Monthly Archives: March 2006

جُرم و سزا

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔ ترجمہ : تیری ذات [ہر نقص سے] پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی [سب کچھ] جاننے والا حکمت والا ہے

یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ملک میں گھناؤنا جُرم ہوتا ہے تو کبھی کبھار اخبارات تک پہنچتا ہے اور اِس پر بھی کچھ دِن غُل غپاڑہ ہوتا ہے پھر معاملہ پسِ منظر چلا جاتا ہے ۔ میر والا ملتان کی مختاراں مائی ۔ سُوئی بلوچِستان کی ڈاکٹر شازیہ ۔ فیصل آباد کی سونیہ ناز اور چک شہزاد اسلام باد کی نازش ۔ [آخری دو کی عزّت قانون کے محافظوں نے اغواء کر کے لوٹی] ۔ ان کے متعلق اخبارات نے عوام کو مطلع کیا ۔ کچھ روز کے لئے فضا میں ارتعاش پیدا ہوا پھر حسبِ معمول خاموشی جیسے ایک مووی فلم تھی جو ختم ہوئی اور تماشائی گھروں کو چلے گئے ۔ مختاراں مائی تو کبھی کبھار اخباروں میں نظر آ جاتی ہے مگر اُس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کیا سزا ملی عوام نہیں جانتے

این جی اوز بھی کچھ دن شور مچاتی ہیں پھر سو جاتی ہیں اور اُن کا بھی زیادہ زور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے پر ہوتا ہے جیسے حدود آرڈیننس میں لکھا ہو کے عورتوں کے ساتھ زیادتی کرو ۔ حدود آرڈیننس کو ختم کیا گیا تو بدکاری کو روکنا ناممکن ہو گا کیوں کہ کِسی اور مروّجہ قانون میں بدکاری کو باقاعدہ جُرم قرار نہیں دیا گیا ۔البتہ حدود آرڈیننس میں زبردستی بدکاری کرنے کے سلسلہ میں گواہوں کی شرط پر نظرِ ثانی اور مناسب ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ تفتیش کا نظام اور پولیس کی کارکردگی میں خامیوں کو دور کر کے فعال بنانا اشد ضروری ہے

ہمارے طرزِ عمل ۔ قرآن و سنّت کی وعید اور جرائم کی سزاؤں کے متعلق میں پچھلے ایک سال میں لکھتا رہا ہوں ۔ لکھنے سے پہلے میں وسیع مطالعہ اور اسلامی قانون کے ماہرین سے اِستفادہ حاصل کرتا رہا تھا پھر بھی میں نے اپنی تمام تحاریر کو یک جا کر کے پرنٹ کیا اور جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں اُس کے خطیب صاحب کو نظرِ ثانی کے لئے دیا ۔ وہ صاحبِ علمِ دین ہیں ۔ الحمد للہ اُنہوں نے تمام مضمون سے اتفاق کیا مگر کہا کہ مندرجہ ذیل فقرہ سے قاری کے ذہن ميں شک پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اسلئے اسے حذف کر دیا جائے یا وجہ جواز لکھی جائے ۔ “مگر مجھے قرآن شریف ۔ حدیث حتٰی کہ کتابُ الفِقَہ میں بھی نہیں ملا کہ زنا بالجبر کے لئے چار گواہوں کی شرط ہے ۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اُس کے مطابق یہ شرط زنا بالرضا کے لئے ہے ۔ زیادہ علم رکھنے والے اِس سِلسلہ میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں”۔ چنانچہ جس بنیاد پر میں نے یہ فقرہ لکھا تھا اُس میں سے موٹی موٹی وجوہ نیچے درج کر رہا ہوں

قرآن الحکیم
ابتدائی حُکم

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت ۔ 15 و 16 ۔ تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اِصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

سورت 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 25 ۔ اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے اسے چاہیئے کہ تمہاری اُن غلام عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں – – – – پھر وہ جب حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 2 ۔ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیات 5 تا 9 ۔ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت ۔ 33 ۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [prostitution] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا

صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس”۔ اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی ۔نتیجہ

