Category Archives: منافقت

دیکھیئے اور سوچیئے

یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں ذرا غور سے دیکھیئے کہ اس میں کون لوگ ہیں ؟
وڈیو لگانے والے کا دعوٰی ہے کہ پاکستانی طالبان اور اُن کے ساتھی ہیں

یہ تصویر ہے امریکی شہریت رکھنے والے ایک مسلمان لڑکے کی جسے اسرائیلی فوجیوں نے مار مار کے حشر کیاامریکی جسے اسرائلیون نے مارا
اس پر امریکہ نے اسرائیل سے صرف احتجاج کیا ہے
اگر یہ واقعہ کسی مسلمان مُلک میں ہوا ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اب تک اُس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر چکی ہوتی
اور ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو امریکہ وارننگ بھی دے چکا ہوتا

اور یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں دیکھیئے کہ اسرائیلی فوجی کیا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں
وہ اسرائیل جسے امریکہ ہر سال 3 ارب ڈالر امداد بلکہ خیرات دیتا ہے
وہ اسرائیل مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے
اور پھر امریکی حکومت کا دعوٰی ہے کہ اسرائیل بہترین جمہوریت ہے

میری کہانی 5 ۔ کرے کوئی بھرے کوئی

یہ خبر تو زبان زدِ عام ہے کہ وطنِ عزیز میں اقرباء پروری زیادہ ہو گئی ہے ۔ اقرباء پروری کے کچھ عام سے طریقے بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مشتہر ہوتے رہتے ہیں ۔ آج میں اپنے ساتھ بیتے ایک ایسے طریقہءِ کار کا خاکہ پیش کرنے جا رہا ہوں جو شاید قارئین کے علم میں نہ ہو ۔ لیکن پہلے پرٹ اور سی پی ایم کی مختصر تعریف

PERT is Program Evaluation Review Technique۔

CPM is Critical Path Method for network analysis of flow models of a set of operations consisting of definite start and end nodes and fixed activities in between.

1986ء میں وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستان آرڈننس فیکٹریز بورڈ (پی او ایف بورڈ) کو ایک خط موصول ہوا کہ ایک سِنیئر افسر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے آپریشنز ریسرچ اینڈ کوانٹِیٹیٹِو ٹیکنیکس (Operations Research and Quantitative Techniques) کورس پر بھیجا جائے ۔ میں اُن دنوں جنرل منیجر ایم آئی ایس تھا ۔ مجھے پوچھا گیا ۔ میں ٹھہرا عِلم کا بھوکا ۔ بلاتوقف ہاں کہہ دیا ۔ 3 ماہ بعد کورس مکمل کر کے واپس لوٹا تو اُس وقت کے ممبر پی او ایف بورڈ برائے پیداوار (”جرمن زبان کا سرٹیفیکیٹ اورمکاری“ والے باس) نے کہا کہ فلاں فیکٹری کا مطالعہ کر کے سفارشات دو کہ اس فیکٹری کی پیداوار کیسے بڑھائی جائے ؟ میں نے اپنے دفتر کے کام کو جاری رکھتے ہوئے اوقاتِ کار کے بعد رات گئے تک کام کر کے ایک ماہ کے عرصہ میں اس فیکٹری میں ہونے والے کام اور تمام مشینوں کا مطالعہ کیا ۔ پَرٹ اور سی پی ایم کے استعمال سے چارٹ بنایا اور سفارشات تیار کر کے موصوف ممبر بورڈ کو پیش کر دیا ۔ یہ سب کچھ نہ تو مجھے واپس ملا اور نہ اس کے متعلق کسی نے مجھ سے بات کی

کچھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ موصوف ممبر پی او ایف بورڈ نے اپنے ایک منظورِ نظر افسر کو وہ سب کچھ دے کر متعلقہ فیکٹری میں عارضی طور پر تعینات کر دیا ۔ اُس شخص نے میرے بنائے ہوئے چارٹ اور سفارشات کے مطابق عمل کیا تو اُس فیکٹری کی پیداوار میں 15 فیصد اضافہ ہو گیا ۔ اس کے بعد موصوف ممبر بورڈ نے چیرمین پی او ایف بورڈ کو اُس فیکٹری میں لیجا کر دکھایا کہ اُس شخص نے محنت کر کے قلیل وقت میں اتنی زیادہ پیداوار بڑھا دی ہے اور خرچہ بھی نہیں بڑھا ۔ چنانچہ اُس شخص کو اُس فیکٹری کا ایم ڈی لگا دیا گیا

حکمرانوں کی عیاری و مکاری

کل صبح میں ایک خبر پڑھ کر پریشان تھا کیونکہ ان لوگوں میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا کہ لوگ جس کی دیانت کے دعویدار ہیں ۔ یہی پریشانی کیا کم تھی کہ عصر کی نماز کے بعد کمپیوٹر چلایا تو ایک اور خبر پڑھنے کو مل گئی

پہلی خبر ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اُن اراکین قومی اسمبلی کو سرکاری رہائش گاہ دینے سے انکار کر دیا ہے جن کے اپنے مکان اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہیں ۔ چنانچہ مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل اور ملک ابرار کو پچھلے دور میں دی گئی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے اور عمران خان کی طرف سے سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کیلئے دی گئی درخواست بھی نامنظور کر دی ہے

پریشانی اسلئے ہوئی کہ تحریکِ انصاف کی طرف سے ببانگِ دُہل اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کا کوئی رکن اسمبلی سرکاری رہائش گاہ نہیں لے گا ۔ یہ اعلان عمران خان کی درخواست نامنظور ہونے کے بعد کیا گیا ؟ یا عمران خان نے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیا ؟

دوسری خبر ۔ چیف جسٹس پا کستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت انکشاف ہوا کہ عدالتِ عظمٰی کی ھدائت کے مطابق سوئس حکام کو 5 نومبر 2012ء کو لکھے گئے خط کے بعد سابق حکومت کی جانب سے ایک اور خط 22 نومبر 2012ء کو لکھا گیا تھا جو سابق سیکریٹری قانون یاسمین عباسی نے تحریر کیا تھا ۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ صدر زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی کیس نہیں ہے اور نہ ہی حکومتِ پاکستان کوئی کیس کھولنا چاہتی ہے اسلئے مقدمہ بند کرکے خط لکھ دیں ۔ اس کے زیرِ اثر سوئس حکام نے 4 فروری کو مقدمات بند کردیئے

یعنی سابقہ حکومت نے نہ صرف عدالتِ عظمٰی بلکہ پوری قوم کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ۔ اس جُرم اور گناہ میں صرف زرداری اور یاسمین عباسی ہی نہیں اور لوگ بھی شامل ہوں گے

سیاست ۔ جھوٹ ۔ تبدیلی ؟

صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں ساری دنیا میں سیاستدانوں کی تقاریر اور وعدوں پر نظر ڈالی جائے اکثریت جھوٹ بولتی محسوس ہوتی ہے ۔ الیکشن 2013ء کے سلسلہ میں زیادہ تر سیاسی جماعتیں تبدیلی کی بات کر رہی ہیں ۔ تبدیلی کیسے آئے گی ؟

تبدیلی لانے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوام میں اچھے اور بُرے کا شعور پیدا کیا جائے اور سمجھایا جائے کہ اپنی اور مُلک و قوم کی ترقی کیلئے مَل جُل کر خلوصِ نیت سے محنت کے ساتھ کام کیا جائے ۔ حکمرانی کے ذریعہ تبدیلی لانے کیلئے لازم ہے کہ تبدیلی لانے والی سیاسی جماعتقومی اسمبلی کی کم از کم 172 نشِستیں حاصل کرے ۔ پھر اس کے پاس کم از کم ایک درجن باشعور مخلص اور محنتی وزراء ہوں

تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے فاروق عالم انصاری کی ایک تحریر میں بھی دکھائی دی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں

گوجرانوالہ ایشیا کا گندہ ترین شہر سہی لیکن تحریک ِ انصاف کی ٹکٹوں کی کہانی میرے شہر کی گندگی سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوگنی، چوگنی اور کتنے گنا ہوگی؟ بھئی انت شمار سے باہر ہے۔ ہمارے چیئرمین تحریک ِ انصاف کہہ رہے ہیں کہ ہم سے ٹکٹو ں کے معاملے میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ یہ بے خبری اور بھولپن کی انتہا ہے کہ اسے ”محض“ سمجھا جائے۔ کیا یہ غلطی ہے؟ خود ہی جواب تلاش کریں۔ میں صرف چند واقعات لکھ کر بری الذمہ ہوتاہوں۔ وما علینا الا البلاغ المبین
(1) گوجرانوالہ میں چیئرمین کے 2مئی کے منسوخ شدہ جلسہ کے لئے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی سے چندہ مانگا گیا تو وہ کہنے لگا کہ 42 لاکھ دے کر ٹکٹ لیا ہے اب مجھ سے اور کیا مانگتے ہو ؟
(2) وزیرآباد سے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی اسی جلسہ کے لئے چندہ مانگنے پر پھٹ پڑا ”جتنے روپے آپ مانگ رہے ہیں اس کے آگے کئی صفرے لگانے پر وہ رقم بنتی ہے جو دے کر میں نے ٹکٹ خریدا ہے، اب مجھ میں ادائیگی کی اور کوئی سکت نہیں رہی“ یاد رہے کہ اس سے چیئرمین کے جلسہ کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا
(3) گوجرانوالہ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر اظہر چیمہ کو ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے یہ ٹکٹ 50لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ اظہر چیمہ بڑے بھولپن سے پوچھ بیٹھا کہ ”آپ تو پی ٹی آئی کے ممبر بھی نہیں تھے“ اس نے جواب دیا ”پی ٹی آئی کی ممبرشپ انتخابی ٹکٹ کے
ساتھ خود بخود ہی مل جاتی ہے۔“ اب یہ خبر جو میں ابھی بتانے والا ہوں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوگی۔ خبریوں ہے کہ اس موقع پر اظہر چیمہ کف افسوس ملتے ہوئے بولا ”مجھے علم نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں ورنہ میں اس ٹکٹ کا ایک کروڑ روپے بھی ادا کرنے کو تیار تھا“
(4) میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لے کر پہنچنے کاحکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل پڑا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا ”اس تھیلے میں کیا ہے؟ بلال سانسی نے جواب دیا”کرنسی نوٹ ہیں“ سپاہی بے ساختہ بولا ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جارہے ہیں؟ وہاں جوبھی جارہا ہے نوٹوں سے لدا پھندا جارہا ہے نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہاہے؟“ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے پہنچنے سے پہلے فروخت کیا جاچکا تھا
(5) ایک امیرزادہ بڑا کایاں نکلا اسے رقم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اس نے بیک وقت ملتان کے دونوں سیاسی آڑھتیوں کو رقم کی ادائیگی کردی زیادہ سے زیاد ہ کیا ہوا؟ ٹکٹ تو دوگنی قیمت کا ہو گیا لیکن اس کاملنا تو یقینی ہوگیا
(6) میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ٹکٹ کی مد میں ہمارے عزت مآب ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن خان صاحب سے بھی ایک معقول رقم بٹوری گئی ہے اس بیچارے کو آخری دم تک خواجہ محمد صالح کے بھوت سے ڈرایا جاتا رہا تھا
(7) گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا سنٹرل پنجاب پی ٹی آئی کا ایک نوجوان عہدیدار ٹکٹوں کے بیوپار میں مالامال ہوگیا ہے۔ ٹکٹوں کی دلالی کوئلوں کی دلالی نہیں کہ اس میں منہ کالا ہو جائے بڑا صاف ستھرا کام ہے۔ اس نفیس کام میں رنگت کچھ اور نکھر آتی ہے۔ اسے تین ضلعوں کے ٹکٹوں کے سودے کروانے کی سعادت نصیب ہوئی
(8) پی ٹی آئی کاایک امیدوار مجھے یہ کہتے ہوئے بات ختم کرنے کی تلقین کرنے لگا کہ ضلع گوجرانوالہ میں کون ہے جسے تحریک ِ انصاف کا ٹکٹ مفت ہاتھ آیا ہو؟
میں اس بات کاحلف دینے کو تیار ہوں کہ میرے اس کالم میں کوئی ایک بات بھی کسی شخص سے غلط طور پر منسوب نہیں کی گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے امیدوار جو اپنے وافر مال منال کے باعث پی ٹی آئی کے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں اگر منتخب ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تو بھلا کیا تبدیلی آجائے گی
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا

تیری سادگی پہ نہ مر جائے کوئی

سندھ کے موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے 30 جولائی 2012ء کو پریس کانفرنس میں نیچے درج انکشافات کئے جو درحقیقت انکشافات نہیں تھے کیونکہ یہی سب کچھ ان سے قبل اُس وقت کی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے وسط جنوری 2012ء میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا جس کا خلاصہ راقم الحروف نے شائع بھی کیا تھا

شازیہ مری کے بیان کے بعد شرجیل انعام میمن کے بیان دینے تک 6 ماہ گذر چکے تھے اور اب 7 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آج تک اس کی اصلاح کیوں نہیں کی گئی ؟
یا ان چھ سات ماہ میں درستگی کیلئے کیا اقدامات بروئے کار لائے گئے ؟
کیا یہ ہیرا پھیریاں اور غلط کاریاں بار بار سنسنی خیزی طاری کر کے بیان دینے سے از خود ختم ہو جائیں گی ؟
درستگی میں آخر کونسی چیز آڑے آ رہی ہے ؟ جبکہ صوبہ سندھ اور مرکز دونوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے اور شرجیل انعام میمن صاحب اسی جماعت کے پُرجوش اور منہ زور رُکن ہیں

شرجیل انعام میمن کی پریس کانفرنس کا خلاصہ
صوبہ سندھ میں کُل 401000 سرکاری ملازمین ہیں جن میں سے صرف 328000 کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہیں
بقیہ 73000 ملازمین کے شناختی کارڈوں مین بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں
21438 ملازمین کا ریکارڈ ہی موجود نہیں
338 سرکاری ملازمین مر چکے ہیں لیکن اُنہیں 12 سال سے متواتر تنخواہیں دی جا رہی ہیں
12ہ46 ایسے ملازمین ہیں جو دو دو تنخواہیں وصول کر رہے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں دو دو سرکاری دفاتر میں کام کر رہے ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سِینے پر مُونگ

میں اُن دنوں پروڈکشن منیجر ویپنز فیکٹری تھا [1969ء] ہفتہ کا دن تھا مہینہ مجھے یاد نہیں البتہ موسم خوشگوار تھا ۔ اُس زمانہ میں ہمیں سوا چار بجے سہ پہر چھٹی ہوتی تھی ۔ چھٹی ہونے والی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ساتھ ہی چھٹی کا ہُوٹر بھی ہو گیا ۔ ٹیلیفون اُٹھایا تو میرے باس کے باس “م” تھے جو چند ماہ پیشتر میرے باس تھے ۔ فرمایا “کل مینا بازار ہو رہا ہے ذرا جا کر جھنڈیاں لگوا دو”۔ پوچھا “جھنڈیاں کہاں ہیں ؟” جواب ملا “ص صاحب کے پاس”۔ میں نے “ص” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے پوچھا تو جواب ملا “ميرے پاس جھنڈیاں تو نہیں ہیں ۔ مجھے گُڈی کاغذ منگوانے کا کہا تھا ۔ آپ لے لیں اور جھنڈیاں بنوا لیں”۔

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ڈوری اور بنانے والے چاہئیں تھے ۔ سوچا گُڈی کاغذ لے کر کلب چلتا ہوں وہاں لوگ ہوں گے ۔ اپنا بائیسائیکل پکڑا اور چلاتا ہوا کلب پہنچا ۔ وہاں آدمی کُجا کوئی جانور بھی نہ تھا اور نہ کوئی آثار کہ یہاں مینا بازار لگنے والا ہے ۔ بڑے باس “م” صاحب کے گھر ٹیلیفون کیا تو جواب ملا “سِینئر منیجر ہو بندوبست کر لو”۔ بندوبست کیا کروں اور کہاں سے کروں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا کہ اسٹیشن انجيئر صاحب ایک پِک اُپ پر آئے اور کہنے لگے “میں قناتیں اور شامیانے لے آیا ہوں” ۔ لگانے کیسے ہیں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ “مینا بازار کا منتظم کون ہے ؟” وہ کہنے لگے “خواتین کا معاملہ ہے اُن کی صدر مسز “ش” ہیں اُن سے معلومات لے لو ۔ میں نے “ش” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے مسز “ش” کا پوچھا تو بتایا گیا کہ غسل کر رہی ہیں ۔ چنانچہ ہم نے اپنی مرضی سے قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے

قناتیں شامیانے لگنے کے بعد اسٹیشن انجنیئر چل پڑے ۔ میں نے کہا “اپنے آدمیوں کو روکئے باقی کام کون کرے گا ؟”اُنہوں نے کہا یہ تو شامیانے والے ہیں ۔ اِنہوں نے اپنا کام کر دیا ہے ۔ پھر مسز “ش” کیلئے ٹیلیون کیا تو بتایا گیا کہ غسل کر چکی ہیں تیار ہو کر خود کلب آئیں گی ۔ اسی اثناء میں مجھے کلب کا ایک کلرک نظر آیا ۔ بھاگ کر اس کو پکڑا اور پوچھا کہ “کلب کے ملازم کیوں نہیں آئے”۔ اُس نے بتایا “مینا بازار کی وجہ سے آج اور کل کلب کی چھٹی ہے”

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ایک ساتھی سے رابطہ کیا ۔ اُنہوں نے جھنڈیاں تیار کروانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ میں گُڈی کاغذ جہاں وہ بتائیں وہاں پہنچا دوں اور دوسرے دن صبح دس بجے وہاں سے جھنڈیاں اُٹھوا لوں ۔ ابھی سٹال لگانے باقی تھے جن کیلئے میزیں اور کرسیاں چاہئیں تھیں ۔ قریب ہی ایک سکول تھا اُس کے پرنسپل صاحب سے رابطہ کر کے منت سماجت کی تو وہ میزیں دینے پر راضی ہوئے اس شرط پر کہ ان کی پالش خراب نہیں ہو گی اور کل صبح سکول سے اُٹھوائی جائیں اور پرسوں صبح سویرے واپس پہنچائی جائیں ۔ شام ساڑھے سات بجے کے قریب مسز “ش” تشریف لائیں اور کہا کہ “میں تو معائینہ کرنے آئی ہوں اور یہاں ابھی صرف قناتیں اور شامیانے ہی لگے ہیں”۔ عرض کیا ” آپ پلان دیجئے تو اُس کے مطابق بندوبست کردیں گے”۔ کہنے لگیں “وہ تو مسز “ع” کے پاس ہے ۔ مسٹر “ع” کے گھر فون کیا مگر کسی نے نہ اُٹھایا ۔ پھر مسز “ش” نے کہا ” اتنے سٹال لگنے ہیں جس طرح بھی ہو لگا دیں”۔ اور وہ چلی گئیں ۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور کوئی مدد کہیں سے نہ مل رہی تھی چنانچہ میں گھر چلا گیا

رات کے دوران اپنے دوستوں ساتھیوں سے مدد کے وعدے لئے ۔ دوسرے دن صبح سویرے کلب پہنچ گیا ۔ تھوڑی دیر میں آٹھ آدمی مدد کیلئے آ گئے ۔ ایک کو جھنڈیاں لینے بھیجا اور سات کو ساتھ لیجا کر سکول سے میزیں لانا شروع کیں ۔ خود بھی ساتھ مزدور بن کر ۔ سب بندوبست کر کے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک گروہ افسران کا آتا دکھائی دیا ۔ ان میں چیئرمین اور دیگر افسران تھے میرے باس کے باس “م” صاحب بھی تھے اور اُن کے باس “ح” صاحب بھی ۔ “م” صاحب نے چار افسروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جن میں اسٹیشن انجنیئر ۔ گُڈی کاغذ والے “ص” صاحب کے علاوہ دو اسسٹنٹ منیجر تھے جنہیں دو دن کے دوران ہم نے کلب میں نہ دیکھا تھا اور نہ ہی انتظامات کرنے میں اُن کا کوئی کردار تھا ۔ میں صرف چند فُٹ کے فاصلہ پر کھڑا دیکھتا رہا ۔ چیئرمین صاحب سے “ح” صاحب نے ان چار حضرات کا تعارف کرایا کہ اُنہوں نے مینا بازار کا سارا بندوبست کیا ہے ۔ اسٹیشن انجنیئر نے تو قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے تھے ۔ باقی نے تو کچھ نہ کیا تھا

