Monthly Archives: February 2006

آزادیءِ اِظہارِ خیال ۔ ہے کس ملک میں ؟

ایک ماہ سے اخبارات ۔ ویب سائٹس اور بلاگز پر یورپ میں اُٹھنے والے طوفانِ بدتمیزی کی خبریں اور مضامین بغور پڑھتا رہا ۔ جمہوریّت اور انسانیّت کا ڈھنڈورا پیٹنے والی فرنگی دنیا میں کتنی ڈِھٹائی سے اپنے غلیظ کردار کو اِظہارِ خیال کی آزادی سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔چند ماہ قبل ایک برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ اِرونگ کو آسٹریا میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس کا جُرم یہ ہے کہ اس نے لیکچر دیا تھا جس میں اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں گیس چیمبرز کے ذریعہ موت کے واقعہ کے متعلق کہا تھا کہ مرنے والے یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے ۔ ملاحظہ ہو میرے دوسرے بلاگ پر میری26 نومبر 2005 کی تحریر

یورپ کے حکمران ایک اخبار کے کارٹونسٹ کو ایک بِلّین اور بیس مِلّین سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کی آزادی تو دیتے ہیں مگر ایک تاریخ دان کو کسی بات کو غلط سمجھنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ۔ کیا یہی ہے مغربی جمہوریت ؟ کیا اسی کا نام آزادیءِ اِظہارِ خیال ہے ؟

اصل بات یہ ہے کہ فرنگیوں کے لئے ہر وہ عمل جو اسلام دشمن ہو اور ہر وہ بات جس سے اسلام ۔ پیغمبرِ اسلام یا مسلمانوں کی تضحیک ہوتی ہو یا اُنہیں تکلیف پہنچتی ہو وہ تو عین جمہوریّت ۔ آزادیءِ اظہار رائے اور روشن خیالی ہے جبکہ ان اسلام دشمنوں کے ظُلم و سِتم کے خلاف قدم اُٹھانا یا احتجاج کرنا دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے ۔

جو لوگ “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” میں یقین رکھتے ہیں اُن کا علاج صرف لاٹھی ہی سے ہو سکتا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان اپنے پیدا کرنے والے سے غافل اور دشمنوں کے غلام بن کر اپنی لاٹھی کھو چکے ہیں ۔

مشہور صحافی رابرٹ فِسک Robert Fisk لکھتے ہیں

I happen to remember how more than a decade ago, a film called the Last Temptation of Christ showed Jesus making love to a woman. In Paris, someone set fire to the cinema showing the movie, killing a young Frenchman. I also happen to remember a major US university which invited me to give a lecture three years ago. I did. It was entitled. “September 11, 2001: ask who did it but, for God’s sake, don’t ask why.” When I arrived, I found that the university authorities had deleted the phrase “for God’s sake” because “we didn’t want to offend certain sensibilities. Ah-ha, so we have ‘sensibilities’ too.

I also enjoyed the pompous claims of European statesmen that they cannot control free speech or newspapers. This is also nonsense. Had that cartoon of the Prophet shown instead a chief rabbi with a bomb-shaped hat, we would have had “anti-Semitism” screamed into our ears
Furthermore, in some European nations — France is one, Germany and Austria are among the others — it is forbidden by law to deny acts of genocide. In France, for example, it is illegal to say that the Jewish Holocaust or the Armenian Holocaust did not happen

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے پچھلے سال ستمبرمیں دوسرے بلاگ [حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

قانون کا غلط استعمال ۔ ایک اہم فیصلہ

میں نے حدود آرڈیننس پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے 23 مئی اور 26 جون 2005 کو لکھا تھا کہ اسلامی قوانین کا صحیح اِطلاق اُس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی یا اِنصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ میں نے مزید لکھا تھا کہ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اِس کے صحیح اِطلاق میں نہ صِرف دُوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ با رسُوخ ۔ جابَر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور زنا بالجبر [Rape] کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ وفاقی شریعت عدالت کے چیف جسٹس چوہدری اعجاز یوسف نے ایک عدالتی فیصلہ میں میرا نظریہ صحیح ثابت کر دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو منگل۔ 31 مئی 2006 کو جاری ہونے والے اور یکم فروری 2006 کے اخباروں میں شائع ہونے والے فیصلہ کا خلاصہ ۔

فیصلہ

“وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے زنا سے متعلق مقدمہ میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ازسرنو سماعت اور فیصلہ کیلئے ٹرائل کورٹ کو واپس بھیج دیا۔ قبل ازیں ایڈیشنل سیشن کورٹ کی طرف سے عورت اور مرد دونوں کو زنا کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانہ کی سزائیں دی گئی تھیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید قرار دیا کہ جب کسی مرد ملزم پر کسی عورت کی طرف سے زنا بالجبر کا الزام عائد کیا جائے تو تاخیر ۔ حمل قرار پانے یا کسی دیگر وجہ سے قطع نظر اولین مرحلے میں کسی عورت کو زنا بالرضا کے الزام میں زیر دفعہ 10 (2) چارج نہ کیا جائے جب تک زنا بالرضا کی ضروری شہادت نہ مل جائے اور مقدمہ کی الزام کے مطابق سماعت کی جائے ۔ مرد ملزم کو اس کے مطابق چارج کیا جائے اور مستغیثہ کو اپنے الزام ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ اس طریقہ کار کو اپنانے سے عورت کے خلاف غلط استغاثہ کا سدباب ہو جائے گا اور سائلہ بطور گواہ پیش ہو کر شہادت دینے کے قابل ہو گی جو مناسب طور پر استعمال ہو سکے گی ۔

واقعات کے مطابق تھانہ خان پور ضلع ہری پور میں 4 جون 1997ء کو ایک عورت نے رپورٹ درج کرائی کہ وہ گھر میں اکیلی تھی اس کے پڑوسی جمروز نے دیوار پھلانگ کر اور دروازہ بند کرکے پستول کی نوک پر اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور جاتے وقت اس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے یہ واقعہ کسی کو بتلایا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے خوف کے مارے یہ واقعہ کسی کو نہ بتلایا۔ چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ چنانچہ ملزم کے خلاف جرم زنا …نفاذ حدود… آرڈیننس 1979ء کی دفعات 5 اور 10 کے تحت درج بالا تاریخ پر پرچہ درج کر لیا گیا تاہم جب چالان عدالت بھجوایا گیا تو اس میں پولیس نے اس عورت کا بھی ملزمہ کے طور پر اندراج کیا ۔”

یہ کِس طرح ہوتا ہے ؟

دراصل عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ پولیس چالان میں زنا بالجبر [Rape] کو زنا بالرضا [with mutual consent] لکھ دیتی ہے یا زنا بالجبر کی قانونی دفعہ کی بجائے زنا بالرضا کی قانونی دفعہ کا اندراج کر دیتی ہے جس سے کیس کی نوعیّت ہی بدل جاتی ہے ۔ اِس صورت میں چار گواہوں کی شرط بھی لاگوُ ہو جاتی ہے جو ایسے کیس میں مہیّا کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔ اِس کے نتیجہ میں زنا بالجبر کرنے والا مرد بچ جاتا ہے اور مظلوم عورت کو بدکار قرار دے کر سزا دے دی جاتی ہے ۔ خیال رہے کہ اگر اِنصاف بانٹنے والے [جج] اِس شیطانی عمل میں شریک نہ ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ مظلوم عورت کو اِنصاف نہ ملے ۔ یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ میں نے پچھلے ایک سال میں بہت مطالع کیا مگر مجھے قرآن شریف ۔ حدیث حتٰی کہ کتابُ الفِقَہ میں بھی نہیں ملا کہ زنا بالجبر کے لئے چار گواہوں کی شرط ہے ۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اُس کے مطابق یہ شرط زنا بالرضا کے لئے ہے ۔ زیادہ علم رکھنے والے اِس سِلسلہ میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں ۔

لمحہءِ فکر ہے یارانِ نقطہ دان کے لئے

ایک حسابی نے تجزیہ کیا ہے کہ عام انسان اپنا وقت کیسے گذارتا ہے ۔ تجزیہ ہوشرُوبا ہے ۔ ملاحظہ ہوستّر برس عمر پانے والے انسان کے مختلف مشاغل میں صَرف ہونے والے وقت کو جمع کیا جائے تو نقشہ کچھ اِس طرح بنتا ہے

وہ 24 سال سوتا ہے
وہ 14 سال کام کرتا ہے
وہ 8 سال کھیل کود اور تفریح میں گذارتا ہے
وہ 6 سال کھانے پینے میں گذارتا ہے
وہ 5 سال سفر میں گذارتا ہے
وہ 4 سال گفتگو میں گذارتا ہے
وہ 3 سال تعلیم میں گذارتا ہے
وہ 3 سال اخبار رسالے اور ناول وغیرہ پڑھنے میں گذارتا ہے
وہ 3 سال ٹیلیوژن اور فلمیں دیکھنے میں گذارتا ہے

اگر یہ شخص پانچ وقت کا نمازی ہو تو مندرجہ بالا مشاغل میں سے وقت نکال کر 5 ماہ نماز پڑھنے میں صرف کرتا ہے یعنی زندگی کا صِرف 168 واں حِصّہ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اتنا سا وقت نماز پڑھنے میں صرف کرنا بھی ہم پر بھاری ہو جاتا ہے ! ! !

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین