دانیال صاحب کا استفسار ۔ چوتھی قسط

دانیال صاحب کا سوال ۔ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟

اوسامہ کے متعلق پچھلے پچیس سال میں جو کچھ میں نے مختلف اخباروں اور جرائد میں پڑھا ہے اسے عسکری تربیت امریکی حکومت نے دلوائی اور دو ہزار عرب جوانوں کو عسکری تربیت دے کر ان کا سپہ سالار بنایا ۔ اوسامہ کو مجاہد اعظم امریکی حکومت نے بنایا اور دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے امریکی پراپیگنڈا کے زیر اثر اسے مجاہد مان لیا ۔ دس سال بعد جب امریکی فوج نے سعودی عرب میں پکا ڈیرہ ڈال دیا تو جو تعلیم امریکہ نے روسیوں کے خلاف لڑنے کے لئے اوسامہ کو دی تھی اسی کے مطابق اس نے امریکیوں کو سعودی عرب سے نکلنے کا نوٹس دے دیا ۔ اس پر اسے دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور اس نے افغانستان میں پناہ لی ۔ اوسامہ کے متعلق ساری خبریں یک طرفہ ہیں یعنی مغربی ذرائع ابلاغ سے ملتی ہیں ۔ الجزیرہ اور العربیہ ٹیلیویژن جو اوسامہ کی وڈیو اور آڈیو ٹیپ نشر کرتے ہیں وہ قطر کے حکمرانوں کے ہیں جو امریکہ کے غلام ہیں اور اب تو ظاہرہ طور پر بھی الجزیرہ ایک امریکن ٹیلیویژن نے خرید لیا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت اوسامہ کو دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں ۔

مزید امریکی حکومت کے کئی دہائیوں پر پھیلے ہوئے ایشیا اور افریقہ کے لوگوں پر جبروتشدد کی وجہ سے بے شمار لوگ بالخصوص مسلمان امریکی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار وہ امریکی حکومت کے مخالف کی تعریف کر کے کرتے ہیں ۔ مدرسوں کے طلباء کی تخصیص ٹھیک نہیں زیادہ تر پاکستانی ۔ دوسرے ملکوں کے مسلمان بلکہ کئی غیرمسلم بھی اوسامہ کو بے قصور سمجھتے ہیں ۔ اوسامہ بن لادن کو دہشت گرد ثابت کرنا ابھی باقی ہے لیکن اسے دہشت گرد بنانے والے لازمی طور پر دہشت گرد ہیں ۔مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اوسامہ بن لادن یا تو اس وڈیو کے بننے سے پہلے مر چکا تھا جس میں اسے گیارہ ستمبر کے حملہ کا اقرار نما ذکر کرتے دکھایا گیا تھا یا امریکہ کے پاس محفوظ ہے اور امریکی حکومت ساری دنیا کو بیوقوف بنا رہی ہے ۔ اگر صدّام حسین کی گرفتاری کی وڈیو اور گرفتاری کے وقت کے اعلان پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدّام حسین کی گرفتاری کا ڈرامہ رچایا گیا تھا وہ پہلے ہی امریکی حکومت کے پاس تھا ۔ تو ایسا اوسامہ کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا ۔ البتہ ملّا عمر امریکی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ افغانیوں کی اکثریت ملّا عمر کی دشمن ہونے کی بجائے امریکی قبضہ کے خلاف ہے ۔

دانیال صاحب کا سوال ہے ۔ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی ہے؟

دہشت گردی کے خلاف تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی نہیں بلکہ یہ مذموم پراپیگینڈہ کے تحت توڑی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ آج تک جتنے لوگ دہشت گردی کے مجرم یا ملزم قرار دیئے گئے ہیں ان کا کسی بھی دینی مدرسہ کے ساتھ تعلق تو کجا ان کا تعلق پاکستان سے بھی ثابت نہیں ہوا مگر اندھی طاقت کے زور پر مدرسوں اور مدرسوں میں پڑھے ہوئے بے قصور لوگوں اور پاکستانیوں پر انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی کی جا رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سب سے بڑے دشمن روسی یونین کو توڑنے کے بعد اب مغربی طاقتیں اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ختم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھ میں بہت زیادہ کھٹکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت کے بادشاہ سے بڑھ کر بادشاہ کا خیرخواہ قسم کے رویّے کے باوجود پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔گیارہ ستمبر اور اس کے بعد ہونے والے دھماکوں میں جو طریقہ استعمال کیا گیا اس کے لئے مندرجہ ذیل میں مہارت لازمی تھی ۔

علاقائی زبان پر عبور
علاقائی رسوم سے واقفیت
ذرائع رسل و رسائل کا علم
دستیاب کیمیائی مواد سے طاقتور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کا عملی تجربہ
بم تیار کرنے اور دھماکہ کرنے کے سلسلہ میں مہارت

پاکستان میں قائم دینی مدارس کا تعلق دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے پہلے کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ مدرسوں میں اس قسم کی تعلیم و تربیت کا انتطام ہے یا نہیں ۔ لندن دھماکوں میں ایسیٹون پرآکسائیڈ استعمال کیا گیا جو بہت حسّاس دھماکہ خیز مواد ہے ۔ معمولی سی بے احتیاطی دھماکہ کا باعث بن سکتی ہے ۔اس کے استعمال کے لئے اعلی درجے کی مہارت کی بھی ضرورت ہے ۔ دوسرے اس کام کے لئے سائنس اور الیکٹرونکس کی سمجھ بھی ہونی چاہیئے ۔ دینی مدرسوں میں کوئی بھی ایسا استاد نہیں ہے جو یہ علم رکھتا ہو اور نہ ان مدرسوں کے پاس کوئی ایسا انتظام ہے ۔ ایسی تعلیم و تربیت کا انتظام صرف خفیہ اداروں میں ہوتا ہے جیسے امریکہ کا سی آئی اے ۔ بھارت کا را یا پاکستان کا آئی ایس آئی ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

6 thoughts on “دانیال صاحب کا استفسار ۔ چوتھی قسط

  1. اجمل

    رانا صاحب
    بات درست ہے کہ عام طور پر مرنے سے پہلے آدمی کی کوشش ہوتی ہے جتنے مار سکے مار لے البتہ جو وڈیو صدّام کو حراست میں لینے کی دکھائی گئی تھی اس میں تو کوئی بندوق یا مشین گن نہیں دکھائی گئی تھی ۔

  2. اجمل

    Wise Sabre
    میں نے ترجمہ ٹھیک کیا تھا ۔ عقلمند شمشیر ؟

    آپ نے ٹھیک کہا ۔ ماڑی دھاڑ چماڑلی ۔
    اردو میں برق گرتی ہے بیچارے مسلمانوں پر ۔ پنجابی میں پیئا پالا موئے غریب پیئی گرمی موئے غریب ۔ کشمیری میں میان ڈولو کاچھو اس وقت پشتو اور بنگالی کے مقولے میرے ذہن میں نہیں آ رہے ۔

    در اصل اس میں چماڑلی ۔ مسلمان ۔ غریب اور میان سے مراد صرف غریب نہیں غریب اور کمزور بھی ۔ گو ان الفاظ کے معنی اپنے طور پر کچھ اور ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.