Category Archives: ذمہ دارياں

یومِ ولادت قائد اعظم

آج برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کا يومِ ولادت ہے
146 سال قبل آج کے دِن یعنی 25 دسمبر 1876ء کو برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح پیدا ہوئے
قائداعظم کو اللہ تعالٰی نے شعُور ۔ مَنطَق اور اِستَقلال سے نوازا تھا
اِن صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے اُنہوں نے ہميں ايک اللہ کی نعمتوں سے مالا مال مُلک لے کر ديا
مگر
ہماری قوم نے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے اِس تحفہ اور اپنے عظيم رہنما کے قول و عمل اور اِن کی یگانگت کو بھُلا ديا
جس کے باعث ہماری قوم اقوامِ عالَم ميں بہت پيچھے رہ گئی ہے
قائداعظم نے نصب العین کیلئے ہمیں دو بڑے اہم لاءحہءِ عمل دیئے تھے
1 ۔ ایمان ۔ اتحاد اور تنظیم
2 ۔ کام ۔ کام ۔ کام ۔ بس کام
مگر مالی حالت بہتر ہوتے ہی قوم کی اکثریت کا
1 ۔ اللہ پر یقین یعنی ایمان کمزور اور دولت کی لالچ بڑھنا شروع ہوا
2 ۔ محنت اور دِلجمعی سے کام کرنے کی بجائے کام سے دِل چُرانے اور دھوکہ دینے کی عادت اپنا لی

قوم میں وہ لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قائداعظم کا دیا ہوا نعرہ ” ایمان ۔ اتحاد ۔ تنظیم ” ہی بدل کر ” اتحاد ۔ یقین ۔ نظم ” بنا دیا
اپنے آپ کو کشادہ ذہن قرار دینے والے کم ظرف کہنے لگے کہ پاکستان اسلام کے نام پر تو بنا ہی نہ تھا بلکہ قائداعظم کو سیکولر قرار دے کر پاکستان کو بھی سیکولر بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے
کچھ بدبخت اس سے بھی آگے بڑھے اور قائداعظم کے مسلمان ہونے کو ہی مشکُوک بنانے کی ناپاک کوشش کی
آئیے آج سے اپنی بَد اعمالیوں سے تَوبہ کریں
اپنے اللہ پر یقین کرتے ہوئے قرآن کی رہنمائی میں قائدِاعظم کے بنائے ہوئے راستہ پر چلیں
اور اس ملک پاکستان کو تنَزّل کی گہرائیوں سے نکالنے کی جد و جہد کریں
اللہ کریم ہمیں اپنے اِس فرض اور نیک کام کی طرف بھرپور توجہ دے کر اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

جُرم و سزا

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔ ترجمہ : تیری ذات [ہر نقص سے] پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی [سب کچھ] جاننے والا حکمت والا ہے

یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ملک میں گھناؤنا جُرم ہوتا ہے تو کبھی کبھار اخبارات تک پہنچتا ہے اور اِس پر بھی کچھ دِن غُل غپاڑہ ہوتا ہے پھر معاملہ پسِ منظر چلا جاتا ہے ۔ میر والا ملتان کی مختاراں مائی ۔ سُوئی بلوچِستان کی ڈاکٹر شازیہ ۔ فیصل آباد کی سونیہ ناز اور چک شہزاد اسلام باد کی نازش ۔ [آخری دو کی عزّت قانون کے محافظوں نے اغواء کر کے لوٹی] ۔ ان کے متعلق اخبارات نے عوام کو مطلع کیا ۔ کچھ روز کے لئے فضا میں ارتعاش پیدا ہوا پھر حسبِ معمول خاموشی جیسے ایک مووی فلم تھی جو ختم ہوئی اور تماشائی گھروں کو چلے گئے ۔ مختاراں مائی تو کبھی کبھار اخباروں میں نظر آ جاتی ہے مگر اُس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کیا سزا ملی عوام نہیں جانتے
این جی اوز بھی کچھ دن شور مچاتی ہیں پھر سو جاتی ہیں اور اُن کا بھی زیادہ زور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے پر ہوتا ہے جیسے حدود آرڈیننس میں لکھا ہو کے عورتوں کے ساتھ زیادتی کرو ۔ حدود آرڈیننس کو ختم کیا گیا تو بدکاری کو روکنا ناممکن ہو گا کیوں کہ کِسی اور مروّجہ قانون میں بدکاری کو باقاعدہ جُرم قرار نہیں دیا گیا ۔البتہ حدود آرڈیننس میں زبردستی بدکاری کرنے کے سلسلہ میں گواہوں کی شرط پر نظرِ ثانی اور مناسب ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ تفتیش کا نظام اور پولیس کی کارکردگی میں خامیوں کو دور کر کے فعال بنانا اشد ضروری ہے
ہمارے طرزِ عمل ۔ قرآن و سنّت کی وعید اور جرائم کی سزاؤں کے متعلق میں پچھلے ایک سال میں لکھتا رہا ہوں ۔ لکھنے سے پہلے میں وسیع مطالعہ اور اسلامی قانون کے ماہرین سے اِستفادہ حاصل کرتا رہا تھا پھر بھی میں نے اپنی تمام تحاریر کو یک جا کر کے پرنٹ کیا اور جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں اُس کے خطیب صاحب کو نظرِ ثانی کے لئے دیا ۔ وہ صاحبِ علمِ دین ہیں ۔ الحمد للہ اُنہوں نے تمام مضمون سے اتفاق کیا مگر کہا کہ مندرجہ ذیل فقرہ سے قاری کے ذہن ميں شک پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اسلئے اسے حذف کر دیا جائے یا وجہ جواز لکھی جائے ۔ “مگر مجھے قرآن شریف ۔ حدیث حتٰی کہ کتابُ الفِقَہ میں بھی نہیں ملا کہ زنا بالجبر کے لئے چار گواہوں کی شرط ہے ۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اُس کے مطابق یہ شرط زنا بالرضا کے لئے ہے ۔ زیادہ علم رکھنے والے اِس سِلسلہ میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں”۔ چنانچہ جس بنیاد پر میں نے یہ فقرہ لکھا تھا اُس میں سے موٹی موٹی وجوہ نیچے درج کر رہا ہوں

قرآن الحکیم
ابتدائی حُکم
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت ۔ 15 و 16 ۔ تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اِصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

سورت 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 25 ۔ اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے اسے چاہیئے کہ تمہاری اُن غلام عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں – – – – پھر وہ جب حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 2 ۔ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیات 5 تا 9 ۔ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو
سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت ۔ 33 ۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری
[prostitution] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا
صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس”۔ اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی ۔
نتیجہ
جیسا مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے واضح ہے اور تقریباً تمام فُقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ بدکاری کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضرورری ہیں ۔ لیکن اس میں زبردستی سے کی گئی بدکاری شامل نہیں کیونکہ کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہو اور وہ سزا بھی پائے یہ منطق اور فطرت کے خلاف ہے اور اِسلام دینِ فطرت ہے اور منطق کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے حدود و قیود بھی اُسی کے مطابق بنائی ہیں ۔

عورت کو اغواء کیا گیا ہو یا وہ پولیس کی قید میں ہو تو اُسکی حالت ایسی غلامی کی ہوتی ہے جہاں وہ بالکل بے بس ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں زنا عموماً بالجَبَر ہوتا ہے اس میں عورت پر چار گواہوں کی شرط عائد نہیں ہوسکتی اور وہ اس جُرم [گناہ] سے برّی ہوتی ہے اور چونکہ اُس کے پاس گواہ ہونا بعید از قیاس ہے اسلئے اگر وہ قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا کر کہہ دے کہ اس مرد نے میرے ساتھ زبردستی بدکاری کی ہے تو وہ مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے ۔ دیگر اگرکسی کیس میں مرد مانے کہ اُس نے بدکاری کی ہے مگر عورت کی مرضی سے لیکن عورت انکاری ہو اور قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا لے تو اس صورت میں بھی مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے

تقریباً تمام فُقہاء متفق ہیں کہ حَد قائم کرنا اور سزا کا اِطلاق قرآن شریف اور حدیث کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے عوام میں سے کوئی فرد یا گروہ نہ حد قائم کر سکتا ہے نہ سزا دے سکتا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح ہے کہ قتل کے معاملہ کے برعکس بدکاری کے معاملہ میں راضی نامہ تاوان دے کر بھی نہیں ہو سکتا ۔ اسلئے کار و کاری ۔ وانی یا سوارا کی رسوم دین اسلام کے احکام کی صریح خلاف ورزی
ہے

بڑائی کِس میں ہے ؟

بڑائی اِس میں ہے کہ
آپ نے کتنے لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدَید کہا نہ کہ آپ کا گھر کتنا بڑا ہے
آپ نے کتنے لوگوں کو سواری مہیّا کی نہ کہ آپ کے پاس کتنی بڑی کار ہے
آپ کتنی دولت دوسروں پر خرچ کرتے ہیں نہ کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے
آپ کو کتنے لوگ دوست جانتے ہیں نہ کہ کتنوں کو آپ دوست سمجھتے ہیں
آپ محلہ داروں سے کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں نہ کہ کتنے عالیشان محلہ میں رہتے ہیں

یومِ دفاع پاکستان

بھارتی فوجوں نے 6 ستمبر 1965ء کو نمازِ فجر کے وقت سے پہلے اچانک لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بھرپور حملے کر دیئے ۔ صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان سلِیپنگ سُوٹ ہی میں جی ایچ کیو کے آپریشن رُوم پہنچ گئے ۔ اُنہوں نے 6 ستمبر کی صبح تقریر کی جس میں واقع بتانے کے بعد کہا ”وہ نہیں جانتے کہ اُنہیں کس قوم سے واسطہ ہے ۔ پاکستان کے فوجی جوان جن کے لَبوں پر کلمہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الله کا ورد ہے سرحدوں کی حفاظت کیلئے روانہ ہو چکے ہیں“۔

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گئے تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس طرح چند اہم دِن ضائع ہو گئے

جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھَمب جَوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی تَوی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور تَوی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمانڈر (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے تَوی کے کنارے رُک جانے کا حُکم دیا گیا تھا ۔ اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد راستہ پر قبضہ کر لیتے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا

کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر 2 دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتے رہے کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھے
جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965ء کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی

پہلا یومِ آزادی

ریڈیو جس سے پہلے سُنا کرتے تھے ”یہ آل اِنڈیا ریڈیو لاہور ہے“ سے 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر آواز آئی ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“
فضا نعرہءِ تکبِیر الله اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گُونج اُٹھی تھی
اب وہ جوش و جذبہ ناجانے کہاں دفن ہو چکا ہے

15 اگست 1947ء کی صبح ريڈيو پاکستان سے یہ ترانہ بجايا گيا تھا

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا
مَطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا
ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں
ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو
ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش
لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں
ان کو یہ چند شعر میرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق
اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو
جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر
نامِ محمدِ عربی صلعم پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے
حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں
اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا
دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم
دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار
اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

یہ مولانا ظفر علی خان کا کلام ہے جو بعد میں مجموعہءِ کلام ”چمنستانِ حجاز“ میں شائع ہوا

پاکستان کیوں بنا ؟

فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟”
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
رہی سہی کسر رَیڈ کلِف ایوارڈ نے ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے پوری کر دی اور بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا ۔ رَیڈ کلِف نے مزید عیّاری یہ کی کہ ایوارڈ کا اعلان پاکستان بننے کے 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں