Yearly Archives: 2005

جب اللہ چاہے

یہ واقعہ ایک رسالے میں کچھ سال قبل پڑھا تھا ۔ بطور سچا واقعہ لکھا تھاپرانی بات ہے مگر اب بھی تازہ ہے ۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے ۔ تیز طوفانی بارش تھی ایسے میں ایک شاہراہ کے کسی ویران حصّے میں ایک کار خراب ہوگئی ۔ اسے ایک ادھڑ عمر خاتون چلا رہی تھی جو اکیلی تھی ۔ وہ خاتون کار سے باہر نکل کر شاہراہ کے کنارے کھڑی ہوگئی تا کہ کسی گذرنے والی گاڑی سے مدد لے سکے ۔

اتفاق سے ایک البیلا جوان اپنی عمدہ نئی کار چلاتے جا رہا تھا کہ اس کی نظر اس بھیگی ہوئی خاتون پر پڑی ۔ نجانے وہ کیوں اپنی عادت کے خلاف رک گیا اور تیز بارش اور گاڑی گندی ہونے کی پروا کئے بغیر باہر نکل کر خاتون کا بیگ اٹھایا اور خاتون کو اپنی کار میں بٹھا کر چل پڑا ۔ آبادی میں پہنچ کر اسے ٹیکسی پر بٹھا کر رخصت کیا ۔ خاتون بہت پریشان اور جلدی میں تھی ۔ اس جوان کا پتہ نوٹ کیا اور شکریہ کہہ کر رخصت ہوئی ۔

ہفتہ عشرہ بعد اس جوان کے گھر کی گھنٹی بجی ۔ باہر نکلا تو ایک کوریئر کا ٹرک کھڑا تھا اس میں سے ایک شخص نکلا اور کہا “جناب آپ کا ٹی وی “۔ جوان حیران ہو ہی رہا تھا کہ کوریئر والے نے اسے ایک خط دیا ۔ جلدی سے کھولا ۔ لکھا تھا ” میں آپ کی بہت مشکور ہوں ۔ آپ نے آدھی رات کے وقت شاہراہ پر میری مدد کی جس کے باعث میں اپنے قریب المرگ خاوند کے پاس اس کی زندگی میں پہنچ گئی اور اس کی آخری باتیں سن لیں ۔ میں آپ کی ہمیشہ مشکور رہوں گی ۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور آپ دوسروں کی بے لوث خدمت کرتے رہیں ۔ آمین ۔ آپ کی ممنون ۔ بیگم ۔ ۔ ۔ “

اردو قلمکاروں کی توجہ کے لئے

اردودان صاحب نے تجویز دی ۔ اس کے بعد ریحان مرزا صاحب نے اس کا اعادہ کرتے ہوۓ کچھ مفید سفارشات پیش کیں اور اس کے بعد عتیق الرحمان صاحب جو کچھ لکھنے کو ڈھونڈ رہے تھے ان کو لکھنے کو کچھ مل ہی گیا ۔ جناب ایسی بات نہیں ہے کہ کچھ مل نہیں رہا تھا ۔ یہ ایک عمدہ طرز بیان ہے ۔ دراصل عتیق الرحمان صاحب کسی اہم کام میں مشغول تھے اور ایسی ویسی بات لکھا پسند نہیں کرتے ۔ اردو زبان کی تصحیح ایک اہم بات ہے سو انہوں نے اس پر مفید مشورہ دیا ہے ۔عتیق الرحمان صاحب نے ٹھیک فرمایا کہ غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ (1) کلیدی تختہ (Key Board) پر انگلی ٹھیک جگہ نہ پڑنے سے (2) اردو سے ناواقفیت کی بنا پر

میرے خیال میں تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم کچھ لاپرواہی سے کام لیتے ہیں ۔ میں خود بھی اس کا مجرم ہوں ۔ بعض اوقات آمد ہو جاتی ہے لکھتا چلا جاتا ہوں اور بغیر دوہراۓ شائع کر دیتا ہوں بعد میں پڑھ کے خود ہی شرمندہ ہوتا ہوں ۔

متذکرہ بالا تینوں حضرات کی تجاویز کا خلاصہ میں تھوڑی سی آمیزش کے بعد اس طرح کرتا ہوں

(1) تین یا چار اردو نویسوں کی ایک مجلس بنائی جاۓ ۔ (بہترہو گا کہ اردو فورم کے ناظمین کو ہی یہ مجلس سمجھ لیا جاۓ اگر ان حضرات کو کوئی ٹھوس عذر نہ ہو تو)

(2) اردو فورم پر “اردو زبان کا استعمال” یا کسی اور مناسب موضوع کا اضافہ کیا جاۓ

(3) سب اردو کھاتہ دار (Urdu Bloggers) اپنی تجاویز بنسبت تصحیح اردو زبان اردو فورم پر مندرجہ بالا موضوع کے تحت لکھیں یا بھیجیں

(4) اردو فورم کے منتظمین ان تجاویز کی پڑتال کرنے کے بعد انہیں اردو فورم اور اردو سیّارہ دونوں پرشائع کریں

(5) اگر اردو فورم کے منتظمین چاہیں تو کسی کو اس سلسلہ میں مدد کے لئے کل وقتی یا جزو وقتی طور پر نامزد کر لیں

(6) بالفرض اگر اس مجلس کی شائع کردہ تصحیح میں کوئی غلطی ہو تو بھی اس کی اطلاع مندرجہ بالا مد (3) کے مطابق کی جاۓ

(7) جس نے اردو میں غلطی کی ہو اس کا نام کہیں بھی ظاہر نہ کیا جاۓ کیونکہ مقصد زبان کی تصحیح ہے ناکہ کسی شخص کی

وہ پندرہ فٹ گہرے پانی میں کود گیا

پیش لفظ:- واقعہ حقیقی ہے لیکن نام فرضی ہیں ۔

چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جمیل (فرضی نام) کو اس ادارے کی ملازمت شروع کئے سوا دو سال ہو چکے تھے۔ وہ آفیسرز کلب میں سکواش کھیلنے جاتا تھا ۔ آفیسرز کلب میں ایک سویمنگ پول تھا ۔ نزدیکی کنارے پر پانی 2 فٹ گہرا تھا اور دور والے کنارے کی طرف گہرا ہوتا جاتا تھا حتی کہ آخر میں لمبائی کے 20 فٹ حصّہ میں پانی 15 فٹ گہرا تھا۔ وہاں سپرنگ بورڈ لگے ہوئے تھے ۔ مئی کا مہینہ تھا۔ ایک سینئر آفیسر نے جمیل سے کہا ” آپ سویمنگ پول پر نظر نہیں آئے”۔ جمیل نے بتایا کہ اسے تیرنا نہیں آتا۔ آفیسر نے مسکرا کر کہا “پانی میں جاؤ گے تو تیرنا سیکھو گے نا”۔ دوسرے دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچ گیا۔ وہ آفیسر بھی آئے اور انہوں نے دو اچھے تیراکوں طلعت اور جمشید کے ذمّہ کیا کہ وہ جمیل کو تیرنا سیکھائیں۔ محنت کر کے ایک ماہ میں جمیل اس قابل ہو گیا کہ چار ساڑھے چار فٹ گہرے پانی میں چند منٹ تیر لیتا۔ایک دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچا تو وہاں اور ابھی کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ شاور لے کر آیا تو دیکھا کہ ایک بارہ تیرا سالہ لڑکے نے سپرنگ بورڈ پر سے اچھل کر چھلانگ لگائی اور کوئی 12 فٹ پانی کی تہہ میں پہنچ کر ہاتھ پاؤں مار نے لگا ۔ جمیل کو احساس ہوا کہ لڑکا ڈوب جائے گا ۔ وہ بھاگتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچا دل میں کہا یا اللہ اسے بچا اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اتفاق سے وہ سیدھا تہہ تک پہنچا ۔ اس نے اپنے پاؤں سے فرش کو دھکا دیا جس سے وہ تیزی سے اوپر کی طرف اٹھا۔ اوپر آتے ہوۓ اس نے لڑکے کو اوپر کی طرف دھکا دیا ۔ جونہی جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا اس نے اچھل کر غوطہ لگایا اور دوبارہ لڑکے کو اوپر دھکیلا۔ اس بار کچھ پانی جمیل کی ناک میں گھس گیا۔ جب جمیل کا سر باہر نکلا تھا تو اسے آوازیں سنائی دی تھیں۔ ” سر۔ ایک دم پیچھے ہٹ جائیں”۔ چنانچہ دوسری بار جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا تو وہ کوشش کر کے 4 فٹ دور کنارہ پر لگی سیڑھی تک پہنچا اور سویمنگ پول سے باہر نکل آیا۔