ایک سال بعد میرے اسی باس نے مجھے پھر مینا بازار کا انتظام کرنے کو کہا تو میں نے کہا “پچھلے سال کے تجربہ کے تحت میں اب ایسی جراءت نہیں کر سکتا” ۔
مسکرا کر بولے “تم انعام کیلئے کام کرتے ہو”۔
میں نے کہا “میں کام انعام کیلئے نہیں کرتا مگر مجھے پسند نہیں کہ کوئی میرے سِینے پر مُونگ دَلے “۔

انسانی حقوق کے خودساختہ پوجاری

امریکا نے “حقیقت” کے نئے معنی دریافت کر کے کئی سال قبل نافذ کر دیئے تھے “حقیقت وہ ہے جو ہم کہیں (Reality is what we say)” یہ الفاظ امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے خود ایک نشریئے میں کہے تھے یعنی اگر امریکا نہ کہے کہ ولادی میر پیوٹن پیدا ہوا ہے تو گویا ولادی میر پیوٹن روس کا صدر ہے ہی نہیں ۔ امریکی نظریہ کے مطابق “انسانی حقوق اور امن” وہ ہوتے ہیں جو امریکی حکمرانوں کو پسند ہو چاہے امریکا کے علاوہ باقی دنیا تباہ ہو جائے

امریکی کردار تو صدیوں قبل افریقیوں کے اغواء اور اُنہیں غلام بنا کر تشدد کرنے سے شروع ہوا تھا جس کی ایک جھلک الَیکس ہَیلی کی کتاب دی رُوٹس (The Roots by Alex Haley) میں موجود ہے لیکن بین الاقوامی 1959ء میں ویتنام پر دھاوا بولنے سے ہوا اور پھر پھیلتا ہی گیا ۔ کہیں امن سے پیار اور کہیں انسانی حقوق کی محبت میں ہزاروں یا لاکھوں بے قصور انسانوں کو ہلاک اور معذور کیا کیا جاتا ہے جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور کہیں بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں یا ہزاروں مردوں اور عورتوں کو جن میں نابالغ بھی شامل ہوتے ہیں پابندِ سلاسل کر کے بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے ۔ صرف نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ عراق ہو تو “لامتناہی تباہی کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction)” ۔ افغانستان ہو تو کبھی “ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی” کبھی “اسامہ بن لادن” کبھی “القائدہ”۔ کبھی عورتوں کے حقوق”۔ لبیا ہو تو “اسلامی انقلاب”۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ ہو تو “افغانستان میں دہشتگردوں کی امداد”۔ اور کچھ نہ سمجھ آئے تو “خظرے کے پیشگی احساس کے نام پر درندگی کو بھی ژرمندہ کیا جاتا ہے ۔ خود اپنے ملک میں اپنے ہی امریکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثالیں بھی آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں

حکمرانوں کی کیا بات امریکی عدالتیں بھی انصاف صرف اپنی پسند کا کرتی ہیں

امریکی سپریم کورٹ نے نومسلم امریکی شہری جوز پڑیلا کی درخواست سننے سے انکار کردیا جس میں اس نے 2007ء میں گرفتاری کے بعد جیل میں بدترین تشدد کی شکایت کی تھی اور وہ سابقہ و موجودہ حکومتی حکام کے خلاف نالش (sue) کرنا چاہتا تھا

اس کو 4 برس تک بغیر الزام جیل میں قید رکھا گیا ۔ بعدازاں مقامی القاعدہ سیل کی مدد کے الزام میں 17 برس قید کی سزا سنادی گئی جس پر امریکن سول لبرٹیز یونین اور پڑیلا کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکام کو قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی شخص سے بدسلوکی اور بدترین تشدد کرنے کیلئے بلینک چیک دے دیا ہے

دوسرا واقعہ نہچے ربط پر کلِک کر کے پڑھیئے
اصل مجرم