ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ پانچویں قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے

23-05-2005
11-06-2005
14-06-2005
20-06-2005
23-06-2005

اسلامی قوانین ۔ پورے اسلامی قوانین کا احاطہ کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ۔ میں حدود آرڈیننس کے بھی صرف اس حصے پر اظہار خیال کروں گا جس کا تعلق خواتین کے ساتھ بدکاری سے ہے ۔ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں حدود آرڈیننس کے متعلق کچھ اظہار خیال کر چکا ہوں ۔ اس کے علاوہ میرے بیٹے زکریا نے اس پر دوسرے زاو یے سے بحث کی ہے ۔ اب میں اس سے آگے چلتے ہوئے اس کے ایک اور پہلو پر بات کروں گا ۔

اسلامی قوانین کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ ان قوانین کا صحیح اطلاق اس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی یا انصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ جیسا کہ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں واضح کر چکا ہوں ۔ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے صحیح اطلاق میں نہ صرف دوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ جابر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور ریپ کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔ اسلامی قوانین سے واقفیت نہ رکھنے والے جبر و استبداد کو ختم کرنے کی بجائے اسلامی قوانین میں کیڑے نکالنا آسان سمجھتے ہوئے اسلامی قوانین کی مخالفت پر تل جاتے ہیں ۔

حدود آرڈیننس میں درج چار گواہیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ میرے بیٹے زکریا نے لکھا ہے ۔ بدکاری کی سزا ایک سو کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا ہے ۔ اتنی سخت سزا کسی اور جرم کی نہیں ۔ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔ قاتل کی سزا موت ہے اور اگر مقتول کے وارث از خود معاف کر دیں تو قاتل زندہ رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں سنگسار ہونے یا سو کوڑے کھانے والا جس اذیّت سے گذر کر مرتا ہے اس کا اندازہ لگائیے ۔ ہمارے موجودہ معاشرہ پر میں اپنی سابقہ پوسٹس میں روشنی ڈال چکا ہوں ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس طرح کا ہمارا معاشرہ بن گیا ہے اگر یہ پابندی نہ ہوتی تو خود غرض اور جابر مرد ۔ عورتوں پر جھوٹے الزامات لگا کر یا تو انہیں اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کا کھلونا بنا لیتے یا ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ جو کچھ آجکل کچھ علاقوں میں سردار یا وڈیرے کارو کاری یا مانی کے نام پر یا جرگوں کے فیصلوں سے کر رہے ہیں وہ کھلے عام ملک میں ہر جگہ ہونے لگتا ۔

باقی ان شاء اللہ آئیندہ

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

One thought on “ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ پانچویں قسط

  1. Pingback: قانون کا غلط استعمال ۔ ایک اہم فیصلہ | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.