جمیل چند منٹ کھانستا رہا ۔ اس کے بعد اس نے دیکھا کہ ایمبولنس لڑکے کو لے کر جا رہی ہے ۔ ایمبولنس جانے کے بعد طلعت اور جمشید جمیل کے پاس آئے اور کہا “سر۔ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا اور آپ نے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی” ۔ جمیل بولا “میں لڑکے کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اچھا ہوا آپ لوگ پہنچ گئے اور لڑکے کو بچا لیا”۔ طلعت بولا “سر۔ لڑکے کو ہم نے نہیں آپ ہی نے بچایا۔ آپ لڑکے کو پانی کی سطح پر لے آئے تھے۔ ہم نے تو اسے صرف پول سے باہر نکالا ”

(جمیل ۔ افتخار اجمل بھوپال)

فراغت

بچپن میں سنا کرتے تھے “خالی بیٹھے شیطان سوجھے”۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا فرماۓ ہمارے اساتذہ کو ۔ انہوں نے ہماری تربیّت بھی کچھ ایسی کی ۔ مجھے نہ تو گلی کی نکّڑ پر کھڑے ہو کر یا پلّی پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے کی عادت تھی اور نہ آوارہ گردی کی ۔ اپنا وقت گذارنے کے لئے میں اچھی کتابیں پڑھتا اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتا تھا ۔ جن پر میرے اساتذہ مجھے شاباش دیا کرتے تھے اور میں خوشی سے پھولا نہ سماتا ۔ کچھ دن پہلے میں اپنے کاغذات پھرول رہا تھا کہ مجھے بچپن کی لکھی ایک کہانی ملی جس پر میرے استاد اتنے خوش ہوۓ تھے کہ صبح دعا کے وقت انہوں نے سارے سکول کے طلباء اور اساتذہ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی ۔ وہ کہانی میں دو دن پہلے بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔

علّامہ اقبال فراغت کے سلسلہ میں کہتے ہیں ۔ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ

جانچا تو دو کوڑی کا نہ نکلا ایمان اپنا

عبداللہ سوات کے پہاڑوں کی ایک خطرناک ڈھلوان پر چل رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا ۔ کچھ لڑھکنے کے بعد اس کے ہاتھ میں ایک جھاڑی کی ٹہنیاں آ گئیں اور وہ ان سے لٹک گیا ۔ اس نے نیچے کی طرف جانکا تو نیچے سیدھی ڈھیڑ دو سو فٹ گہری کھڈ دیکھ کر بہت پریشان ہوا ۔ جن ٹہنیوں سے وہ لٹکا ہوا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی تھیں ۔ ایک ایک لمحہ بہت بھاری گذر رہا تھا یہاں تک کہ عبداللہ کی گرفت کمزور ہونے لگی ۔
وہ اپنی پوری قوت سے چلّایا ” کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ ”
اچانک کہیں سے ایک بہت بھلی آواز آئی ۔ ” عبد عبد ۔ سنو عبد ”
عبداللہ نے جلدی سے کہا ” ہاں میں سن رہا ہوں تم کون ہو اور کہاں ہو ؟ ”
جواب آیا ۔ ” میں ہوں تمہارا پیدا کرنے والا تمہارا رب ۔ میں ہر جگہ موجود رہتا ہوں ”
عبداللہ حیرانی سے بولا ۔ ” آپ ۔۔۔ اللہ ۔۔۔ اللہ تعالی ہو ۔ یا اللہ میں وعدہ کرتا ہوں میں اب کبھی کوئی برا کام نہیں کروں گا ۔ ساری زندگی عبادت میں گذار دوں گا ”
آواز آئی ۔ ” حوصلہ کرو عبد پہلے تمہیں بحفاظت اتار لیں پھر آرام سے بات کریں گے ”
عبداللہ بولا ۔ ” مولا کریم پھر جلدی کریں”
آواز آئی ۔ ” میری بات غور سے سنو عبد اور جو کہوں وہ کرو ”
عبداللہ بولا ۔ ” میرے مالک میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں ”
آواز آئی ۔ ” عبد شاخ کو چھوڑ دو ”
عبداللہ سخت پریشانی میں بولا ۔” کے کے کے کیا آ آ آ آ ؟ ”
آواز آئی ۔ ” ہاں عبد مجھ پر بھروسہ کرو اور بے فکر ہو کر شاخ چھوڑ دو
“کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر عبداللہ کی آواز گونجی ۔ ” کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ “

خوشی صرف امیروں کی میراث ہے ؟ ؟ ؟

ضروری نہیں کہ خوش ترین شخص کے پاس ہر نعمت یا ہر آسائش ہوخوشی کا راز یہ ہے کہ انسان اپنی دسترس میں آنے والی چیز سے بھرپور فائدہ اٹھاۓ
اور اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ اگر وہ بھی نہ ملتا تو کیا کرتا