Monthly Archives: June 2005

نیکی کر دریا میں ڈال

آج 2 جون ہے۔ آج سے ٹھیک آدھی صدی قبل میرے دادا جان (اللہ جنت عطا کرے) اس دار فانی سے رخصت ہوے۔ میرے دادا اور دادی نے حج اس زمانہ میں کیا جب مکہ مکرمہ سے منی۔ عرفات اور واپسی پیدل اور مکہ مکرمہ سے مدینہ اور واپسی اونٹ پر ہوتی تھی۔بعد دوپہر اور رات کو میں دادا جان کے بازو اور ٹانگیں سہلایا کرتا تھا۔ (عام زبان میں دبانا کہتے ہیں) اس دوران دادا جان مجھے اچھی اچھی باتیں اور اپنی تاریخ سنایا کرتے۔ ایک فقرہ وہ عموما کہتے ” نیکی کر اور دریا میں ڈال؛ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ دادا جان نے بتایا۔” یعنی نیکی کرو اور بھول جاؤ۔ اپنی نیکی نہ یاد رکھو نہ جتاؤ۔” پھر بھی بات مجھےپوری طرح واضح نہ ہوئی۔ بعد میں ‍قرآن شریف کے تفسر کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہے کہ کسی پر احسان کر کے جتاؤ نہیں۔ بڑی عمر کو پہنچنے پر دوسرے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ دادا جان اس کی عملی مثال تھے۔ وہ ہر کسی سے حتہ کہ بغیر جان پہچان کے بھی بھلائی کرتے تھے احسان سمجھ کر نہیں بلکہ فرض سمجھ کر۔ اس لئے برادری کے تمام بزرگ اور شہر کے لوگ ان کی بہت عزّت کرتے تھے اور اہم کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ نیکی کر دریا میں ڈال انسانیت کا ایک عمدہ پہلو ہے۔

ایک طرف تو وہ پچھلے وقتوں کے لوگ اور ایک آجکل کے ہم لوگ کہ بھلائی تو کرنے کا سوچتے بھی نہیں اور دوسروں کو دکھ دینے۔ ان سے ان کے بیٹے ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ باپ چھیننے کے لئے ہر وقت تیار۔ آپ سب نے سنا یا پڑھا ہو گا گہ کراچی کی عبادت گاہ میں دھماکہ اور اس کے بعد نہ صرف دو پٹرول پمپ اور کے ایف سی جلائے گئے بلکہ شریف لوگوں کو گاڑیوں میں سے نکال کر ان کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ کیا ہم لوگ بھڑیوں سے بھی بد تر ہو گئے ہیں ؟

پھول کی فریاد

ہماری شائد ساتويں جماعت کی اردو کی کتاب تھی مرقعء ادب۔ اس میں اچھی اچھی اور سبق آموز نظمیں تھیں۔ ایک تھی “پھول کی فریاد” مجھے پوری تو یاد نہیں جتنی یاد ہے لکھ دیتا ہوں۔ کوئی صاحب پوری جانتے ہوں تو میرے بلاگ پر لکھ دیں۔ ممنون ہوں گا۔

کیا خطا میری تھی ظالم تو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
خورشید کہتا ہے کہ میری کرنوں کی سب محنت گئی
مہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی
جانتا اگر اس ہنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کے گدگدانے سے نہ ہنستا نام کو