تو احمد بشير ۔ انتظار حسين اور دوسرے اُن جيسی سوچ رکھنے والوں کو کيا کہا جائے ۔ ۔ ۔ ؟ “

احمد بشير اور اِنتظار حسين صاحبان کے مضامين جن پر مہر افشاں صاحبہ نے رائے طلب کی ہے ميں نے اپنے بڑے بيٹے زَکَرِيّا کی تحرير پر سپاہی صاحب [sepoy] کے تبصرہ کے حوالہ سے پڑھے تھے ۔ ميں ايسے لوگوں کو بُرا نہيں کہتا کيونکہ اوّل تو يہ فرض اللہ نے مجھے تفويض نہيں کيا۔ دوم ۔ اگر ايسے لوگ نہ ہوتے تو ميرے دِل ميں عِلمِ دين کی جُستجُو کيسے پيدہ ہوتی؟ سوم ۔ اُنہيں بُرا کہنے سے اُن کا تو کُچھ نہيں بگڑے گا البتہ ميری زبان مَيلی ہو گی ۔

احمد بشير صاحب نے اللہ حافظ کہنے کی مُخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ اُنہوں نے پاکستان ۔ برطانيہ ۔ متحدہ عرب امارات اور امريکہ کے کئی شہروں ميں بہت سے احباب سے ٹيلفون پر بات کی اور سب نے کلام کے اختتام پر اللہ حافظ کہا ۔ ثقافت اور رسم و رواج کے حامی جمہوريت کے دِلدادہ بھی ہوتے ہيں مگر سو فيصد جمہور کا فيصلہ احمد بشير صاحب نہ ماننے پر بضد ہيں ۔ پوٹھوہاری زبان کا ايک مقولہ ہے ” تُساں نا آکھا سِر مَتھّے اَساں نا پرنالہ اُتھے نا اُتھے” [ترجمہ: آپ کہتے تو صحيح ہيں مگر ہم وہی کريں گے جو ہم کر رہے ہے] مزيد احمد بشير صاحب فرماتے ہيں کہ “خُدا” فارسی کے لفظ “خُود” سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے “خُود بخُود پيدا ہوا “۔ سُبْحان اللہ ۔ ميں نے اپنی سابقہ تحرير ميں مثال دی تھی ” لکھے مُو سا پڑھے خود آ ” کو بنا ديا گيا “لکھے موسٰی پڑھے خُدا “۔ معلوم ہوتا ہے احمد بشير صاحب نے کہيں يہ پڑھ رکھا ہو گا ۔ ورنہ فارسی سے استنباط نہ کرتے ۔

اِنتظار حسين صاحب نے Prof Ralph Russell کی تحرير کی بنياد پر اُردو کے اعلٰی و عُمدہ ترين اداروں [مُقتدرہ قومی زبان پاکستان اور دارُالترجمہ عُثمانيہ يونيورسٹی حيدرآباد دکن بھارت] اور ان اداروں ميں کام کرنے والے عُمدہ اُردودانوں کو غلط قرار ديتے ہيں تو پھر اِنتظار حسين صاحب کے ساتھ بحث کرنے کی کون جُراءت کرے ۔ اِنتظار حسين صاحب کہتے ہيں کہ جب انگريزی سے اُردو ميں ترجمہ کرتے ہوئے عربی اور فارسی کے اُصُول اپنانا ہيں تو انہيں انگريزی ہی ميں رہنے ديا جاۓ ۔ جو شخص يہی بھول جائے کہ اُردو کے ماں باپ عربی اور فارسی ہيں اُسے کوئی کيا کہے ۔ مزيد خُدا حافظ کہنے کے متعلق احمد بشير صاحب کی تائيد ميں کہتے ہيں کہ ” خُدا ايک پاک نام ہے جسے مسلمان شعراء ۔ مفکّرِين اور عُلماء نے مذہبی احساسات اور سوچ کو جذب کر کے استعمال کيا ہے اور عام مسلمانوں کی مُجتمع سوچ بھی يہی ہے” ۔ يہ اِستدلال ميری سمجھ ميں نہيں آيا کہ سارے مذہبی احساسات اور سوچ صرف لفظ خُدا ميں کيوں کر جذب ہو کر رہ گئے اور لفظ اللہ ميں کيوں نہ ہو سکے ؟ احمد بشير اور اِنتظار حسين صاحبان کا يہ اِستدلال بھی صحيح نہيں کہ جنرل ضياءالحق کے دور ميں لوگوں نے اللہ حافظ کہنا شروع کيا ۔ کيا مارشل لاء کا کوئی حُکمنامہ تھا کہ سب اللہ حافظ کہيں ؟

حقيقت يہ ہے کہ لوگ پہلے بھی اللہ حافظ کہتے اور لکھتے تھے پھر جب 1970 عيسوی ميں پاکستان کی طِبّبی ۔ فنّی اور عسکری جماعتيں سرکاری طور پر عرب ملکوں کو لمبے دورانيوں کيلئے جانا شروع ہوئيں ۔ 1973 عيسوی سے مہنگائی اور بے روزگاری کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا گيا چنانچہ انفرادی طور پر بھی لوگوں نے عرب ممالک کا رُخ کيا جس کے باعث عربی کے کئی الفاظ اُردو ميں ضم ہوئے ۔ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام بھی عربی ميں رکھنے شروع کئے ۔ کئی لوگوں کے تلفُّظ ميں بھی تبديلی آئی ۔ اس کے علاوہ عربی کھانے بھی پاکستان ميں رائج ہوئے مثلاً فُول مدمّس ۔ شورما ۔ جُبنہ بيضاء ۔ بقلاوہ وغيرہ ۔

ميری زندگی ميں کچھ لوگوں کا اس طرح کا رويّہ پہلا واقع نہيں ۔ اللہ جلِّ شانُہُ کی کرم نوازی ہے کہ مجھے بہت سے تجربوں سے گُذارا اور ثابت قدم رکھا ۔ اِن مخالف رويّوں بلکہ تجربوں نے اپنے مالک و خالقِ حقيقی کو پہچاننے ميں ميری مدد کی ۔ ميرا سب سے کٹھن وقت وہ تھا جب 51 سال قبل ميں گارڈن کالج راولپنڈی ميں ايف ايس سی کا طالب علم تھا اور بائبل کی کلاس ميں امريکن اُستاد کے مذہبی حملہ کے سامنے سوائے ايک طالب علم [مصطفٰے صدّيقی] کے ميرے سميت مسلمان کہلانے والوں کی پوری جماعت گُنگ ہو کر رہ گئی تھی ۔ اس حادثہ کے زيرِ اثر ميں نے انجيل مکمل [زبور ۔ تورات اور انجيل] کا اچھی طرح مطالعہ کيا پھر قرآن شريف سمجھنے کے پيچھے پڑ گيا ۔ اُن دنوں راولپنڈی ميں قرآن شريف کی اُردو ميں تفسير تو کيا مُستند دينی کُتب بھی ناياب تھیں چنانچہ ميں نے اچھے عالِموں کو ڈھونڈنے اور اُن سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اس سعی ميں مجھ پر عياں ہوا کہ جو بہت سے لوگ بظاہر عالِم تھے اُن ميں حقيقی عالِم خال خال ہی تھے باقی اسلئے مسجد يا گدّی سنبھالے بيٹھے تھے کہ اُن کے بزرگوں کا يہی پيشہ انگريزوں کے وقت سے چلا آرہا تھا بہرحال کچھ عالِم مل گئے جنہوں نے ميرا قِبلہ درُست کيا ۔

اُنہی دنوں ايک ترقی پسند تحريک اُبھری جو اپنی چکاچوند کے باعث بہت جلد پھيل گئی ۔ ميں بھی اس ميں شامل ہو گيا ۔ اس کے رہبروں نے ترقی کے لبادے ميں اسلام کے بخيئے اُدھيڑنے شروع کئے تو اُن کی اصليت اُجاگر ہوئی ۔ 1956 عيسوی ميں انجنئرنگ کالج ميں داخل ہوا تو لاہور ميں مجھے کچھ مُستند دينی کُتب دستياب ہوئيں اور ميں نے انہماک کے ساتھ دين کو سمجھنا شروع کيا ۔ بعد ميں اپنی زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے کبھی اسلامی سوشلِزم کبھی ترقی پسند اسلام وغيرہ ديکھتا رہا اور اب ساڑھے چھ سال سے روشن خيال اسلام ديکھ رہا ہوں ۔

پھر نہ کہيئے کہ خبر نہ ہوئی

مجھے وسط اپريل 2006 ميں اطلاع مِل گئی تھی کہ پی ٹی اے نے بلاگسپاٹ پر سے پابندی اُٹھا دی ہے اور متعلقہ بلاگز يا ويب سائيٹس [blogs or websites] کو انفرادی طور پر بند کرنے کا عمل شروع ہے ۔ ميں بلاگسپاٹ پر سے پابندی اُٹھنے کے متعلق 7 مئی کو تحرير کرچُکا ہوں ۔ اُس سے چند دن پہلے ايک صاحب يہ خوشخبری دے چُکے تھے ۔ اُميد ہے کہ اب سب قارئين بلاگسپاٹ کے بلاگز براہِ راست کھول سکتے ہونگے ۔ اگر ابھی بھی آپ بلاگسپاٹ کے بلاگز نہ کھول سکتے ہوں تواپنے آئی ايس پی [Internet Service Provider] سے فوراً رابطہ کر کے اُسے بلاگسپاٹ پر سے پابندی اُٹھانے کا کہيئے ۔

اللہ حافظ يا خُدا حافظ ؟

ميرے بيٹے زَکَرِيَّا نے لکھا “پاکستان میں عام طور سے اللہ کے لئے خدا کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ مگر کچھ سالوں سے ایک مہم چلی ہوئی ہے کہ خدا کو اردو زبان سے نکال دیا جائے۔ کچھ مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کا لفظ استعمال کریں اور انگریزی میں گاڈ اور اردو میں خدا کہنا چھوڑ دیں۔ ادھر آپ کے منہ سے “خدا حافظ” نکلا نہیں اور ادھر یہ حضرات آپ پر حملہ‌آور ہوئے کہ “اللہ حافظ کہا کرو۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ خدا فارسی کا لفظ ہے اور اللہ عربی کا۔ پھر اللہ قرآن میں استعمال ہوا ہے”۔

زَکَرِيَّا نے آخر ميں پوچھا ہے “یہ فرق پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جب اسلام کے اصولوں کے تحت ایک ہی خدا ہے۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے کہ ہم اسے اللہ کہیں یا خدا یا God ؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ ”

چونکہ يہ صلاحِ عام کا معاملہ ہے اس لئے ميں نے اِس کی وضاحت ضروری سمجھی ۔ قارئين سے درخواست ہے کہ اگر اس سلسلہ ميں مزيد مُستند معلومات رکھتے ہوں تو مجھے مُستفيد فرمائيں ۔ شکريہ پيشگی ۔

ہمارے مُلک ميں آج سے 34 سال قبل تک سکولوں اور کالجوں ميں امتحان ميں نمبر لينے کے علاوہ طُلباء اور طالبات کو معلوماتِ عامہ اور تاريخی حقائق سے بھی روشناس کرايا جاتا تھا ۔ معلوماتِ عامہ کے امتحان بھی ہوا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ فرسٹ ايڈ ۔ رضاکارانہ خدمت اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کی تربيت دی جاتی تھی ۔ طلباء اور طالبات کو اساتذہ ہدايت کرتے تھے کہ وھ نصابی کُتب کے علاوہ ہم نصابی اور غير نصابی عُمدہ کُتب کا مطالعہ بھی کيا کريں ۔ 1972 عيسوی ميں تعليمی اصلاحات کے نام پر تعليم کا ستيا ناس شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ ترقی کے نام پر جائزوناجائز مُختصر راستے [short cut] نکال لئے گئے ۔ اب لوگ ڈِگريوں کے حامل تو بن جاتے ہيں مگر تعليم يافتہ نہيں ہو پاتے سوائے اُن چند کے جنہيں خود علم حاصل کرنے کا شوق ہو ۔ فی زمانہ ناول اور ديگر فرضی کہانياں تو بہت پڑھی جاتی ہيں مگر اور تو کُجا نصابی کُتب کو بھی مکمل طور پر پڑھنے کی بجائے Notes پڑھ لئے جاتے ہيں ۔ البتہ بوجوہ يا بلاوجہ تنقيد کا عام رواج ہے ۔ مگر حال ” خود مياں فصيحت دِيگراں را نصيحت” والا ہے ۔

اللہ کو کسی اچھے نام سے پکارنے سے منع کرنا غَلَط ہے ۔اِس سلسلہ ميں ايک واقعہ ۔ حضرت موسٰی عليہ السّلام چلے جا رہے تھے کہ اُنہوں نے سُنا ايک گڈريا کہہ رہا تھا ” ميرے پيارے اللہ اگر تو ميرے پاس آئے ۔ ميں اپنی بکری کے دودھ سے تمہارا سر دھوؤں ۔ تمہارے سر سے جوئيں نکالوں اور تمہارے بالوں ميں کنگھی کرکے مِينڈِياں بناؤں”۔ اُس اَن پڑھ گُڈريئے کيلئے سب سے اچھی بات يہی تھی ۔ حضرت موسٰی عليہ السّلام نے اُسے ناراض ہو کر منع کيا اس پر اللہ تعالٰی کیطرف سے وحی نازل ہوئی “نہ منع کر ميرے بندے کو ۔ وہ جس طرح مجھے پُکارتا ہے پُکارنے دے” ۔ سُبْحَانَ اللہ ۔

اب آتے ہيں لفظ “خُدا” کے ماخذ اور استعمال کی طرف ۔ خُدا کا مطلب آقا يا حاکم ہے ۔ اِس سے مِلتا جُلتا عربی زبان کا لفظ “مولا” ہے ۔ ايک دلچسپ واقعہ ۔ ميں اور ايک پاکستانی ساتھی طرابلس[ليبيا] کے ايک بازار ميں جارہے تھے ۔ ايک لِيبی ايک دُکان کے سامنے کھڑا بلند آواز ميں کہہ رہا تھا ” اَينَ مَولا ؟ اَينَ مَولا ؟” ميرا ساتھی استغفار پڑھنے لگ گيا ۔ ميرے پوچھنے پر کہا ” کتنا بدتميز ہے ۔ کہہ رہا ہے اللہ کہاں ہے ؟ ” دراصل وہ لِيبی کہہ رہا تھا کہ دُکان کا مالک کہاں ہے ؟

لفظ ” اِلَہ” اور اللہ قديم زمانہ سے ہيں اللہ اور اِلَہ اٰلِ ابراہيم ميں استعمال ہوتے آئے ۔ عربی زبان ميں بھی آئے اور قرآن شريف ميں لکھے گئے ۔ اِلَہ کے معنی معبود کے ہيں يعنی جس کی عبادت کی جائے ۔ اللہ اِس کی تخصيص ہے يعنی صرف ايک معبود ۔ چنانچہ اللہ صرف مالک و خالقِ حقيقی کيلئے استعمال ہوتا ہے جو ايک اور يکتا ہے ۔ اُردو سے پہلے ہندوستان ميں فارسی رائج تھی ۔ لفظ خُدا فارسی کا نہيں بلکہ قديم يونانی زبان کا لفظ ہے جو فارسی اور پھر اُردو میں مُستعمل ہوا ۔ اُردو نئی زبان تھی جو تُرکی ۔ فارسی ۔ عربی ۔ سنسکرت اور گورمُکھی کا آميزہ تھی ۔ ميں اِس وقت کوئی دستاويزی ثبوت مہيّا نہيں کر سکتا مگر ميں نے يہ سب کچھ مُستند کُتب ميں پڑھا ہوا ہے ۔ خُدا يا god دوسرے بھی ہو سکتے ہيں ۔ انگريزی ميں تو اللہ کيلئے capital G لکھ کر اللہ کيلئے God اور اُن کے دوسرے خُداؤں کيلئے god لکھ کر ان ميں فرق پيدا کر ديا گيا ليکن اُردو ميں ايسا نہيں ہے ۔

پاکستان بننے سے پہلے ہی لفظ خُدا کے کئی اور استعمال شروع ہو چکے تھے مثلاً مجازی خُدا ۔ ناخُدا ۔ کتخُدا ۔ ايک ضرب المِثل “لکھے مُو سا پڑھے خود آ ” مطلب يہ کہ بالوں کے گُچھے يعنی کاڑا باڑا لکھے تو پھر لکھنے والا خود ہی آ کر پڑھے ۔ کو بنا ديا گيا “لکھے موسٰی پڑھے خُدا “۔ پاکستان بننے کے بعد سنسکرت اور گورمُکھی کے الفاظ کی جگہ عربی کے الفاظ کو فروغ حاصل ہوا ۔ يہ کوئی سوچی سمجھی تبديلی نہ تھی بلکہ غير محسوس طور پر ہوتی چلی گئی ۔ لفظ خُدا کی نسبت اللہ کا استعمال بھی زيادہ ہوا مگر لفظ خُدا بولا جاتا رہا ۔ ايک وقت آيا کہ اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے والوں نے لفظ خُدا کا غَلَط استعمال شروع کيا اور انتہائی لَغو شاعری بھی کی گئی ۔ [ميں زيادہ لکھ کر اپنا دماغ پراگندہ نہيں کرنا چاہتا] ۔ اُن دنوں اللہ لکھنے کی تحريک اُٹھی اور کافی حد تک لوگوں نے اُسے قبول کيا ۔ ميں بچپن سے ہی “خُداحافظ” کے علاوہ زيادہ تر اللہ کہتا تھا ۔ جب پرويز مشرف کا دور شروع ہوا اور ہر طرف دين بيزار اور شُترِ بے مہار ثقافت کا دور دورہ شروع ہوا تو مُجھے گذشتہ ترقی پسند دور کی ياد آئی اور ميں نے خُدا حافظ کی جگہ بھی اللہ حافظ کہنا شروع کر ديا ۔

عربی زبان سے مسلمانوں کا لگاؤ عين فطری ہے ۔ پھر ايک زمانہ تھا آج سے 50 تا 70 سال قبل جب بہترين انگريزی ناولوں ميں عربی کے کئی الفاظ استعمال کئے گئے مثلاً اھلاً و سہلاً ۔ مرحبا ۔ معليش ۔ کتر خيرک وغيرہ ۔ عربی زبان کے لفظ دوسری زبانوں ميں بھی ہيں مثلاً تُرکی ۔ جرمن ۔ ہسپانوی ۔

يہ بات غور طلب ہے کہ اللہ سُبْحَانُہَ و تعالٰی نے فرمايا ہے کہ مجھے ميرے اچھے ناموں سے ياد کرو ۔ اللہ تعالٰی کے نام قرآن شريف ميں مرقوم ہيں ليکن لفظ “خُدا” قرآن شريف ميں مرقوم نہيں ہے حالانکہ قرآن شريف ميں کئی ايسے الفاظ ہيں جو عربی زبان کے نہيں ہيں ۔ اِس کی وجہ شائد اُن کا عام فہم ہونا ہی ہے ۔ ويسے بھی ديکھا جائے تو جو بات قرآن شريف ميں مرقوم ہے وہ افضل ہے ۔ اس لئے اللہ حافظ کہنا افضل ہے خُدا حافظ کہنے سے ۔ ليکن خُدا حافظ کہنا معيوب يا قابلِ مذمّت بالکل نہيں ۔

وما علينا الالبلاغ ۔ اللہ سُبْحَانُہَ و تعالٰی ہميں دين اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ آمين ۔

پہلی سالگرہ

آج اللہ کے فضل و کرم سے میرے بلاگ ” میں کیا ہوں – What Am I ” کو شروع کئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔ میرے اس بلاگ پر پر عام قارئین کی دلچسپی کے لئے شائد زیادہ مواد نہیں ہوتا ۔ اسی وجہ سے اس کے قارئین کی اس وقت کُل تعداد صرف 8102 ہے جو کہ اوسطاً فی یوم 22 سے زيادہ بنتی ہے ۔ جن لوگوں نے لمحہ بھر کے لئے اسے دیکھا ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ اِن اعداد و شُمار ميں اشتہار اور سپَيم وغيرہ شامل نہيں ہيں ۔ کيونکہ اُنہيں ميں نے اللہ کے فضل سے بلاک کيا ہوا ہے ۔آجکل ایک سے ایک عمدہ بلاگ موجود ہے لیکن اللہ کی مہربانی سے ابھی تک کوئی دوسرا بلاگ اس طرح مختلف مگر سنجیدہ موضوعات کا احاطہ نہیں کرتا ۔ سچ پوچھیے تو اس بلاگ کی زندگی اور اسکی ترقی قارئین کی رائے کی مرہونِ منّت ہے جنہوں نے وقتاً فوقتاً مُختلف قسم کی آرا دے کر مجھے اپنے دماغ کو کُریدنے اور زيادہ محنت کرنے پر مجبور کیا اور موضوع سے موضوع نکلتا چلا گیا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی تمام قارئین کو صحت و تندرستی اور ہمت عطا فرمائے آمین اور وہ اپنی مفید آرا سے مجھے مُستفید فرماتے رہیں ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی موجودہ قارئین کے دوست و سہیلیوں [نئے قارئین] کو بھی صحت و تندرستی اور ہمت عطا فرمائے آمین اور اُن سے درخواست ہے کہ وہ بھی اپنی مفید آرا سے مجھے مُستفید فرمائیں ۔

سال 2005کی بنياد پر ناکام رياستيں

دی فنڈ فار پيس [The Fund for Peace ] ايک نامور ادارہ ہے جو معلومات اکٹھا کرنے اور اُس کی چھانٹ پھٹک کر کے کارآمد علم حاصل کرنے کا چار دہائيوں سے زائد سالوں کا تجربہ رکھتا ہے نے دنيا کے ممالک کی کارکردگی کے متعلق اپنی دوسری رپورٹ شائع کی ہے ۔ طريقہءِ کار يہ ہے کہ مئی سے دسمبر 2005 تک کے لاکھوں مضامين بين الاقوامی اور مقامی ذرائع سے تھامسن ڈائيلاگ [Thomson DIALOG ] کے استعمال سے حاصل کئے گئے پھر کاسٹ سافٹ ويئر [CAST software] کی مدد سے ان ضخيم دستاويزات کا ابتدائی تجزيہ کيا گيا جس پر ماہرين نے نظرِثانی کی اور نتيجہ ترتيب ديا ۔

۔
مندرجہ ذيل 12 منفی عامِل [Operator] بطور علامت [Index] مقرر کئے گئے ۔ پاکستان کے ان ميںحاصل کردہ نمبر ہر ايک کے سامنے لکھے ہيں

