شبّیر صاحب کا “اسلام اور رسمیں” پر تبصرہ

افتخار اجمل ۔ ۔ ۔ اسلام اور رسمیں کے عنوان سے شبّیر صاحب [شیپر] نے میری 15 مارچ کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے ۔ میں اُن کا شکرگذار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اُن نقاط کی وضاحت کا موقع فراہم کیا جو تحریر کی طوالت کے ڈر سے مجھ سے تشنہ رہ گئے تھے ۔ خیال ہے کہ اگر میری مندرجہ ذیل تواریخ کی تحاریر شبّیر طاحب کی نظر سے گذری ہوتیں تو شائد میری 15 مارچ کی تحریر پراگندہ اثر نہ چھوڑتی ۔ اگر آپ بلاگ سپاٹ براہِ راست نہیں کھول سکتے تب بھی ِاس تحریر کے لِنک کلِک کرنے سے کھُل جائیں گے
مؤرخہ 8 اگست 2005
مؤرخہ 11 اگست 2005
مؤرخہ 16اگست 2005
مؤرخہ 28 اگست 2005
مؤرخہ 25 ستمبر 2005
مؤرخہ 7 اکتوبر 2005
مؤرخہ 9 مارچ 2006

سب سے پہلے میں واضح کر دوں کہ میں نے کہیں یہ تاءثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ سب ایسا کرتے ہیں ۔ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اکثریت ایسا نہیں کرتی ۔شبّیر صاحب کا یہ مفروضہ غالباً حالات سے صحیح واقفیت نہ ہونے کے باعث قائم ہوا ہے کہ پورا پاکستان میلاد النّبی کاجلوس یا محفلِ میلاد کرتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ جلوس میں زیادہ تر نوجوان اور وہ حضرات شرکت کرتے ہیں جو دین سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ۔ ان نوجوانوں کو جوں جوں دینی علم حاصل ہوتا ہے وہ پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حُبِ رسول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم میں محبوب کے معبُود کے احکام اور محبوب کے قول و فعل کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے اسواءِ حسنہ اور اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُسکے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی شان بیان کرنا نہ صرف مُستحب بلکہ عبادت ہے ۔ پھر کیوں نہیں ہم اِس فعل کےلئے ہر ماہ یا ہر ہفتے مجالس کرتے جس سے میرے جیسے کم عِلم لوگوں کو دین سے آگاہی حاصل ہو ۔ بجائے اسکے کہ ہم رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے پاک نام سے منسوب کر کے ایسی محفلیں لگائیں جن میں ہم اُنہی کی تعلیمات کے خلاف کام کریں

محفلِ میلاد شائد کسی زمانہ میں عام لوگوں تک رسُول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی حیاتِ مبارکہ کے متعلق آگاہی کے لئے شروع کی گئی ہوگی مگر ہمارے انحطاط کے ساتھ ساتھ وہ ایک رواج اور فیشن زیادہ اور حیاتِ طیّبہ کا سبق بہت کم رہ گئی ۔ اب ان محفلوں میں وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُس کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی ہدایات کی خلاف ورزئی کے ذُمرے میں آتی ہیں ۔
واللہ اعلم بالصّواب ۔

جہاں تک فرقہ واریت کا تعلق ہے وہ کم عِلم مُلّاؤں [سب مُلّا نہیں] اور رسم پرستوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہیں اور اُن لوگوں کی پیداوار ہے جنہوں نے قرآن شریف اور احادیث مبارکہ پر عمل کئے بغیر جنّت میں جانے کے [غللط] شارٹ کَٹ وُضح کر لئے ہیں ۔

شبّیر صاحب نے پوچھا ہے “کیا مُردوں پر فاتحہ پڑھنا اور ان کی نذر دلوانہ بھی غیر اسلامی ہیں ؟”

” اُن کی نذر دِلوانہ” وضاحت طلب ہے ۔ میں عالمِ دین نہیں ہوں بہرحال میں نے جو پڑھا ہے اُس کے مطابق مرجانے والوں کےلئے دعائے مغفرت کرنا [جسے عام طور پر فاتحہ کہا جاتا ہے] یا اللہ کے نام پر خیرات کرنا ایک اچھا عمل ہے اور ایسا بلا قیدِ تاریخ یا دِن کرتے رہنا چاہیئے ۔ یہ عمل کسی کی صحتیابی یا کامیابی یا ویسے ہی کسی مسلمان [خاص کر اپنے رشتہ دار یا دوست ] کےلئےکیا جائے تو بھی ٹھیک ہے ۔ اگر کھانا پکا کر یا کھانے کی کوئی چییز محلہ داروں ۔ رشتہ داروں اور غریبوں میں بانٹ دی جائے تو اُس میں بھی کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کوئی تخصیص نہ کی جائے ۔گڑبڑ اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے نام کی بجائے خیرات [یا نذر نیاز} کو کسی اور زندہ یا مردہ کے نام کر سے منسوب کیا جائے ۔

محسوس ہوتا ہے کہ شبّیر صاحب کو پاکستان سے گئے کافی عرصہ ہو گیا ہے ۔ ہمارے مُلک میں نقّالی اِتنی بڑھ چکی ہے کہ قرضہ اُٹھانا منظور ہے مگر بلند معیار کے اِظہار کے لئے شادی کا بندوبست 4 یا 5 سٹار ہوٹل میں ۔ ویسے میں نے 4 یا 5 سٹار ہوٹل اصطلاحی طور پر لکھا تھا ۔ لوگ ویڈنگ ہال میں یا گھر پر بھی شادی کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں ۔ اِس سلسلہ میں شبّیر صاحب نے میرے بڑے بیٹے زکَرِیّا کی تحریر کا حوالہ دیا ہے لیکن شائد اُن کی نظر اِس حصّہ پر نہیں پڑی ۔” ایک فاسٹ فوڈ ریستوران میں گیا تو دو لوگوں کو دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی۔ ایک تو کوئی میری عمر کا جوڑا تھا۔ لباس وغیرہ سے کچھ غریب لگتا تھا۔ خاتون نے چادر لی ہوئی تھی اور اسی کو نقاب کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ وہ مزے سے ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس ریستوران میں شاید ایسے لوگ نظر نہ آتے۔ دوسرے دو سکول کے لڑکے تھے۔ انہوں نے جیسے بستے لٹکائے تھے اور جیسا لباس پہن رکھا تھا بالکل ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں اندرون شہر سے ہیں۔ یہ شاید rap کا اثر تھا ”

شبّیر صاحب اور دیگر سب قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ ” زَکَرِیّا ” صحیح ہے ۔ یہ نام قرآن شریف میں موجود ہے ۔ ” ذکریا اور ذکریہ” غَلَط ہیں ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “شبّیر صاحب کا “اسلام اور رسمیں” پر تبصرہ

  1. SHAPER

    اجمل صاحب ! بات واضع کرنے کا بہت بہت شکریہ۔

    میری اس تحریر کا مقصد آپ کو غلط کرنا یا کچھ اور نہیں تھا۔۔۔ لیکن جب سے میں نے آپ کی تحریر پڑھی تھی ۔ میرے دماغ میں ایک ہلچل سی تھی ۔ شاید مذہب کے بارے میں بات میں صرف بلاگ پر کرتا ہوں نارتھ امریکہ میں مذہب کے بارے میں لوگ اوپنلی بات نہیں کرتے ۔۔ میں پاکستان دو سال پہلے سترہ دن کے لیے گیا تھا ۔۔ کافی انجوائے کیا تھا پر میں ذکریا بھائی کی بات سے پورا اتفاق کرتا ہوں کہ لوگ مذہب کے بارے میں بات کرنے کو بہت اچھا سمجھتے ہیں اس چیز کی پروا کیے بغیر کہ وہ ٹھیک ہیں کہ نہیں۔ آپ دوستوں میں ہوں ، رشتےداروں میں یا اگر آپ ٹی وی بھی دیکھ رہے ہیں تو اسلام بھی ڈسکس بڑے بھونڈے انداز سے ہوتا ہے ۔۔ میری نہ داڑھی ہے ۔۔ نہ میں نماز پابندی سے پڑھتا ہوں ۔۔۔ اور میں شرٹ اور پینٹ ہی پہنتا ہوں تو کیا میں ایک مسلمان نہیں ۔۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ نہ میرے دل میں کسی کے لیے بغص ہے اور نہ میں جھوٹ بولتا ہوں ۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان میں ایک اچھا آدمی بننے کے لیے ظاہری بناوٹ ضروری ہے ۔۔۔ یا ہم مذہب کہ معملے میں بناوٹی ہو گئے ہیں ۔۔۔