جیسا مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے واضح ہے اور تقریباً تمام فُقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ بدکاری کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضرورری ہیں ۔ لیکن اس میں زبردستی سے کی گئی بدکاری شامل نہیں کیونکہ کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہو اور وہ سزا بھی پائے یہ منطق اور فطرت کے خلاف ہے اور اِسلام دینِ فطرت ہے اور منطق کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے حدود و قیود بھی اُسی کے مطابق بنائی ہیں ۔

عورت کو اغواء کیا گیا ہو یا وہ پولیس کی قید میں ہو تو اُسکی حالت ایسی غلامی کی ہوتی ہے جہاں وہ بالکل بے بس ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں زنا عموماً بالجَبَر ہوتا ہے اس میں عورت پر چار گواہوں کی شرط عائد نہیں ہوسکتی اور وہ اس جُرم [گناہ] سے برّی ہوتی ہے اور چونکہ اُس کے پاس گواہ ہونا بعید از قیاس ہے اسلئے اگر وہ قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا کر کہہ دے کہ اس مرد نے میرے ساتھ زبردستی بدکاری کی ہے تو وہ مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے ۔ دیگر اگرکسی کیس میں مرد مانے کہ اُس نے بدکاری کی ہے مگر عورت کی مرضی سے لیکن عورت انکاری ہو اور قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا لے تو اس صورت میں بھی مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے

تقریباً تمام فُقہاء متفق ہیں کہ حَد قائم کرنا اور سزا کا اِطلاق قرآن شریف اور حدیث کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے عوام میں سے کوئی فرد یا گروہ نہ حد قائم کر سکتا ہے نہ سزا دے سکتا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح ہے کہ قتل کے معاملہ کے برعکس بدکاری کے معاملہ میں راضی نامہ تاوان دے کر بھی نہیں ہو سکتا ۔ اسلئے کار و کاری ۔ وانی یا سوارا کی رسوم دین اسلام کے احکام کی صریح خلاف ورزی
ہے

اکیسویں صدی

بات پانچ سال پُرانی ہو گئی مگر آج بھی مزے دار ہے

جائیں گے قافلے بھی بہرطور اس طرف
اور ان کے ساتھ ساتھ لٹیرے بھی جائیں گے
انور خدا کرے کہ یہ سچی نہ ہو خبر
اکیسویں صدی میں وڈیرے بھی جائیں گے

انور مسعود

ڈان نمبر لے گیا

میں نے 7 مارچ کی پوسٹ میں قارئین سے عرض کی تھی کہ پہلے اپنے اپنے آئی ایس پیز کو خط لکھیں اور پھر متعلقہ سرکاری محکمہ یعنی پی ٹی اے کو ۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ نتیجہ سے مجھے مطلع کریں ۔ اس سلسلہ میں مجھ سے صرف اسماء مرزا ۔ عتیق الرّحمٰن ۔ قدیر احمد رانا اورحارث بن خُرّم نے رابطہ کیا ۔ بہر کیف مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا ۔ اُس کے نتیجہ میں اخبار میں خبر لگی مگر اندر کے صفحہ پر تھی ۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ ڈان نے آج اسے اداریہ میں شامل کر دیا ۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ سب مل کر کوشش کریں تو انشاء اللہ جلد سب ٹھیک ہو جائے گا ۔میں نے کل صُبح یہ تحریر پوسٹ کی تھی مگر اُردو سیّارہ پر ابھی تک شائع نہیں ہوئی ۔ شائد اسلئے کہ میں نے اس میں انگریزی کا اداریہ بھی شامل کیا تھا ۔ اب میں انگریزی کو حذف کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں ۔ اب ڈان کا اداریہ پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے ۔

