Monthly Archives: May 2005

نور پور شاہاں بم دھماکہ اور قانون کے محافظ

جس لڑکے نے جمعہ کی دوپہر کو ہمیں دھماکہ کی خبر سنائی وہ ہمارے ملازم کا بھتیجھا ہے اور ان کا اور ان کے احباب کے گھر نورپور شاہاں میں ہیں۔ اس کے اور کئی موقع کے گواہوں کے مطابق وہاں ایجنسیوں والے تو کیا پولیس والے بھی مزار کے اندر یا گرد موجود نہ تھے اور دور کسی ہوٹل میں بیٹھے کھا پی رہے تھے جب کہ یہ مزار پریزیڈنٹ ہاؤس۔ پرائم منسٹر ہاؤس اور ڈپلو میٹک انکلیو کے قریب ہے۔ دوسرے فی زمانہ جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھے ہوں وہاں سخت سیکیوریٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس سلسہ میں ڈان کا ایڈیٹوریل یہاں کلک کر کے پڑھئے۔

خود کش حملہ اور ہلاکو خان

نبیل صاحب نے لکھا۔

پاکستان میں بری امام کے مزار پر ایک اور خود کش دھماکہ ہو گیا۔ ایک زیادہ تر شیعہ زائرین اکٹھے تھے۔ سنی لوگ بھی موجود ہوں گے۔ اب ان دانش فروشوں اور دین کے نام سیاست کی دکان چمکانے والوں کی یقینا باچھیں کھلی ہوں گی۔ پاکستان کے عوام اور مقتدر طبقے نے عشروں تک جہادیوں کو بہ صرف برداشت کیا بلکہ ان کی کاروائیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ہم لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ لوگ ہم پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ شاید ہمیں بھی ایسے ہلاکو خان کا انتظار کرنا پڑے جو ان فدائین کو ٹھکانے لگا دے۔

نورپور شاہاں میرے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ دیگرمیں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ بی بی سی نے یہ شوشہ صرف فساد کی آک بڑھکانے کے لئے چھوڑا ہے کہ زیادہ تر شیعہ زائرین اکٹھے تھے۔ وہاں لوگ بلا تمیز مسلک آتے ہیں اور اپنی بلحاظ فرقہ پہچان نہیں کرواتے۔ بی بی سی کا مسلم دشمن افواہیں پھیلانے کا کاروبار کوئی نیا نہیں ہے۔آج کے کمپلیکس دور میں جہاں کسی بھی چیز کی اصل صورت نظر آنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ بات کرنا اور بات کو سمجھنا اتنا آسان نہیں رہا کہ ایک عبارت یا خبر پڑھی اور بات سمجھ میں آ گئی۔ نیبیل صاحب اور باقی قارئین سے بھی گذارش ہے کہ آپ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کر کے بتائیں کہ اشخاص کے ایک گروہ پر ان کے گھر یا محلہ یا شہر میں آ کر ان پر ظلم و ستم شروع کر دیا جائے ان کے کمسن بچوں کو بھی بلا وجہ قتل کیا جائے۔ ان کی بہنوں بیویوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹی جائیں۔ ان کے پاس اپنے دفاع کا مناسب بندوبست بھی نہ ہو اور ان میں آپ بھی شامل ہوں تو کیا آپ یہی کہیں گے ” ایک اور ہلاکو خان آ جائے اور آپ کے مردوں کی گردنیں اڑا دے اور آپ کی جوان عورتوں کو داد عیش دینے کے لئے اٹھا کر لے جائے ؟ جموں کشمیر میں بھارتی فوج۔ چیچنیا میں روسی فوج۔ فلسطین میں امریکہ کی حمائت یافتہ اسرائیلی فوج اور افغانستان اور عراق میں امریکی اور حلیف فوجیں جو کچھ کر رہی ہیں کیا یہ سب ٹھیک ہے ؟ اور اگر آپ وہاں کے باشندے ہوتے اور آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا تو آپ کیا کرتے ؟

میں نے صرف نو دس سال کی عمر میں جو کچھ دیکھا اس کی چھوٹی سی جھلک میرے اس بلاگ کی سائیڈ بار میں “مائی لائف ان جمّوں اینڈ کشمیر پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ وقت بچانے کے لئے صرف “دی وائلینس سٹارٹس سے ٹو پاکستان ” تک پڑھ لیجئے۔ میں نے اس میں انتہائی قلب سوز واقعات کا ذکر اس لئے نہیں کیا تھا کہ کہیں میری اولاد کافروں سے اتنی نفرت نہ کرنے لگ جائے کہ جہاں کافر نظر آئے اس کا منہ نوچ لیں۔

عبدالقادر حسن نے جو کچھ لکھا وہ درست ہے۔ کل نور پور شاہاں میں جو دھماکہ ہوا وہ عبدالقادر حسن کا موضوع سخن نہیں تھا۔ جو طریقہ عبدالقادر حسن نے فتوی کا لکھا ہے وہ بھی صحیح ہے۔ فتوی دینے کے لئے سب سے اہم شرط یہ ہے کہ اگر فتوی نہ دیا گیا تو کسی مسلم (با عمل مسلم) فرد یا گروہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ متّقی اور زاہد مسلم عالم فتوی دینے سے بہت کتراتے تھے کیونکہ نہ صرف ان کے فتوی کے نتیجہ میں جو کچھ ہو گا وہ ان کے نامہء عمال میں لکھا جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالی بھی روز قیامت اس سے اس فتوی کی صحت کے متعلق سوال کریں گے ۔

