Monthly Archives: February 2006

اِظہار خیال کی آزادی کا بھانڈا پھر پھُوٹ گیا ۔ لندن کے میئر کو سزا ۔

میں نے 11 فروری کو لکھا تھا “ایک برطانوی اخبار کا یہودی رپورٹر لندن کے میئر کے لتے لیتا تھا ۔ میئر نے ایک دفعہ اُسے کنسنٹریشن کیمپ گارڈ [concentration camp guard] کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا یہودی برادری نے طوفان کھڑا کر دیا اور میئر کو اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم بھی یہودیوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور میئر کو معافی مانگنے کا کہا”ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق لندن کے میئر کن لِوِنگسٹون نے معافی نہیں مانگی تو اُسے 4 ہفتے کے لئے معطل کر دیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ میئر سرکاری ملازم نہیں بلکہ عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے ۔ کن لِوِنگسٹون چونکہ کیس ہار گیا ہے اسلئے اُسے اپنے اخراجات بھی دینا پڑیں گے جو تقریباً 80000 پونڈ بنتے ہیں ۔

یہ کاروائی اُسی ٹونی بلیئر صاحب نے کی ہے جو توہین آمیز خاکوں کو جائز حق قرار دے چکے ہیں ۔

ایک شخص کی معمولی دِل آزاری کرنے والے کو اِتنی بڑی سزا اور جس نے ۱یک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کے پیغمبر کی بلاوجہ اور ناجائز توہین کی وہ حق پر ہیں ۔ یہی ہیں فرنگیوں کے اسلوب

ہند و پاکستان سے تعلق رکھنے والوں سے اِلتماس

نہ تو کارواں کی تلاش ہے ۔ نہ تو راہگزر کی تلاش ہے
میرے عشقِ خانہ خراب کو اِک نامہ بَر کی تلاش ہےہند و پاکستان بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے صاحبِ عِلم آگے بڑھیں اور بکھَیر دیں پھُول اپنے عِلم کے اپنی معلومات کے ؟

1 ۔ قدیم زمانہ میں ہندوستان میں تین ایسے حکمران ہوئے جنہیں راجہ بھَوج کہا گیا ۔ اُن میں سے کِسی کا نام بھَوج نہیں تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا راجہ بھَوج رَسُول اللہ صلّی اللہُ علیہِ و اٰلِہِ و سلَّم کی پیدائش سے پہلے ہو گذرا تھا ۔ آخری راجہ بھَوج کا دورِ حکومت گیارہویں صدی عیسوی میں تھا ۔ اِس آخری راجہ بھَوج نے جنوبی ہندوستان کے ایک علاقہ میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دو پہاڑوں کے درمیان ایک پال [ڈیم] بنوایا ۔ چنانچہ اُس علاقہ کا نام بھَوجپال پڑ گیا جس میں سے ج بعد میں حذف ہو گیا اور وہ علاقہ بھَوپال کے نام سے آج بھی موجود ہے ۔

سوال یہ ہے کہ بھَوج کا مطلب کیا ہے اور اُن تین حکمرانوں کو بھَوج کیوں کہا گیا ؟

2 ۔ موجودہ صورتِ حال مجھے معلوم نہیں ۔ ہند و پاک کی آزادی سے پہلے مَندروں میں بھَوجن دیا جاتا تھا یا بھَوجن بانٹا جاتا تھا ۔ البتہ آجکل بَھوجن عام کھانے کو کہا جا رہا ہے ۔ میری تحقیق کے مطابق بھَوجن اِسم مَفعُول ہے اور اِس کا اِسم فاعل بھَوج ہے ۔

سوال یہ ہے کہ لفظ بھَوجن کا مَنبع کیا ہے اور مَندر میں بانٹے جانے والے کھانے کو بھَوجن کیوں کہا گیا ؟

سب سے اِلتماس ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ لمحات نکال کر اِس حقیقت کو اُجاگر کرنے میں میری مدد فرمائیے ۔ میں آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں اور تبصرہ کے بعد پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا ۔

کون اور کیوں ؟ ؟ ؟

14 فروری کو میں لاہور میں تھا ۔ مجھے ایک دوست کے گھر جانا تھا ۔ اُسے ٹیلیفون کیا تو اُس نے کہا “ٹیکسی پر مت آؤ ۔ میرا بیٹا کار میں لینے آ رہا ہے ۔ ہم 10 بجے صبح گُلبرگ 3 سے روانہ ہوئے اور چوہدری ظہور الٰہی روڈ ۔ کینال بینک ۔ فیروزپور روڈ اور اِچھرہ سے ہوتے رحمٰن پورہ پہنچے ۔ راستہ میں وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الٰہی کے گھر کے سامنے کوئی درجن جیپوں اور ایک ٹرک میں سوار اسلحہ بردار پولیس دیکھی ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وزیرِ اعلٰی اُس وقت دفتر جا چکے تھے اور دفتر پر اس سے زیادہ پولیس معمور تھی ۔ دوست کا بڑا بیٹا جو ملتان روڈ پر اپنی دُکان کے پیچھے تعمیراتی کام کروا رہا تھا دوپہر کا کھانا کھانے گھر آیا اور بتایا “لاہور میں مکمل ہڑتال ہے”۔ گڑبڑ کا پوچھا تو کہا ” راستہ میں دو ٹائر جلتے دیکھے ہیں اور کوئی گڑبڑ نہیں تھی ۔ پرائیویٹ گاڑیاں بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہی تھیں”۔ 3 بجے بعد دوپہر دوست کی کار میں واپس گُلبرگ پہنچا ۔ راستہ میں کوئی ایسی چیز نہ دیکھی جس سے کسی گڑبڑ کا شُبہ ہو ۔میرے بہنوئی نے بتایا کہ اُنہیں کسی نے ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ کچھ جوانوں نے جن کی تعداد سو ڈیڑھ سو کے درمیان ہے مال پر توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے جبکہ جلوس کا ابھی کچھ پتہ نہیں ۔ پی ٹی وی لگایا تو کوئی خبر نہ تھی ۔ اے آر وائی ٹی وی لگایا تو کچھ جوان ایک کار توڑتے دیکھے ۔ اے آر وائی کے مطابق سو ڈیڑھ سو جوان 2 بجے بعد دوپہر اچانک مال روڈ پر نمودار ہوئے اور توڑپھوڑ شروع کر دی ۔ ان کے پاس کوئی جھنڈا یا پلے کارڈ نہ تھا اور نہ وہ کارٹونوں کے خلاف کوئی نعرہ لگا رہے تھے ۔ اصل جلوس پونے تین بجے مال پر آیا ۔ اُس وقت کچھ گاڑیوں کو آگ لگی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اے آر وائی سب کچھ دِکھاتا رہا ۔ رپورٹرز کا کہنا تھا کہ توڑپھوڑ اور جلانے کے اس عمل میں پولیس نے کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ یہ حقیقت براہِ راست دِکھائے جانے والے مناظر سے بھی واضح تھی ۔

کچھ منظر اے آر وائی والے باربار دِکھا رہے تھے ۔ ان میں سے دو منظر میرے لئے ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ۔
[1] اِس منظر میں ایک جوان کے ہاتھ میں ایک تین چار اِنچ چوڑا اور 2 فٹ لمبا کالے رنگ کا لوہے یا لکڑی کا ٹکڑا ہے اور وہ اِس کی ساتھ اسمبلی ہال کے گِرد 4 فٹ اُونچے ستونوں پر لگے ہوئے شیشے کے گلوب بڑے اِطمنان سے توڑتا جا رہا ہے اور کوئی اُسے روکنے والا نہیں ۔
[2] دوسرے منظر میں چار پانچ موٹر سائیکل نیچے اُوپر گرے پڑے ہیں ۔ نیچے والے دو تین موٹرسائیکلوں کے درمیان والے حصے سے چھوٹے چھوٹے شعلے اُٹھ رہے ہیں ۔ ایک پولیس والا سب سے اُوپر والے موٹر سائیکل کو اُٹھا کر دیکھتا ہے ۔ صاف نظر آتا ہے کہ اسے آگ نہیں لگی ہوئی ۔ پولیس والا اسے گھسیٹ کر جلتے ہوئے موٹرسائیکل کے اُوپر کر دیتا ہے ۔

توڑپھوڑ اور آگ لگانے کا سلسہ بعد دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک بلا روک ٹوک جاری رہا ۔ پولیس کی نفری بہت کم تھی اور جو تھی وہ زیادہ تر تماشائی بنی ہوئی تھی ۔ اِس سے مندرجہ ذیل سوال اُبھرتے ہیں :

[1] متذکّرہ جوان کون تھے ؟
[2] محرّم کے جلوس میں بم دھماکہ کے پیشِ نظر جلوس کے شُرکاء اور سرکاری اور نجّی املاک کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا ؟
[3] پولیس کی اِتنی کم نفری [200 سے کم] کیوں لگائی گئی ؟ جبکہ چند دن قبل مَیراتھان کے وقت دوڑنے والوں کے تمام راستہ کو جس میں مال بھی شامل تھی پولیس نے گھیرے میں لئے رکھا تھا ۔ مال کے تو کوئی انسان قریب بھی نہیں آ سکتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ مَیراتھان کی حفاظت کے لئے 2500 پولیس والوں کو معمور کیا گیا تھا
[4] مال پر 4 گھینٹے مکمل لاقانونیت رہی ۔ توڑپھوڑ اور آگ لگانے سے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی اور اِس کے لئے فوری طور پر مزید پولیس کیوں نہ بلائی گئی ؟

قصّہ میری گُمشُدگی کا

میں آٹھ نو دِن بلاگ سے غیرحاضر رہا ۔ کچھ حضرات کو میری صحت بارے فکر ہوئی اور اُنہوں نے میری خیریت دریافت کی ۔ ان میں سب سے پہلے دُبئی والے شعیب صاحب نے تشویش کا اِظہار کیا ۔ میں اِن حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور اللہ کا بھی شکرگذار ہوں جس نے مجھے یہ بے لوث چاہنے والے بخشے ۔ اس دوران مجھے 16 سے 19 فروری تک ایک پینٹیم 2 کمپیوٹر کی مرافقت حاصل ہو سکی جس پر آدھی ونڈوز ایکس پی نصب تھی چنانچہ میں صرف انگریزی کی ای میل پڑھ کے جواب دے سکا ۔ اپنے بلاگ پر قارئین کے تبصرے میں نے بغیر پڑھے شائع کئے مگر ان کے جواب نہیں لکھ سکتا تھا ۔12 فروری کو میری بیوی کے بڑے بھائی [میرے خالہ زاد] کے بیٹے کی منگنی تھی ۔ 12 آدمیوں نے جانا تھا ۔ ایک وین کرایہ پر لی گئی ۔ ہم لوگ صبح 7 بجے روانہ ہوئے اور گُوجرانوالہ کے راستے 12 بجے دوپہر سیالکوٹ پہنچے ۔ لڑکے کے ماموں کے گھر جا کر تازہ دم ہوئے اور ایک بجے لڑکی والوں کے گھر پہنچے ۔ کچھ دیر سستانے کے بعد کوٹھی کے پائیں باغ میں سب نے باجماعت نمازِ ظُہر ادا کی پھر کھانا کھایا جس کے بعد رسم ہوئی ۔ میں اور میرے دو ہم زُلف خواتین والے کمرہ میں نہیں گئے اسلئے معلوم نہیں کہ رسم میں کیا ہوا ۔ لاہور سے میری بیوی کی بہن اور بہنوئی بھی آئے ہوئے تھے ۔ لاہور میں 18 فروری کو میری بیوی کے چھوٹے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی چنانچہ ہم واپس اسلام آباد آنے کی بجائے 4 بجے بعد دوپہر اُن کے ساتھ لاہور چلے ۔ راستہ میں گوجرانوالہ میں اُن کی بیٹی کے ہاں قیام کیا اور لاہور ڈیفنس میں اُن کے گھر رات 10 بجے پہنچے ۔
13 فروری کو ہم نے ہونے والی دُلہن اور اُس کے گھر والوں سے کینال ویو جا کر ملاقات کی ۔ وہ لوگ برطانیہ سے آئے ہوئے ہیں اور ہونے والی دُلہن کی خالہ کے گھر ٹھیرے ہوئے ہیں ۔ دوپہر کا کھانا اُن کے ساتھ کھایا پھر گُلبرگ گئے اور میرے بیوی کی بھانجی کے گھر چائے پی پھر رات تک میری بیوی اور اُس کی بہن نے ہونے والی دُلہن اور دولہا کے لئے تحائف خریدے ۔ اس کے بعد ہمیں گُلبرگ میں میری بڑی بہن کے گھر اُتار کر وہ ڈیفنس میں اپنے گھر چلے گئے ۔