نام کس نے رکھا ؟

آج کے دن 1940 عیسوی میں لاہور میں اُس مقام پر جہاں آجکل مینارِ پاکِستان ہے برِّ صغیر ہندوپاکستان کے مُسلمانوں نے قراردادِ مقاصد منظور کی جو قراردادِ پاکِستان ثابت ہوئی اور 14 اور 15 اگست 1947کی درمیانی شب 11 بج کر 57 منٹ پر پاکِستان بن گیا ۔ الحمدللہ ۔ پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام ہے جس میں ہم ابھی تک ناکام ہیں ۔ نئی نسل کو بالخصوص اس کے لئے محنت کرنا چاہیئے ۔ مُسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت “خلافتِ عُثمانیہ” دین سے دور ہو کر اپنی عیّاشیوں کے باعث ہی کھوئی تھی ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔دسویں جماعت پاس کرنے تک مجھے یہی معلوم تھا کہ پاکستان کا نام علّامہ اقبال نے تجویز کیا تھا ۔ بعد میں چوہدری رحمت علی کا نام لیا جانے لگا ۔ کالج کے زمانہ میں چوہدری رحمت علی میرے لئے ایک ہیرو تھے کہ انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا ۔ چنانچہ مجھے چوہدری رحمت علی کے متعلق پڑھنے کا شوق ہوا جس نے مجھے تحریک پاکستان کی تاریخ کی طرف راغب کیا اور مندرجہ ذیل حقائق اُجاگر ہوئے ۔

تحریک خلافت (1919 ۔ 1924 عیسوی) کے دوران ہندؤں کی عہد شکنی کے باعث مسلمانوں کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہو گیا تھا ۔ نومبر 1930 عیسوی میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس کے صدارتی خطبہ میں علّامہ محمد اقبال نے کہا کہ انڈیا کے اندر مسلم انڈیا کے قیام کا ہر ممکن جواز موجود ہے ۔ میرے نزدیک برٹش امپائر کے اندر یا باہر ایک ایسی خود مختار مربوط مسلم ریاست کی تشکیل کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدّر بن چکی ہے ۔ اس طرح مسلم ریاست کا ایک نامکمل نقشہ تو علّامہ نے پیش کر دیا لیکن اس وقت کوئی نام تجویز نہ ہوا ۔

اس زمانہ میں جو ہندوستانی مسلمان انگلستان میں زیرِ تعلیم تھے وہ اپنے لیڈروں کی ہر بات پر غور و عمل کرتے تھے ۔ ان میں محمد اسلم خٹک ۔ پیر احسن الدین ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان معروف ہیں ۔ محمد جہانگیر خان اس اِنڈین کرکٹ ٹیم کے رُکن تھے جس نے 1932 عیسوی میں انگلستان کا دورہ کیا تھا اور تعلیم کی خاطر وہ وہیں رُک گئے تھے ۔ اِن لوگوں کی جد و جہد کے عینی شاہد میاں عبدالحق تھے جنہوں نے اس زمانہ میں انگلستان کا دورہ کیا تھا ۔ ان کے جون 1970 عیسوی میں ندائے ملت لاہور میں چھپنے والے ایک مضمون سے اقتباس ۔

1932 کی ایک شام چوہدری رحمت علی ۔ پیر احسن الدین اور خواجہ عبدالرحیم دریائے ٹیمز کے کنارے سیر کر ہے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی بات چل نکلی ۔ خواجہ عبدالرحیم نے تجویز پیش کی کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا جائے جس میں پنجاب سندھ سرحد بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں اور اس کا نام پاکستان رکھا جائے ۔ وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ پے پنجاب سے الف افغانیہ [صوبہ سرحد] سے کاف جموں کشمیر سے سین سندھ سے اور تان بلوچستان سے ۔ اس تجویز پر تبادلہ خیال ہوا اور طے پایا کہ یہ تجویز علامہ محمد اقبال جو ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے کی خدمت میں پیش کی جائے ۔ اس سے چوہدری رحمت علی سمیت کیمبرج میں زیر تعلیم سب ہندوستانی مسلمانوں نے اِتفاق کیا تھا ۔ بعد میں کیمبرج کے ہندوسانی مسلمان طلباء نے اب یا کبھی نہیں کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جس میں ہندوستان میں الگ مسلمان ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا اور اس کا نام پاکستان بھی تجویز کیا گیا تھا ۔ اس کتابچے کی تالیف چوہدری رحمت علی سے کروائی گئی ۔ اس کتابچے پر دستخط کرنے والوں میں محمد اسلم خٹک ۔ چوہدری رحمت علی ۔ عنائت اللہ خان اور محمد صادق مانگرول شامل ہیں ۔ خواجہ عبدالرحیم چونکہ ہندوستان کی انگریزی حکومت کے ملازم تھے اسلئے اپنی ہی تجویز پر انہوں نے دستخط نہ کئے ۔”

بعد میں چوہدری رحمت علی نے اپنے طور پر برصغیر میں آٹھ دس ریاستیں ان ناموں سے تجویز کیں ۔ صدیقستان ۔ فاروقستان ۔ عثمانستان ۔ سیفستان ۔ ناصرستان ۔ موپستان ۔ راجستھان ۔ بنگستان ۔

محمد اسلم خٹک نے 21 دسمبر 1987 کو ایوانِ وقت راولپنڈی میں بتایا تھا کہ آکسفورڈ میں خیبر یونین آف سٹوڈنٹس کے ایک اِجلاس میں انہوں نے صدارت کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا اور یہ کہ اس اِجلاس میں چوہدری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم بھی موجود تھے ۔

ڈاکٹر محمد جہانگیر خان ایم اے پی ایچ ڈی (کینٹ) بار ایٹ لاء ۔ ساکن ۔ 6 ۔ کنال بنک ۔ زمان پارک ۔ لاہور کے 25 اکتوبر 1983 کے تحریر کردہ حلف نامہ کے مطابق “محمد جہانگیر خان 1932 میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے رکن کی حیثیت سے انگلستان گئے اور یونیورسٹی آف کیمبرج میں داخلہ لے کر وہیں رک گئے ۔ ان کی رہائش چوہدری رحمت علی کی رہائش گاہ سے صرف ایک سو گز کے فاصلہ پر تھی ۔ انہی دنوں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس ہوئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی علامہ محمد اقبال نے کی ۔ لندن میں قیام کے دوران علامہ بیمار پڑ گئے ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان ان کی عیادت کے لئے لندن گئے ۔ وہاں چوہدری رحمت علی نے خواجہ عبدالرحیم کی طرف اشارہ کر کے علامہ اقبال سے کہا کہ پاکستان کا لفظ اس نے تخلیق کیا تھا اور اس کے اجزاء کی ترکیب بھی بتائی ۔ چوہدری رحمت علی نے علامہ سے استفسار کیا کہ کیا وہ بہتر نام تجویز کر سکتے ہیں ؟ علامہ نے کہا کہ اس کے اجزاء کی ترکیب ایک کاغذ پر لکھ کر سامنے دیوار پر لٹکا دیں میں کل آپ کو بتاؤں گا ۔ دوسرے دن پھر تینوں لندن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ نے فرمایا کہ اس سے بہتر نام ان کے ذہن میں نہیں آیا اس لئے اسی کو رکھا جائے اور اس کے قائم ہونے کی دعا بھی کی” ۔

چنانچہ چوہدری رحمت علی کو نام تجویز کرنے والوں میں شامل تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان کو نام کا خالق نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ نام کے خالق خواجہ عبدالرحیم ہی ثابت ہوتے ہیں ۔ ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جموں کشمیر کے بغیر نام کے لحاظ سے بھی پاکستان ابھی نامکمل ہے ۔

بالکل تازہ خبر

پاکستان نے آج صبح پانچ سو کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائل کا دوسرا تجربہ کیا ہے جسے حتف سات ’بابر‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ تجربہ نہایت کامیاب رہا ۔ یہ میزائل ہر طرح کے جوہری اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ کروز میزائل نیچی پرواز کرنے والے گائیڈڈ میزائل ہوتے ہیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ بابر میزائل کی نشاندہی کسی بھی ریڈار سسٹم یا دفاعی سسٹم پر نہیں ہو سکتی ۔ یہ میزائل جنگی کشتی، آبدوز اور ہوائی جہاز کے ذریعے پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے دیسی سائنسدانوں اور انجینئیروں کی کاوش کا نتیجہ ہے اور مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیا گیا ہے

شبّیر صاحب کا “اسلام اور رسمیں” پر تبصرہ

افتخار اجمل ۔ ۔ ۔ اسلام اور رسمیں کے عنوان سے شبّیر صاحب [شیپر] نے میری 15 مارچ کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے ۔ میں اُن کا شکرگذار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اُن نقاط کی وضاحت کا موقع فراہم کیا جو تحریر کی طوالت کے ڈر سے مجھ سے تشنہ رہ گئے تھے ۔ خیال ہے کہ اگر میری مندرجہ ذیل تواریخ کی تحاریر شبّیر طاحب کی نظر سے گذری ہوتیں تو شائد میری 15 مارچ کی تحریر پراگندہ اثر نہ چھوڑتی ۔ اگر آپ بلاگ سپاٹ براہِ راست نہیں کھول سکتے تب بھی ِاس تحریر کے لِنک کلِک کرنے سے کھُل جائیں گے
مؤرخہ 8 اگست 2005
مؤرخہ 11 اگست 2005
مؤرخہ 16اگست 2005
مؤرخہ 28 اگست 2005
مؤرخہ 25 ستمبر 2005
مؤرخہ 7 اکتوبر 2005
مؤرخہ 9 مارچ 2006

سب سے پہلے میں واضح کر دوں کہ میں نے کہیں یہ تاءثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ سب ایسا کرتے ہیں ۔ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اکثریت ایسا نہیں کرتی ۔شبّیر صاحب کا یہ مفروضہ غالباً حالات سے صحیح واقفیت نہ ہونے کے باعث قائم ہوا ہے کہ پورا پاکستان میلاد النّبی کاجلوس یا محفلِ میلاد کرتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ جلوس میں زیادہ تر نوجوان اور وہ حضرات شرکت کرتے ہیں جو دین سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ۔ ان نوجوانوں کو جوں جوں دینی علم حاصل ہوتا ہے وہ پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حُبِ رسول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم میں محبوب کے معبُود کے احکام اور محبوب کے قول و فعل کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے اسواءِ حسنہ اور اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُسکے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی شان بیان کرنا نہ صرف مُستحب بلکہ عبادت ہے ۔ پھر کیوں نہیں ہم اِس فعل کےلئے ہر ماہ یا ہر ہفتے مجالس کرتے جس سے میرے جیسے کم عِلم لوگوں کو دین سے آگاہی حاصل ہو ۔ بجائے اسکے کہ ہم رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے پاک نام سے منسوب کر کے ایسی محفلیں لگائیں جن میں ہم اُنہی کی تعلیمات کے خلاف کام کریں

محفلِ میلاد شائد کسی زمانہ میں عام لوگوں تک رسُول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی حیاتِ مبارکہ کے متعلق آگاہی کے لئے شروع کی گئی ہوگی مگر ہمارے انحطاط کے ساتھ ساتھ وہ ایک رواج اور فیشن زیادہ اور حیاتِ طیّبہ کا سبق بہت کم رہ گئی ۔ اب ان محفلوں میں وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُس کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی ہدایات کی خلاف ورزئی کے ذُمرے میں آتی ہیں ۔
واللہ اعلم بالصّواب ۔

جہاں تک فرقہ واریت کا تعلق ہے وہ کم عِلم مُلّاؤں [سب مُلّا نہیں] اور رسم پرستوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہیں اور اُن لوگوں کی پیداوار ہے جنہوں نے قرآن شریف اور احادیث مبارکہ پر عمل کئے بغیر جنّت میں جانے کے [غللط] شارٹ کَٹ وُضح کر لئے ہیں ۔

شبّیر صاحب نے پوچھا ہے “کیا مُردوں پر فاتحہ پڑھنا اور ان کی نذر دلوانہ بھی غیر اسلامی ہیں ؟”

” اُن کی نذر دِلوانہ” وضاحت طلب ہے ۔ میں عالمِ دین نہیں ہوں بہرحال میں نے جو پڑھا ہے اُس کے مطابق مرجانے والوں کےلئے دعائے مغفرت کرنا [جسے عام طور پر فاتحہ کہا جاتا ہے] یا اللہ کے نام پر خیرات کرنا ایک اچھا عمل ہے اور ایسا بلا قیدِ تاریخ یا دِن کرتے رہنا چاہیئے ۔ یہ عمل کسی کی صحتیابی یا کامیابی یا ویسے ہی کسی مسلمان [خاص کر اپنے رشتہ دار یا دوست ] کےلئےکیا جائے تو بھی ٹھیک ہے ۔ اگر کھانا پکا کر یا کھانے کی کوئی چییز محلہ داروں ۔ رشتہ داروں اور غریبوں میں بانٹ دی جائے تو اُس میں بھی کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کوئی تخصیص نہ کی جائے ۔گڑبڑ اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے نام کی بجائے خیرات [یا نذر نیاز} کو کسی اور زندہ یا مردہ کے نام کر سے منسوب کیا جائے ۔

محسوس ہوتا ہے کہ شبّیر صاحب کو پاکستان سے گئے کافی عرصہ ہو گیا ہے ۔ ہمارے مُلک میں نقّالی اِتنی بڑھ چکی ہے کہ قرضہ اُٹھانا منظور ہے مگر بلند معیار کے اِظہار کے لئے شادی کا بندوبست 4 یا 5 سٹار ہوٹل میں ۔ ویسے میں نے 4 یا 5 سٹار ہوٹل اصطلاحی طور پر لکھا تھا ۔ لوگ ویڈنگ ہال میں یا گھر پر بھی شادی کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں ۔ اِس سلسلہ میں شبّیر صاحب نے میرے بڑے بیٹے زکَرِیّا کی تحریر کا حوالہ دیا ہے لیکن شائد اُن کی نظر اِس حصّہ پر نہیں پڑی ۔” ایک فاسٹ فوڈ ریستوران میں گیا تو دو لوگوں کو دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی۔ ایک تو کوئی میری عمر کا جوڑا تھا۔ لباس وغیرہ سے کچھ غریب لگتا تھا۔ خاتون نے چادر لی ہوئی تھی اور اسی کو نقاب کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ وہ مزے سے ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس ریستوران میں شاید ایسے لوگ نظر نہ آتے۔ دوسرے دو سکول کے لڑکے تھے۔ انہوں نے جیسے بستے لٹکائے تھے اور جیسا لباس پہن رکھا تھا بالکل ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں اندرون شہر سے ہیں۔ یہ شاید rap کا اثر تھا ”

شبّیر صاحب اور دیگر سب قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ ” زَکَرِیّا ” صحیح ہے ۔ یہ نام قرآن شریف میں موجود ہے ۔ ” ذکریا اور ذکریہ” غَلَط ہیں ۔

عقلمند یا بیوقوف ؟

عقلمند دُوسروں کی غَلَطِیوں سے سِیکھتا ہےعام آدمی اپنی غَلَطِیوں سے سِیکھتا ہے بیوقوف اپنی غَلَطِی سے بھی کوئی سبق نہیں لیتا بہتر ہے کہ دُوسروں کی غَلَطِیوں سے سبق حاصل کریں کیونکہ اپنی غَلَطِیوں سے سِیکھنے کے لئے بہت لمبی عمر چاہیئے ۔

غیراِسلامی رسم کی زندہ مِثال

میں نے 15 مارچ کو مُسلمانوں کے غیر اِسلامی رسومات اپنانے کے متعلق لکھا تھا ۔ حُسنِ اِتفاق کہ خاور صاحب نے اِسی سلسلہ کی ایک حالیہ تصویر اپنے بلاگ پر شائع کر دی ۔ وہ تصویر نقل کر دی ہے ۔ غور کیجئے کہ ایک معروف پاکستانی خاتون جو بطور اِسلامی مضامین لکھنے والی مشہور ہیں کیا رسم ادا کر رہی ہیں ۔