عراق کے گورنر یزید بن عمر نے بن امیّہ کے آخری خلیفہ کے دور میں امام نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کو مفتی و قاضی بننے کی پیشکش کی مگر انہوں نے قبول نہ کیا کہ حکومت کی ماتحتی میں وہ انسانی حقوق کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ گورنر نے انہیں ایک سو کوڑے اور سر پر دس مکّے مروائے۔ امام صاحب کا سر چہرہ وغیرہ پھول گیا مگر وہ پھر بھی نہ مانے۔ یزید بن عمر کی اچانک موت سے ان کی خلاصی ہوئی۔ بعد میں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے سپریم کورٹ آف اپیل کے چیف جسٹس بننے کی پیشکش کی۔ انکار پر قید کر دیا پھر دس مکّوں اور سو کوڑوں کی سزا دی۔ آخری کوڑا جان لیوا ثابت ہوا۔

آج کے دور میں ایسے ملا پائے جاتے ہیں کہ حکومت نے ان سے محض امریکہ کی ھدائت پر ایک غلط فتوی لے لیا ہے تاکہ اس دور کے ہلاکو جارج واکر بش کا زرخرید چیلا پرویز مشرف مسلمانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے میں دل کھولکر ہلاکو کی مدد کر سکے۔

آج کے مسلمان کی حالت

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بد ن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانوں کا جامہء احرام

انسانیت ؟ یا ہماری خارجہ پالیسی پر ایک کاری ضرب ؟

میں قدیر احمد رانا کا پیغام من و عن شائع کر رہا ہوں۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے میری 19 مئی کی گذارش پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے چنانچہ اس پر تبصرہ ہونا چاہیئے۔مئی کے ڈان میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کا جو کالم شائع ہوا ہے وہ 22 پاکستانی فلمو ں کے دفاع میں ہے ۔ مجھے ان فلموں سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر اس کالم میں لکھا گیا ایک واقعہ قابلِ توجہ ہے ۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں استاد بڑے غلام علی خان اپنی تمام تر غربت اور کم مائیگی کے باوجود پاکستان کو دوسرے ممالک پر ترجیح دیتے تھے ۔ ایک واقعے نے ان کی سوچ کا دھارا بدل دیا ۔ ایک بار ان کے گھر میں چوری ہوگئی اور چور ان کی تمام جمع پونجی لے گئے ۔ استاد صاحب اپنے علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئے ۔ تھانیدار نے ان سے کہا کہ میں مصروف ہوں ، آپ باہر انتظار کریں ۔ جب آپ کی باری آئے گی تو بلا لیں گے ۔ استاد صاحب باہر کڑکتی دھوپ میں دو گھنٹے بیٹھے پسینہ بہاتے رہے ۔ ان کا رنگ کچھ سیاہی مائل تھا جس کو پسینے نے دو آتشہ کر دیا تھا ۔ دو گھنٹے بعد وہ دوبارہ تھانیدار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شنوائی کی درخواست کی۔ تھانیدار نے پہلے انہیں دیکھا ، پھر ان کے رنگ کو ، اور پھر اپنے اسسٹنٹ کو آواز دی

” اوئے پہلے اس بھینس کے کٹے کی رپورٹ لکھ ، اس کو بڑی جلدی ہے ”

اس واقعے نے استاد صاحب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اگلے ہی دن انہوں نے پاکستان کو خداحافظ کہ کر بھارت کے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ متعلقہ صوبے کے گورنر نے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا اور ان کے پیر چھوئے۔ افتخار اجمل صاحب نے فرمایا ہے کہ یہاں انسانیت سے متعلق واقعات درج کریں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے انسانیت میں گردانتے ہیں یا نہیں

ایک پہیلی

شعیب صفدر صاحب کی پہیلی کا جواب تو یہ ہے تلا نہ تھا
یعنی جوتے کا تلا نہ تھا اور سموسہ تلا ہوا نہ تھا
ایک اور ہو جائے۔ کیا خیال ہے ؟
برہمن نہایا کیوں نہیں ؟ دھوبن پٹی کیوں ؟ یعنی دھوبن کی پٹا ئی کیوں ہوئی

برا کون ؟ قانون یا قانون نافذ کرنے والے ؟

روشن خیال حکومت کے دور میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ابھی ایک گہرے زخم کا علاج بھی صحیح طرح شروع نہیں ہوا ہوتا کہ ایک اور گہرا زخم لگا دیا جاتا ہے۔ ابھی چند دن کی بات ہے کہ سیالکوٹ شہر کے تھانہ میں قانون کے محافظوں نے ایک سترہ سالہ طالبہء علم کی عصمت لوٹی تھی۔ اور الٹا اس پر برے چال چلن کا مقدمہ بھی بنا دیا تھا۔اب 17 مئی کو رات ساڑھے آٹھ بجے طاہر اور بلاّ اپنی رشتہ دار خواتین 32 سالہ صائمہ اور 15 سالہ سائرہ کو فیض آباد میں شیخوپورہ جانے والی بس کے اڈا پر چھوڑنے جا رہے تھے کہ فیض آباد فلائی اوور کے پاس پولیس نے روک کر ان کی شناخت یعنی ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ کا ثبوت مانگا۔ پھر ان کو قریبی تھانہ لے جا کر سب انسپکٹر اقبال شاہ کے حوالے کیا جس نے ان کے بیان لینے کے بعد انہیں کمرہ میں بند کرنے کا حکم دیا۔

پولیس والوں نے انہیں سیکس سکینڈل میں ملوّث کرنے کی دھمکی دی اور باعزت چھوڑنے کے عوض دو لاکھ روپے رشوت مانگی۔ نیز ان کے باس جو کچھ تھا (گھڑیاں۔ موبائل فون۔پیسے۔ اے ٹی ایم کارڈ) سب کچھ چھین لیا۔ پھر عورتوں سے ٹیلیفون کروا کر ان کے ایک رشتہ دار احمد ٹونی کو بلوایا اور اپنا دو لاکھ روپے کا مطالبہ دہرایا۔ ٹونی نے معذوری کا اظہار کیا تو دھمکیاں دیکر اے ٹی ایم پن کوڈ معلوم کیا اور ٹونی کو پولیس کے ساتھ بھیجا کہ اے ٹی ایم سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکال کر لائیں۔ وہ الائیڈ بنک سے رسید نمبر 00298099 کے مطابق بیس ہزار روپے اور حبیب بنک سے رسید نمبر 00364248 کے مطابق پانچ ہزار روپے لے کر آئے۔ ان کی عدم موجودگی میں پولیس آفیسر نے ایک پولیس مین کے ذریعہ سائرہ کو اپنے کمرہ میں بلایا اور زبردستی اس کی عزت لوٹ لی۔

ٹونی نے واپس آ کر پچیس ہزار روپے دئیے تو طاہر اور بلّے کواگلی صبح 4 بجے کے قریب رہا کر دیا مگر خواتین کو صبح 6 بجے تک اپنے پاس رکھا۔ جب خواتین کو رہا کیا گیا تو سائرہ کی حالت بہت خراب تھی۔ ٹونی خواتین کو اپنے گھر لے گیا مگر پھر سائرہ کو ہسپتال لے جانا پڑا جہاں سائرہ 30 گھینٹے زیر علاج رہی۔ ٹونی نے پولیس کے ڈر سے ہسپتال والوں کو اصل صورت حال نہ بتائی۔

پوری خبر کے لئے یہاں کلک کریں

کچھ حدود آرڈیننس کے متعلق

پہلے شبّیر کی “میری یادیں” میں تحریر سے اقتباس

۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ذہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسلام کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی “حدود ” کا معاملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی عرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے ۔۔۔ یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس ختم ہوا

ہمارے ملک کے قوانین ہماری آزادی سے پہلے قابض انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ عوام کی بھلائی کے لئے نہیں۔ ہماری آزادی کے بعد جو ترامیم ہوئیں وہ زیادہ تر مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں ہوئیں چنانچہ اول تو قوانین ہیں ہی جابر اور بارسوخ لوگوں کی حمائت میں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی بھی تشریح اسی طرح سے کی جاتی ہے۔ حدود کے قوانین کا صحیح نفاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت وغیرہ میں انسانیت دوست (یا منطقی) ترمیمات نہیں کی جاتیں۔ حدود آرڈیننس تو کیا۔ کسی بھی انسان دوست قانون کا صحیح نفاذ موجودہ قانون تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ وکیل بھاری فیس کے عوض ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو وہ دولت کی گولی کھلا کے سلا دیتا ہے۔ اس لئے کسی عام آدمی کو انصاف مل جانا محض ایک اتفاق ہوتا ہے۔

ضیاءالحق کے زمانہ میں گواہی دینے کے لئے ایک حلف ضروری قرار دیا گیا تھا جو کہ قرآن شریف میں غلط کاری کے سلسلہ میں درج ہے۔ یہ حلف کچھ اس طرح تھا ” میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور اگر میں کوئی غلط بیانی کروں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو” یہ حلف نامعلوم کیوں ختم کر دیا گیا۔ شائد اس لئے کہ جھوٹے گواہوں کو ذہنی کوفت نہ ہو۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام انصاف میں نہ آج جیسے وکیل کی گنجائش ہے اور نہ آج جیسے ججوں کی۔ اسلامی نظام انصاف میں سچ کی جستجو اور انصاف کا اطلاق (جس کو کوئی جھوٹ پر مبنی نہ کہہ سکے) جج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جج صرف وہی بن سکتا ہے جس کے انصاف پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیءِ افکار سے مشرق میں غلام

نوٹ ۔ یہاں مدرسہ سے مطلب مروّجہ تعلیمی ادارے یعنی سکول کالج یونیورسٹی سب ہیں