1- Mounting Demographic Pressures – 9.3 Rank 5

2 – Massive Movement of Refugees and IDPs – 9.3 Rank 4

3 – Legacy of Vengeance – Seeking Group Grievance – 8.6 Rank 14

4 – Chronic and Sustained Human Flight – 8.1 Rank 12

5 – Uneven Economic Development along Group Lines – 8.9 Rank 11

6 – Sharp and/or Severe Economic Decline – 7.0 Rank 24

7 – Criminalization or Delegitimization of the State – 8.5 Rank

8 – Progressive Deterioration of Public Services – 7.5 Rank 21

9 – Widespread Violation of Human Rights – 8.5 Rank 13

10 – Security Apparatus as “State within a State” – 9.1 Rank 11

11 – Rise of Factionalized Elites – 9.1 Rank 9

12 – Intervention of Other States or External Actors – 9.2 Rank 9

ہر ايک عامِل کے 10 نمبر مقرر کئے ۔ اس طرح کُل نمبر 120 بنے ۔ سب سے زيادہ نمبر حاصل کرنے والے مُلک کا نام سب سے اُوپر لکھا گيا اس کے بعد بتدريج کم نمبر لينے والے مُلکوں کے نام لکھے گئے ۔ 90 يا زيادہ نمبر لينے والا مُلک ناکام رياست گردانا گيا ۔ اس طرح 2005 کی کارکردگی کی بنياد پر 28 مُلک “ناکام رياستيں” قرار ديئے گئے ۔ نيچے ان ممالک کے نام مع حاصل کردہ نمبروں کے درج ہيں سب سے زيادہ ناکام رياست سوڈان کو اور سب سے کم ناکام رياست کرغزستان قرار ديا گيا ۔ پاکستان نويں نمبر پر ہے ۔ تفصيلات کے لئے عنوان پر کلِک کيجئے ۔

Rank ۔ Country – – – – – – – – – – – – – Marks

1 – – – – Sudan – – – – – – – – – – – – – – 112.3

2 – – – – Democratic Rep of Congo – – – 110.1

3 – – – – Cote d’Ivoire – – – – – – – – – – 109.2

4 – – – – Iraq – – – – – – – – – – – – – – – 109.0

5 – – – – Zimbabwe – – – – – – – – – – – 106.9

6 – – – – Chad – – – – – – – – – – – – – – 105.9

7 – – – – Somalia – – – – – – – – – – – – – 105.9

8 – – – – Haiti – – – – – – – – – – – – – – – 104.6

9 – – – – PAKISTAN – – – – – – – – – – – 103.1

10 – – – Afghanistan – – – – – – – – – – – 99.8

11 – – – Guinea – – – – – – – – – – – – – – 99.0

12 – – – Liberia – – – – – – – – – – – – – – 99.0

13 – – – Central African Republic – – – – 97.5

14 – – – North Korea – – – – – – – – – – – 97.3

15 – – – Burundi – – – – – – – – – – – – – 96.7

16 – – – Yemen – – – – – – – – – – – – – 96.6

17 – – – Sierra Leone – – – – – – – – – – 96.6

18 – – – Burma / Mayanmar – – – – – – – 96.5

19 – – – Bangladesh – – – – – – – – – – – 96.3

20 – – – Nepal – – – – – – – – – – – – – – 95.4

21 – – – Uganda – – – – – – – – – – – – – 94.5

22 – – – Nigeria – – – – – – – – – – – – – 94.4

23 – – – Uzbekistan – – – – – – – – – – – 94.4

24 – – – Rwanda – – – – – – – – – – – – 92.9

25 – – – Sri Lanka – – – – – – – – – – – 92.4

26 – – – Ethiopia – – – – – – – – – – – – 91.9

27 – – – Colombia – – – – – – – – – – – – 91.8

28 – – – Kyrgyzstan – – – – – – – – – – – 90.3

پہلی رپورٹ جو 2005 عيسوی کے شروع ميں شائع ہوئی وہ مئی سے دسمبر 2004 پر مبنی تھی ۔ اس ميں 33 مُلک ناکام رياست قرار ديئے گئے تھے اور پاکستان 89.8 نمبروں کے ساتھ 34ويں نمبر پر آ کر بال بال بچ گيا تھا ۔ ڈيٹيلڈ مارکس شيٹ يہ ہے

Index 1 – 5, Index 2 – 5, Index 3 – 6.9 , Index 4 – 8, Index 5 – 9 , Index 6 – 3.3 , Index 7 – 9.8 , Index 8 – 7.5 , Index 9 – 8.1 , Index 10 – 9, Index 11 – 9.3 , Index 12 – 8.5