    ہمارے معاشرے میں جو شخص جتنا زیادہ سادہ اور اسلام کے معاملے میں بناوٹی ہوتا ہے لوگ اس کی اتنی ہی زیادہ عزت کرتے ہیں ارو اس پر اعتیبار کرتے ہیں ۔۔ اس کی ایک سادہ سی مثال خریداری ہے ۔۔ زیادہ تر سیلزمیں داڑھی والے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت زیادہ مذہبی ظاہر کرتے ہیں اور اتنی صفائی اعتیماد سے جھوٹ بولتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

    محفل ملاد گھروں میں بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ہم یہاں ٹورنٹو میں بھی کرتے ہیں ارو صرف پاکستانی ہی نہیں عربی بھی محفل ملاد کرتے ہیں ۔۔۔ ارو کئی مسلمان تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی بھیجنے کو غلط کہتے ہیں ۔۔۔

    بات سے بات نکلتی چلی جائے گی ۔۔ اگر آپ کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت قبول کرلیے گا

  2. اجمل

    شبّیر صاحب
    شائد زکریا کی پوسٹ پر میرا تبصرہ آپ نے نہیں پڑھا ۔ یہ احساس مجھے اُس وقت ہوا جب تیرہ سال قبل ہم سات سال کے بعد وطن واپس آئے۔ دراصل ہمارے ہاں ہر چیز ایک فیشن کے طور پر اپنائی جاتی ہے اور اُس کا اظہار خصوصاً باہر سے آنے والوں سے ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ آپ نے پتلون کی بات کی ہے ۔ اب تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا بیس سال پہلے کچھ لوگ کرتے تھے ۔ دھاڑی رکھنے سے کوئی مسلمان نہیں بنتا نیک اعمال اور اللہ اور اس کے رسولوں پر یقین اور انکی اطاعت سے بنتا ہے ۔ مجھے محفلِ میلاد پر نہیں جو کچہ خلافِ دین اس میں کیا جاتا ہے اس پر اعتراض ہے ۔ رسول اللہ پر درود بھیجنا تو اللہ کا حکم ہے ۔ ویسے کچھ لوگ یہ فرض بھی بدعت بنا دیتے ہیں ۔ معذرت کی کوئی وجہ نہیں ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ جتنی وضاحت مجھ سے ہو سکے کروں ۔

  3. Mehar afshan

    Main rafta rafta aap sab kay post perh rahi hoon or bay had khosh hoon kay humkhayal logon ki itni tadad kay khyalat jannay ka moqa mila, kal raat dair tak beth ker mainay aap ki is mozo per tamam post perheen yaqeen janiay dil itna khosh howa kay bayaan say bahir hay bohat umda or jamay thahreerain hain,agar hum isi tarah ilm ko phelatay rahay to yeh chotay chotay daairay aik bara samander ban jaain gay inshaAllah,yeh sach hay kay milaad or quran khowani bidat hain or darse Quran sunnate Rasool hay to zahir hay kay hamain sunnat ko pakarna hay,or yeh bidaat Arab say hi shro hoi theen sirf yahi naheen mazar banana or un per manatain mangna charhaway cherhana bhi or hum naam kay musalman log yeh dekh ker kay arab main hota hay khod bhi shro ho gaay phir Allah Abdullah bin Wahab per apni rahmatain nazil karay unhoonay in kay khilaf jihad kia or hukumranon nay bhi sath dia to yahan yeh sab khatam howa,

  4. اجمل

    مہر افشاں صاحبہ

    آپ کا بہت شکریہ و جزاک اللہِ خیرٌ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا
    مُجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.