Monthly Archives: October 2005

زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ کی ایک جھلک ۔ اعجاز آسی

اعجاز آسی صاحب دس دن زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ میں گذارنے کے بعد ایک دن کے لئے اسلام آباد آئے تھے اور پھر متاءثرہ علاقہ میں چلے گئے ہیں ۔ ان کے بالکل مختصر تاءثرات انہی کے الفاظ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔

ترقی یافتہ روشن خیال جنہیں دہشت گرد کہتے ہیں

جہادی تنظیمیں زلزلے کے خلاف ’جہاد‘ میں مصروف

صدر پرویز مشرف نے بیس اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔

صدر کے اس بیان سے جہاں حکومت کی تشویش کا اندازہ ہوتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی جہادی سرگرمیوں کا سولہ سالہ تجربہ اور نیٹ ورک خاصا مددگار ثابت ہورھا ہے۔

مثلاً جماعت الدعوہ ( سابق لشکرِ طیبہ) کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے۔اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی ایک ہزار کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا۔تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھلے حصے میں کپڑوں، گدوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے۔اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے۔

مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے۔بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے زریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں۔

اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے۔

ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی۔اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں ایک سو بیس بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں۔جبکہ اب تک ساڑھے تین ہزار چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں۔

اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھ۔یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔

جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا۔اسکے علاوہ متاثرین کو ایک ہزار گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارھا ہے۔

کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں۔الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں۔

یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررھا ہے۔

بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر فی الحال مناسب نہیں سمجھتے۔

اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جٹی ہوئی ہے۔مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں۔جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔تاہم میں نے صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں میں بظاہر حزب کی ریلیف سرگرمیاں نہیں دیکھیں۔

ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے۔بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے۔یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں۔

البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی۔ اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ’ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں۔

شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔

میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رھا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے۔’وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے۔
میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی۔کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے۔ اسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا۔

الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں۔بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی ڈھائی ہزار خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے۔جبکہ ایک ہزار زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے۔

تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔

الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے۔تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے۔

یہ تضاد آپ کو اور کئی شکلوں میں بھی نظر آسکتا ہے مثلاً یہی کہ متاثرہ علاقوں کے اوپر امریکی چنوک ہیلی کاپٹر پروازیں بھر رہے ہیں اور نیچے جہادی تنظیمیں کوشاں ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔

پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی

میں اپنا پہلا بلاگ “یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟ ۔ Hypocrisy Thy Name … انگریزی میں لکھا کرتا تھا ۔ جب اردو عام ہوئی تو میں نے یہ دوسرا بلاگ اردو میں شروع کیا ۔ پھر میں نے اپنے پہلے بلاگ میں بھی اردو لکھنا شروع کر دی ۔اس ماہ مجھے کچھ ای میلز آئیں کہ آپ کے بلاگ پر جاتے ہیں مگر اردو نہ جانتے ہوۓ پڑھ نہیں سکتے ۔ اس پر میں نے سائٹ میٹر کھولا تو معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے علاوہ قارئین کا تعلق امریکہ ۔ کینڈا ۔ افریقہ ۔ سعودی عرب ۔ فلسطین ۔ کویت ۔ ترکی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ایران ۔ افغانستان ۔ سنگا پور ۔ ہانگ کانگ ۔ کوریا اور آسٹریلیا سے ہے ۔

سو میں نے اپنے پہلے بلاگ پر پھر سے انگریزی لکھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اردو بھی ساتھ چلے گی ۔ چنانچہ اردو سیّارہ کی پالیسی کے تحت اب میرا پہلا بلاگ آپ کو اردو سیّارہ پر صرف اس وقت نظر آۓ گاجب میں اس میں اردو لکھوں گا ۔

انگریزی میں بھی انشاء اللہ دلچسپ باتیں لکھی جائیں گی ۔ صرف آپ کو میرے بلاگ پر جانے کی زحمت گـوارہ کرنا پڑے گی جس کے لئے معذرت پیشگی ۔”

زلزلہ سے متاءثر علاقہ سے

بٹگرام کی وادی الائی میں پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں

وادی الائی کے علاقے میں امداد کاموں کے انچارچ کرنل ذکیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر علاقے کی آبادی کو دو تین دنوں میں یہاں سے نہ نکالا گیا تو پچیس سے تیس ہزار لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

کرنل ذکیر نے بی بی سی کے نامہ نگار وسعت اللہ خان کوبتایا کہ پچھلی ایک رات میں دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک جھٹکے محسوس کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات آنے والے جھٹکے ’ آفٹر شاکس‘ نہیں تھے بلکہ آتش فشاں حرکت معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور جب ایک جھٹکا آتا ہے تو اس کے ساتھ دھماکے کی آواز بھی آتی ہے۔ اور یہ آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے جیسے توپوں سے گولے داغے جا رہے ہوں۔ کرنل ذکیر نے بتایا کہ انہوں نے اعلی حکام کو سفارش کی ہے کہ وادی الائی میں امدادی کارروائیوں کرنے کی بجائے تمام مکینوں کو یہاں سے فوراً نکال لیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دو تین دنوں میں لوگوں کو وہاں سے نہ نکالا گیا تو شاید پھر ہم کچھ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں رہیں گے۔ کرنل ذکیر نے کہا لوگوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ اور ذریعہ نہیں ہےبی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق علاقے کی تمام زمینی راستے ختم ہو چکے ہیں اور تین دن کی مشقت سے بنائی جانے والی ایک سڑک رات کے زلزلوں میں پھر تباہ ہو گئی ہے۔ وادئِی الائی پونے دو لاکھ کی آبادی کا علاقہ ہے۔ یہاں آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے میں تین سے چار ہزار افراد ہلاک اور بیس سے بائیس ہزار زخمی ہوئے تھے۔

سرکاری حکام کے مطابق الائی میں اٹھانوے فیصد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں کیونکہ یہ وادی ایسے پہاڑوں سے گِھری ہوئی ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل زلزلے کی سی کیفیت ہے۔ یہاں آبادی ایک جگہ پر اکٹھی نہیں بلکہ دو دو تین تین مکانوں کی شکل میں پہاڑوں پر پھیلی ہوئی ہے۔یہاں 12 تاریخ سے فوج عالمی امدادی اداروں کے کیمپ موجود ہیں لیکن نوے فیصد آبادی نقطہ انجماد کے نیجے کے درجہ حرارت پر کھلے آسمان تلے راتین گزارنے پر مجبور ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں برف باری کی پیش گوئی اور مسلسل آتش فشانی کیفیت کے پیش نظر وادی کو خطر ناک قرار دے کر آبادی کو کہیں اور منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

تیس لاکھ بےگھر، صرف 30 ہزار خمیے

امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تیس لاکھ بے گھر افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے اب تک صرف تیس ہزار خیمے پہنچائے جا سکے ہیں جبکہ اس علاقے میں تین لاکھ پچاس ہزار خیموں کی ضرورت ہے۔ مگرامدادی تنظیموں کے مطابق امدادی ہیلی کاپٹروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود اب بھی زلزلے سے متاثرہ تمام علاقوں تک پہنچنا یا وہاں امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف کو آرڈینیٹر راشد خالیکوف نے کہا ہے کہ زلزلے کے دو ہفتے بعد بھی صرف مظفرآباد میں آٹھ لاکھ افراد بےگھر ہیں ۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں زلزلے کے دوہفتے بعد تک تقریباً دو ہزار دیہات ایسے ہیں جہاں تک مکمل رسائی نہیں ہو سکی ہے اور خدشہ ہے کہ ان دیہات کے رہائشی افراد سخت سردی کا شکار ہو کر ہلاک نہ ہو جائیں۔

امدادی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلہ زدگان کے لیے عالمی امداد کی فراہمی سست روی کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ریلیف کوارڈینیٹر ارشد خالیکوف نے کہا ہے کہ’ یہ لازم ہے کہ امداد دینے والے ممالک جلد از جلد اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارے پاس چھ ہفتے کا وقت ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم یہ کام کر پائیں گے بھی یا نہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کو پانچ بلین ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ عالمی برادری نے اب تک صرف چھ سو بیس ملین ڈالر امداد دی ہے۔

ٹھٹھا مذاق

سورۃ 49 الحجرات آیۃ 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔

معیشت اور تکبّر

معیشت

سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔

فخر و تکبّر

سورۃ 31 لقمان آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