14 فروری کی صبح میرے ایک انجنیئرنگ کالج کے ہم جماعت اور دوست کا بیٹا آ کر اپنے گھر رحمٰن پورہ اِچھرہ لے گیا ۔ دوپہر کا کھانا اپنے دوست کے ساتھ کھا کر واپس ہوا ۔ رات کو میرے ایک دوست جو مغل پورہ کے قریب رہتے ہیں نے مدعو کیا ہوا تھا مگر شہر میں توڑپھوڑ اور آگ کا کھیل شروع ہو جانے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا ۔ چنانچہ بہن کے گھر اے آر وائی ٹی وی سے صورتِ حال دیکھتے رہے ۔

15 فروری کی صبح میرے دوست آ کر مغلپورہ لے گئے ۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھلا کے واپس چھوڑ گئے ۔
16 فروری کی صبح ہم پھر ڈیفنس میں میری بیوی کی بہن کے گھر چلے گئے ۔ ہونے والے دولہا کے گھر والے گُلبرگ میں دولہا کی دادی کے بھائی کے گھر ٹھیرے ہوئے تھے جو کہ میرے پھوپھی زاد اور میری بیوی کے چچازاد ہیں ۔ بعد دوپہر دولہا کو ملنے گئے ۔ رات کو دُلہن کے والدین نے کینال ویو میں مدعو کیا ہوا تھا سو وہاں مغرب سے پہلے پہنچ گئے ۔

17 فروری کی رات کو مہندی کے نام سے دُلہن کے والدین کی طرف سے اُن کے اپنے اور دولہا کے مہمانوں کو گُلبرگ کے شادمانی ویڈنگ ہال میں مدعو کیا گیا تھا ۔ وہاں دو ڈھول والے آئے ہوئے تھے جو ہال میں داخل ہو کر پورے شدّومد کے ساتھ ڈھول بجانے لگے ۔ مجھے یوں لگا کہ کانوں کے پردے پھَٹ جائیں گے ۔ میں نے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس دیں تو محسوس ہوا کہ میری پسلیاں تھرک رہی ہیں اور دل پھٹنے کو ہے ۔ میں فوراً ہال سے باہر نکل کر دور جا کھڑا ہوا اور ڈھول بجنا بند ہونے پر 40 منٹ بعد واپس آیا ۔

18 فروری کو شادی گُلبرگ کے قصرِ نُور ویڈنگ ہال میں ہوئی ۔ بارات کا وقت 9 بجے رات کا تھا ۔ لڑکی والے 8 بجے پہنچ گئے ۔ بارات 10 بجے آئی ۔ وہاں بھی ڈھول والے موجود تھے لیکن اُن کو ہال میں گھُسنے نہ دیا گیا ۔

19 فروری کو ولیمہ پھر شادمانی ویڈنگ ہال میں تھا ۔ 16 سے 19 فروری تک ہم لوگ رات کو سونے کی بجائے اگلے دن کی فجر کی نماز پڑھ کر سوتے رہے ۔ 20 فروری کو ساڑھے دس بجے صبح ڈیفنس لاہور سے روانہ ہو کر 4 بجے بعد دوپہر ایف ۔ 8 اسلام آباد اپنے گھر پہنچے ۔

تازہ ترین ثبوت

ملاحظہ ہو تازہ ترین ثبوت اِس بات کا کہ آزادء اِظہارِ خیال صرف اِسلام دُشمنی کیلئے جائز ہے ۔
“ڈنمارک کے اخبارا یالند پوستن کے کلچرایڈیٹر فلیمنگ روز کو ان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ایران کی طرف سے یورپ میں یہودیوں کی نسل کُشی کے کارٹون بھی چھاپ دیں گے اخبار کی انتظامیہ کی طرف سے چھٹیوں پر جانے کا حکم ملا”۔ بی بی سی

ہاتھی کے دانت ؟؟؟

مِثل مشہور ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ۔ دِکھانے کے اور ۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ دوسروں کے لئے ایک اصول یا قانون اور اپنے لئے دوسرا اصول یا قانون ۔ آج کی نام نہاد جمہوریت پسند فرنگی دنیا کا بنیادی اُصول یہی ہے ۔ رسُولِ اکرَم صَلّی اللہُ علَیہِ وَ آلِہِ وَ سَلَّم کے حضور میں گُستاخی کے بعد اِسے اِظہارِ رائے کی آزادی کہا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادی صرف مُسلمانوں کی دل آزاری کے سلسلہ میں ہوتی ہے کِسی اور سلسلہ میں نہیں ۔ اِس کی کچھ تازہ مثالیں یہ ہیں ۔1 ۔ میں ڈیوڈ اِردِنگ کا واقعہ 7 فروری کو لکھ چکا ہوں ۔ اب صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی ہالو کاسٹ سے اِختلاف کرے تو مغربی ملکوں کے مطابق یہ ناقابلِ معافی جُرم ہے اور ایسے شخص کا داخلہ آسٹریلیا ۔ کینیڈا ۔ آسٹریا ۔ جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک میں ممنوع ہے ۔

2 ۔ مسٹر ٹونی بلیئر کے پچھلے الیکشن کے دوران لیبر پارٹی نے ایک اشتہار چھاپا جس میں مخالف پارٹی کے سربراہ کو جو یہودی ہے اُڑتا ہوا سوّر دِکھایا گیا تھا ۔ اِس پر یہودیوں نے بہت غصہ دِکھایا اور معافی کا مطالبہ کیا ۔ مسٹر ٹونی بلیئر نے فوراً مطالبہ مان لیا ۔

3 ۔ ایک اور واقعہ سال پہلے کا ہے ۔ ایک برطانوی اخبار کا یہودی رپورٹر لندن کے میئر کے لتے لیتا تھا ۔ میئر نے ایک دفعہ اُسے کنسنٹریشن کیمپ گارڈ [concentration camp guard] کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا یہودی برادری نے طوفان کھڑا کر دیا اور میئر کو اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم بھی یہودیوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور میئر کو معافی مانگنے کا کہا ۔

4 ۔ چند سال قبل ملیشیا کے وزیراعظم [مہاتیر محمد] نے یہودیوں پر کچھ تنقید کی حالانکہ اُنہوں نے کوئی غَلَط بات نہیں کہی تھی اور یہودیوں کی خوبیاں بھی بیان کی تھیں مگر امریکہ اور یورپ میں اِس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا گیا تھا ۔

5 ۔ حال ہی میں جب ایران کے صدر نے کہا کہ صحیح معنوں میں ہالوکاسٹ نہیں ہوا تھا اور یہ کہ یہودیوں کو یورپ منتقل کر دینا چاہیئے تو بھی امریکہ اور یورپ میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

6 ۔ الجزیرہ ٹی وی افغانستان اور عراق کی جنگ کے دوران امریکیوں کی طرف کی خبروں کے علاوہ دوسری طرف کی خبریں بھی نشر کرتا تھا ۔ اِس پاداش میں امریکیوں نے افغانستان میں الجزیرہ کے دفتر پر بم پھینکا جس سے الجزیرہ کا ایک آدمی زخمی بھی ہوا ۔ اِسی طرح عراق میں الجزیرہ کے دفتر پر بم پھینکا جس سے الجزیرہ کا فوٹوگرافر ہلاک ہو گیا ۔

بڑائی کِس میں ہے ؟

بڑائی اِس میں ہے کہ
* آپ نے کتنے لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدَید کہا نہ کہ آپ کا گھر کتنا بڑا ہے
* آپ نے کتنے لوگوں کو سواری مہیّا کی نہ کہ آپ کے پاس کتنی بڑی کار ہے
* آپ کتنی دولت دوسروں پر خرچ کرتے ہیں نہ کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے
* آپ کو کتنے لوگ دوست جانتے ہیں نہ کہ کتنوں کو آپ دوست سمجھتے ہیں
* آپ محلہ داروں سے کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں نہ کہ کتنے عالیشان محلہ میں رہتے ہیں