Category Archives: تجزیہ

سانحہ مشرقی پاکستان پروپیگنڈہ اور حقیقت

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استدلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں

لمحہءِ فکر ہے یارانِ نقطہ دان کے لئے

ایک حسابی نے تجزیہ کیا ہے کہ عام انسان اپنا وقت کیسے گذارتا ہے ۔ تجزیہ ہوشرُوبا ہے ۔ ملاحظہ ہوستّر برس عمر پانے والے انسان کے مختلف مشاغل میں صَرف ہونے والے وقت کو جمع کیا جائے تو نقشہ کچھ اِس طرح بنتا ہے
وہ 24 سال سوتا ہے
وہ 14 سال کام کرتا ہے
وہ 8 سال کھیل کود اور تفریح میں گذارتا ہے
وہ 6 سال کھانے پینے میں گذارتا ہے
وہ 5 سال سفر میں گذارتا ہے
وہ 4 سال گفتگو میں گذارتا ہے
وہ 3 سال تعلیم میں گذارتا ہے
وہ 3 سال اخبار رسالے اور ناول وغیرہ پڑھنے میں گذارتا ہے
وہ 3 سال ٹیلیوژن اور فلمیں دیکھنے میں گذارتا ہے

اگر یہ شخص پانچ وقت کا نمازی ہو تو مندرجہ بالا مشاغل میں سے وقت نکال کر 5 ماہ نماز پڑھنے میں صرف کرتا ہے یعنی زندگی کا صِرف 168 واں حِصّہ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اتنا سا وقت نماز پڑھنے میں صرف کرنا بھی ہم پر بھاری ہو جاتا ہے ! ! !

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے

لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی
اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اگ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔
جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ

اسلام اور رسمیں

ہم نے بہت سے رَسَم و رواج کو اپنا کر اُن میں سے بہت سے اِسلامی سمجھ لئے ہوئے ہیں ۔ اِن رَسَم و رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حالانکہ اِسلام (قرآن) رَسَم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور اِنسان کو صِرف اللہ اور اُس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ۔ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ہماری رسُوم بھی ترقی کر رہی ہیں ۔ عرس ۔ چراغاں ۔ محفلِ میلاد ۔ کُونڈے بھرنا ۔ گیارہویں کا ختم ۔ میلادُالنّبی کا جلُوس ۔ مُحَرّم کا جلُوس ۔ شامِ غریباں ۔ قَبَروں پر چادریں چڑھانا ۔ انسانوں (پیروں) اور قبروں سے مرادیں مانگنا ۔ قبروں پر ناچنا (دھمال ڈالنا) ۔ قصِیدہ گوئی وغیرہ وغیرہ ۔ لمبی فہرست ہے ۔دس بارہ سال پہلے شادی سے پہلے قرآن خوانی کا رواج شروع ہوا

ہمارے محلہ میں ایک لڑکی کی شادی ہونا تھی ۔ میری بیوی کو پیغام آیا کہ مہندی والے دِن قرآن خوانی اور درس ہوگا ۔ وہ خوش ہوئی کہ خرافات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ وہاں سے بیوی واپس آئی تو چہرہ سُرخ منہ پھُلایا ہوا ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ کہنے لگی ” قرآن شریف ابھی بمشکل پڑھا کہ بلند آواز سے پاپ موسیقی شروع ہوگئی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ کھانے پینے کے لئے روک رہے تھے میں معذرت کر کے آگئی” ۔ شائد اِسی کو روشن خیالی کہتے ہیں ؟

بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُن میں دِکھائی گئی بہت سی ہِندُوانا رَسمیں بھی اپنا لی گئی ہیں ۔ مہندی کے نام سے دُولہا دُلہن کو اکٹھے بٹھا کر اُن کے سرّوں پر سے پیسے وارنا ۔ شادی شُدہ خوش باش عورتوں کا اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرنا یا اُن کے گِرد طواف کرنا اور اُن کے اُوپر کچّے چاول پھینکنا ۔ (اب شائد کپڑوں کو گرہ لگا کر آگ کے گرد پھیرے لگانا اپنانا باقی رہ گیا ہے)۔

ایک نیک خاندان کی لڑکی کی منگنی اس لئے ٹوٹ گئی کہ ہونے والے دولہا کی والدہ شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی رَسَم کرنا چاہتی تھیں جس میں وہ چار سوہاگنوں کی رَسَم بھی کرنا چاہتی تھیں ۔ لڑکی کی والدہ نے تَفصِیل پوچھی تو پتہ چلا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور چار شادی شدہ عورتیں جن کے خاوند زندہ ہوتے ہیں اور وہ خوش باش ہوتی ہیں لڑکی لڑکے کے گرد طواف کرتی جاتی ہیں اور لڑکی لڑکے پر کچْے چاول پھینکتی جاتی ہیں ۔ لڑکی کے گھر والے غیر شرعی رسُوم کے مخالف تھے اس لئے منگنی ٹوٹ گئی ۔
ہم میں سے جو نماز پڑھتے ہیں وہ صرف فرض یا واجب رکعتوں میں ایک دن میں بیس مرتبہ اِھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دِکھا ہم کو راہ سیدھی ۔ (اگر سُنتیں اور نفل بھی شامل کر لئے جائیں تو پانچ نمازوں میں 48 بار کہتے ہیں) ۔

کبھی ہم نے سو چا ہے کہ ہم مانگتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں ؟
اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

دعوے اور عمل ؟ ؟ ؟

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرَر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

پڑھائی اور تعلیم

پڑھائی اور تعلیم
آجکل سکولوں میں صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تعلیم کا کہیں نام نہیں ۔ میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ سکول و کالج میں ہمارے اساتذہ نے ہمیں تعلیم دی تھی یعنی پڑھایا ۔ سکھایا اور تربیت دی ۔ الله میرے اساتذہ کو جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ میں آئے دن اُن کی ہوئی نصیحتوں مین سے کوئی نہ کوئی یاد آتی ہے
میں نویں جماعت میں تھا جب میرے 2 ہمجماعت سکول سے چھُٹی کے بعد آپس میں لڑ پڑے ۔ دوسرے دن صبح ہمارے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر شیخ ھدایت الله صاحب کلاس میں آئے ۔ اُن دونوں کو کھڑا کیا اور لڑنے کی وجہ پوچھی ۔ اُن میں سے ایک بابا کہہ رہا تھا ” الله کی قسم“۔ اور دوسرا بار بار کہتا تھا ”میں سچ کہتا ہوں“۔ سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب لڑکوں کو مخاطب کر کے کہا
”سچا آدمی الله کی قسم نہیں اُٹھاتا کیونکہ وہ اِسے بہت بڑا وزن سمجھتا ہے اور سچ بولنے والے کو اپنے منہ سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ سچ ہو یا جھُوٹ کبھی چھُپتا نہیں“۔

اس کی موجودہ حکمرانوں سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی

کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟

آج سے 6 دہائیاں قبل اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو ”انسان بنو بھئی“ کہنے سے وہ رک جاتا
اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو ”انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو“ کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا

آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

تُجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار ۔ وہ کردار ۔ تُو ثابت ۔ وہ سیّا رہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر ۔ آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال