Monthly Archives: January 2006

ایک در بند ہوتا ہے تو

جب خوشیوں کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو الله سُبحانُهُ و تعالٰی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظریں بند دروازے پہ لگی رہتی ہیں اور ہم دوسرے کھُلنے والے دروازہ کی طرف دیکھتے ہی نہیں

کِشتی

میری آٹھویں جماعت کے زمانہ کی ڈائری سے ۔ 55 سال قبل لکھی ہوئی

کِشتیاں سب کی کِنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جِن کا نہ ہو ۔ اُن کا خُدا ہوتا ہے

میری کِشتی خُدا کے آسرے پہ چھوڑ کے ہٹ جا
میری کِشتی اگر اے ناخدا تکلیف دیتی ہے

پاکستان بلندیوں پر

علالت کے دوران خبر ملی کہ اپنے ملک پاکستان میں ترقی کا معیار سطح سمندر سے 602 فٹ بلند ہو گیا ہے اور اِس پر صرف ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ خرچ ہوا ۔ اِس ترقّی پر مُہر ہمارے بادشاہ سلامت نے اپنے دستِ مبارک سے لگائی ۔کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں خوبصورت عمارتیں ہی بناتا رہا اور ملک و قوم کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی ؟ شاہجہاں کی رعایا تو خوشحال تھی ۔ اُس کے زمانہ میں نہ تو 40 فیصد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اور نہ زلزلہ سے 30 لاکھ انسان بے گھر ہوئے تھے ۔

اگر ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ صرف کراچی میں پینے کے صاف پانی کے منصوبہ پر خرچ کیا جاتا تو وہاں کے لوگ کئی بیماریوں سے بچ جاتے ۔ اگر کراچی پورٹ ٹرسٹ پر خرچ کیا جاتا تو ادارہ فعال بن جاتا ۔

آئیے سب مل کر اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی کے حضُور میں التجا کریں کہ ہمارے حکمرانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے کہ وہ عیاشیاں چھوڑ کر اپنی عاقبت سنوارنے کا کچھ سامان کریں ۔

طورخم سے کیماڑی تک

طورخم سے کیماڑی تک تو کیا ۔ ہمارے ملک میں ایک سا رویّہ کِسی ایک شہر میں بھی نہیں رہا ۔ لیکن آجکل ایسا ہے ۔ جی ہاں طورخم سے کیماڑی تک سب کو بِن مانگے مل رہا ہے ۔ فدوی کو بھی ملا ہے ۔ یہ ہے وائرس اِنفیکشن (viral infection) جو پورے پاکستان میں ہر کسی کو بغیر کسی تفریق کے مل رہا ہے ۔15 جنوری کو معمولی زکام ہوا ۔ خیال نہ کیا ۔ 18 جنوری کو قبل دوپہر ہی کمپیوٹر بند کر دیا کہ طبیعت سُست ہو رہی تھی ۔ بس پھر کیا تھا 24 جنوری تک نزلہ ۔ تیز بُخار اور شدید کھانسی میں مبتلا رہے ۔

ہماری باتیں

بھائی محمد عاصم کی تدفین اور دعائے مغفرت کے بعد تقریباً سب شرکاء اُن کے دونوں بیٹوں خُرّم اور عمر کے ساتھ تعزیّت کر کے رخصت ہوئے ۔ میں خُرّم اور عمر کے ساتھ قبرستان سے باہر نکل رہا تھا کہ پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ یاد آیا ۔ اِسی قبرستان میں کسی کی تدفین کے بعد ہم قبرستان سے باہر نکل رہے تھے تو ایک ساتھی بولے “قبرستان کی حدود میں ہم مؤمن ہوتے ہیں اور باہر نکلتے ہی شیطان ہمارے اندر گھُس جاتا ہے”۔ بات اُنہوں نے صحیح کہی تھی ۔ ہم لوگوں پر کِسی کی وفات کا بس اِتنا ہی اثر ہوتا ہے ۔ ہماری حالت بارش میں بننے والے پانی کے بُلبلے کی سی ہو چکی ہے جو یک دم بنتا ہے اور چند لمحے بعد پھَٹ جاتا ہے ۔گھر میں تعزیّت کے لئے آئے ہوئے حضرات میں ایک صاحب 40 منٹ سے متواتر بولے جا رہے تھے ۔ وہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ اگر کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جاتا تو اُن کے مرض کی تشخیص ہو جاتی اور بروقت علاج ہو جاتا ۔ میں نے اُن سے پُوچھا “جہاں تشخیص کا بہترین بندوبست ہے کیا وہاں سب زندہ رہتے ہیں ؟” اِس سوال پر وہ صاحب خاموش ہوگئے ۔ میں نہیں جانتا امریکی اور یوُرپی کیا کرتے ہیں مگر لبیا میں میں نے دیکھا کہ میّت پر آئے لوگ تلاوت کرتے رہتے ہیں یا خاموش بیٹھے رہتے ہیں ۔

اللہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

قدر و قیمت

بھائی محمد عاصم کی وفات اور اِس کے بعد اُن کے بڑے بیٹے تیس سالہ خُرّم کے کردار سے مجھ پر دو حقیقتیں منکشف ہُوئیں ۔ایک یہ کہ ہمیں کسی چیز کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ کھو جاۓ ۔

دوسری یہ کہ ہمیں کسی چیز کی کمی کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ مل جاتی ہے

برخوردار خُرّم نے سب کچھ مَاشَاء اللہ اِتنی خوش اُسلُوبی سے کیا کہ میں دِل ہی دِل میں سُب٘حَان٘ اللہ اور مَاشَاء اللہ کہتا رہا اور خُرّم کو دعائیں دیتا رہا ۔ خُرّم نے بڑے سلیقے سے میّت کو قبر میں اُتارا ۔ جب دفن کے بعد دعا ہو چکی تو اُس نے بلند آواز میں کہا “اگر میرے والد نے کِسی کے ساتھ زیادتی کی ہو یا اُن کی کسی بات سے کسی کو پریشانی ہوئی ہو تو میری درخواست ہے کہ اُنہیں معاف کر دے اور اگر اُن کے ذمّہ کسی کا کچھ واجب الادا ہو تو میں حاضر ہوں دینے کے لئے ۔

زندگی

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہےمرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
در حقیقت وہ کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبِیں روشن ہیں اِس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

جِینا کیا ہے خواب ہے اک دیوانے کا
زندگی نام ہے مَر مَر کے جِئے جانے کا

پھُول تو دو دن کے لئے بہارِ جانفِزا دِکھلا گئے
حَیف ایسے غُنچوں پہ جو بن کھِلے مرجھا گئے

اب تو گبھرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے